شرمناک سچائی کو بیان کرتی ہوئی دہلی اقلیتی کمیشن کی حقیقت کشا رپورٹ:
سمیع اللّٰہ خان
بھارت کی راجدھانی دہلی میں فروری ۲۰۲۰ کو سخت خوںریز فساد ہوا، یہ فساد بھارتیہ جنتا پارٹی کے فسادی لیڈروں کی فتنہ انگیزی اور سَنگھیوں کی منظم کوششوں کا نتیجہ تھا۔ یہ بات پہلے دن سے کہی جارہی ہے۔ نیز فسادات کے دوران دہلی پولیس کے انتہائی مجرمانہ اور یکطرفہ کردار پر بھی سوال اٹھتے رہے ہیں ، دہلی میں مسلم مخالف خونریزی کی اس حقیقت کو حکمران جماعت اور اس کی چاپلوس میڈیا اور غلام ایجنسیوں نے اب تک مسترد کیا ،لیکن اب دہلی کی اقلیتی کمیشن نے اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کرتے ہوئے اس خونی دنگے کی سچائی کو بیان کیا ہے۔
ڈی ایم سی کی یہ رپورٹ 16 جولائی ۲۰۲۰ کو منظرعام پر آئی ہے۔
ایڈووکیٹ ایم آر شمشاد کی سربراہی میں کمیشن کی تحقیقاتی کمیٹی نے جو رپورٹ تیار کی ہے اس کے مطابق: ’’بی جے پی کے لیڈروں نے دسمبر ۲۰۱۹ سے فروری ۲۰۲۰ تک مسلسل، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف تشدد کے لیے لوگوں کو اکسایا‘‘۔
۲۳ فروری کو موج پور میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے اشتعال انگیز تقریر کی اور مظاہرین کو نارتھ ایسٹ کے ڈپٹی کمشنر پولیس وید پرکاش سوریہ کے سامنے دھمکیاں دیں اور اسی کے بعد شمال مشرقی دہلی کے کئی علاقوں میں تشدد (فساد) شروع ہوگیا ۔
’’ جے شری رام‘‘،’’ ہر ہر مودی‘‘، ’’ کاٹ دو ان ملوں کو‘‘ اور’’ آج تمہیں آزادی دیںگے‘‘ جیسے نعروں کے ساتھ ہتھیاروں سے لیس ایک منظم ہجوم شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں گھسا اور اس منصوبہ بند ہجوم نے مسلم افراد، ان کی دکانوں اور مساجد کو چن چن کر نشانہ بنایا، گواہوں کے مطابق یہ کوئی غیرمتوقع فساد نہیں پھوٹ پڑا تھا، کیونکہ حملہ آور ہجوم، لوہے کی سلاخوں، آتش گیر اسلحوں، آنسو گیس کے گولوں اور گیس سلنڈروں سے لیس تھا، ان میں بیشتر مقامی نہیں تھے اور املاک کو لوٹتے یا جلاتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھاگیا تھا کہ جو د کان یا جائیداد کسی مسلمان کو کرائے پر دی گئی ہو، لیکن اس کا مالک ہندو ہو تو اسے نقصان نہیں پہنچایا گیا ۔
’’ فسادات کے دوران مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمانوں نے غیرمسلم عبادت گاہوں کی حفاظت کی، البتہ منظم فسادی ہجوم نے چن چن کر مسلم شناخت والی عمارتوں اور املاک کو تباہ کیا، ۱۱ مساجد ۵ مدرسوں ایک درگاہ اور ایک قبرستان کو نقصان پہنچایا گیا ،قرآن کے نسخوں کو جلادیا گیا ‘‘۔
پولیس کا رول یہ تھا کہ اگر کہیں کچھ پولیس اہلکاروں نے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کی تو، پولیس افسران نے کہا کہ’’ انہیں مت روکو‘‘… کئی جگہوں پر پولیس کھڑی تھی اوراس کی آنکھوں کے سامنے ظلم کا ننگا ناچ ہورہا تھا۔ ۔۔پولیس نے بھیڑ کو منتشر بھی نہیں کیا، نہ ہی حملہ کرنے سے روکا، حد تو یہ ہے کہ پولیس قانونی کارروائی کے لیے نہ تو شکایت درج کررہی تھی نہ ہی ایف آئی آر، نہ ہی کسی کے خلاف کوئی کارروائی کررہی تھی۔۔۔ کئی جگہوں پر پولیس نے فسادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے یہ تک کہا کہ’’ جو چاہے کرلو‘‘ پولیس نے حملوں کے بعد دنگائیوں کو علاقے سے باہر نکالا اور کئی جگہوں پر شکایت کنندگان کو ہی گرفتار کرلیا۔
( حالاں کہ رپورٹ میں یہ احتیاط کے طور پر کہا گیا ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر نصف شب کو دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس مرلی دھر نے ازخود نوٹس لے کر پولیس کی گوش مالی نہیں کی ہوتی تو شاید مسلمانوں کا یہ قتل عام کئی دنوں تک جا ری رہتا اور لاشوں کے ڈھیر لگا دیے جاتے۔دہلی پولیس بی جے پی کے کرایے کے غنڈے کی طرح یا بزدل بھیڑ کی طرح دہلی میں کام کررہی تھی ، اس کی مثال آپ موج پور آگ اگلنے والے بلوائی کپل مشرا اے ڈی سی شمال مشرقی دہلی کے سامنے دھمکیاں دے رہا تھا اور اے لیول کا آئی پی ایس آفیسر بھیگی بلی کی طرح اس کے سامنے کھڑا تھا۔ قاعدے سے تو اسی وقت کپل مشرا کو گرفتار کرلینا چاہیے تھا۔مگر اے ڈی سی نے ایسا نہیں کیا ، اس صورت حال میں اپنے فرض سے غفلت برتنے اور دنگائی کی حوصلہ افزائی پر مذکورہ افسر کے خلاف ہی کیس بنتا ہے، اسے فوراً برطرف کرکے اس کے خلاف بھی مقدمہ چلنا چاہئے۔ اس افسر کی کارستانی بتارہی ہے کہ یہ دنگا منظم تھا اور اس پولیس بھی سنگھی غنڈو اور قاتلوں کے ساتھ ملی ہوئی تھی )
’’ پولیس کا گھٹیا ترین کردار یہ رہا کہ: اس نے جسمانی زیادتی سے بھی کام لیا، مسلم خواتین کو ان کی شناخت کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا، مظاہرہ کرنے والی مسلم خواتین کو ٹارچر کرنے کے لیے لفظ’’ آزادی‘‘ کا استعمال کیاگیا، بھیڑ نے ان مسلم خواتین کو تیزاب سے حملوں اور جنسی زیادتیوں کی دھمکی دی، خاتون پولیس اہلکاروں نے مسلم خواتین کو پیٹا، ان کے حجاب اور برقعے بھی نوچے گئے۔ ایک واقعہ ایسا بھی ہے، جس میں احتجاج کرنے والی خواتین کے سامنے پولیس نے اپنے جنسی اعضاء تک دکھائے۔
یہ رپورٹ کی صرف جھلکیاں ہیں، جبکہ Delhi Minority Commission کی رپورٹ مزید مفصل ہے، ۱۳۰ سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ کو درج ذیل لنک سے آپ ڈاؤنلوڈ کرسکتےہیں ۔ https://t.co/bug9rK437R
جس کو پڑھنے سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی راجدھانی میں پولیس سسٹم اور منظم مسلم کش فساد کی شرمناک حقیقت سامنے آتی ہے۔
معروف صحافی و دانشوراورسینئر مسلم رہنما اور دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اپنی مدت کار میں کمیشن کے ذریعے دہلی فساد کی اس چشم کشا تحقیقات کے ذریعے ہندوستانی جمہوریہ کے متعصب، نسل پرست سَنگھی سسٹم کی اندرونی سچائی پر ایک تاریخی دستاویز مہیا کردی ہے۔ گوکہ ڈاکٹر خان کی کمیشن میں مدت کار مکمل ہوچکی ہے ،لیکن ان کی یہ مدت یادگار رہے گی، انہوں نے ہندوستان میں اقلیتوں کے لیے قائم ايک مضبوط شعبے کے ادارے کو جوکہ تقریباً مردہ رہتا تھا، اس میں جان ڈال کر اسے فعال کیا، اس کا درست استعمال کرکے ظالم سرکار کو الجھن میں ڈال دیا اور اس کے ذریعے نہ صرف مسلمان، بلکہ سکھوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے بھی مفید کام کروائے ہیں، ان جرأتمندانہ اور بیش بہا خدمات کے لیے وہ بجا طورپر اعتراف و خراج تحسین کے مستحق ہیں۔۔۔اسی کے ساتھ کمیشن کے گرمندر سنگھ اور دیویکا پرساد سمیت دیگر غیر مسلم انصاف پسند حضرات بھی مبارکباد کے مستحق ہیں، رپورٹ کی اشاعت کے وقت ان حضرات کے علاوہ سلیم بیگ، انستاسیا گِل، ایڈوکیٹ ابوبکر سباق سبحانی، ایم آر شمشاد اور پروفیسر حسینہ حاشیا بھی شریک تھے۔ _
ہندوستان میں اپنے بنیادی شہری حقوق کے لیے مکمل جمہوری اور پوری طرح سے پرامن انداز میں آواز اٹھانے والوں کو سرکار اور سسٹم نے مل کر جس سنگ دلانہ سازش کے ذریعے دنگے کی بھینٹ چڑھا کر یہ آمرانہ پیغام دیا ہے کہ بھارت کی سَنگھی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف آواز اٹھانے کا ہم یہ انجام کریں گے۔ اس صورت میں دہلی فسادات کی حقیقت کشائی کرنے والی یہ رپورٹ minority rights کے آئینی دفعات کے تحت ایک مؤثر اور ٹھوس حیثیت رکھتی ہے، اس رپورٹ کو دنگوں کی سچائی کے طورپر ایک قابلِ قبول دستاویز کی صورت میں پیش کیاجاسکتا ہے، اسے عام کرکے موجودہ ہندوستانی حکومت اور جمہوریت نافذ کرنے کادعوی کرنے والی ایجنسیوں اور انتظامیہ کا متعصبانہ، مسلم دشمن اور ظالمانہ کردار دنیا بھر میں پیش کیاجاسکتا ہے، کمیشن نے اپنے حصے کا کام کردیا۔ اب چاہیے کہ ہندوستان کی مسلم سیاسی و ملی قیادتیں اس رپورٹ کے حوالے سے انصاف کی آواز بلند کریں اور آئینی عمل کو آگے بڑھائیں ،وگرنہ بے شمار کمیشنوں اور کمیٹیوں کی رپورٹوں کی طرح یہ رپورٹ بھی ایک شرمناک سچائی بیان کرنے والی تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائےگی، اگر اقلیتی حقوق کے لیے سسٹم میں گنجائشیں اور قانون سازیوں میں واقعیت ہے تو دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کو سنجیدگی سے لیا جاناچاہئے اور انصاف پر عملدرآمد کے لیے اس کی سفارشات کا نفاذ ہوناچاہئے _۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں