ڈاکٹر میم ضاد فضلی
آج پوری دُنیا عالمی یوم صحت (ورلڈہیلتھ ڈے)منارہیہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی زیر سرپرستی ”عالمی یوم صحت”ہندوستان میں بھی منا یا جا رہا ہے ۔1948ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنا ئزیشن نے 7اپریل کو اپنے کام کا آغازکیا تھا۔ اس دن WHOکی بنیا د رکھی گئی ۔اُسی سال پہلی بار ” ورلڈ ہیلتھ اسمبلی ”کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس اسمبلی نے فیصلہ کیا تھا کہ 1950سے ہر سال 7اپریل کا دن ورلڈ ہیلتھ ڈ ے کی حیثیت سے منایا جایا کرے گا۔جب سے ہی ہر سال ورلڈ ہیلتھ ڈے کا انعقاد WHOکے افتتاح، یعنی فاؤ نڈیشن رکھنے کی یاد تازہ کراتا ہے اور اُس دن کو ایک بہترین موقع تصورکیا جا تا ہے، اس دن کے ہر سال موقع اور حالات کی مناسبت سے تمام دُنیا کی توجہ عالمی صحت کو لاحق کسی ایک انتہائی اہم ایشو کی طرف دلوائی جاتی ہے۔ اُس خاص مو ضوع پر WHO اس دن بین ا لاقوامی ، علاقائی اور مقامی فنکشنز اور ایوینٹس کا انعقاد کراتی ہے ۔تمام دُنیا کی اقوام ، ان کی حکومتیں اور بین ا لاقوامی اور مقامی NGO’s عوامی صحت کے معاملے کی بہتری کے لئے اس خاص موضوع پر مختلف سرگرمیاں اور تقاریب کا انعقاد کرتی ہیں۔کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آج اربوں روپے میڈیکل شعبے میں ہونے والی تحقیق، تعلیم و تربیت اور ساتھ ہی مختلف اداروں، اسپتالوں اور میڈیکل سائنس کے دیگر شعبے میں کام کرنے والے افراد پر خرچ ہو رہے ہیں، مگر ان کے باوجود ہمارے ملک میں صحت عامہ کا مسئلہ گھمبیراور افسوسناک صورتِ حال اختیار کر چکا ہے ۔
دسمبر 2019 میں ریاست گجرات کے احمد آباد اور راجکوٹ کے سول اسپتالوں میں 199 بچوں کی موت ہوگئی۔ اسی مہینے میں کوٹہ (راجستھان) کے ضلع اسپتال میں زیر علاج ایک سو بچے زندگی کی جنگ ہار گئے۔ اگست 2017 میں اترپردیش کے گورکھپور بی آر ڈی میڈیکل کالج میں چھ ماہ کے درمیان 10,49 بچے فوت ہوگئے۔ ان میں انسیفلائٹس والے 73 بچے بھی شامل ہیں۔ اس عرصے میں سب سے زیادہ 681
بچوں کی موت NICU (نیونیٹل انٹنسیو کیئر یونٹ) میں ہوئی۔ یہ تمام بچے انفیکشنز،سانس کی دشواری، کم وزن وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ اسی طرح 18جون 2019 کو بہار کے مظفر پور میں 108 بچے فوت ہوگئے تھے۔ چمکی بخار جسے میڈیکل سائنس کی اصطلاح میں Acute Encephalitis Syndrome کہاجاتا ہے یہی بیماری اموات کی وجہ بنی تھی، اس سے بہارکے 12 اضلاع متاثر تھے، حالاں کہ اس وقت دعویٰ کیا گیا تھا کہ مرکزی حکومت سے لے کر ریاستی حکومت تک اس بیماری کی روک تھام اور بیمار بچوں کے علاج میں پوری طاقت جھونک چکی ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر جانب سے شدید تنقید اور حزب اختلاف کے ذریعہ نتیش کمار کے خلاف احتجاج کے باوجود انہوں نے بچوں کی موت کے اس کارخانے میں قدم رکھنے کی زحمت نہیں کی، بالآخر سیکڑوں بچوں کی موت کے بعد جب عوام کا غصہ پھوٹا اور کافی تھوتھو ہونے لگی تو مجبوراً نتیش کمار مظفرپور میں قدم رنجہ ہوئے۔ خیال رہے چمکی بخار سے ہلاک ہونے والوں میں 29 بچوں کی عمر تین سال سے بھی کم تھی۔ بہار میں بھی اتر پردیش کی طرح بچوں کی موت کی اہم وجہ غذائیت کی کمی، بخار اور بلڈ شوگر کا یکایک کم ہوجانا بتایا گیا تھا۔ جبکہ اتر پردیش میں آکسیجن کی فراہمی نہ ہونے کے سبب بچوں کی موتیں ہوئی تھیں۔ کوٹا کے جے کے لون اسپتال میں ہونے والی اموات کے متعلق بتایا گیا تھا کہ 2017 سے ہی اسپتال کے انتظامی عہدیداروں میں اختیارات کی جنگ ان اموات کا اہم سبب بنی ہے۔ جبکہ گجرات کے وزیر صحت نے اس دوران ایک بیان دیا تھا کہ بچے کی اموات اس لیے ہو رہی ہیں کہ ماؤں کے غیر صحت مند ہونے کی وجہ سے کم وزن والے بچے پیدا ہو رہے ہیں اور موت کا شکار ہورہے ہیں۔
ایسا بھی نہیں ہے غریب حاملہ خواتین اور ماؤں کی مدد کے لیے کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ یہاں عرصے سے ”پردھان منتری ماتریتوا یوجنا” Prime Minister Maternity benefit scheme موجود ہے اور نریندر مودی ملک میں چھاتی ٹھوک کر بے شرمی کے ساتھ اس کی جھوٹی تشہیر بھی کرتے رہتے ہیں۔ حالاں کہ اس منصوبہ کے تحت مدد لینا اس قدر پیچیدہ ہے غریب طبقات سلم ایریاز اور گاؤں دیہات کی ؑورتیں اس کا فائدہ لے ہی نہیں سکتیں۔ منصوبہ میں موجود پیچید گیوں کے نتیجے میں ایک مجبور و بے بس زچہ یا ماں کے لیے اسکیم کا فائدہ حاصل کرنا اتنا ہی ناممکن یے جتنا نریندر مودی کے لیے ساڑھے تین ماہ سے مسلسل احتجاج کررہے کسانوں کے پاس جانا ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں ابھی محض 12 فیصد مستحق خواتین ہی اس کا فائدہ اٹھا سکی ہیں۔ دہلی کو چھوڑ کر شاید ملک کی چند ہی ایسی ریاستیں ہوں گی، جہاں کے ضلع اسپتالوں میں لازمی اور اہم دوائیں فراہم ہوں ، جب کہ پرائمری ہیلتھ سینٹرز اور دیہی علاقوں کے صحت مراکز میں مفت دوا فراہمی کا تصور بھی محال ہے۔ دواؤں کی فراہمی تو دور کی بات ہے یہاں تو ذیلی صحت مراکز، پرائمری ہیلتھ سینٹر حتی کہ ضلع اپستالوں میں بھی ڈاکٹروں اور طبی عملہ کو حرام کی تنخواہ لینے اوراپنے نجی کلینک پر غریبوں کی جیبیں لوٹنے میں زیادہ دل چسپی ہے۔
دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک اپنے بجٹ کا وافر حصہ صحت کے لیے مختص کرتے ہیں ، وہ ممالک اوسطاً اپنی جی ڈی پی کا 6 فیصد صحت پر خرچ کرتے ہیں، جب کہ”اچھا دن” لانے والے نریندر مودی نے اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی ہیلتھ بجٹ پر قینچی چلانی شروع کردی۔ ہندوستان اپنی جی ڈی پی کا فقظ ایک فیصد ہی صحت پر خرچ کرتا ہے۔ یہاں سارا زور صحت خدمات کے انسورنس پر صرف کیا جارہا ہے۔ اس کامقصد غریب و مزدور طبقہ کو فائدہ پہنچانا کم ،بلکہ مودی اپنی پارٹی کو الکٹورل بانڈ کی شکل میں اربوں کی کالی دولت دینے والے کارپوریٹ آقاؤں کو راست فائدہ پہنچانا وزیر اعظم کا اصل ہدف ہے۔
سرکاری سطح پر عوام کی صحت کا مسئلہ سلجھانے کے لئے بار ہا پروگراموں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں میڈیکل اداروں اوراسپتالوں کی شکل میں بھی بہت سی سہولتیں موجود ہیں۔ مگر اس کے باوجود سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ان سہولتوں اور پروگراموں کا صحیح استعمال بھی سامنے آرہا ہے یا نہیں۔ میری نظر میں ان کے صحیح استعمال کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو باقاعدہ طور پر صحت کی بنیادی تعلیم فراہم کی جائے۔ معاشرے کے عام افراد کو اس بات کی تعلیم و تربیت دی جائے کہ وہ ان سب سہولتوں اور میڈیکل اداروں سے کس طرح فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور انہیں اس بات کا بھی صحیح ادراک ہونا چاہئے کہ وہ معاشرے کی صحت کے بارے میں ہونے والی اجتماعی اور اصلاحی کوششوں میں کس طرح شریک ہو سکتے ہیں۔ اس تعلیم و تربیت کے لئے صحت سے متعلق کورسوں، سیمیناروں، جلسوں، ورکشاپوں اور آزادانہ دستیاب مطالعہ کی جتنی ضرورت اور اہمیت اب اس دور میں ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔
جتنا کثیر سرمایہ بنیادی مراکز صحت، تحصیل اور ضلع اسپتالوں اور دیگر اقسام کے مراکز صحت اور انفراسٹر کچر کی تعمیر و ترقی پر لگایا جاتا ہے۔ اس سے کچھ کم مقدار کا سرمایہ بھی اگر صحت کی بنیادی تعلیم پر خرچ کر دیا جائے تو یہ اسپتال اور کلینک چاہے سرکاری ہوں یا پرائیویٹ سب ویران ہو جائیں گے اور میں بالکل غلط نہیں کہوں گا کہ یہی ہم سب کا خواب ہونا چاہئے۔افسوس تو یہ ہے کہ اطلاعاتی تکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی اس نازک موضوع پر کوئی غور خوض نہیں کیا گیا۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ جتنا موثر اور طاقتور ذریعہ اطلاعات اور نشریات ٹیلی ویژن، کمپیوٹر نیٹ ورک اور سینما وغیرہ ہے اتنا کوئی اور میڈیا نہیں۔ جب ہم روزانہ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے پروگرام دیکھتے ہیں تو یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے ٹی وی چینلز صحت عامہ کے پروگرام اور ہیلتھ ایجوکیشن کے سلسلے سے یکسر محروم ہیں۔
ایسے میں جبکہ پورےملک میں ہیلتھ ایجوکیشن کا سرے سے فقدان ہے تو ٹی وی پر ایسی کمی کا احساس بہت شدید ہو جاتا ہے۔عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کے مطابق معاشرے میں افراد کو انفرادی یا اجتماعی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ انہیں صحت سے متعلق منصوبوں اور ان پر عمل درآمد میں شریک کیا جائے ۔صحت عامہ کو دنیا کے تمام حصوں میں مسائل کا سامنا ہے کسی جگہ اس کو کم مسائل اور کئی جگہوں پر بہت زیادہ مسائل اور دشواریوں کا سامنا ہے۔ اس طرح سے ہندوستان میں بھی صحت عامہ کی حالت انتہائی خراب ہے۔
گزشتہ برس 2020 کے آغاز سے ہی کوویڈ 19 کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ہندوستان سر فہرست ہے۔ لیکن صحت کے شعبے میں جو رقم مہیا کرائی گئی وہ جنگ زدہ ملک افغانستان کے برابر ہے۔ وہ ایسا تب ہوا ہے جب کووڈ 19 کی وبا پھیلنے کے بعد صحت کے بجٹ میں قدرے اضافہ کیا گیا ہے، ورنہ ہیلتھ پر اس سے پہلے تو افغانستان سے کم خرچ جاتا تھا۔ اس وقت دونوں ممالک یعنی ہند و افغانستان صحت پر اپنے کل بجٹ کا 4 فیصد خرچ کرتے ہیں ، جبکہ اس کا تناسب 15 فیصد ہونا چاہئے۔ دنیا کا دوسرا غریب ترین ملک برونڈی صحت پر ہم سے تین گنا زیادہ خرچ کرتا ہے۔ بین الاقوامی خیراتی ادارہ آکسفیم کے 2020 میں شائع کیے گئے Commitment to Reducing Inequality Index 2020’ میں یہ انکشاف ہوا ہے۔
یہ سروے دنیا بھر کے 158 ممالک میں کیا گیا تھا اور ان میں سے صرف 26 ممالک اپنے بجٹ 15 فیصد صحت پر خرچ کرتے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان نے صحت پر اپنے کل بجٹ کا 4 فیصد سے بھی کم خرچ کیا اور ہیلتھ اسپینڈنگ انڈیکس میں 158 ممالک میں سے 155 ویں نمبر پر ہے۔ ہندوستان کا صحت بجٹ دنیا میں چوتھا سب سے مختصر یعنی اونٹ کے منہ زیرہ جیسا بجٹ ہے۔ یہاں تک کہ انتہائی ضروری صحت خدمات بھی ملک بھر کی صرف آدھی آبادی آدھی آبادی کو میسر ہے۔
عالمی بینک کے ڈیٹا بیس کے مطابق 2017 میں ہونے والے سرکاری اخراجات میں 206 ممالک کی فہرست میں پاکستان کی حالت ہندوستان سے بہتر تھی جو 13 ویں مقام پر تھا۔ ہندوستان نے اس عرصے میں صحت پر اپنے کل بجٹ کا 3.4 فیصد ہی خرچ کیا۔اب ذیل میں وہ ضروری نکات بیان کیے جاتے ہیں جس پر قابو پانے کے حکومت کے ساتھ عوام کو آگے آنا ہوگا۔ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی(Polution)،بے لگام اور خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی عطائیت(Quackery) عوام الناس میں صحت عامہ کے متعلق تعلیم و تربیت(Health Education)کی شدید کمی۔اشیاء خوردونوش میں بڑھتی ہوئی خطرناک ملاوٹ (Adulteration) ۔ملک میں ہر سوپھیلے ہوئے خطرناک اور لاعلاج متعدی امراض(Infections)۔حکومت کی طرف سے مہیا کردہ عامیانہ طرز کی اور صحت کے متعلق اور خاص قسم کی سہولیات تک عام انسانوں کی رسائی میں کمی۔طب و صحت کے متعلق ڈاکٹر حضرات اور دیگر اہل کارو ں میں پیشہ وارانہ جذبے کی انتہائی کمی۔ہمارے ہاں بننے والی ناقص کوالٹی کی تیار کردہ اور جعلی ادویات۔ہندوستان میں دن بدن بڑھنے والے خطرناک موذی اور اپاہج کر دینے والی بیماریاں۔ملک بھر میں آج اس ’’عالمی یو م صحت ‘‘ کے موقع پر ایسے سیمینار ، ورکشاپس اور دیگر ایونٹس کا بھر پور اور ہر پیمانے پر انتظام ہونا چاہئے۔جس میں ہرہندوستانی تک صحت کو لاحق تمام مسائل اور دیگر ہر طرح کی بیماریوں کے موضوع پر علم وآگہی کو پہنچا یاجائے۔ تاکہ عوام اس قابل ہو سکیں کہ خود کو صحت مند، اپنے خاندان کو صحت مند ، معاشرے کو صحت مند اور ماحول کو صحت مند بنانے کے سلسلے میں صحیح فیصلہ کر سکیں۔ اورمناسب اقدام اٹھانے کے قابل ہو سکیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں