جذبات کی سردی، سپریم کورٹ نے یہ بہت ہی بہتر کہا کہ ایودھیا زمین کے نزاع کا مسئلہ ہے

0
976

اداریہ ٹائمز آف انڈیا (10؍فروری 2018ء ) 
ترجمہ و تلخیص: ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین ، ناندیڑ مہاراشٹر 
(9890245367)

عدالت عظمیٰ نے اس بات سے اتفاق کیا ہے بابری مسجد جنم بھومی کا جھگڑا جو بالکلیہ طور پر اراضی کی ملکیت کا معاملہ ہے اور سپریم کورٹ کی یہ سوچ خوش آئند ہے۔ جس کی وجہہ سے یہ بات اب صاف ہوگئی ہے کہ یہ ساری افراتفری جو قانونی مسئلہ کے حل کے لیے برسوں سے زیردوران ہے اس کے لیے یہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس بات کی کوششیں بھی کی گئیں کہ لوگوں کے جذبات و احساس کی ہم آہنگی کے لیے صلح صفائی کے درمیانی راستے کی تلاش کی جائے ۔ چونکہ یہ معاملہ عرصہ دراز سے زیر معدلت ہے جو برسوں سے چلایا جارہا ہے۔ جمہوریت و آزادی کی بنیاد قانونی حکمرانی پر ہوتی ہے۔ جذبات و احساسات کے معاملے کے رستے پر گزرنا گویا انارکی، گڑبڑ، فساد اور تشدد کا نسخہ  ہے۔ نتیجتاً غیر متعلق فریقین جو اس معاملات میں کود پڑے ہیں وہ ہر طریقے کی سیاسی اور مذہبی وجوہات کی بناء پر ہیں انہیں اس سے علیحدہ رکھا جائے۔ خواہ وہ ہندو تنظیمیں ہوں یا مسلم تنظیمیں، دائیں بازو والے ہوں کہ بائیں بازو والے، روحانی گرو ہو یا کوئی اور۔ نزاعی سیاست پچھلے طویل عرصے سے پھیل چکی ہے اور اس کا خاتمہ قریب ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ اس سے ان کے انتخابی مفادات جڑے ہوئے ہیں اس لیے اسے وہ چھوڑ نہیں سکتے۔ لیکن قانونی طور پر اس معاملے کا جو موقف ہے وہ صرف اس میں موجود ریکارڈ، شہادت پر زیادہ منحصر ہے نہ کہ جذبات، احساسات۔ جو مختلف گیم کہلاتے ہیں۔ قانونی حل ہی ایک واحد راستہ ہے جس سے پُرامن اور مستقل حل ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ مصالحت کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ 
ہندوستان کی جمہوریت میں یہ بات سب سے اہم ہے اور جس کا ہم یہاں اعادہ کرتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی ہی کی یہاں ترجیح رہے گی۔ جبکہ شرپسندوں کو یہ اعتماد ہے کہ ریاستچوکس گروہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی اور جبکہ عدلیہ کی اس امر پر کوشش ہے کہ وہ اس دیوانی مقدمہ کا تصفیہ کرے۔ اس طرح جذبات اور احساسات کی سیاست اور تنگ نظری کو نظر انداز کیا جاکر نیو انڈیا کے لیے عدلیہ ہی بہتر حل ہے۔ ججس اٹھنے والی آوازوں کو اور پھیلنے والی اطراف و اکناف میں ہونے والی باتوں کو چھوڑ کر صرف ان کے پیش نظر جو دستاویزات ہیں اس پر فیصلہ کرے۔ اس طرح سے باریک بینی پر مشتمل یہ فیصلہ ہوگا۔ سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کو اس ہونے والے فیصلے کی عزت کرنی چاہئے اور وہ اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بازیابی کے لیے مدد بھی کریں۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here