اسجد عقابی
انیسویں صدی عیسوی پورے عالمِ اسلام کیلئے سیاسی زوال اور فکری اضمحلال کی صدی ہے۔ یہی وہ صدی ہے جس میں عالم اسلام کے جاہ و جلال والے ممالک مغربی پایہ تخت کے زیر نگیں آیے ہیں۔ دجل و فریب، گمراہ کن فرقے ،یہاں تک کہ مدعی نبوت نے بھی اس صدی میں جنم لیا ہے۔ یہ حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ اب اس سے قبل کہ عالم اسلام کے سب سوتے خشک ہوجاتے اور اسلامی فکر و حیات کا درخت خزاں رسیدہ اور بے برگ و بار ہو جاتا، لیکن خدا کی ذات وحدہٗ لاشریک کو اس روئے زمین پر اپنے دین کا تحفظ مقصود تھا، اس لیے ایسے افکار و خیالات کے حامل افراد کو کارگہ عالم میں بھیجا، جن کے بلند و بالا نظریات اور عزائم کے سامنے ظلم و استبداد اور کفر و الحاد کے کوہ گراں خس و خاشاک کی مانند بہتے نظر آئے ۔ انہیں پاکبازوں کے قافلہ میں ایک نمایاں نام مولانا محمد علی مونگیری رحمہ اللہ علیہ کا ہے۔
ولادت
آپ کی ولادت با سعادت 28 جولائی 1846 کو کانپور میں ہوئی۔ آپ کی عمر محض دو سال تھی جب آپ والد محترم کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے۔ والد محترم سید عبد العلی کے انتقال کے بعد آپ دادا محترم حضرت سید شاہ غوث علی کی تربیت میں آگئے۔ آپ کے کارہائے نمایاں ،خاندانی حسب و نسب کے محتاج نہیں ہیں، تاہم آپ جس سلسلۃ الذہب سے تعلق رکھتے ہیں ، وہ شیخ المشائخ شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب ہمیشہ ولایت کے فیض سے مزین رہا ہے۔ آپ کے خاندان میں ایک عظیم المرتبت بزرگ شیخ ابوبکر چرم پوش گزرے ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ ان شاءاللہ میرے خاندان میں ہمیشہ صاحب ولایت افراد رہیں گے۔ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی اور آج تک بفضل اللہ یہ خانوادہ اس نعمت سے محروم نہیں ہوا ہے۔
مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے چچا سید ظہور علی سے حاصل کی، فارسی کی بعض کتابیں مولانا سید عبد الواحد بلگرامی سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ درسیات کی تکمیل آپ نے مولانا لطف اللہ علی گڑھی اور مفتی عنایت احمد کاکوری سے کی ہے۔ آپ نے علم الصیغہ کا سبق صاحب علم الصیغہ سے پڑھا ہے۔
دیار مدینہ کا شوق
آپ نے بمشکل عمر مبارک کی بارہ بہاریں دیکھی تھیں کہ دیار مدینہ کے شوق نے قلب مضطر میں اضطراب پیدا کردیا۔ یہ خواہش شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی۔ والد محترم کے بعد دادا محترم اور چچا بھی داغ مفارقت دے گئے ۔ گھر کی مکمل ذمہ داری اس ناتواں کندھوں پر آن پڑی ۔ ایک طرف ذمہ داری کا بوجھ اور دوسری جانب در اقدس پہ حاضر ہونے کی لگن نے آپ کوبے قرار کردیا۔ آپ تنہائی میں بیٹھ کر روتے اور سرزمین مقدسہ جانے کیلئے دعائیں مانگتے۔ اس شوق کی تکمیل کیلئے آپ نے اہل خانہ سمیت گھر بار بیچ کر ہجرت کرنے کا ارادہ کرلیا۔ اسی اثناء میں آپ کی ملاقات شیخ عبد اللہ شاہ سے ہوئی، شیخ صاحب نے قلبی اضطراب کو بھانپ لیا اور سوال کیا کہ کیا زیارت مدینہ کا شوق دامن گیر ہے؟ آپ نے جواب دیا، ہاں، دل پر قابو نہیں ہے۔ شیخ صاحب نے جواب دیا، ابھی نہ جاؤ، دل بے قرار کو قرار آ جائے گا۔ خدا کا کرم ایسا ہوا کہ بے کیفی کی کیفیت ختم ہوگئی اور دل بے قرار کو قرار آگیا۔
بیعت و سلوک
بچپن سے ہی آپ اہل اللہ کی مجالس میں شریک ہوا کرتے تھے، جب کبھی موقع ملتا، یا کسی صاحب دل کے آنے کی خبر سنتے فوراً ملاقات کیلئے تشریف لاتے۔ آپ کی عمر تقریباً اٹھارہ برس کی تھی اور آپ اس وقت مدرسہ فیض عام کے طالبِ علم تھے، جب آپ کی ملاقات شیخ حافظ محمد صاحب سے ہوئی، ملاقات کے بعد آپ کے اندر عجیب کیفیت پیدا ہوگئی۔ دنیاوی لذتوں سے قلب اچاٹ ہوگیا۔ ہمیشہ حالت استغراق میں رہنے لگے، پھر کچھ دنوں بعد آپ مولانا کرامت علی قادری ( شاگرد شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ ) کی مجالس میں شریک ہونے لگے۔ یہ رفاقت محض دس مہینوں تک رہی ، لیکن اس کے اثرات کے متعلق مولانا محمد علی مونگیری رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں’’ دس مہینوں تک ملازمت کا شرف حاصل ہوا اور پھر آپ کو سفر آخرت در پیش آیا، اور کالپی میں جاکر انتقال فرمایا۔ آپ کی برکت توجہ اور فیض صحبت سے مجھ پر عجیب و غریب حالات گزرے اور حضور علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کی بندہ نوازی ایسی ہوئی کہ اس کے متعلق میں بجز اس کے اور کیا کہہ سکتا ہوں،
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا‘‘۔
مولانا کرامت علی قادری رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد آپ مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی کے دامنِ ارادت سے وابستہ ہوگئے۔ مولانا کی صحبت میں آپ نے بیعت و سلوک کے مراحل طے کئے اور علم حدیث سے خاص شغف پیدا ہوگیا۔ حتی کہ اس دور میں رائج منطق و فلسفہ کی کتابوں سے آپ متوحش رہنے لگے۔ آپ کے بیعت ہونے کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ آپ بغرض بیعت اور نوکری کیلئے سفارش کے مقصد سے مولانا کے دربار میں حاضر ہوئے۔ پہنچنے کے فوراً بعد سفارش کا خیال تو دل سے نکل گیا، لیکن بیعت کیلئے آپ نے درخواست کی۔ آپ کی درخواست کو شرف قبولیت سے نوازا گیا اور آپ بیعت ہوگئے۔ اس کے بعد کافی دیر تک مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادیؒ آپ پر توجہ دیتے رہے۔ اس کے بعد خادم سے فرمایا کہ جاؤ کچھ کھانے کو لاؤ، خادم نے بتایا کہ ابھی کچھ تیار نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا جو کچا پکا ہے، وہی لے آؤ۔چناں چہ خادم ایک برتن میں تقریباً دو ڈھائی کلو چنے لایا۔ آپ نے مولانا محمد علی مونگیری کو رومال پھیلانے کا حکم دیا۔ پھر تین لپ چنے اس میں ڈال دیے اور فرمایا کہ یہ تمہاری دنیا ہے، جاؤ اس سے کھاؤ۔ پھر آپ نے خادم کو حکم دیا کہ ان کیلئے پان لاؤ، آپ نے عرض کیا کہ مجھے پان کی عادت نہیں ہے۔ میری بات کی جانب توجہ دیے بغیر آپ نے پان کو اپنے منھ میں ہلکا سا چبا کر مجھے عنایت فرمایا اور کہا کہ لو یہ پان ہے عرفان کا اسے کھالو۔
مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی کی معیت نے قلب کو جو جلا بخشی، اس کے نتیجہ میں سنت رسول اور حدیث رسول کا شغف پہلے سے کہیں زیادہ پیدا ہوگیا۔ علی گڑھ میں علوم حدیث کی تکمیل کے بعد آپ مزید علوم حدیث کیلئے وقت کے عظیم محدث اور استاذ الکل مولانا مملوک علی نانوتوی رحمہ اللہ کے شاگرد خاص محدث احمد علی سہارنپوری رحمہ اللہ کی درسگاہ میں پہنچ گئے۔ محدث احمد علی سہارنپوری ؒ علم حدیث میں اپنے وقت کے امام سمجھے جاتے تھے، آپ نے صرف بخاری شریف کے حواشی پر تقریباً بارہ سال کی مدت تک کام کیا ہے۔ اخیر میں آپ نے تکمیل کیلئے یہ اہم کام اپنے معتمد امام محمد قاسم نانوتویؒ کے سپرد کردیا تھا۔
مولانا محمد علی مونگیری رحمہ اللہ تقریباً گیارہ مہینوں تک سہارنپور میں مقیم رہے، یہاں آپ پابندی سے حضرت الاستاذ کے اسباق میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ آپ کے ذوق و شوق، محنت و لگن اور علم حدیث سے شغف کو دیکھتے ہوئے محدث احمد علی سہارنپوریؒ آپ کا اس درجہ احترام کرنے لگے، جس طرح ایک طالب علم اپنے استاد کا کرتا ہے۔ استاذ مکرم کو آپ سے بے انتہا قلبی لگاؤ تھا، دراصل یہ مرد مومن کی فراست ایمانی تھی جس نے اس نوخیز عالم دین میں چھپے ہوئے اصلی جوہر کو پہچان لیا تھا۔
تدریسی خدمات
علی گڑھ سے حصول علم کی تکمیل کے بعد آپ کانپور کے مدرسہ فیض عام میں درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔ حدیث کی کتابیں آپ سے متعلق تھیں، لیکن دل میں بے چینی اور مزید حصول علم کی چاہت نے آپ کو دو ڈھائی سال بعد سہارنپور محدث احمد علی سہارنپوری کی درسگاہ میں پہنچا دیا۔ سہارنپور سے واپسی پر آپ نے کانپور کی ایک مسجد میں درس حدیث کا سلسلہ شروع کیا۔ چند دنوں میں طلباء کا ازدحام ہوگیا۔ کچھ دنوں بعد آپ اپنے مرشد مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی کے منشا کے مطابق پھر سے مدرسہ فیض عام سے منسلک ہوگئے۔
کثرتِ مطالعہ اور تحقیق و تخریج کا اس قدر شوق تھا کہ آپ کے ذاتی کتب خانہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مشرقی حصے میں لکھنؤ سے بنگال کے اخیر حصہ تک خدا بخش لائبریری پٹنہ اور ندوہ کی لائبریری کے علاوہ کوئی اتنا بڑا کتب خانہ نہیں ہے جو تشنگانِ علوم کو سیراب کرسکے۔
رد عیسائیت اور تحفظ دین اسلام
انگریزوں نے ہندوستان میں صرف حکومت کا اختیار حاصل کرنے تک خود کو محدود نہیں کیا، بلکہ اپنے عیسائی مذہب کو ہندوستانیوں پر مسلط کرنے کی مختلف تدابیر اختیار کیں۔ حکومت برطانیہ سے اجازت طلبی کے بعد ہندوستان کا کوئی گوشہ اور کوئی خطہ ایسا نہیں تھا، جہاں عیسائی مبلغین مکمل تندہی سے اس کام کو انجام دینے کی کوشش نہیں کررہے تھے۔ یورپ کے مختلف ممالک کے مختلف چرچ اور پادریوں نے ہندوستان کوکئی حصوں میں تقسیم کرلیا تھا تاکہ کام کرنے میں باہمی چپقلش پیدا نہ ہونے پائے۔ اس طوفانی سلسلہ اور ہلاکت خیز طوفان کو 1854 میں مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے لگام لگایا، 1857 کی جنگ آزادی کے بعد اگرچہ عیسائی مبلغین نے اپنا طرز بدل دیا تھا، لیکن ان کے مقابلے میں مسلما نو ں کی جانب سے خاطر خواہ کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی تھی۔
مولانا محمد علی مونگیری رحمہ اللہ کو اس بات کا شدید احساس تھا، آپ نے اس کی روک تھام کیلئے سب سے پہلے کانپور سے ایک اخبار’’ منشور محمدی‘‘ کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ اس میں آپ نے عیسائی مبلغین کے اعتراضات کے جوابات کے علاوہ دین محمدی کی حقانیت پر بے شمار مضامین تحریر فرمایے۔ اس اخبار کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ عام مسلمانوں کو ایک سایہ نصیب ہوگیا اور تحفظ دین کے اسباب و عوامل نظر آنے لگے ، جو شکوک وشبہات عام ذہنوں میں پیدا کئے گئے تھے ان شکوک وشبہات کے ریت گھروندے مسمار ہونے لگے تھے۔ آپ کے رفیق خاص اور تربیت یافتہ شیخ مولا بخش نے پادری آئزک فیلڈ بریو کا زبردست تعاقب کیا اور انجیل میں تحریفات کی تقریبا سولہ ایسی مثالیں پیش کیں، جس کا کوئی جواب نہیں دے سکا تھا۔
عیسائیت کے رد میں مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ نے کئی کتابیں تصنیف فرمائیں، جن میں سب سے پہلی کتاب ( مرآۃالیقین) ہے۔
آئینہ اسلام
ترانہ حجازی
دفع التلبیسات
براہین قاطعہ
ساطع البرھان
پیغام محمدیؐ
یہ چند کتابیں قابلِ ذکر ہیں۔ عیسائیت کی روک تھام کیلئے ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف علماء کرام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے ہجرت کر جانے کے بعد اس میدان میں کافی دنوں تک خلا محسوس کیا جاتا رہا، لیکن ذات وحدہ لاشریک لہ نے تحفظ دین اسلام کیلئے مولانا محمد علی مونگیری، امام محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہم اللہ جیسے صاحب علم وفضل کو اس چمن کی آبیاری کیلئے منتخب فرمایا اور ان نفوسِ قدسیہ کی رہنمائی کیلئے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ جیسی شخصیت کو منتخب کیا، جو علوم معرفت سے ان کے قلوب کو منور و مجلی رکھتے۔
( جاری)
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں