عبدالعزیز
کلکتہ کے ایک صحافی نے بہت پہلے کہا تھا کہ اگر قیادت کام نہیں کرتی تو صحافت کو آگے آنا چاہئے۔ وہ صاحب آگے ضرور آئے مگر نہ صحافت کا فرض انجام دے سکے اور نہ قیادت کی سوجھ بوجھ ان میں کبھی پیدا ہوئی ، وہ کشکول لئے مدتوں پھرتے رہے۔ ان کی صحافت بھی مسلمانوں کیلئے بے اثر رہی اور قیادت کا وزن تو کبھی پیدا ہی نہیں ہوا۔میرے خیال سے کوئی ایسے صحافی بھی نہیں تھے کہ یہ بات سوچ سمجھ کر کہی تھی، بس صحافت اور قیادت کا قافیہ ملتا جلتا ہے۔ سننے میں بھی اچھا لگتا ہے، اس لئے کہہ دیا ہوگا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ انھوں نے کبھی اس مسئلہ میں کچھ لکھا بھی نہیں کیونکہ یہ بھی ان کے بس کی بات نہ تھی۔
اردو صحافت کا ماضی بہت شاندار ہے۔ شاید ہندستان میں کسی اور زبان کا ماضی اس قدر شاندار نہیں ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، مولانا فار قلیط اور مولانا محمد مسلم یہ سب کے سب صحافی بھی تھے اور قائد بھی تھے۔ یہ سب کے سب اچھے صحافی اور اچھے قائد ثابت ہوئے۔ صحافت اور ملت دونوں کو انھوں نے اپنی ذات سے فائدہ پہنچایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ کوئی پیشہ ور صحافی (Professional Journalist) نہ تھے۔ جن کے نام گنائے ہیں ان کے علاوہ بھی اچھے صحافی گزرے ہیں۔ اس وقت جو نام میرے ذہن میں آیا لکھ دیا۔
مولانا فار قلیط ”الجمعیة“کے ایڈیٹر تھے اور مولانا محمد مسلم ”دعوت“ کے ایڈیٹر تھے۔ شومئی قسمت کہئے کہ ان دونوں سے میری ملاقات تھی۔ سید حامد مرحوم کہا کرتے تھے کہ ”اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ صحافی کیسا ہونا چاہئے تو میں بلا تکلف اور بلا توقف کہہ دوں گا کہ مولانا محمد سلم جیسا صحافی ہونا چاہئے“۔
مولانا محمد مسلم نے صحافت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے ملی رہنماو¿ں سے قریبی ربط ضبط رکھا۔ مولانا علی میاں، مولانا عتیق الرحمن عثمانی، مولانا ابواللیث ندوی اور مولانا قاری طیب، ڈاکٹر سید محمود، مولانا منظور نعمانی، ڈاکٹر جلیل فریدی سے ذاتی تعلق بڑھایا۔ ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر لکھنو¿ میں 1964ءمیں جمع کرنے میں کامیاب ہوئے جس کے نتیجہ میں کل ہند مسلم مجلس مشاورت وجود میں آئی۔ اسی مجلس کے طفیل 1974ءمیں آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کا وجود عمل میں آیا۔
لکھنو¿ میں 1974ءمیں آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس تھی۔ مولانا فار قلیط صاحب سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے بغل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہاکہ ”میں جس خیال اور ذہن کا ہون مجھے ایسی مجلسوں میں نہیں آنا چاہئے کیونکہ صحافت نے اب ایسی دنیا میں قدم رکھا ہے جہاں مال و زر کی قیمت ہے۔ انسان اور انسانیت کی قیمت گھٹ گئی ہے“۔ جگر مراد آبادی نے سچ کہا ہے
جہل خرد نے کیا دن دکھلائے …. گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
مولانا فار قلیط نے زندگی کے آخری لمحوں تک حق گوئی اور بیباکی کا مظاہرہ کیا جس جماعت سے اس اخبار کا تعلق تھا اس کی پالیسیوں کو بھی غلط سمجھتے تو خاطر میں نہیں لاتے۔
اب صحافت اور صحافی دونوں بدل چکے ہیں۔ صحافت سے اب کوئی بڑا کام لینا محال ہے کیونکہ جب ایثار اور قربانی کا دور ختم ہوجاتا ہے تو کاسہ لیسی کا دور شروع ہوجاتا ہے۔ صحافت مکمل طور پر تجارت کا روپ اختیار کرلیتی ہے۔ اس سے قیادت کا کام تو دور کی بات ہے ڈھنگ کی صحافت بھی ممکن نہیں۔ ہر چیز ایک رسم بن کر رہ جاتی ہے۔ رسم اذاں ہوتی ہے مگر روح بلالی کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہوتا۔ سیاست اور فلسفہ سب کچھ ہوتا ہے مگر تلقین غزالی نہیں ہوتی۔ دنیا میں مسلم ممالک کے بہت سے وفاقی ادارے ہیں مسلم لیگ آف نیشن، رابطہ عالمی کانفرنس ان سب کے بارے میں لکھا جاتا ہے کہ یہ بہت کچھ ہیں اور کچھ بھی نہیں ہیں۔ اسی طرح آج اردو صحافت بہت کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسی بات کیوں ہے اسے اگر ایک جملہ میں لکھا جائے تو یہ لکھا جاسکتا ہے کہ جب انسان دوسروں کا دست نگر ہوتا ہے تو اس کی زبان اور قلم پر تالا لگا ہوتا ہے۔ وہ بہت کچھ ہوکے بھی کچھ نہیں ہوتا۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں