زین شمسی
اورنگ آباد تبلیغی اجتماع میں تقریباً 15لاکھ فرزندان توحید کی شرکت ہوئی ، جس میں دین پر عمل کرنے کی تلقین کی گئی اور خدائے واحد کی جانب رجوع کرنے کا قصد کیا گیا ۔
بہار کے سپول ضلع میں تعمیر ملت کانفرنس میں تقریباً10لاکھ داعیان اسلام شریک ہوئے اور ملت کی فلاح و بہبود سمیت مسلمانوں کے مسائل پر گفتگو ہوئی، اور بچوں کے لیے القاسم یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی ڈالی گئی تاکہ ملت کی تعمیر کے لیے مستقبل کے نونہالوں کو تیار کیا جا سکے۔
سننے میں آیا ہے کہ عنقریب ہی اہل حدیث کا بھی مجمع دہلی میں لگنے والا ہے ، جس میں 25سے 50ہزار لوگ شریک ہوں گے۔
جمیعۃ العلما بھی اپنی صد سالہ تقریب کی تیاریوں میں مصروف ہیں کہ دو تین لاکھ لوگوں کا مجمع وہ بھی جمع کر کے دکھا سکے۔
آر ایس ایس کے ایک اردو اخبار میںایک بڑا سا اشتہار مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے شائع ہو چکا ہے کہ اپریل کے وسط میں مسلم پرسنل لا بورڈ بہار میں ’دین بچائو ، دیش بچائو ‘کے نعروں کے ساتھ اجلاس کر رہی ہے ، تاکہ دوسری جگہ متوجہ ہونے والی بھیڑ کو پکڑ کر رکھا جا سکے۔
ادھرعلمائے کرام اور مسلم دانشوران کا ایک اجلاس مودی کی تقریر کے ساتھ بھی دکھائی دیا، جس میں ان چنندہ لوگوں کی شرکت کو یقینی بنایا گیا جسے پی ایم او اجلاس کے لائق سمجھتا تھا۔ اس کانفرنس میں انڈیا اسلامک کلچر سینٹر کی خفیہ شمولیت بھی تھی کہ دعوت نامہ انہیں کی طرف سے دیا گیا تھا ، ایسا بتاتے ہیں لوگاں سب۔اس اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی نے کہا کہ یہ معاہدہ تھا کہ ہم آپ کو شاہ اردن کی کتابوں کے ترجمہ کی ٹھیکیداری دلاتے ہیں اور آپ مجھ سےپیش لفظ لکھوا لیجئے تاکہ میں اس کا افتتاح کر سکوں ، لوگ سمجھ بھی نہیں پائیں گے اور گیم بجا دی جائے گی۔
سو اس اجلاس میں پردھان سیوک جی غیر متوقع طور پر اردو میں بولے اور اپنی پرانی رکارڈنگ بجائی کہ ہم مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ وہاں خصوصی کارڈ پر داخلہ لیےمدعوئین بھلا ان سے کیسے پوچھ سکتے تھے کہ پردھان جی ، آپ کہہ تو رہے ہیں کہ ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتے ہیں ، لیکن آپ کے حکومتی نظام نے تو مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں دہشت گردی کا طوق اور دوسرے ہاتھ میں غدار وطن کی زنجیر ڈال رکھی ہے ، کیسے کہتے بیچارے ، بڑی مشکل سے تو مودی جی نے کسی پیر و مرشد کے کاندھے پر تو کسی مدظلہ کے سروں پر ہاتھ پھیرا تھا۔
کاروبار تو چلتا ہی رہتا ہے ، چلتا ہی رہے گا، خواہ شری شری ہندوستان کو شام بنانے کی دھمکی دے ڈالیں یاپھر کابینی وزرا ٹی وی پر مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کا مشورہ دیتے رہیں۔
بھیڑ دکھانا اور بھیڑ(BheR) بنانا، جمہوری ملک کی پہلی حصولیابی ہے ، سو وہ سیاسی پارٹیاں بھی کرتی ہیں اور سیاسی پارٹیوں کو رِجھانے کے لیے این جی اوز اور مذہبی تنظیمیں بھی کرتی ہیں ، کہ ہم سے رابطہ رکھے رہو بھائی ، دیکھو ہمارے پاس کتنے ووٹر س ہیں ، (تاہم انہیں اپنے اجلاس میں دینی امور پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بلایا جاتا رہا ہے۔)
’دین بچائو ، دیش بچائو‘ یعنی دین سے دیش کا تعلق نکال لو اور کبھی دیش کا دین سے تعلق جوڑ لو۔ مگر دین کس سے بچائیں اور دیش کس سے بچائیں ، اس کی بھی وضاحت ہونی چاہیے۔ کیا دین پر کوئی آفت آ گئی۔ دین تو اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ اب تو دینی لوگ دوسروں کو مار کر یہثابت کر رہے ہیں کہ یہ بے دین ہیں۔ شام کی مثال لے سکتے ہیں۔ اب بورڈ دین کو بچا رہا ہے تو اورنگ آباد کے تبلیغی جماعت والے کس چیز کو بچا رہے تھے۔ اور سب سے بڑا سوال کہ دین کو کس سے خطرہ ہے ، ہندوئوں سے ، مسلمانوں سے ، سیاستدانوں سے یا خود دین کے پاسداروں سے ، وضاحت طلب سوال ہے۔ رہی دیش بچانے کی بات تو دیش میں ہم اور آپ اقلیت میں ہیں۔ اکثریت کیا سو رہی ہے، کیا وہ دیش کو بچانے کی تدبیر تلاش نہیں کر رہی ہے۔ کیا بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف ہندو رائٹرس ، ہندو سیاستداں ، ہندو سماجی کارکنان ، ہندو سول سوسائٹی نہیں لڑ رہی ہے۔
بھائی آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ مودی اور ان کی ٹیم کی توسیع اس لیے نہیں ہو رہی ہے کہ اس کے ساتھ آر ایس ایس ہے ، ان کی ٹیم کی توسیع اس لیے ہو رہی ہے کہ ہندوستانیوں کے سامنے کوئی متبادل پارٹی دم خم نہیں دکھا پا رہی ہے ، جس دن اسے متبادل نظر آگیا ، بی جے پی سمٹ جائے گی۔ تو ضرورت متبادل کی ہے ۔ ہو سکے تو اس کے لیے اجلاس کیجئے۔
بہار الیکشن کے وقت بھی ایسی ہی مہم چلائی گئی اور اب 2019الیکشن سے پہلے پھر وہی راگ الاپا جا رہا ہے ۔ کیا اس طرح کی مہم سے اکثریت کے ووٹروں کی صف بندی نہیں ہوتی۔
رہی بات شریعت کی اور طلاق ثلاثہ کی تو یہ کیس تو آپ 1986میں شاہ بانو سےہی ہار چکے تھے ، راجیو سرکار پردبائو بنا کر معاملہ کو پلٹانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اب ایک بار پھر شاعرہ بانو سے ہار گئے ، یہ سرکار دبائو میں آنے والی نہیں ہے تو اب اپنی عورتوں کو بھی سڑک پر اتار کر خوب شریعت کے تحفظ کا شور مچانا چاہتے ہیں ، کبھی عورت کو گھر میں بند رکھو ، کبھی عورتوں کو باہر نکال لو، کمال ہے۔
خیر اس پر بلاوجہ بات کر کے کیا فائدہ کاروبار تو چلتا ہی رہے گا، ہاں اگر فرصت ہو تو پروفیسر سجاد صاحب کا مولانا رابع ندوی صاحب کو لکھا کھلا خط پڑھ لیجئے اور ان کی تشویشات کو دور کیجئے۔
عزت مآب، عالی جناب، نہایت ہی قابل صد احترام حضرت مولانا رابع حسنی ندوی صاحب!
السلام علیکم
امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے!
آج چند اہم مسائل کو لے کر آپ کی خدمت میں کچھ عرض داشت پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔ امید ہے آپ اس پر غور کرنے کی زحمت گوارا کرینگے اور ہم حقیروں کے سروکار کو خارج از بحث نہیں کرینگے۔
آئندہ 15اپریل کو منعقد کی جانے والے “دین بچاؤ، دیش بچاؤ” کانفرنس کے تعلق سے ہم لوگ شدید تشویش اور فکر میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ماضی میں،1986 میں، شاہ بانو معاملے پر ہم لوگوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکومت وقت سے مطالبہ کر کے ایک قانون پاس کروایا۔ اس فیصلے میں جو بھی خامیاں تھیں وہ اپنی جگہ، لیکن کسی اقلیتی آبادی کی خوشنو دی کے لئے سپریم کورٹ کے خلاف قانون بنایا جانا، زعفرانی ہندوؤں ہی کو نہیں، بلکہ، عام ہندوؤں کو بھی نا گوار گزرا۔ آج زعفرانی طاقتوں کے غالب آنے کی کئ وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے۔
ہم نے 70 سال کی اس مطلقہ ضعیفہ اور ان جیسی دیگر بے سہارا عورتوں کی گزر بسر کے مناسب انتظام کی جانب کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا۔ اس ضعیفہ کو 62 برس کی عمر میں علیحدہ کیا گیا تھا۔ تب اس نے اپنے شوہر سے گزر بسر کے لئے بھتہ کی مانگ اٹھائی تھی۔ اور عدالت میں، جب جج نے یہ واضح کر دیا کہ پرسنل لا کی رو سے بھی ایک شوہر پر اس بھتہ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، تب جا کر، عدالت کے اندر ہی، شوہر نے تین طلاق دے دیا۔ اسی طلاق بدعت کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا تھا اور ہم نے اس بدعت کے حق میں قانون بنوایا تھا۔
تب یعنی 1986 سے اب تک ہم لوگ اس جانب متوجہ نہیں رہے کہ آخر ہم اس بدعت کو کیوں عین شریعت مانے بیٹھے ہیں جب کہ کئی مسلم ممالک اس کو قانونا ً ممنوعہ قرار دے چکے۔
شاہ بانو والے معاملے میں مسلم پرسنل لا بورڈ عدالت میں مدعی نہیں تھا۔ شائرہ بانو والے مقدمے میں تو بورڈ بھی مدعی تھا۔ اب جب فیصلہ بورڈ کے حق میں نہیں آیا تو عدالت کی خلاف ورزی کر کے ہم اپنی ہٹ دھرمی کا ثبوت پیش کرتے ہو ئےزعفرانی طاقتوں کو اپنے خلاف ایک اخلاقی برتری جیسا ہتھیار پیش کر رہے ہیں کہ اگر عدلیہ نے انہیں رام مندر کے حق میں فیصلہ نہیں بھی دیا تو انہیں ہماری مثال پیش کرتے ہوئے، ان کا موقف جائز ٹھہرے گا کہ وہ بھی عدالت کے فیصلے کے خلاف قانون بنوانے میں حق بہ جانب ہونگے۔
بورڈ نے عدالت ہی میں یہ حلف بھی دے دیا تھا کہ پرسنل لا سے متعلق معاملات عدالت کے بجائے پارلیامنٹ میں طے کی جائیں۔ ایسے میں بورڈ نے عدالت کے فیصلے (22 اگست 2017) سے لے کر لوک سبھا میں بل پیش ہونے کی تاریخ (15دسمبر 2017) تک تقریباً خاموشی کے بجائے ایک ڈرا فٹ بل کیوں نہیں پیش کیا، جس پر ملت کے مختلف مکاتب فکر کے لوگ ایک سیر حاصل بحث کرتے، اور کسی مخصوص نتیجے پر پہنچتے۔
طلاق بدعت یوں بھی کسی ایک مخصوص مسلک تک ہی محدود ہے، اور اس میں بھی ملت کی نہایت ہی قلیل آبادی اس لعنت میں ملوث ہے۔
حکومت کی مجوزہ بل میں نیت اور نتائج کی سطح پر جن خامیوں کا اندیشہ ہمیں اور دیگر مسلم اور غیر مسلم خواتین تنظیموں کو بھی ہے، ان کی سلیبس وضاحت کرتے ہوئے،ہم ایک ڈرا فٹ بل تیار کر نے کے بجائےعوامی احتجاج کا جو رویہ اختیار کر رہے ہیں ان کے نتائج شدید اور پر خطر ہونگے، زعفرانی تشدد پسند رد عمل کے طور پر۔
آ ج اگر ہماری طاقت ان سے لڑنے میں کمزور پڑ رہی ہے، وہ ایک بڑا مسئلہ تو ہےہی، لیکن ہم خود اپنی جانب سے جن غلطیوں اور نا عاقبت پسند رویوں اور مصلحت و انصاف سے عاری رہنے اور دور جانے کی جو غلطی کرنے جا رہے ہیں اس کے لئے ملک و ملت، مستقبل میں ہمیں،مجرم اور گنہگار ٹھہرانے میں حق بہ جانب ہوگا۔
مجوزہ بل میں مطلقہ عورتوں کو گزارا بھتہ کی جو بات ہے اسے ہمیں تسلیم کرنا چاہئے تاکہ اس وجہ کر بھی طلاق بدعت میں کافی کمی آ ۓ ئےگی اور عورتوں کے جائز حقوق کا تحفظ ہوگا۔
اگر بورڈ کو یہ اعتراض ہے کہ ہم تین سال کی سزا کو نہ قبول کریں(یہ موقف بھارتیہ مسلم مہیلا آندوولن کا بھی ہے)، تو ہم ایسی اصلاحیں اپنے ڈرا فٹ بل میں تجویز کریں۔ پورے بل کو مکمل طور پر خارج کرنے کا جواز قطعی نہیں بنتا۔
اس لئے ہماری استدعا ہے کہ اس جانب بورڈ سنجیدگی سے غور کرے اور ملت کے دیگر اہل علم خواتین و حضرات اس پر علمی اور استدلالی گفتگو و مباحثہ کریں، یہ ہماری موؤد بانہ درخواست ہے۔یوں بھی حکومت کی مجوزہ بل کے بعض پہلوؤں پر دیگر تنظیموں اور جماعتوں کے اعتراضات ہیں۔ ہمیں ان تمام سیکولر، جمہوری طاقتوں سے اتحاد قائم کرتے ہوئے ایک سنجیدہ پیش رفت کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ سیکولر جمہوری نظام ہی اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ ہمیں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے ایسے اقدار کمزور پڑیں۔ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اور ان سے سبق لیتے ہوئے، ہمیں پوری دیانت داری اور خود اعتمادی کے ساتھ آ گے بڑھنا ہے۔
لہذاٰ ہماری گزارش ہے کہ اشتعال انگیز ریلیوں اور کانفرنسوں کے بجائے ہم احتساب، حکمت عملی، مصلحت پسندی، انصاف پسندی، اور تدبر سے کام لیں۔ اس سلسلے میں ہماری استدعا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کی سر گرم عمل خواتین تنظیموں کو بھی اس مباحثے میں شامل رکھ کر انصاف پسندی اور جمہوریت پسندی کا ثبوت پیش کریں۔ اور ایک ڈرا فٹ بل لائیں ۔
آپ کا
طالب دعا
پروفیسر سجاد
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں