سچ بول دوں ………….میم ضاد فضلی
اس سے قبل کہ ہم طلاق ثلاثہ کے موضوع پر کوئی بات کریں ،مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اس سنگھی منصوبہ کو واضح طور پر طشت ازبام کردیا جائے کہ یہ تنازع مسلم خواتین کی ہمدردی میں نہیں اٹھا یا گیا ہے،بلکہ اس سازش کو حکومت ہند نے عوام الناس بالخصوص مسلمانوں کے سامنے اپنی نااہلی چھپانے اور عوام کے بنیادی مسائل سے ان کی توجہ ہٹانے کیلئے مرتب کیا ہے۔اسی وقت جب طلاق ثلاثہ بل کا ڈرافٹ روی شنکر پرساد ایوان میں پیش کررہے تھے ہماری چند بہنیں وزیر اعظم نریندر مودی ،وزیر قانون اور پوری بی جے پی کی بلائیں لینے لگیں جن کے بارے میں ہمارا غالب گمان یہی ہے کہ یرقانی شعبدہ بازوں نے ان کی سادگی اور بھولے پن کا فائدہ اٹھا کر انہیں گمراہ کیا ہوگا۔عین ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ کو چند سکوں کے عوض خریدا بھی گیا ہو،جیسا کہ ہمارے کچھ جذباتی اداکاراپنی تحریروں میں دعوے بھی کرتے ہیں۔مگر مجھے اس دعوے میں حقیقت سے زیادہ الزام کی بو آرہی ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ ہماری ان بہنوں کو جو اپنی کم علمی یا سماج کی دورخی ذہنیت کا شکار ہوئیں اورطلاق جیسے اذیت ناک کرب سے جن کی زندگیاں اجیرن بنادی گئیں ایسی ستم رسیدہ بہنیں بھی یرقانی فسادیوں کے فریب میں آگئی ہوں یہ کوئی مستبعد نہیں ہے۔بہر حال اتنی بات تو طے ہے کہ ہر جانب سے منہ کی کھاچکی بھاجپائی سرکار اب عوام کا سامنا کرنے اور ان کے سوالوں کے جواب دینے کا حوصلہ کھوچکی ہے ،لہذا اسے عوام کی توجہ ہٹانے اور انہیں گمراہ کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ چاہئے اور اس کیلئے مسلمانوں سے زیادہ ملائی مار مسالہ کہیں بھی نہیں مل سکتا ،بس اسی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اس نے مسلمانوں کی خانگی زندگی میں درار ڈالنے کی سازش تیار کرلی اور طلاق ثلاثہ کے عدم نفاذ کا بل بی جے پی نے تھیلی سے باہر نکال دیا۔
قارئین اس بات کو ذہن نشین رکھیں کہ نریندر مودی اور بی جے پی نے اس مسئلہ کو سیاسی فائدہ اٹھانے کی غرض سے ترتیب دیا ہے اور اسے انجام تک پہنچاکر ہی دم لیا جائے گا۔ویسے بھی آزاد ہندوستان کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کرسی کی لالچی طاقتیں عہدہ و اقتدار پانے کیلئے کسی بھی مذہب ،سماج یا طبقات کی کوئی پرواہ نہیں کرتیں ۔سارا ملک گزشتہ چار برسوں سے اس حقیقت کو اپنی کھلی آ نکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ ہمیشہ نریندر مودی ملک کے محترم آئین کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے اپنی مرضی اور سنگھ کی پالیسی کو عوام پر جبراً تھوپتے چلے آرہے ہیں۔ساری دنیا اس صورت حال کو دیکھ رہی ہے کہ بھارت میں مختلف بہانوں سے مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کردینے کی سبھی سرگرمیاں منظم طریقے سے انجام دی جارہی ہیں۔مگر کسی معاملے میں مودی حکومت یامرکزی کابینہ کے کسی بھی نے لیڈر مظلوموں کی حمایت میں ایک لفظ بھی زبان سے نکالنے کی زحمت نہیں کی۔کیا اس کا واضح مطلب یہی نہیں نکلتا کہ مسلمانوں کیخلاف غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرنے والوں کو موجودہ حکومت کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔
دوروز قبل ہی بی جے پی کے ’’اگیانی چانکیہ‘‘ امت شاہ میسور میں عوام کی تھو تھو کا نشانہ بن چکے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ اس اہم خبر کو مین اسٹریم میڈیا اور ضمیر فروش اخبارات نے بالکل ہی ہضم کردیا، ورنہ آج امت شاہ کی ہزیمت سے بی جے پی کے سات ستارہ دفتر میں صف ماتم بچھ گیا ہوتا۔اس کے باوجود کرناٹک سے چھن چھن کر جوخبریں ہم تک موصول ہوئی ہیں اس میں کہا گیا ہے کہ جب امت شاہ انتخابی ریلی میں پہنچے تو خالی کرسیاں دیکھ کر ان کے ہاتھ پیر پھول گئے اور ناکامی پر انہوں نے یدورپا کو کھری کھوٹی بھی سنائی۔آج بی جے پی کے لیڈران کو یہ دن بس اسلئے دیکھنا پڑرہا ہے کہ انہوں نے عوام سے کئے گئے ایک بھی وعدے کو پورا نہیں کیا ہے اور ایک بارپھر وہ طاقتیں کرناٹک میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے اپنے اسی گھسے پٹے اور فرسودہ ہندو مسلم ایشوز کو بھنانے کی مذموم پالیسی پر سرگرم ہوگئی ہیں۔
سارا ملک یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ بھارت کے عام آدمی کی بنیادی ضرورتیں مثلاً تعلیم ،خوراک اور صحت جیسے شعبہ کو مودی حکومت نے مٹھی بھر گجراتی ساہوکاروں اور وی آئی پی چوروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے نجی ہاتھوں میں دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ مودی کابینہ جو ڈھائی لوگوں کی سرکار ہے اس کی خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ کنواروں کے کلب یعنی آر ایس ایس نے انہیں مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ذہنی ،جسمانی ،مالی اور جانی تمام قسم کے نقصانات پہنچانے والے سبھی حربے استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جس کلب میں شادی بیاہ اور خانگی زندگی جینے کا تصور ہی نہیں ہو وہ کلب اور اس سے وابستہ لیڈران خواتین اور بیٹیوں کے حقوق کے اور ان کے اختیارات کے تحفظ کا دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں اور اگر وہ ایسا کریں گے بھی تو اس کا مقصد صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنا اور خواتین کو بے وقوف بناناہی ہوگا۔
مذکورہ بالا تفصیلات بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اس وقت طلاق ثلاثہ یا کسی بھی دوسرے عائلی مسائل کے تحفظ کیلئے ملک میں مسلم خواتین کو سڑکوں پر اتار کر جو مظاہرے کئے جارہے ہیں اس کے کوئی بھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔اس لئے کہ جس طریقے سے خواتین کے یہ مظاہرے ملک گیر پیمانے پر کرائے جارہے ہیں ،اس میں اگرچہ ہمارے سماج کی پڑھی لکھی اور باشعور دانشور خواتین بھی بڑھ چڑھ کر حصے لے رہی ہیں ۔مگر ان مظاہروں میں مخصوص خواتین کی عدم شرکت اس شک کو تقویت پہنچا رہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ جو لوگ مسلم پرسنل لا بورڈ کو سیاسی محاذ کے طور پر استعمال کررہے ہیں اس میں ان اکابرین کی خواتین دور دور تک نظر نہیں آتین ،جنہیں ہم موجودہ ملت ہند کی امہات المومنین کہہ سکتے ہیں۔اگر واقعی یہ مظاہرے شریعت اسلامی کی مخلصانہ سوچ کے نتیجے ہوتے تو بلا امتیاز عام خواتین کے ساتھ ملت کے اکابرین کی محترمات بھی موجو د ہوتیں ۔مگر ان کا ان مظاہر وں میں شامل نہ ہونا اس شک کو ظاہر کرتا ہے کہ ہماری سادہ لوح عام بہنیں استعمال کی جارہی ہیں ۔خدانہ کرے کہ کہیں انہیں صرف اپنے ذاتی مفاد کیلئے استعمال نہ کیا جارہا ہو۔
خیال رہے کہ ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جوشریعت عطاکی ہے اس میں قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے تمام قسم کے حالات سے مقابلہ کرنے کی تعلیم اور مثالی ضابط�ۂ حیات موجود ہے۔ایک ایسا مکمل صحیفہ آسمانی ہمیں دیا گیا ہے جس میں ذرہ برابر تبدیلی و تحریف کی گنجائش باقی نہیں ہے۔ہمیں اپنے مظاہروں اور احتجاجات کو انجام دینے کیلئے بھی اسی نمونہ حیات سے جائز راستہ نکالنا ہوگا ،ورنہ اس کے متغایر کسی بھی مظاہرہ یا اقدامات میں مثبت نتیجے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔شیخ شیرازی ؒ کے بقول
خلاف پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بہ منزل نہ خواہد رسید
خواتین کے سلسلے میں تو واضح نص موجود ہے جس پر عمل کرنا تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کیلئے فرض ہے اور اس واضح نص میں کسی بھی قسم کی تاویل کو قرآن کریم کی حقانیت پر ایمان رکھنے والا ادنیٰ مسلمان بھی جائز نہیں ٹھہرا سکتا۔ارشاد باری ہے۔
’’اور آپؐ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفا ظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں، سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں، سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ‘‘۔ (سورۃ النور،آیت31)
مذکورہ بالات احکام الہی کے بعد کیا ہمارے پارے کسی بھی قسم کی تاویل کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ۔جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ شریعت کے تحفظ کے نام پر ملت کی عام ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کو سڑکوں پر اتار دیجئے اور ہمارے وڈیروں کی بیگمات اپنے بالاخانوں سے اس تماشہ کو دیکھ اپنی پشت تھپتھپاتی رہیں،ایں چہ بوالعجبی است۔
09643473977
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں