عبدالعزیز
دنیا میں بہت سی تبدیلیاں ہوئی ہیں مگر اپنی غلطی پر اصرار کرنا ایک ایسی تبدیلی ہے جس سے دنیا جہنم بنتی جارہی ہے۔ پہلے جب کسی بڑے یا چھوٹے سے غلطی یا گناہ سرزد ہوتا تھا وہ فوراً اپنی غلطی تسلیم کرلیتا تھا اور معافی تک مانگ لیتا تھا جس سے بڑے سے بڑا طوفان ٹل جاتا تھا مگر آج اپنی غلطیوں پر اصرار اپنے گناہوں کو جائز ٹھہرانے کی ضد ایسی حرکت ہوگئی ہے جس میں بڑے اور چھوٹے بدقسمتی سے سب مبتلا ہیں۔ پروردگار عالم نے جہاں اپنے نیک اور شریف بندوں کی بہت سی خوبیاں بیان کی ہیں اس میں سے ایک خوبی یہ بیان کی ہے کہ غلطی یا گناہ کرنے پر وہ اصرار نہیں کرتے بلکہ ان کو فوراً خدا یاد آجاتا ہے اور وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہوتے ہیں:
’’اور نیک بندوں کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں‘‘ (آل عمران: آیت 135)۔
غلطی یا گناہ کا ہوجانا انسانی فطرت ہے مگر اس پر اصرار کرنا شیطانی فطرت ہے۔ اللہ کے نیک اور اچھے بندوں سے جب ایک بار خطا ہوجاتی ہے تو سو بار ندامت کرتے ہیں۔
گزشتہ روز (7مارچ) کو جب راقم کو شری شری کے متنازعہ بیان پر لکھنے کا خیال آیا تو سوچا کیوں نہ شری شری سے گفتگو کرکے ان سے معلوم کریں کہ آخر اس بیان کی غرض و غایت کیا ہے۔ ان کے ترجمان گوتم ویگ جو آرٹ آف لیونگ (Art of Living) کے ڈائرکٹر ہیں۔ جب سری سری سے گفتگو کرنے کی میں نے خواہش ظاہر کی تو انھوں نے کہاکہ آپ سوالات لکھ کر بھیج دیں، جوابات دیدیئے جائیں گے۔ میں نے فوراً ای ۔میل کے ذریعہ سوالنامہ بھیج دیا۔
ABDUL AZIZ
Writer, Journalist and Social Activist
Shri Gautam Vig 07.03.2018
Director
Art of living
Bangalore
Present stay Bhopal
Sir,
According to telephonic conversation today I’m trying to put some questions to Gurudev Sri Sri Ravi Shankar through you about his controversial statement on Babri Masjid/ Ram Janm Bhumi .
Did Sri Sri not attempt to contempt against the following institutions
This is
1 Contempt of SC (trying to influence judgement)
2 Contempt of Modi Govt. (by stating that he wouldn’t be able to implement a court order)
3 Contempt of the majority community (by painting them as bloodthirsty goons)
4 Contempt on citizens intelligence (who see through u)
B) Is he not threatening Muslim Community to surrender to his wish and demand otherwise the community will face bloodshed
2) Is this Art of Living? What he wants to teach citizens of India specially Muslims
Kindly try to answer my questions today as soon as possible so that i can include it in my story which will be published in more than 150 Urdu newspapers in India.
Thankyou,
Yours Sincerely,
Abdul Aziz Secretery
All India Muslim Majlis-e-Mushawarat and Milli Ettehad Parishad
ترجمہ: ’’آپ سے ٹیلیفونک گفتگو کے مطابق بابری مسجد/ رام جنم بھومی پر شری شری کے متنازعہ بیان کے سلسلے میں چند سوالات پیش خدمت ہیں:
(1 کیا سپریم کورٹ کے فیصلہ پر دباؤ ڈالنا یا کسی طرح سے اسے متاثر کرنا توہین عدالت نہیں ہے؟
(2 کیا یہ کہنا کہ موجودہ حکومت ایسی ہے کہ وہ فیصلہ کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتی، اس کی توہین نہیں ہے؟
(3 کیا اکثریتی طبقہ کو خون کا پیاسا بتانا اور اسے تشدد پسند کہنا اس کی توہین نہیں ہے؟
(4 کیا ہندستان کے شہریوں کی عقل و دانش کو چیلنج کرنا اس کے بے عزتی نہیں ہے کہ وہ عدالت کے فیصلہ کو قبول نہیں کریں گے؟
(5 کیا مسلم فرقہ کو ڈرا دھمکاکر بابری مسجد سے دستبرداری اختیار کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش یا سازش نہیں ہے؟
(6 کیا یہی زندگی گزارنے کا سلیقہ یا فن Art of Living ہے جسے آپ ہندستان کے شہریوں خاص طور سے مسلمانوں کو سکھانا چاہتے ہیں؟
آپ سے جس قدر جلد ممکن ہو جواب مرحمت فرمائیں تاکہ جو کہانی (Story) لکھنے جارہا ہوں اس میں اسے شامل کرسکوں۔
اس کیلئے میں شری شری روی شنکر کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے شام ہوتے ہوتے جوابات سے نوازا۔
RESENDING: Answers from Sri Sri Ravi Shankar
Gautam Vig 5:44 PM (18 hours ago)
to me
A) Did Sri Sri not attempt to contempt against the following institutions
This is
1. Contempt of SC (trying to influence judgement)
Hon. Supreme Court has asked for an out of court settlement so we are following the Supreme Court in letter and spirit. So how can that be contempt of the Supreme Court. We are saying that it could be the possible outcome if we don’t come together and solve it by ourselves. It is absurd to say that we are going against the Supreme Court.
2. Contempt of Modi Govt. (by stating that he wouldn’t be able to implement a court order)
What we have said is that it will be difficult to implement. When something is difficult, why should we not say that. It is obvious.
3. Contempt of the majority community (by painting them as bloodthirsty goons)
Absolutely not. This is the most ridiculous thing that could be said. Art of Living has been working so hard for Shia-Sunni unity, successfully working to bring militants back to the main stream in the north-east and so much work for peace around the world. Not even in our dreams, can we think of creating a conflict.
4. Contempt on citizens intelligence (who see through u)
B) Is he not threatening Muslim Community to surrender to his wish and demand otherwise the community will face bloodshed
Absolutely not. It is clearly mentioned in my letter to the AIMPLB, there is no question of surrender. We are only wanting the communities to come together.
C) Is this Art of Living? What he wants to teach citizens of India specially Muslims
We only want brotherhood and friendship to continue and the bonding to be more stronger than ever before. This is an absolute contradiction and perversion of our intention and our words.
It is absurd to hear that I am against Muslims. Then why would Art of Living go and work in conflict zones around the world. I am always speaking for the betterment of the humanity and oneness of mankind. The possible outcome of the court is only what we have pondered in my interviews. That via the court it will be win for one and loss for another and whoever looses will feel hurt. We are trying to avoid that, and ensure that there is no hurt but a win win situation for both the communities. This has been distorted and it doesn’t make any sense why this could be distorted like this. (End)
ترجمہ: (1 سپریم کورٹ نے کورٹ سے باہر تنازعے کو طے کرنے کا مشورہ دیا تھا جسے ہم لوگ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم لوگ کہہ رہے ہیں کہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا اگر ہم لوگ یکجا یا متحد ہوکر مسئلہ کو حل نہیں کریں گے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہم لوگ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
(2 ہم لوگ جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ فیصلہ کو نافذ العمل بنانا مشکل ہے۔ جب کوئی چیز مشکل ہو تو اسے مشکل کہنے میں کیا دشواری ہے۔
(3 ہر گز نہیں۔ ہم لوگ اکثریتی طبقہ کو نہ خون کا پیاسا کہہ رہے ہیں اور نہ تشدد پسند بتا رہے ہیں۔ ہم لوگ شیعہ۔سنی اتحاد کی کوشش کر رہے ہیں اور شمال مشرق میں تشدد پسندوں کو راہ راست پر لانے کی سعی و جہد کر رہے ہیں اور عالمی پیمانے پر امن اور شانتی کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ تنازعہ پیدا کرنا یا جنگ و جدال کرانا کی بات ہم لوگ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے ہیں۔
(4 ہر گز نہیں، ہم لوگوں نے جو مسلم پرسنل لاء بورڈ کو خط بھیجا ہے اس میں دستبرداری کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم لوگ صرف چاہتے ہیں کہ سارے لوگ اکٹھا اور متحد ہوجائیں۔
(5 ہم لوگ بھائی چارہ اور دوستی کا پیغام دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تعلقات میں پہلے سے بھی زیادہ بہتری اور استحکام پیدا ہو۔ تضاد اور گمراہی ہماری نیت اور عمل سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔
* مجھے یہ سن کر تعجب ہوتا ہے کہ میں مسلمانوں کے خلاف ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو میں دنیا بھر میں کام کرنے کی کوشش کیوں کرتا۔ میں ہمیشہ انسانیت کی فلاح اور بہتری اور اتحاد کی بات کرتا ہوں۔ کورٹ کا جو فیصلہ ہوسکتا ہے وہ میں نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے۔ میں نے کہاہ ایک کی ہار اور ایک کی جیت ہوسکتی ہے اور جو ہارے گا اسے تکلیف اور صدمہ ہوگا۔ اس سے ہم لوگ احتراز کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ ہر ایک کیلئے جیت اور کامیابی کا سامان فراہم ہوجائے۔ اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے آخر کیا مقصد پورا ہوگا۔
سری سری روی شنکر نے اپنے بیان پر اپنی پارسائی کا اظہار کیا ہے مگر انھوں نے جواب میں بھی غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس نے ضرور خواہش ظاہر کی تھی کہ دونوں فریقین مل جل کر معاملہ طے کرلیں تو وہ بھی اس میں تعاون کرسکتے ہیں لیکن جب ان کو معلوم ہوا کہ ایسا ممکن نہیں ہوسکتا تو انھوں نے اپنی بات واپس لے لی، کیونکہ ان کو بتایا گیا کہ ایک نہیں بلکہ کئی بار دونوں فریقین کے مابین بیٹھک ہوئی مگر بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔ سری سری کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے پھربھی وہ فرما رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے عدالت سے باہر طے کرنے کی بات کہی ہے۔ یہ بات انتہائی غلط ہے جو وہ فرما رہے ہیں بہت پہلے کی بات ہے۔ عدالت کو وہ احساس ہوگیا کہ عدالت کا کام پنچایت کرنا نہیں ہے۔ عدل و انصاف کرنا ہے، قانون کی حکمرانی کو ترجیح دینا ہے۔ کسی فریق کی جانبداری کرنا یا اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا عدل نہیں ہے، نا انصافی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک وکیل جناب توصیف احمد خاں نے شری شری کے اس رویہ پر تبصرہ کیا ہے:
Sri Sri’s reply that “Hon. Supreme Court has asked for an out of court settlement” is absolutely false and misleading. Please let Sri Sri show from court’s order in writing where it has asked parties to the suit to go and settle the matter out of court, as claimed by him. SC never gave any direction to any party to settle the matter out of court. SC is sitting on an appeal and is bound by law to pass its judgment. SC may have observed that if all parties to the suit voluntarily settle the matter amicably and jointly approach the court with the proposal then the court may consider it. SC still won’t be bound by any such proposal nor will it bind any party to the suit unless Supreme Court passes an order to that effect. By misrepresenting the observation of SC and by giving it a different colour, Sri Sri is not only acting illegally in trying to threaten and force parties to settle out of court but also gaining media footage and limelight to advance his own propaganda and cover up the misdeed of his own organisation which suffered order of penalty from National Green Tribunal for violating the provisions of environmental laws. All this goes on to show how law abiding he and his organisation is.
ممتازایڈوکیٹ توصیف احمد خاں نے سری سری کے بیان پر جو تبصرہ کیا تھا اسے بھی ملاحظہ فرمائیں:
The statement amounts to provocation, hurting religious sentiments and instigating mob violence, hateful speech and is an attempt to influence the court’s judgment which ultimately undermines the cultural and religious freedom and values as well as the supremacy of court and judiciary as enshrined in the constitution. Strict action ought to be taken against Sri Sri.
میرے خیال سے مودی حکومت کو یہ شہ دینا ہوا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد نہیں کرسکے گی بلکہ مودی جی کلیان سنگھ ثابت ہوں گے کیونکہ وہ آر ایس ایس کے پرچارک ہیں۔ کہنا تو یہ چاہئے کہ نریندر مودی آر ایس ایس کے وزیر اعظم نہیں ہیں، ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ انھوں نے دستور کی وفاداری کی قسم کھائی ، انھیں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو خواہ کسی کے بھی حق میں ہو یا کسی کے خلاف ہو نافذالعمل بنانا ہے۔ کلیان سنگھ یا نرسمہا راؤ تاریخ میں قانون شکن وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے نام سے جانے جائیں گے۔ سری سری مودی جی کو بھی اسی صف میں رہنے کیلئے ابھی درس دے رہے ہیں۔ وہ فرما رہے ہیں کہ مشکل کو مشکل کہنا پاپ نہیں ہے تو کیا پُن ہے؟ اندیشوں کو راہ دینا بالکل پاپ ہے کیونکہ اندیشے انسان کی مشکلات کو بڑھاتے ہیں۔
مسلمانوں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں کے دشمن ہیں دوست نہیں۔ کیا یہی دوستی ہے کہ انھیں خون خرابہ کا ڈر دکھاکر کہا جائے کہ مسلمانوں کو دستبرداری ہی راس آئے گی ورنہ خون سے لت پت ہوجاؤگے جیسے ملک شام میں ہورہا ہے۔
شری شری یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہندوؤں کیلئے آستھا اور عقیدہ کی بات ہے۔ جہاں رام پیدا ہوئے ہیں وہیں مندر بنے گا۔ دوسری جگہ نہیں بن سکتا مگر مسلمانوں کیلئے عقیدہ کی بات نہیں ہے۔ وہ کہیں بھی مسجد بنا سکتے ہیں۔ شری شری اپنے عقیدہ کی بقا چاہتے ہیں اور مسلمان جو عقیدہ رکھتا ہے اس کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں۔ جو لوگ ایسی بات کرتے ہیں حقیقت میں وہ بابری مسجد کے انہدام کی تائید کرتے ہیں اور ملک میں قانون کی حکمرانی کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔ عقیدہ کے نام پر کسی عبادت گاہ کو دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کو گراکر بنانا کیا بدامنی اور فساد کی تائید نہیں ہے اور پھر ایسے تبصرے کا مقصد اور منشا فساد و فتنہ، تشدد اور بربریت کی حوصلہ افزائی کرنا نہیں ہے؟
شری شری کا ہر جواب عذر گناہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عذر گناہ کو گناہ سے بدتر اس لئے کہا جاتا ہے کہ انسانیت کسی شخص میں اس وقت تک باقی رہتی ہے جب وہ نیک اور بد کو پہچانتا ہے اور اس سے جب چھوٹی یا بڑی غلطی ہوتی ہے تو فوراً تسلیم کرلیتا ہے لیکن جب یہ جوہر ختم ہوجاتا ہے تو انسانیت سے وہ آدمی محروم ہوجاتا ہے اور اس کی آدمیت اور انسانیت فنا ہوجاتی ہے۔ وہ حیوانوں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے کیونکہ حرص و لالچ یسی چیز ہے جو وہ ہر حقیقت کو ٹھکرا دیتی ہے۔ اس وقت شری شری پر رام مندر کا ایسا جنون سوار ہے کہ وہ ہر حقیقت کو پس پشت ڈال کر رام مندر کا نِرمان کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کو سنگھ پریوار کا سب سے بڑا تمغہ مل جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار لوگ ان کے بیان کو دھمکی سے تعبیر کررہے ہیں مگر شری شری ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی وہ راہ ہے جو انھیں ترقی کی منزل تک لے جائے گی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سری سری کا بیان نہایت غلط ہے۔ انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے کیونکہ امن و انصاف کی بات کرنے کے بجائے وہ بدامنی اور ناانصافی کی بات سراسر کر رہے ہیں اور اس سے بھی خراب بات یہ ہے کہ اسے وہ امن و انصاف سے تعبیر کر رہے ہیں۔ حسرتؔ نے سچ کہا ہے
خرد کا نام جنوں پڑگیا جنوں کا خرد ۔۔۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں