آج ہی کے دن ایک سال پہلے، اترپردیش انتخابات کی آخری مرحلے کی پولنگ سے قبل، اور آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ۱۱ پاکستانی جاسوسوں کی گرفتاری کے وقت، لکھنؤ میں یکایک ایک خراسانی دہشتگرد نمودار ہوتاہے، آناً فاناً بہادر اے ٹی ایس دستہ اسے گھیر کر مار گراتا ہے، ریاستی سے لیکر قومی میڈیا اور ملی و سیاسی قیادتیں تک اسے دہشتگرد تسلیم کرلیتی ہیں، پہلی بار ایسا ہوتاہے کہ سب چپی دھار لیتےہیں، اور ہو کا عالم طاری ہوتاہے ۔
ہمت جٹاکر، راقم سطور برادر عزیز نسیم خان اور مسعود کے ساتھ جائے واردات پر پہنچتا ہے، حقائق کی جانچ پڑتال کرنے پر آنکھیں پھٹ جاتی ہیں، دل خون ہوتاہے، ایسے حقائق کہ پیش کرتے ڈر لگتا ہے، لیکن الله کا نام لیکر اسے عوامی عدالت میں پیش کیاگیا،ہماری فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے معاً بعد حکومت نے زبردست وار کرتے ہوئے شھید کے باپ کو مجبور کردیا اور باپ سے ہی بیٹے کے خلاف بیان دلوا دیا، معاملہ ہم تک پہنچنے ہی والا تھا لیکن اللّٰہ جزائے خیر دے مولانا عامر رشادی مدنی صاحب کو جنہوں نے اس بابت سرگرم رول ادا کیا اور انصاف کی صدا کو طاقت پہنچائی ۔
آج جبکہ سیف اللّٰہ کی شہادت کو ایک برس تمام ہوا، ماضی کے وہ دن یاد آئے، آنکھیں بھر آئیں،ضمیر نے احساس دلایا، وہ جواں سال بندہ، سینکڑوں سپنے سجائے لکھنؤ آیا تھا، اپنے کام سے مطلب رکھنے والا سادہ لوح شریف انسان تھا، لیکن قومیت کے جرم نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا! جان پر کھیل کر اس کی سچائی بھی پیش کی گئی لیکن، اپنوں کے خون پر سیکولرزم کی علمبردار قوم پھر سیکولر ہوگئی، آج تک سیف اللّٰہ انصاف کے لیے ترس رہاہے! کھلے عام اسطرح نجانے کتنے سیف الله آجکل تڑپ رہےہیں لیکن اجتماعی ضمیر کی منظم بے حسی کے کیا کہنے، ایک اٹوٹ اور تباہ کن ضد ہمارے سروں پر سوار ہے، جس نے ستر سال سے ناکامیوں کے سوا کیا دیا؟ وہ مسائل جن کے لیے مین اسٹریم میں اتر کر اسٹریٹ فائٹ کی ضرورت ہوتی ہے ان مسائل پر احتجاجی سیاست کا خون سرد پڑجاتا ہے، وہ مسائل جن کا نپٹارا آئینی ترجیحات آور پالیسی سازی کے داؤ پیچ سے حل ہوناہے ان پر شوروغل اور ہنگامے ہوتے ہیں، ان کا انجام سامنے ہے، ازخود ڈاٹا حاصل کرکے تجزیہ کریں ۔ آزادی کے بعد سے فسادات، پولیس ٹارچر، جیلوں میں حراست اور ہجومی تشدد کے کتنے معاملات میں انصاف ملا ہے آپکو؟ اسی طرح پالیسیوں اور آئین کی کتنی یلغار آپ سلجھا سکے ہیں؟
دونوں میں طرز عمل بھی سامنے ہے، شہدا کے لیے خاموشی کی پالیسی ہے اور آئینی و نظریاتی جنگ کے لیے شورشرابہ ہے، یقینًا بڑے بڑے افراد ہم سے بہتر واقف کار ہوں گے، لیکن کیا دقت ہے کہ کسی ایک معاملے میں، ستر سالہ پالیسی کو چھوڑ کر دیگر طریقے بھي آزمائے جائیں، یہی وہ راستے ہیں جن سے ہاردک پٹیل، اور جگنیش میوانی ابھر کر آئے، کیا مسلم کمیونٹی ان پر غور نہیں کرسکتی؟ اب تک کی تو صورتحال سامنے ہے، اسی جمہوری ملک میں ایک طرف دلت، پٹیل، اور مرہٹے بھی ہیں اور مسلمان بھی، یہ اقوام اپنے مسائل کے مستقل حل کی طرف تیز رفتاری سے دوڑ رہےہیں اور مسلم قوم کے مسائل جوں کے توں ہیں، وقتی حل کے علاوہ مستقل حل کسی بھی مسئلے کا اب تک کیوں نہیں ہوپایا؟
آج سیف الله کی شہادت کی پہلی برسی ہے، قوم، قوم، اور انصاف و شہادت کا نعرہ لگانے والے کہیں نظر نہیں آئے، نہ تب نہ اب! پورے ملک میں انچ انچ کی لڑائی لڑنے والے، قومیت میں گھس پیٹھ پر نہیں جاگے! ایسے نجانے کتنے سیف اللّٰہ شہید ہورہےہیں لیکن قومی خون گرم نہیں ہوتا کیوں؟ یہ پالیسیاں ہماری فہم سے بالاتر ہے، کہ، ایک طرف قوم گھیر گھیر کر چوراہوں پر قتل کی جائے، جیلوں میں ہزاروں محصور ہوں لیکن جوشیلے بہادروں کا کوئی پتہ نہیں چلتا! دوسری طرف دیگر اقوام ان معاملات پر آواز بلند کرکے ہندوﺅں کا ساتھ پاکر ملک کے مین اسٹریم میں اپنی انمٹ چھاپ قائم کررہی ہیں ۔ آج وہ بندہ ٹوٹ کے یاد آرہاہے، جو قومی شناخت کے چلتے سیاسی قتل کا شکار ہوگیا، لیکن، جذباتی جوشیلے نعرے باز اس پر نہیں جاگے! صلح و صفائی، امن و بھائی چارے کے نعرے بلند کرنے والے زمانے کے مقرر مفکرین بھی نہیں جاگے! بات بات پر ملک بھر میں قوم کو نشیلی تقریریں اور اشتعال انگیز وادیوں میں بھٹکانے والے بھی نہیں جاگے! سب کے سب اس حمام ننگے ہیں، اسلیے کہ اس پر سیاسی سمجھوتہ نہیں ہوا، اس ایشو پر ملی پلاننگ نہیں ہوئی! درحقیقت مفادات کی پالیسیوں میں وہی ابھر کر آتیں ہیں جن سے داخلی مفادات پر کم ہی ضربیں پڑتی ہوں، اور یہ ایشو ایسا تھا جسے ایجنسیوں اور حکومتوں کی ملی بھگت کے ساتھ رچایا گیا تھا، سمجھوتے کے ساتھ! اور سیف اللّٰہ کے خون نے سب کے شور دبا دیے، سب کے داغ مٹادیے، اگر اس پر آواز اٹھتی تو یقینًا سب کے مفادات متاثر ہوتے! ہم نے تب بھی بساط بھر اپنی کوشش کی تھی اور آج بھی یہ عزم دوہراتے ہیں، کوئی کچھ کرے یا نہ کرے ان شاءالله ہم اس کے لیے ضرور لڑینگے! اس لیے کہ ہماری تحقیقات ہمیں مطمئن کرتی ہیں کہ سیف الله بے قصور مارا گیا ہے! جب جب اس علاقے سے ہم گذرتے ہیں جب جب وہ دن یاد آتے ہیں، جب جب اس کی تصویر سامنے آتی ہے ضمیر ڈستے ہوئے پوچھتا ہے یہ نوجوان کس جرم میں مارا گیا؟ کیا ہمیں یاد ہے؟ کتنے سیف الله انصاف کو ترستے ہیں؟ کہاں ہے دو دو ہاتھ کرنے کا عزم دہرانے والی بہادر لیڈرشپ؟ کیا انہیں یاد ہے؟ کہ کچھ آشیانے اجڑے ان کی طرف ٹکٹکی باندھے ہیں. کیا نوجوان بھول گئے؟ کیوں بھول جاتے ہیں نوجوان اپنی قومی شہیدوں کو؟ یاد رکھیں سسٹم کے شکار نوجوان فرد نہیں ہوتے، ہم آپ سب، ہوتےہیں، ہماری باری بھی آکر رہے گی ۔ اے سیف اللّٰہ! ہم شرمندہ ہیں، اللّٰہ سے شکایت ضرور کرنا، واقعی تو اس کا مستحق تھا کہ تیرے لیے صدا اٹھتی *سیف الله ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں* ۔ ہماری فیکٹ فائنڈنڈنگ رپورٹ کو اردو اور انگریزی میں پڑھنے کے لیے،اس مضمون کے شروعات کی لنک کو دیکھیں ۔
*سمیع اللّٰہ خان*
جنرل سکریٹری: کاروان امن و انصاف
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں