شب برأت، مغفرت اور فیصلے کی رات

0
717
All kind of website designing

ڈاکٹر مفتی عرفان عالم قاسمی
ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی

شعبان المعظم کا مہینہ شرف و بزرگی کا مہینہ ہے جس میں ایک رات آتی ہے جو برأت سے مشہور و معروف ہے، لغت میں جس کے معنی بری ہونے کے آتے ہیں جو دراصل گناہوں، خطاؤں سے توبہ کرکے بری ہونے کی رات ہے، اس رات میں گنہگاروں اور مجرموں کی کثرت سے برأت و چھٹکارا ہوتی ہے اسی وجہ سے اس رات کو نام شب برأت پڑ گیا۔
قرآن و حدیث میں اس رات کی بڑی فضیلت آئی ہے، چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے حٰمٓ وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ(سورہ دخان)۔ حم قسم ہے اس کھلے ہوئے واضح کتاب کی ہم نے اسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں اتارا ہے کیونکہ ہم لوگوں کو آگاہ و متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یہ وہ رات ہے جس میں ہر معاملے کا حکیمانہ فیصلے ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے۔ یقیناً ہم ایک رسول بھیجنے والے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ و دیگر حضرات مفسرین کی رائے کے مطابق اس آیت میں لیلۃ مبارکۃ سے مراد شب برأت یعنی پندرہویں شعبان کی رات ہے اور یہ وہ بابرکت رات ہے جس میں اللہ رب العزت نے قرآن پاک نازل فرمانے کا فیصلہ فرمایا۔
چنانچہ حکیم الامت حضرت تھانوی علیہ الرحمہ اپنی شہرہ آفاق کتاب التبلیغ ۸/۱۴ میں لکھتے ہیں ’’شب برأت میں حکم ہوا کہ اس رمضان میں جو شب قدر آئے گی اس میں قرآن پاک کو نازل کیا جائے گا پھر شب قدر میں اس کا وقوع ہوا چنانچہ عادتاً ہر فیصلے کے دو مرتبے ہوتے ہیں، ایک تجویز دوسرا نفاذ۔ یہاں بھی دو مرتبے ہوسکتے ہیں کہ تجویز تو شب برأت میں ہوجاتی ہے اور نفاذ شب قدر میں ہوتا ہے۔ اسی طرح احادیث کی مختلف کتابوں میں شب برأت کی فضیلت کی متعدد روایتیں ملتی ہیں۔ مثلاً طبرانی، ابن ماجہ، ابن حبان، بیہقی، احمد اور الترغیب والترہیب وغیرہ میں گوکہ بعض احادیث سنداً ضعیف ہیں مگر فضائل کے باب میں ضعیف حدیث کو ائمہ حدیث نے معتبر مانا ہے۔ امام احمدؒ کا قول ہے کہ ہم جب رسول اللہ سے حلال و حرام سنن و احکام میں روایت کرتے ہیں تو اسانید میں سختی سے کام لیتے ہیں اور جب فضائل میں نقل کرتے ہیں تو ذرا تساہل سے کام لیتے ہیں (الکفایہ للخطیب البغدادی ۲۱۳)
اسی طرح تقریباً دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس رات کی فضیلت کے سلسلہ میں احادیث مروی ہیں جو اس رات کی فضیلت و اہمیت کو ثابت کرنے کے لئے اٹھارٹھی و سند کا درجہ رکھتی ہیں نیز خیر القرون یعنی صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین سے لیکر مسلسل آج تک اس رات کی فضیلت سے فائدہ حاصل کیا جاتا رہا ہے اور سلف صالحین اس رات کی تعظیم کرتے اور اس کے لئے تیاریاں کرتے تھے۔ (مدخل ۲۳۸)
روایتوں میں اس مبارک رات کو کئی ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔ مثلاً (۱) لیلۃ المبارکہ یعنی برکت والی رات (۲) لیلۃ الرحمۃ رحمت والی رات (۳) لیلۃ الصک دستاویز والی رات (۴) لیلۃ البرأت دوزخ سے چھٹکارہ والی رات۔ حضرت عطاء بن یسارؒ کا اس بابرکت رات کے متعلق قول ہے مامن لیلۃ بعد لیلۃ القدر افضل من لیلۃ نصف شعبان شب قدر کے بعد شب برأت سے زیادہ اہم و افضل کوئی رات نہیں۔حضرت شاہ عبدالقادر جیلانیؒ نے اپنی مشہور تصنیف غنیۃ الطالبین میں تحریر فرمایا ہے کہ اس مبارک رات میں دو طرح کی برأت ہوتی ہے، ایک بدبختوں کو اللہ رب العزت کی طرف سے اور دوسرے سعادت مندوں کو ذلت و رسوائی سے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پندرہویں شعبان کی رات میں عبادت کیا کرو اور دن میں روزے رکھا کرو، کیونکہ اس رات اللہ تعالیٰ کی رحمت سورج غروب ہوتے ہی آسمان دنیا پر ظاہر ہوتی ہے اور آواز لگاتی ہے- ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں، ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں، ہے کوئی مصیبت سے نجات چاہنے والا کہ میں اس کی مصیبت دور کر دوں اور یہ صدا طلوع فجر تک لگائی جاتی ہے۔ (ابن ماجہ) اللہ تعالیٰ کابندوںپرکتنا بڑا فضل اور انعام ہے کہ وہ ہرگناہگاربندے کو توبہ کرنے کاموقع فراہم کرتا رہتا ہے کبھی شب قدر تو کبھی شب برأت تو کبھی اور کوئی شب و روز لا کر۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ رات میں دراز فرماتا ہے تاکہ دن کا گناہ گار توبہ کر لے اور دن میں اپنا ہاتھ دراز فرماتا ہے کہ رات کا گناہ گار توبہ کرلے اور یہ موقع اس وقت تک باقی رہے گا جب تک سورج مغرب سے نہ نکلنے لگے۔ (مسلم)
شب برأت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عمومی طور پر مغفرت فرماتے ہیں مگر بعض گناہ گار کی اس متبرک رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی۔ مثلاً (۱) شرک کرنے والا (۲) کینہ رکھنے والا (۳) والدین کی نافرمانی کرنے والا (۴) زنا کرنے والا (۵) شرابی (۶) جادو گر (۷) سود خور (۸) چغل خور (۹) قطع رحمی کرنے والا (۱۰)ذخیرہ اندوزی کرنے والا (۱۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا (۱۲) قاتل (۱۳)باجے بجانے والا (۱۴) کتا رکھنے والا (۱۵)تصویر رکھنے والا (۱۶)تہہ بند اور پائجامہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا لیکن اللہ کے حضور یہ گناہگار بھی روئے گڑگڑائے، توبہ کرے، سچے دل سے آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے اور اپنے گناہوں پر نادم و پشیماں ہو تو اللہ ان افراد کو بھی معاف فرما کر اپنی رحمت میں ڈھانپ لیتا ہے۔ بیشک وہی معاف کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ ۱۵ویں شعبان کی رات ایک صحیفہ ملک الموت کے سپرد کرکے یہ حکم صادر کیا جاتا ہے کہ اس صحیفہ میں جتنے نام درج ہیں ان سب کی روحیں قبض کر لو حتیٰ کہ آدمی عورتوں سے نکاح کرتا ہے۔ مکان کی تعمیر کرتا ہے، درختوں کے پودے لگاتا ہے حالانکہ اس کا نام مرنے والوں کی فہرست میں لکھا ہوتا ہے۔ (الجواہر الزواہر ۳۵۰) کتنے ہمارے عزیز دوست جو پچھلے شب برأت میں بقید حیات تھے اب ہمارے درمیان موجود نہیں لہٰذا اس مبارک شب کو غنیمت جان کر اپنی مغفرت طلب کریں اس لئے کہ اللہ جل شانہ اپنے بندے کی توبہ موت کے وقت سے پہلے تک قبول فرماتا ہے۔
امام بیہقیؒ نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ نے شعبان کی پندرہویں شب کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدے کی حالت میں یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ وَ اَعُوْذُبِکَ بِرَضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ اُعُوْذُبِکَ مِنْکَ جَلّ وَ جْہَکَ لَا اُحْصِیَ ثَنَائً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِک اے اللہ میں تیرے عذاب سے تیرے عفو و درگزر کی پناہ چاہتا ہوں اور تجھ سے ہی تیری پناہ کا طلب گار ہوں تیری شان بڑی عالی ہے تیری تعریف و توصیف بیان کرنے سے قاصر ہوں تو تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے، جب حضرت عائشہ ؓ نے اس کلمات کا تذکرہ کیا تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے عائشہ ان کلمات کو سیکھ لو اور دوسرے کو بھی سیکھاؤ۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۱۵ شعبان کی درمیانی شب میں جبرئیل امین میرے پاس آئے اور کہا اے محمد اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائیے میں نے سر اٹھایا تو یہ دیکھا کہ جنت کے سارے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ پہلے دروازے پر ایک فرشتہ کھڑا پکار رہا تھا کہ جو شخص اس رات میں رکوع کرتا ہے نماز پڑھتا ہے، اس رات میں سجدہ کرتا ہے، اسے خوشخبری ہو، دوسرے دروازے پر فرشتہ آواز دے رہا ہے جس شخص نے اس رات میں دعا کی اس کے لئے خوشخبری ہو، تیسرے دروازے پر ایک فرشتہ کہہ رہا تھا کہ جس نے اس رات میں اللہ کے ڈر سے آنسو بہائے اسے خوشخبری ہو، چوتھے دروازے پر ایک فرشتہ ندا دے رہا تھا خوشخبری ہو ان لوگوں کے لئے جو اس رات میں ذکر کرنے والے ہیں۔ پانچویں دروازے پر ایک فرشتہ کہہ رہا تھا خوشی ہو اس کے لئے جو اللہ کے خوف سے اس رات میں رویا، چھٹے دروازے پر فرشتہ پکار رہا تھا تمام مسلمانوں کے لئے اس رات میں خوشخبری ہو، ساتویں دروازے پر فرشتہ کہہ رہا تھا کیا ہے کوئی مانگنے والا کہ اس کی آرزو پوری کی جائے۔ آٹھویں دروازے پر فرشتہ پکار رہا تھا ہے کوئی معافی کا طلب گار کہ اس کے گناہ معاف کئے جائیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل امین سے پوچھا یہ دروازے کب تک کھلے رہیں گے جبرئیل علیہ السلام نے کہا صبح ہونے تک کھلے رہیں گے۔ پھر فرمایا اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم اللہ رب العزت اس رات میں دوزخ کی آگ سے اپنے بندوں کو نجات دیتا ہے، جتنے کہ قبیلہ کلب کی بکریوں کی تعداد ہیں۔ (غنیۃ ۳۴۷) مگر افسوس صد افسوس کہ اس متبرک رات کو تہوار کی شکل میں منایا جانے لگا ہے کیا شہر کیا دیہات ہر جگہ مساجد و قبرستانوں کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے۔ نوجوان گلی کوچوں میں سگریٹ کے دھوئیں اڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور سڑکوں پر سائیکل اور بائیکوں پر ریس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ شب براتٔ میں یہ دھوم دھام، یہ چراغاں اور یہ آتشبازی قرآن و حدیث اور دور صحابہ سے ثابت نہیں بلکہ سراسر بدعت اور قابل ترک ہیں لہٰذا ہم اپنی خواہشات اور من گھڑت رسومات کو اپنی زندگی سے نکالیں اور سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں پر نوحہ کرکے پاک پروردگار سے مغفرت و بخشش طلب کریں ورنہ نیکی برباد گناہ لازم آئے گا۔
E-mail:- [email protected]

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here