حساب اور محاسبہ
تحریر: محمد یاسین قاسمی جہازی واٹس ایپ: 9871552408
شریعت اسلامی کا مزاج دوسروں پر تنقید و تنقیص سے پہلے اس چیز پر زور دیتا ہے کہ انسان دوسروں کی اصلاح سے پہلے خود کا اور خودی کا محاسبہ کرے۔ ارشاد ربانی ہے کہ
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں، اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وہ تم سب کو بتلا دے گا جو کچھ تم سب کرتے تھے۔(سوره المائدة:105)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری نظر پہلے اپنی کوتاہیوں اور کمیوں پر ہونی چاہیے، پھر دوسرے کی فکر کرنی چاہیے۔
صحابہ کی سیرت میں ہمیں کئی مثالیں ملتی ہیں، جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمیعن دوسروں کی جامہ تلاشی کے بجائے اپنے گریبان کی فکر کرتے ہیں۔ چنانچہ واقعہ مشہور ہے کہ
حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میری ملاقات ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے ہوئی تو انھوں نے فرمایاحنظلہ کیسے ہو؟ میں نے کہا :حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے۔ ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا سبحان اللہ! تم کیا کہہ رہے ہو؟ حنظلہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہم نبی اکرمﷺ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ ہمیں جنت و جہنم کی یا د دلاتے ہیں تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ گویا ہم اپنی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پھر جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں اور بیوی بچوں اور جائداد وغیرہ میں مشغول ہوجاتے ہیں تو ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم اس جیسی کیفیت ہماری بھی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ میں اور ابوبکر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) چل پڑے اورآپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ حنظلہ منافق ہوگیا ہے آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ جنت و جہنم کی یاد دلاتے ہو تو کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ گویا ہم انھیں دیکھ رہے ہیں پھر جب آپ کے پاس سے جدا ہوجاتے ہیں اور معاشی امور میں مشغول ہوجاتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا :اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم ہمیشہ اس حال پر رہ جاوٴ جس حال میں میرے پاس اور ذکر میں ہوتے تو فرشتے تمہارے بستروں اور تمہارے راستوں میں تم سے مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ ایک گھڑی دوسری گھڑی سے مختلف ہوتی ہے۔
مشہور صحابی رسولﷺ عمروبن العاص کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ اپنے چہرے کو دیوار کی طرف کرکے خوب روئے۔ اس حالت میں ان کے فرزند ان سے کہنے لگے کہ ابا جان کیا رسول اللہﷺ نے آپ کو فلاں فلاں خوشخبریاں نہیں دیں ہیں انھوں نے ان کی طرف منھ پھیر کر کہا کہ تمام اعمال میں سب سے افضل ترین عمل شہادتین کا اقرار ہے۔ میری زندگی تین مختلف ادوارپر مشتمل ہے ایک دور وہ تھا کہ نبی اکرمﷺ سے دشمنی رکھنے والا مجھ سے زیادہ کوئی اور نہ تھا۔ اس دور میں اگر میں آپ پر قابو پالیتا اور معاذاللہ آپ کو قتل کر دیتا اور اگر اسی حالت میں مر جاتا تو جہنمی ہوتا۔دوسرا دور جب اللہ نے میرے دل میں ایمان ڈال دی میں آپﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ(ﷺ) اپنا داہنا ہاتھ لاےئے تاکہ میں اسلام پر بیعت کروں، آپﷺ نے داہنا ہاتھ پھیلایا، میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپﷺ نے فرمایا عمرو یہ کیا معاملہ ہے ؟میں نے عرض کیا: کہ میرے کچھ شرائط ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا :وہ شرائط کیا ہیں؟میں نے کہا :کہ میرے سابقہ گناہ معاف کر دےئے جائیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: کہ تمھیں نہیں معلوم کہ اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اسی طرح ہجرت ماقبل ہجرت کے سارے گناہ ختم کردیتی ہے اور حج بھی پہلے ہونے والے گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔ اس دو ر میں رسول اللہﷺ سے زیادہ محبوب میرے دل میں اور کوئی شخصیت نہ تھی اور میں بطور تعظیم رسول اللہﷺ کو نظر بھر دیکھ بھی نہیں سکاہوں۔ اگر کوئی مجھ سے آپﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرنے کی فرمائش کرے تو میں بیان نہیں کرسکتا اس لیے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو نظر بھر دیکھا بھی نہیں۔ اگر اس دور میں میری وفات ہوتی تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا۔
تیسرا وہ دور آیا کہ ہم سے کئی کام ایسے ہوئے کہ میں نہیں جانتا کہ اس میں میرا کیا حال ہوگا۔ جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی نوحہ وماتم کرنے والی نہ آئے اور مجھے دفن کردو تو آہستہ آہستہ مجھ پر مٹی ڈالو، میرے قبر پر اتنی دیر تک(میرے لیے دُعا و استغفار میں) کھڑے رہو جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جا تا ہے تاکہ میں (تمہاری دعا و استغفار سے)انس حاصل کروں اور دیکھوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔
لیکن افسوس صد افسوس ہے کہ آج کا معاشرہ اور لوگوں کی طرز فکر ایسی ہوگئی ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے عیوب کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ دوسروں کی چھوٹی سے چھوٹی حرکتوں پر نگاہ رکھتے ہیں، لیکن خود اپنی آنکھ کی شہتیر تک نظر نہیں آتی۔ ہر کسی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ فلاں شخص سدھر جائے، لیکن اپنے بارے میں کبھی یہ فکر نہیں ہوتی ہے کہ ہم کتنے سدھرے ہوئے ہیں اور ہمیں کتنا سدھرنے کی ضرورت ہے۔
معاملہ اگر یہیں تک رہتا تو قدرے غنیمت تھا، معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ لوگوں نے محاسبہ کرنے ، کرانے کے بجائے تملق و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھ لیا ہے۔ جو جتنا بڑا چاپلوس اور چاپلوس پسند ہوتا ہے، وہ اتنا ہی حقیقت اور محاسبہ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے، جس کا دینی و دنیوی نقصان جگ ظاہر ہے۔ بہت سارے لوگوں کا دین اسی لیے برباد ہوگیا کہ ان کے چاپلوسوں نے چاپلوس پسندوں کو حقیقت شناسی کا موقع نہیں ملنے دیا۔ اور بہت سارے لوگ اسی لیے خاک میں مل گئے کہ ان کے پروردہ تملق خصلتوں نے ان تک صحیح رپورٹ نہیں پہنچائی، جس کے نتیجے میں ان کا کاروبار حیات تہہ و بالاہو کر رہ گیا۔ یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں ہے ؛ بلکہ اکبر کا دین الہی اور عیش کوشی میں بدمست و مدہوش بادشاہوں کے قصہ ہائے پارینہ اس حقیقت پر شاہد عدل ہیں۔ فاعتبروا یا اولو الابصار!!!!!!!!!!!۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں