العلم علمان ، علم الابدان و علم الادیان !
سچ بول دوں ۔۔۔۔۔ میم ضاد فضلی
العلم تو دو علوم کے ملنے سے بنتا ہے ،The knowledge of physical Sciences اورThe knowledge of normative Sciences’’ جس طرح پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملنے سے بنتاہے، دونوں الگ الگ ہوں تو صرف علم رہ جاتے ہیں،، جس طرح آکسیجن اور ہائیڈروجن الگ الگ ہوں تو صرف گیسز ہی کہلاتی ہیں ،پانی نہیں کہلاتیں !
بدر کے 70 قیدیوں کا مجمع سامنے سر جھکائے بیٹھا ہے ،، ان کی قسمت کا فیصلہ ہونے جا رہاہے۔ یہ سب جنگی قیدی نہیں، بلکہ جنگی مجرم War criminals ہیں، اللہ کے رسولؐ نے فیصلہ سنایا کہ فلاں فلاں سے تو فدیہ لیا جائے گا ،البتہ جو لوگ پڑھے لکھے ہیں ان سے مالی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا ،، وہ ہمیں وقت اور صلاحیت فدیے میں دیں اور ہمارے دس بچوں یا بڑوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں گے ،، جس دن ہمارے بچوں نے پڑھنے لکھنے کا مظاہرہ کر دیا اگلے دن وہ آزادہو گا !
صرف اس ایک واقعے سے آپ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے محبت کا اندازہ کر سکتے ہیں اور تعلیم بھی وہ جسے آج کل دنیاوی تعلیم کہہ کر حقیر جانا جاتا ہے اور اسے شک اور نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ، آخر مکے کے مشرک اور کافر مدینے کے بچوں اور بڑوں کو کوئی قرآن و حدیث تو نہیں پڑھا رہے تھے ،، پھر آج اس علم کو دین اور دنیا کی تقسیم کے نام پر کیوں غیر مقدس سمجھا جاتا ہے ؟
علم تو علم ہے، اس کا استعمال دینی اور دنیاوی دونوں مقاصد کے لئے کیا جا سکتا ہے،،جو دنیاوی علم کے نام سے ڈاکٹر بنتے ہیں چاہیں تو اس علم کو روٹی کمانے کے ساتھ انسانیت کی خدمت کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں، اور جو اس کو دین کے نام پر آٹھ دس سال لگا کر حاصل کرتے ہیں وہ بھی آخر روٹی ہی کماتے ہیں، اگرچہ اسے دینی ضرورتوں کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں،، سارے حافظ بن کر مسجدوں میں بھی نہیں بیٹھ سکتے،،پھر نہ صرف معاشرے کی دیگر ضرورتیں پوری نہیں ہونگی بلکہ حافظوں کو تنخواہ دینے والے اور مساجد تعمیر کرنے والے بھی نہیں ملیں گے،یہ بڑی بڑی درسگاہیں اور جامعات دنیا داروں کے سر پر چل رہی ہیں،، شیخ الحدیثوں کے سر پر نہیں،، اس لئے علم کی دینی اور دنیاوی تقسیم کر کے ایک طبقے کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنا اور دوسرے کو ھِز ھولی نیس بنا دینا درست نہیں،، دونوں اللہ کی رضا و مشیئت کو پورا کرتے ہیں،، اب آپ اپنے بچے کی صلاحیت دیکھیں اور اس کے مطابق استعمال کریں،، آج کی دنیاوی تعلیم پرانے زمانے کی طرح نہیں ہے،بلکہ بہت جان مار اورہمہ جہتی اورہمہ وقتی کام ہے،، بچہ اسکول پڑھے گا تو بہت مشکل سے اسکول کو ہی کور کر سکے گا،، آدھا یہ آدھا وہ کرنے کا زمانہ گزر گیا،، آج کل گریجویشن کل کے مڈل اور میٹرک کے برابر ہے،، قرآن حفظ کرنا فرض نہیں، البتہ اس پر عمل کرنا فرض ہے، تعلیم گھر سے شروع ہوتی ہے اور پیداہوتے ہی بچہ سیکھنا شروع کر دیتا ہے،، یاد رکھئے سچ کتابوں میں پڑھا کر نہیں سکھایا جا سکتا، سچ بول کر سکھانے چیز ہے، بچہ پیدا ہوتے ہی والدین کو سمارٹ ہو جانا چاہئے اور اپنی بری عادات ختم کر دینی چاہئیں،، اگر اپ چاہتے ہیں کہ بچہ سگریٹ نہ پئے تو آپ خود مت پیجئے ،بچہ بھی نہیں پیئے گا، جھوٹ مت بولئے، ایک دوسرے کو گالیاں مت دیجئے،، صلہ رحمی کیجئے،،سسرال کی عزت کیجئے،، والدین کی باتوں کو برداشت کیجئے اور اپنی اولاد کے سامنے انہیں برا مت کہیئے، بچہ گریجوئیٹ ہو جائے تو کسی بھی ادارے سے قرآن کا تین ماہ کا کورس کر لے تو جمعہ جماعت کرانے کے قابل ہو جائے گا اور یوں جاب کے ساتھ ساتھ اس طرف کی صلاحیت بھی بڑھاتا رہے گا،، اپنی روٹی خود کما کر بغیر تنخواہ لئے جو بھی جمعہ پڑھائے گا، بے خوف ہو کر حق بیان کرے گا ،، ورنہ روٹی کی مجبوری اسے حق سے روکے رکھے گی اور وہ صرف دنیا کا بن کر رہ جائے گا، فمثلہ کمثل الکلب، ان تحمل علیہ یلہث او تترکہ یلہث ، غیروں کی روٹی پہ حق کا بیان کتنا مشکل کام ہے یہ وہی جانتے ہیں جو ایک سال میں دس مسجدیں بدلتے ہیں یوں ان کے بچے تعلیم سے بھی محروم رہتے ہیں! دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بچے کو میٹرک کے بعد کسی اچھے سے جامعہ میں ڈال دیں،،اور اسے عالم بننے دیں،مگر پھر بھول جائیں کہ اس سے دنیا کی کمائی کرانی ہے،اس کو کوئی بزنس وغیرہ کرا دینا، جہاں سے اس کی روٹی چلتی رہے،، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جامعات کو خام مال جہاں سے ملتا ہے، وہ ایک ندی کی طرح خود بخود ان کی طرف رواں دواں ہے اور یونیورسٹیوں کو جہاں سے خام مال ملتا ہے ان کی ندی بھی ان کی طرف رواں دواں ہے،، دینی مدارس والے بچے آتے ہی ان گھرانوں سے ہیں جہاں پیاز اور لسی چٹنی کے ساتھ بھی روٹی بخوشی کھا لی جاتی ہے،اور یہی کچھ آج کل مدارس سے نکلنے والوں کو ملتا ہے 99 فیصد،! اب کل ایک بھائی کے بچے پراڈو میں پھریں اور دوسرے کے سائیکل چلائیں تو بھائی ہوتے ہوئے بھی آپس میں رشتے ناتے کرنا مشکل ہو جاتا ہے اوریوں خاندان بھی بکھر جاتا ہے۔ یہ کوئی ایک بچے کا مسئلہ نہیں، بہتر یہ ہے کہ اگر آپ اسے ڈاکٹر یا انجینئر بنا سکتے ہیں تو بنا دیں،، دین کورسز کی صورت سیکھا جا سکتا ہے ! عام طور پر علماء کی جانب سے طنز کیا جاتا ہے کہ پھر جنازہ اور نکاح بھی اسی مولوی سے پڑھاتے ہو،، یا نکاح اور جنازہ بھی بش سے یا ٹونی بلیئر سے پڑھوا لینا ! تو جناب نکاح اور جنازہ دونوں مولوی کے بغیر پڑھائے جا سکتے ہیں، کورٹ میں نکاح ہو سکتا ہے، چاہے جج یا مجسٹریٹ عیسائی یاہندوہی کیوں نہ ہو،، خطبہ نکاح کے فرائض میں سے نہیں اور خطبہ نکاح کا مقصد دونوں میاں بیوی کو ان کے حقوق و فرائض بتانا ہوتا ہے جو کہ لوگ بتاتے ہی نہیں اور عربی پڑھ کر چل دیتے ہیں،، جنازہ وارث کو پڑھانا چاہئے، یعنی بیٹے یا پھر بھائی یا باپ کو ،، عربی میں دعا نہیں آتی تو اللہ کی تعریف اپنی زبان میں بھی کر سکتا ہے،درود نماز والا پڑھ سکتا ہے اور دعا بھی اپنی زبان میں کر سکتا ہے ! مگر پلٹ کر کوئی یہ کہہ دے کہ سرکار پھر آپ بھی مدرسے مفتی فلاں صاحب اور فلاں شیخ الحدیث سے بنوا لینا،، ایک ایک کروڑ کی چھت بھی یہی دنیا دار اور بزنس مین ہی ڈلوا کر دیتے ہیں جن کی دنیا داری کو آپ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،، کہتے ہیں منہ کھائے اور آنکھیں شرمائیں، مگرہمارے ساتھیوں کی آنکھیں بھی نہیں شرماتیں،کہ انہی کے آگے تنخواہ بڑھانے کی درخواست بھی پیش کرتے ہیں اور اپنی مجبوریاں بھی گڑگڑا کر بیان کرتے ہیں، مگر اگلے جمعے ان کے پیچھے بھی لگے ہوتے ہیں،اوپر والاہاتھ نیچے والے ھاتھ سے بہتر ہے،، دین کا علم اور دنیا کا علم بجلی کے نیگیٹیو پازیٹیو تاروں کی طرح ہیں،، دونوں سے دین اور دنیا چل رہے ہیں،اور کوئی ان میں برا نہیں، جس کی صلاحیت بچے میں ہو وہ اس کی پسند اور خواہش پر چھوڑ دیں۔
اس ساری کہانی کے پیچھے ایک غلط فہمی ہے کہ دنیا کمانے کا ہنر سیکھنا ایک گھٹیا کام ہے اور دنیا داری ایک بری بات ہے اور دنیا ایک آلائش ہے، جبکہ یہ قرآن کے خلاف سوچ ہے، قرآن تو مال کو خیر اور اللہ کے فضل سے یاد کرتا ہے،ان ترک خیراً اگر اس نے خیر چھوڑی ہے یعنی مال چھوڑا ہے، اور جمعے کے بعد جاؤ اللہ کا فضل ڈھونڈو،، مال اپنی ذات میں خیرہی خیر ہے البتہ اس کا استعمال اچھا بھی ہے برا بھی ہے، میں جب کہتا ہوں کہ ہمارے مولوی حضرات جب دنیا کی مذمت کچھ زیادہ ہی شد و مد اور بغیر کسی استثناء کے کرتے ہیں وہ اصلاً ایک جذبہ رقابت کے تابع کرتے ہیں،کہ چونکہ ہمیں نہیں ملی اس لئے بری ہے، ورنہ نبی پاکؐ کا غزوہ تبوک پر بار بار یہ اعلان کہ کون ہے جو سو اونٹ تیار کر کے دے اور جنت لے لے اور چھ بار حضرتِ عثمان کا اٹھ کر اعلان کرنا کہ میں سو اونٹ دیتا ہوں، یوں چھ سو اونٹ انہوں نے اللہ کی راہ میں دیے، یہاں تک کہ خود حضورؐ نے فرمایا کہ بس کر عثمان جنت تیری ہی ہے۔ اسی طرح بینکنگ کے معاملات میں بھی ہم حقائق سے نظریں چرا کر فتوی لگاتے ہیں کہ جو شخص بینک میں کام کرتا ہے اس کی دعوت کھانا حرام ہے،، جب تک متبادل موجود نہ ہو مضطر معذور ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر اور انجینئر بن کر لاکھوں کما کر مساجد اور مدارس بنا کر بھی صدقہ جاریہ بنایا جا سکتا ہے،، صرف حفظ نہیں،بلکہ حفظ کے انتظامات کر کے بھی سارے حافظوں جتنا اجر کمایا جا سکتا ہے، یتیموں کی کفالت جس کی بشارت نبیؐ نے دی ہے کہ اس کی جنت میری جنت سے یوں جڑی ہو گی جس طرح شہادت کی انگلی درمیان کی انگلی سے جڑی ہے ،وہ بھی اپنی کمائی کرنے والاہی کر سکتا ہے، مولوی صاحب نہیں۔پھر کفالت بھی اس طرح کہ اسے جیب کترا نہیں بنانا ،بلکہ تعلیم دلا کر ایک مفید انسان بنانا ہے۔یہ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت بھی یہی دنیا دارہی کر سکتے ہیں، اپنے بچے کو کھلانے والا شہباز بنائیں،،۔
بدر کے 70 قیدیوں کا مجمع سامنے سر جھکائے بیٹھا ہے ،، ان کی قسمت کا فیصلہ ہونے جا رہاہے۔ یہ سب جنگی قیدی نہیں، بلکہ جنگی مجرم War criminals ہیں، اللہ کے رسولؐ نے فیصلہ سنایا کہ فلاں فلاں سے تو فدیہ لیا جائے گا ،البتہ جو لوگ پڑھے لکھے ہیں ان سے مالی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا ،، وہ ہمیں وقت اور صلاحیت فدیے میں دیں اور ہمارے دس بچوں یا بڑوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں گے ،، جس دن ہمارے بچوں نے پڑھنے لکھنے کا مظاہرہ کر دیا اگلے دن وہ آزادہو گا !
صرف اس ایک واقعے سے آپ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے محبت کا اندازہ کر سکتے ہیں اور تعلیم بھی وہ جسے آج کل دنیاوی تعلیم کہہ کر حقیر جانا جاتا ہے اور اسے شک اور نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ، آخر مکے کے مشرک اور کافر مدینے کے بچوں اور بڑوں کو کوئی قرآن و حدیث تو نہیں پڑھا رہے تھے ،، پھر آج اس علم کو دین اور دنیا کی تقسیم کے نام پر کیوں غیر مقدس سمجھا جاتا ہے ؟
علم تو علم ہے، اس کا استعمال دینی اور دنیاوی دونوں مقاصد کے لئے کیا جا سکتا ہے،،جو دنیاوی علم کے نام سے ڈاکٹر بنتے ہیں چاہیں تو اس علم کو روٹی کمانے کے ساتھ انسانیت کی خدمت کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں، اور جو اس کو دین کے نام پر آٹھ دس سال لگا کر حاصل کرتے ہیں وہ بھی آخر روٹی ہی کماتے ہیں، اگرچہ اسے دینی ضرورتوں کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں،، سارے حافظ بن کر مسجدوں میں بھی نہیں بیٹھ سکتے،،پھر نہ صرف معاشرے کی دیگر ضرورتیں پوری نہیں ہونگی بلکہ حافظوں کو تنخواہ دینے والے اور مساجد تعمیر کرنے والے بھی نہیں ملیں گے،یہ بڑی بڑی درسگاہیں اور جامعات دنیا داروں کے سر پر چل رہی ہیں،، شیخ الحدیثوں کے سر پر نہیں،، اس لئے علم کی دینی اور دنیاوی تقسیم کر کے ایک طبقے کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنا اور دوسرے کو ھِز ھولی نیس بنا دینا درست نہیں،، دونوں اللہ کی رضا و مشیئت کو پورا کرتے ہیں،، اب آپ اپنے بچے کی صلاحیت دیکھیں اور اس کے مطابق استعمال کریں،، آج کی دنیاوی تعلیم پرانے زمانے کی طرح نہیں ہے،بلکہ بہت جان مار اورہمہ جہتی اورہمہ وقتی کام ہے،، بچہ اسکول پڑھے گا تو بہت مشکل سے اسکول کو ہی کور کر سکے گا،، آدھا یہ آدھا وہ کرنے کا زمانہ گزر گیا،، آج کل گریجویشن کل کے مڈل اور میٹرک کے برابر ہے،، قرآن حفظ کرنا فرض نہیں، البتہ اس پر عمل کرنا فرض ہے، تعلیم گھر سے شروع ہوتی ہے اور پیداہوتے ہی بچہ سیکھنا شروع کر دیتا ہے،، یاد رکھئے سچ کتابوں میں پڑھا کر نہیں سکھایا جا سکتا، سچ بول کر سکھانے چیز ہے، بچہ پیدا ہوتے ہی والدین کو سمارٹ ہو جانا چاہئے اور اپنی بری عادات ختم کر دینی چاہئیں،، اگر اپ چاہتے ہیں کہ بچہ سگریٹ نہ پئے تو آپ خود مت پیجئے ،بچہ بھی نہیں پیئے گا، جھوٹ مت بولئے، ایک دوسرے کو گالیاں مت دیجئے،، صلہ رحمی کیجئے،،سسرال کی عزت کیجئے،، والدین کی باتوں کو برداشت کیجئے اور اپنی اولاد کے سامنے انہیں برا مت کہیئے، بچہ گریجوئیٹ ہو جائے تو کسی بھی ادارے سے قرآن کا تین ماہ کا کورس کر لے تو جمعہ جماعت کرانے کے قابل ہو جائے گا اور یوں جاب کے ساتھ ساتھ اس طرف کی صلاحیت بھی بڑھاتا رہے گا،، اپنی روٹی خود کما کر بغیر تنخواہ لئے جو بھی جمعہ پڑھائے گا، بے خوف ہو کر حق بیان کرے گا ،، ورنہ روٹی کی مجبوری اسے حق سے روکے رکھے گی اور وہ صرف دنیا کا بن کر رہ جائے گا، فمثلہ کمثل الکلب، ان تحمل علیہ یلہث او تترکہ یلہث ، غیروں کی روٹی پہ حق کا بیان کتنا مشکل کام ہے یہ وہی جانتے ہیں جو ایک سال میں دس مسجدیں بدلتے ہیں یوں ان کے بچے تعلیم سے بھی محروم رہتے ہیں! دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بچے کو میٹرک کے بعد کسی اچھے سے جامعہ میں ڈال دیں،،اور اسے عالم بننے دیں،مگر پھر بھول جائیں کہ اس سے دنیا کی کمائی کرانی ہے،اس کو کوئی بزنس وغیرہ کرا دینا، جہاں سے اس کی روٹی چلتی رہے،، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جامعات کو خام مال جہاں سے ملتا ہے، وہ ایک ندی کی طرح خود بخود ان کی طرف رواں دواں ہے اور یونیورسٹیوں کو جہاں سے خام مال ملتا ہے ان کی ندی بھی ان کی طرف رواں دواں ہے،، دینی مدارس والے بچے آتے ہی ان گھرانوں سے ہیں جہاں پیاز اور لسی چٹنی کے ساتھ بھی روٹی بخوشی کھا لی جاتی ہے،اور یہی کچھ آج کل مدارس سے نکلنے والوں کو ملتا ہے 99 فیصد،! اب کل ایک بھائی کے بچے پراڈو میں پھریں اور دوسرے کے سائیکل چلائیں تو بھائی ہوتے ہوئے بھی آپس میں رشتے ناتے کرنا مشکل ہو جاتا ہے اوریوں خاندان بھی بکھر جاتا ہے۔ یہ کوئی ایک بچے کا مسئلہ نہیں، بہتر یہ ہے کہ اگر آپ اسے ڈاکٹر یا انجینئر بنا سکتے ہیں تو بنا دیں،، دین کورسز کی صورت سیکھا جا سکتا ہے ! عام طور پر علماء کی جانب سے طنز کیا جاتا ہے کہ پھر جنازہ اور نکاح بھی اسی مولوی سے پڑھاتے ہو،، یا نکاح اور جنازہ بھی بش سے یا ٹونی بلیئر سے پڑھوا لینا ! تو جناب نکاح اور جنازہ دونوں مولوی کے بغیر پڑھائے جا سکتے ہیں، کورٹ میں نکاح ہو سکتا ہے، چاہے جج یا مجسٹریٹ عیسائی یاہندوہی کیوں نہ ہو،، خطبہ نکاح کے فرائض میں سے نہیں اور خطبہ نکاح کا مقصد دونوں میاں بیوی کو ان کے حقوق و فرائض بتانا ہوتا ہے جو کہ لوگ بتاتے ہی نہیں اور عربی پڑھ کر چل دیتے ہیں،، جنازہ وارث کو پڑھانا چاہئے، یعنی بیٹے یا پھر بھائی یا باپ کو ،، عربی میں دعا نہیں آتی تو اللہ کی تعریف اپنی زبان میں بھی کر سکتا ہے،درود نماز والا پڑھ سکتا ہے اور دعا بھی اپنی زبان میں کر سکتا ہے ! مگر پلٹ کر کوئی یہ کہہ دے کہ سرکار پھر آپ بھی مدرسے مفتی فلاں صاحب اور فلاں شیخ الحدیث سے بنوا لینا،، ایک ایک کروڑ کی چھت بھی یہی دنیا دار اور بزنس مین ہی ڈلوا کر دیتے ہیں جن کی دنیا داری کو آپ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،، کہتے ہیں منہ کھائے اور آنکھیں شرمائیں، مگرہمارے ساتھیوں کی آنکھیں بھی نہیں شرماتیں،کہ انہی کے آگے تنخواہ بڑھانے کی درخواست بھی پیش کرتے ہیں اور اپنی مجبوریاں بھی گڑگڑا کر بیان کرتے ہیں، مگر اگلے جمعے ان کے پیچھے بھی لگے ہوتے ہیں،اوپر والاہاتھ نیچے والے ھاتھ سے بہتر ہے،، دین کا علم اور دنیا کا علم بجلی کے نیگیٹیو پازیٹیو تاروں کی طرح ہیں،، دونوں سے دین اور دنیا چل رہے ہیں،اور کوئی ان میں برا نہیں، جس کی صلاحیت بچے میں ہو وہ اس کی پسند اور خواہش پر چھوڑ دیں۔
اس ساری کہانی کے پیچھے ایک غلط فہمی ہے کہ دنیا کمانے کا ہنر سیکھنا ایک گھٹیا کام ہے اور دنیا داری ایک بری بات ہے اور دنیا ایک آلائش ہے، جبکہ یہ قرآن کے خلاف سوچ ہے، قرآن تو مال کو خیر اور اللہ کے فضل سے یاد کرتا ہے،ان ترک خیراً اگر اس نے خیر چھوڑی ہے یعنی مال چھوڑا ہے، اور جمعے کے بعد جاؤ اللہ کا فضل ڈھونڈو،، مال اپنی ذات میں خیرہی خیر ہے البتہ اس کا استعمال اچھا بھی ہے برا بھی ہے، میں جب کہتا ہوں کہ ہمارے مولوی حضرات جب دنیا کی مذمت کچھ زیادہ ہی شد و مد اور بغیر کسی استثناء کے کرتے ہیں وہ اصلاً ایک جذبہ رقابت کے تابع کرتے ہیں،کہ چونکہ ہمیں نہیں ملی اس لئے بری ہے، ورنہ نبی پاکؐ کا غزوہ تبوک پر بار بار یہ اعلان کہ کون ہے جو سو اونٹ تیار کر کے دے اور جنت لے لے اور چھ بار حضرتِ عثمان کا اٹھ کر اعلان کرنا کہ میں سو اونٹ دیتا ہوں، یوں چھ سو اونٹ انہوں نے اللہ کی راہ میں دیے، یہاں تک کہ خود حضورؐ نے فرمایا کہ بس کر عثمان جنت تیری ہی ہے۔ اسی طرح بینکنگ کے معاملات میں بھی ہم حقائق سے نظریں چرا کر فتوی لگاتے ہیں کہ جو شخص بینک میں کام کرتا ہے اس کی دعوت کھانا حرام ہے،، جب تک متبادل موجود نہ ہو مضطر معذور ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر اور انجینئر بن کر لاکھوں کما کر مساجد اور مدارس بنا کر بھی صدقہ جاریہ بنایا جا سکتا ہے،، صرف حفظ نہیں،بلکہ حفظ کے انتظامات کر کے بھی سارے حافظوں جتنا اجر کمایا جا سکتا ہے، یتیموں کی کفالت جس کی بشارت نبیؐ نے دی ہے کہ اس کی جنت میری جنت سے یوں جڑی ہو گی جس طرح شہادت کی انگلی درمیان کی انگلی سے جڑی ہے ،وہ بھی اپنی کمائی کرنے والاہی کر سکتا ہے، مولوی صاحب نہیں۔پھر کفالت بھی اس طرح کہ اسے جیب کترا نہیں بنانا ،بلکہ تعلیم دلا کر ایک مفید انسان بنانا ہے۔یہ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت بھی یہی دنیا دارہی کر سکتے ہیں، اپنے بچے کو کھلانے والا شہباز بنائیں،،۔
E-mail : [email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں