سچ بول دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میم ضاد فضلی
مذہب اسلام خالق ارض وسماء کا بھیجا ہوا دین ہے۔اسے قیامت تک رہنا ہے اور طاغوت کا کوئی بھی حربہ اسلام کو مٹانے یا تعلیمات اسلام کیخلاف فتنہ انگیزیوں میں نہ کبھی کا میاب ہوا ہے اور نہ ان شاء اللہ قیامت تک کامیاب ہوسکے گا۔اسلام کے خلاف کوئی بھی سازش یا ناپاک منصوبہ بندی مذہب اسلام کو نیست ونابود کرنے کی لاکھ کوششیں کرنے کے باوجودرسوااور ذلیل ہی ہوگی۔اس لئے کہ یہ دین اللہ کا ہے اوراس کی حفاظت کی ساری ذمہ داری خلاق دوعالم نے اپنے ہی ہاتھ میں لے رکھی ہے۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا، جتنا کہ دبا ؤ گے
ماضی میں خودمحسن انسانیت فداہ ابی وامیﷺ کے دور حیات کے آخری مرحلے میں ہی کئی جاہ پرستوں اوراندرکے کالے ،ظاہرکے گورے شیطان کے چیلوں اور یہودیوں کے ایجنٹوں نے نبوت کے دعوے کئے۔تاریخ اسلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فتح مکہ 8 ھ کے بعد مختلف قبائل نے کثرت سے اپنے وفود آنحضرت ؐ کی خدمت میں بھیجے اور بڑی تیزی سے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔چناں چہ اسی وجہ سے 9 ھ کو سنۃ الوفود کے نام بھی سے جانا جاتا ہے۔ ہادی عالم ﷺ کے دور حیات کے آخری حصے میں دو بدباطن افراد مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے عقیدۂ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے نبوت کا بے بنیاد اورجھوٹا دعویٰ کیا۔ اسی دوران آپ ﷺ پر مرض الموت طاری ہوا۔ اسی بیماری کے اثناء میں محسن انسانیت ﷺ نے ایک خواب دیکھا کہ آپ کے دونوں ہاتھوں میں کنگن ہیں۔ آپ ؐ کو اس سے نفرت سی محسوس ہوئی ، آپؐ نے ان پر پھونک ماری جس سے وہ دونوں اْڑ گئے ،اس کی تعبیر آپؐ نے یہ بتائی کہ ان کنگنوں سے یہ دونوں جھوٹے مدعیان نبوت ( مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی ) مراد ہیں اور دونوں عنقریب میرے ہی جاں نثاروں کے ہاتھوں انجام بد تک پہنچیں گے ( بعد میں یہ پیشین گوئی اسی طرح حرف بہ حرف صادق ہو ئی)۔
انگریزی دور اقتدار میں وطن عزیز بھارت میں بھی ایک سامراجی ایجنٹ پیداہوا،جس نے ملت کے شیرازہ کو منتشر کرنے کیلئے اپنی جھوٹی نبوت کے دعوے کئے اوراسے تقویت پہنچانے کیلئے ظلی ،بروزی اور نہ جانے کتنے ہی مضحکہ خیز اصطلاحات وضع کیں۔ کبھی اس خبیث کے چیلے نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تو کبھی خودکو مسیح موعود توکبھی اپنے کوامام مہدی ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ امت کے جیالوں اور دین اسلام کے جاں نثار محافظوں نے قادیانیت کو اس کی اوقات بتانے اور امت مرحومہ مسلمہ کے دین و ایمان کی حفاظت میں اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ چاہے وہ امام حریت مولا نا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ہوں یا مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ اور اسی طرح فرزندان دیوبند کی ایک عظیم جماعت سبھی نے قربانیاں دیں۔ کبھی ان کے باطل مبلغین سے مناظرے کئے تو کبھی ان کے ذریعہ گمراہ کئے جاچکے مسلمانوں کو فتنہ پردازوں کے دام تزویر سے نجات دلاکر دوبارہ مذہبِ حقہ میں داخل کراکے اخروی تباہی سے انہیں بچالیا۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء فی الدارین
ہمارے ان کابرین کو محسن انسانیت ﷺ کے لائے ہوئے دین کی حفاظت اور فتنہ پروروں کی مکاریوں سے امت کو بچانے کیلئے شروع کئے گئے جہاد میں اس لئے کامیابی ملی کہ وہ مرغا کھاکر دفاع نبوت کے فرائض انجام دینے والے نہیں تھے ،بلکہ حلال رزق کے علاوہ ان کی کوئی خوراک ہی نہیں تھی،ہمارے اکابرین قوت لایموت کے طور پر سوکھی روٹی اور بے مزہ چٹنی کیوں نہ ہو اسے ہی کھا کر نبوت محمدیہ کے تحفظ کیلئے جاری جنگ کی کمانڈری کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ انہیں رزق حلال کی کس قدر پرواہ تھی اگر اس کا تذکرہ کیا جائے تو کئی ہزار صفحات بھی ناکافی ہوجائیں گے۔
مگریہاں اس کا بیان کرنا مقصود نہیں ہے اور نہ زیر نظر مضمون میں ہمیں اس پر خامہ فرسائی کی ضرورت ہے۔
میرا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ امت کے وہ تمام جیالے جنہوں نے تحفظ ختم نبوت اور ناموس رسالت ﷺ کیلئے اپنی زندگیاں وقف کیں وہ آج کے ماڈرن اور عیش پسند مبلغین یعنی محا فظ ختم نبوت نہیں تھے ،بلکہ وہ تمام کے تمام فاقہ مست دیوانے تھے جن کے اخلاص کی دولت کو رب کائنات نے پسند فرمایا اور اتنا پسند فرمایا کہ ان کی پوری زندگی کو اسی کار نبوت کیلئے قبول فرمالیا۔ مگرآج کے محافظین ختم نبوت و مہدویت کی شاہی ٹھاٹ باٹ ،حلال وحرام کے امتیاز کے بغیر مرغاخوری اور ایئر کنڈیشنڈ کی عیاش عادت سمیت لگژریس طرز زندگی دیکھ کر بے ساختہ یہ خوف دامن گیر ہوجاتا ہے کہ خدانہ خواستہ ان عیش کوشوں کی شہرت پسندی کہیں امت مسلمہ کو کسی دوسرے فتنہ میں نہ ڈال دے۔ میں مرغاخوری کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بتانا مناسب سمجھتا ہوں کہ اس وقت پولٹری فورم کے جو مرغ دستیاب ہیں اس کی بریڈنگ جرسی گایے کی طرح ہی خنزیر سے ہوتی ہے ،لہذا یہ جائز ہے یا نہیں یہ کام ہم مبلغین ختم نبوت پر چھوڑتے ہیں ،البتہ یہ گزارش ضرورکریں گے کبھی کبھار سائنس بھی پڑھی جایے ،تاکہ کسی بھی چیز کو حرام یا حلال ہونے کا فتویٰ دینے سے پہلے اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ جس مرغ کی شکل کے جانور کو ہم دونوں ہاتھوں سے بھنبھوڑکر کھاتے ہیں ،اسکی بریڈنگ یا یوں کہیں کہ اس کیلئے آرٹیفشیل نطفہ کس جانور سے لیا گیا ہے۔
ماضی میں اس قسم کے فتنوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عموماً اس کا شکار عصری علوم کی دانش گا ہو ں میں پروان چڑھ رہے طلباء اور سادہ لوح ان پڑھ لوگ ہوتے رہے ہیں۔ ابھی ایک واٹس ایپ گروپ پر میں نے جہاد ختمِ نبوت کے سب سے بڑے نام نہاد مجاہد اور اخبارات میں چھپنے کے آرزومند مولانا شاہ عالم گورکھ پوری کی ایک تحریر ’’شکیلیت‘‘ دیکھی ۔اس خواہش کے ساتھ کہ شاید اس فتنہ سے محفوظ رکھنے کا کو ئی اثرانگیز نسخہ اس مقالہ میں موجود ہومیں نے ساراکا سارا پڑھ ڈالا ۔ مگرپوری تحریر پڑھنے کے بعد مجھے مایوسی ہوئی کہ اس کے مطالعہ سے حالیہ فتنۂ ’’شکیلیت‘‘ کا سد باب تو اس سے کچھ بھی نہیں ہوگا، بلکہ اس کتابچہ کو پڑھ کر مجھ جیسے ناقص العلم طالب علم کے اندر تجسس پیداہوگا اوراس کو جاننے کے چکر میں گمراہ ہی ہوجائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے فتنوں کی روک تھا م کیلئے ماضی میں اکابرین کا طریقہ یہ رہا ہے کہ انہیں جب کبھی معلوم ہوتاکہ فلاں جگہ کوئی نبوت یا مہدویت کا خودساختہ دعویدارپیداہوا ہے اوراس کی شرارت کے زیر اثر کچھ سادہ لوح مسلمان گمراہ ہوگئے ہیں تواکابرین اس خبر کوسن کر خاموشی کے ساتھ اس جگہ پہنچتے اور لوگوں کو سمجھا بجھا کر گمراہی سے بچالیتے ،البتہ اگر کوئی جھوٹی نبوت ومہدویت کا دعویداریا اس کا مبلغ وہاں مل جاتا تو اس سے مناظرہ کرکے عوام کے سامنے ہی ہمارے اکابرین اس کو ذلیل وخوار اور بے زبان کردیتے۔ اس نوعیت کے گزشتہ فتنوں کے واقعات بتاتے ہیں کہ اس کا شکار بننے والے زیادہ تر لوگ دینی علوم اور اسلامی ماحول سے نابلدعصری دانش گاہوں کے طلبا اور عوام الناس رہے ہیں۔ شاہ عالم گورکھ پوری نے اپنی اسی تحریر میں لکھا ہے کہ۔۔۔
’’دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ ان فتنوں کا شکار ہونے والے اچھے خاصے پڑھے لکھے دانشور ہوتے ہیں،وہ سوجھ بوجھ والے بھی ہوتے ہیں،مگرخداجانے ان کی دانشوری کہاں کھوجاتی ہے جو اپنے ماسبق جھوٹے مدعیان کی موت وزیست ،شکست وریخت سے سبق حاصل نہیں کرتے اور آسانی سے نئے نئے فن کاروں کے ہاتھوں ایمان بیچ بیٹھتے ہیں‘‘۔ (صفحہ12)
فتنۂ شکیلیت کی تفصیل بتاتے ہوئے شاہ عالم گورکھ پوری نے لکھاہے کہ۔۔۔۔۔
’’ایک صاحب شکیل بن حنیف ‘‘ نامی دربھنگہ بہارسے دعوئ مہدویت و مسیحیت کے میدان میں آٹپکے۔(یہاں بھی ایک غلوکیا گیا ہے ۔ذلیل شکیل نے مہدویت کا دعویٰ کیاہے مسیحیت کا نہیں کیا) کذب و افتراء میں یہ صاحب کس قدر چھوٹے یا کس قدر بڑے ہیں یہ تو وقت بتائے گا، مگر دعاوی میں ان کی بتدریج شاطرانہ چال اور خفیف العقلی بتا تی ہے کہ یہ بھی کچھ گل کھلانے والے ہیں۔ ان کے دعاوی ،ماقبل کے مدعیان سے بالکل جداگانہ اور اپنے اندر مکر وفریب کا نیا انداز رکھتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ شکل کے کانے (خیال رہے کہ کوئی بھی مخلوق شکل کی کانی نہیں ہوتی آنکھ سے کانی ہوتی ہے،خدا جانے مجلس ختم نبوت کی کیا مصلحت ہے کہ اس نے ایسے لوگوں کویہ نازک ذمہ داری دی ہوئی ہے جس کیلئے علمی عبقریت کے علاوہ بلاغت اورزبان کی مکمل مہارت نہایت ضروری ہے،خلاق دوعالم نے اپنے پیغمبروں کواسی لئے افصح البیان بناکرمبعوث فرمایے تھے،یہاں تو اردومحاورہ کی معمولی جانکاری سے بھی موصوف بالکل ناآشنا معلوم ہوتے ہیں)اور عقل کے اندھے مرزا قادیانی جیسوں کے پیروکار ہوسکتے ہیں تو ان کی جھولی میں دوچار بدنصیب پڑجائیں تو کس بات پر حیرت کی جایے۔ہاں حیرت اور افسوس ان مسلمانوں پر ضرور ہے جو ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کیلئے اپنی اولاد کو دینی عقائد و تعلیمات سے جاہل رکھتے ہیں(میرے خیال سے ان گم کردہ راہ خانوادوں کے سادہ لوح طلباء کے ایمان وعقا ئد کے تحفظ کے فرائض بھی مجلس ختم نبوت کو ادا کرنے چاہئیں،جیساکہ اس کے اغراض مقاصدمیں ہی درج ہے) دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ ایسے نوجو انوں کا طبقہ دنیاوی تعلیم میں تو آسما ن پر کمندیں ڈالنے وا لا ہوتا ہے، لیکن دینی مزاج و تعلیم سے بیگا نگی کے سبب پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بڑی آسانی سے کہیں مرزا قا دیانی کا اور کہیں شکیل بن حنیف کا پیرو کا ر بن کر جہنم کا ایندھن بن رہا ہے۔‘‘ (صفحہ14 )
نوٹ: مندرجہ بالا حوالہ جات میں بریکیٹ کے اندر دیے گئے تبصرے میرے ذاتی ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جھوٹے مدعیان مہدویت و نبوت کے دعویداروں کے دام فریب میں آنے والے سادہ لوح اور دینی تعلیم سے ناواقف عوام اور طلباء کو کیسے بچایا جایے۔کیا اصول دعوت اور علم بلاغت سے کورے ائمہ مساجد اور اخبارات میں چھپنے کی شہرت کے بھوکے ’’مجلس ختم نبوت ‘‘کے نام نہاد سپہ سالاران کی جذباتی تقریریں اس فتنہ کاراستہ روک سکتی ہیں؟
کیا اس بات کی ہمیں اجازت ہے کہ کسی جماعت کے مٹھی بھر انپڑھ اور سادہ لوح افراد کے اس فتنہ کا شکار ہونے کی وجہ سے پوری جماعت کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا جائے اور کیا اس طریقہ سے اس فتنہ کا سد باب ممکن ہے؟
میں نے مذکورہ بالا سوالات اس لئے اٹھایے ہیں کہ دوروز قبل ایک پورٹل پر شکیل بن حنیف کے تعلق سے ایک خبر شائع کی گئی ہے جس میں درپردہ مولانا الیاس کاندھلوی قدس اللہ سرہ کی تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے ،بلکہ اس کو ساری دنیا کی نگاہوں میں مطعون کرنے کی شرارت کی گئی ہے۔کسی دانشمند کا ایک معروف قول ہے کہ ’’جب کسی فرد یا جماعت پر ابتلاء و آزمائش شروع ہوتی ہے توسایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے‘‘۔ چونکہ مولانا زبیر صاحب مرحوم کی رحلت کے بعد تبلیغی جماعت میں اندرونی طور پر خلفشار جاری ہے ۔ایسے میں کچھ اسلام دشمن عناصر اس کوشش میں لگ گئے ہیں کہ کسی طرح بھی دعوت واصلاح امت کا یہ مہتم بالشان کام بندہوجایے،لیکن مجھے رب کی ذات سے پورا یقین ہے کہ ان شیطانی کوششوں سے یہ اصلاحِ اعمال کا نیک سفر ان شاء اللہ کسی قیمت پر نہیں رکے گا۔
’’ پھونکوں سے یہ چراغ بجھا یا نہ جائے گا‘‘
شاہ عالم گورکھپوری نے بھی اس فتنہ انگیز مقالہ میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ مردود شکیل بن حنیف پہلے تبلیغی جماعت سے ہی وابستہ تھا اورسب سے پہلے اس نے اپنے فریب کا شکار تبلیغی جماعت کے سادہ لوح رضاکاروں کو ہی بنایا تھا۔
دوبرس پہلے ذاکر نگرکی ایک مسجد کے امام صاحب نے بھی اس فتنہ کیخلاف ایک سیریل شروع کی تھی اور بڑے ہی متکبرانہ انداز میں اپنی جمعہ کی تقریر میں فرمایا کرتے تھے کہ اس شیطان کے چیلے مردود شکیل بن حنیف کا تعلق ضلع دربھنگہ بہار سے ہے۔یعنی بادی النظر میں ان کی تقریر کا لب و لباب یہ تھا کہ اس گناہ کیلئے سارادربھنگہ ضلع ذمہ دارہے۔اسلامی تاریخ سے ناواقف امام صاحب کو یہ بات شاید معلوم نہ ہوکہ فتاویٰ ہندیہ کے مدونین میں دربھنگہ کے ہی ملا موہن بہاری اورملاجمیل رحمہم اللہ شامل تھے۔ابھی ماضی قریب میں دار فانی کو الوداع کہنے والے اسلام کے بطل جلیل فقیہ الاسلام قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمہ اللہ وغیرہم نے بھی اسی سرزمین دربھنگہ میں آنکھیں کھولی تھیں۔کیااگر کوئی بدقماش مکہ المکرمہ میں جنم لے اورمحسن انسانیت ﷺ کی نبوت سے انحراف کا اعلان کردے تو اس کیلئے بلد الامین کو ہی قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟
سنا ہے کہ تبلیغی جماعت کے کچھ مخیرین اس منصوبہ بند سازشی خبرکو شائع کرنے والے پورٹل اور اس کے چلانے والے مالک کے خلاف عدالت جانے کی تیاری کررہے ہیں۔اب ذرااس خبر کو ایک بار آپ پڑھ لیجئے کہ’نقل کفر کفرنہ باشد‘۔۔۔۔
’’مہد ی مسیح ہونے کا دعوی کرنے والے شکیل بن حنیف کا فتنہ مسلسل بڑھتا جارہاہے ،ملت ٹائمز کو معتبر ذرائع سے ملی خبروں کے مطابق ہندوستان بھر میں اب تک 10 ہزار سے زائد مسلمان اس فتنہ کے شکار ہوکر مرتد ہوچکے ہیں ،بہار ،یوپی اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستیں سب سے زیادہ متاثر ہیں ،ا س پورے معاملے میں چونکانے والی رپوٹ یہ ہے کہ مرتد ہونے والوں میں 80 فیصد تعداد تبلیغی جماعت سے وابستہ رہ چکے افراد کی ہے‘‘۔ (شائع کردہ ملت ٹائمز پورٹل)
اگر میراصحافتی علم درست ہے تو میں پوچھ سکتاہوں کہ اس معتبر ذرائع کو حذف کیوں کیا گیا،یہاں معاملہ چونکہ دین و ایمان کا ہے ،لہذا صرف ذرائع کہہ کر آپ اپنیگردن نہیں بچاسکتے۔اسی طرح اعداد وشمار پر مربوط جو تعداد آپ نے بتائی ہے یہ سروے کس ایجنسی یا تنظیم کے ذریعہ کرائی گئی ہے یہ بتا نا بھی قانونی طور پر آپ کیلئے ضروری ہے،ورنہ آپ آئین ہند کی کئی دفعات کے تحت جیل کی ہوا کھا سکتے ہیں اور اللہ کے یہاں جہنم کی آگ بھی آپ کی منتظر ہے۔یہ بات خود قران کریم کہتا ہے کہ جھوٹوں کی جگہ جہنم ہے۔
مذکورہ خبر کا بین السطور یہ واضح کررہا ہے کہ کسی منظم سازش کے تحت تبلیغی جماعت کی شبیہ کو بگاڑنے ،بلکہ اصلاح کے اس تاریخی عمل کو نیست و نابود کرنے کی پہلی بار تحریری کوشش کی گئی ہے۔میں نے پہلے ہی لکھا ہے کہ کسی بھی جماعت کے مٹھی بھر لوگوں اوروہ بھی ایسے لوگ جو عالم دین یا علم دین کے متبحر نہیں ہیں، ایسے چند لوگوں کے بہک جانے کی وجہ سے پوری جماعت کوہی رڈار پر لینا جائز نہیں ہوسکتا۔
جو لوگ مساجد میں لچھے دار تقریریں کرکے یا تحریروں اور اخباری بیانات کے ذریعہ اس فتنہ کی سرکوبی کرنا چاہ رہے ہیں، انہیں یہ بات جان لینی چاہئے کہ اس سے نیم شعور پڑھے لکھے طبقہ خاص طور پر عصری علوم کے طلباء میں تجسس بڑھے گا وہ اس فتنہ کو الٹنے پلٹنے کی نادانی کر بیٹھیں گے اور یہیں سے وہ اپنا ایمان بھی ضائع کرسکتے ہیں۔ماہرین بلاغت نے واضح کیا ہے کہ کسی فتنہ کو آگے بڑھانے کیلئے یہی ضروری نہیں ہے کہ اس کا ساتھ ہی دیا جایے، بلکہ اس فتنہ کیخلاف علم دین سے ناواقف اور عصری علوم کے خوشہ چینوں کے درمیان اس فتنہ کیخلاف لچھے دار تقریر کرنا بھی نادانستہ طور پر اس فتنہ کو طاقت پہنچانے کا سبب بنتاہے۔حاصل کلام یہ ہے کہ ہادی عالم ﷺ نے اس قسم کے فتنوں سے پہلے ہی آگاہ فرمایا ہے اوراس سے امت کو محفوظ رکھنے کے طریقے بھی بیان کئے ہیں ۔ہم اسی مسنون طریقے سے کام کرکے ہی اس ناپاک فتنہ سے امت کو بچاسکتے ہیں۔شیخ سعدی شیرازی مرحوم نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔۔۔۔
ترسم کہ بہ کعبہ نہ رسی اے اعرابی
کیں رہ کہ تومی روی بہ ترکستان ست
اللہ ہم سب کے دین وایمان کی حفاظت فرمایے ۔آمین۔
[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں