ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
آزادی اظہارِ رائے کا مطلب اب یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ کوئی شخص ، جو چاہے ، جب چاہے اور جس کے بارے میں چاہے ، بول دے _ جس کے متعلّق چاہے ، کیسا ہی کمنٹ پاس کر دے ، جس پر جو چاہے الزام لگا دے _ عمومِ بلوی یہ ہے کہ تحمّل و برداشت کی از حد کمی واقع ہوگئی ہے _ کسی کی کوئی بات معمولی سی بھی ناگوار ہو ، فوراً اس کا جواب دینا ضروری سمجھا جاتا ہے ، بلکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا قابلِ فخر سمجھ لیا گیا ہے _
بہت سے احباب نے مجھے زبردستی اپنے واٹس ایپ گروپوں میں شامل کر رکھا ہے _ ان پر ہونے والی بحثوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر شخص مفکّر اور دانش ور بنا ہوا ہے _ ذرا ذرا سی بات پر ، جواب در جواب ، نقد ، وضاحت ، تشریح ، تفہیم ، معذرت ، عدم قبولِ معذرت ، الغرض پوسٹس کا لامتناہی سلسلہ جاری رہتا ہے _ ان میں کوئی کام کی بات تلاش کیجیے تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ملتی _ ملٹی میڈیا والا موبائل کیا ہاتھ میں آگیا ، ہر شخص کی قوّتِ گویائی ، صلاحیتِ اظہار اور قابلیتِ تحریر میں ، سو گنا نہیں ، بلکہ ہزار گنا اضافہ ہوگیا ہے _
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جب ہزاروں فتنے سر ابھار رہے ہیں اور موبایل بھی ایک فتنہ ہے ، جس نے ہر انسان کو بری طرح جکڑ رکھا ہے _ ایسے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک تنبیہ جسم پر لرزہ طاری کردیتی ہے _ آپ ص نے ان لوگوں کے بارے میں اپنی نفرت اور غضب کا اظہار کیا ہے جو بہت زیادہ بولتے ہیں اور بے سمجھے بوجھے اور بلا تحقیق دوسروں کے بارے میں ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو سراسر غلط اور بالکل بے بنیاد ہوتی ہیں _
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر شخص جو کچھ کہے ، سوچ سمجھ کر کہے _ وہ ایک ایک لفظ کو پہلے تَولے ، پھر بولے _ اس کے منھ سے جو کچھ نکلے گا اس کا اسے حساب دینا ہوگا ، اس لیے کہ اللہ کے مقرّر کیے ہوئے فرشتے اس کی ایک ایک بات نوٹ کر رہے ہیں _ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ(ق:18) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بہت زیادہ بولنے کو سخت ناپسند فرمایا ہے _ ایک مرتبہ آپ ص نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے صاف الفاظ میں بتایا کہ کیسے لوگوں سے آپ کو محبت ہے؟ اور کن لوگوں سے آپ شدید نفرت کرتے ہیں؟
حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ” مجھے تم لوگوں میں سب سے زیادہ محبت ان لوگوں سے ہے اور وہ لوگ روزِ قیامت مجھ سے سب سے زیادہ قریب ہوں گے جن کے اخلاق اچھے ہوں _” آگے آپ ص نے مزید فرمایا :
” وَإِنَّ أَبْغَضَكُمْ إِلَيَّ، وَأَبْعَدَكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ : الثَّرْثَارُونَ، وَالْمُتَشَدِّقُونَ، وَالْمُتَفَيْهِقُونَ “.(ترمذی :2018)
” اور مجھے تم لوگوں میں سب سے زیادہ نفرت ان لوگوں سے ہے اور وہ لوگ روزِ قیامت مجھ سے سب سے زیادہ دور ہوں گے جو بہت زیادہ بولنے والے ، منھ پھاڑ پھاڑ کر لوگوں کو بُرا بھلا کہنے والے اور (اپنی بڑائی کے اظہار کے لیے) بڑی بڑی باتیں کرنے والے ہوں _”
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک مبغوض اور قابلِ نفرت تین طرح کے لوگوں کا تذکرہ ہے :
(1) الثَّرْثَارُونَ : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو بہت زیادہ بولتے ہوں ، بے مقصد بولتے ہیں ، بغیر سوچے سمجھے بولتے ہیں _ بولنا شروع کرتے ہیں تو بولتے چلے جاتے ہیں _ ان کے منھ سے الفاظ کی جھڑی لگ جاتی ہے _
(2) الْمُتَشَدِّقُونَ : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو دوسروں کے خلاف بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے ہیں _ انھیں بُرا بھلا کہتے ہیں _ ‘شِدق’ منھ کے کنارے کو کہتے ہیں _ ‘مُتَشَدِّق’ سے مراد وہ شخص ہے جو بغیر کسی احتیاط کے ، جو کچھ منھ میں آئے ، بول دے _ کچھ نہ سوچے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ اور کس کے بارے میں کہہ رہا ہے؟ بعض شارحینِ حدیث نے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو لوگوں کا مذاق اڑایے _
(3) الْمُتَفَيْهِقُونَ : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو منھ بھر بھر بولیں اور خوب بولیں _ ‘فھق’ عربی زبان میں بھرے ہونے اور وسیع ہونے کو کہتے ہیں _ اس سے ان کا مقصد اپنی فصاحت و بلاغت کا اظہار ، اپنی زبان دانی کا زعم اور دوسروں کے مقابلے میں خود کو بڑا سمجھنا ہوتا ہے _ اسی وجہ سے (اسی حدیث میں آگے ہے کہ) جب صحابہ کرام نے سوال کیا : ” اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! شروع کے دو الفاظ کے معنی تو ہمیں معلوم ہیں _ یہ تیسرے لفظ کا مطلب کیا ہے؟” تو آپ نے جواب دیا : ” اس کا مطلب ہے ‘ تکبّر کرنے والے ‘_”
دوسری سند سے مروی اسی حدیث میں(جس کی تخریج امام بیہقی نے کی ہے) یہ اضافہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان اوصاف کے حامل لوگوں کو’بُرے اخلاق والے’قرار دیا ہے _ ہم اس حدیث کے الفاظ پر غور کریں _ اس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے کتنے سخت الفاظ میں تنبیہ فرمائی ہے؟! کس طرح اپنی نفرت اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے؟؟ اور کتنے صاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ایسے لوگ قیامت کے دن آپ سے سب سے زیادہ دور ہوں گے؟!
پھر ہم غور کریں کہ کیا ہماری زندگیاں ان اوصافِ بد سے پاک ہیں؟
کیا ہم اپنی گفتگوؤں اور بات چیت میں محتاط رہتے ہیں؟
کیا ہم ایک ایک لفظ تَول کر بولتے ہیں؟
کیا ہم دوسروں کے بارے میں تبصرہ کرنے کے معاملے میں بے باک نہیں واقع ہوئے ہیں؟
اس حدیث سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنی بول چال ، گفتگو ، تحریر اور اظہارِ رائے میں حد درجہ محتاط رہنا چاہیے _
ہماری بے احتیاطی کہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قرب سے محروم نہ کرے؟ کہیں آپ کی نفرت کا مستحق نہ بنا دے؟؟!
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں