راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں راہل ۔مودی کی اگلی جنگ
غوث سیوانی، نئی دہلی
[email protected]
کرناٹک میں سرکار بنانے کے نام پر جو سیاسی ڈرامہ ہوا، اس سے ثابت ہوگیا کہ اس وقت ہندوستان، ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ جمہوری ادارے خطروں کی زد میں ہیں۔ ملک کا میڈیا ،ایک خاص نظریے کا غلام بنتا جارہا ہے اور اظہار رائے کی آزادی کو خطرہ لاحق ہے۔ عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو شکوک وشبہات کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ آئین کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ اسی کے ساتھ ملک کی معیشت، پوری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی ہے۔ غریب مزید غریب ہوتے جارہے ہیں، عام لوگ پریشان حال ہیں اور چند بڑے صنعتی گھرانے دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ ایسے
میں بھارت کے عام لوگوں کی نگاہیں، راہل گاندھی کی طرف اٹھ رہی ہیں کیونکہ وہ ملک کی ایک ایسی پارٹی کے صدر ہیں جس کی تاریخ قدیم ہے اور اس وقت بھی وہی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے نیز ملک کے طول وعرض میں اس پارٹی کے اب بھی کم وبیش اثرات موجود ہیں۔ گزشتہ چار سال سے کانگریس ، اقتدار سے دور ہے اور اپوزیشن میں ہے۔ اس بیچ اس سے ایک بہتر اپوزیشن کے رول کی امید کی جارہی تھی جو اس نے نہیں نبھایا۔ملک میں افراتفری کا ماحول رہا، عوام دہشت زدہ نظر آئے مگر کانگریس کو جس طرح سڑکوں پر اترکر تحریک چلانی چاہئے، اس نے نہیں چلائی۔ اس دوران کانگریس میں ایک بڑا بدلاؤ ضرور آیا اور نہرو خاندان کے چشم وچراغ راہل گاندھی کے کندھوں پر، کانگریس قیادت کی ذمہ داری آ گئی۔ انھوں نے اپنی والدہ سونیا گاندھی سے پارٹی کی مکمل ذمہ داری حاصل کرلی ۔اس تبدیلی کے بعد امید جاگی کہ کانگریس 2014 کے لوک سبھا انتخابات اور پھر اس کے بعد ، مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بھلے ہارتی نظر آئی ہو لیکن راہل گاندھی صدر بن کر اسے دوبارہ زندگی دیں گے اوروہ پارٹی کو نئی توانائی کے ساتھ قیادت دیں گے۔کانگریس نے اس ملک پر طویل مدت تک راج کیا ہے اور اس دوران اس کے تمام فیصلے عوام کے حق میں بھی نہیں تھے۔ یقیناًاس نے بہت سی غلطیاں بھی کی ہیں مگر موجودہ سرکار کی غلطیوں اور عوام دشمن پالیسیوں کے آگے کانگریس کی تمام غلطیاں چھوٹی نظر آنے لگی ہیں۔ راہل گاندھی کو ملک کے عوام سنجیدہ لیڈر نہیں مانتے تھے مگر اب وزیراعظم نریندر مودی کی غلطیوں کے سبب عام لوگوں کو راہل میں امید کی کرن نظر آنے لگی ہے۔ انھیں احساس ہونے لگا ہے کہ اس ملک کو اگر بھگوا سرکار سے کوئی نجات دلاسکتا ہے تو راہل گاندھی اور ان کی پارٹی کانگریس ہی ہے۔ حال ہی میں کرناٹک میں جس طرح بی جے پی کو سرکار بنانے سے راہل گاندھی نے روکا، اس نے بھی راہل کی امیج کو چمکانے کا کام کیا ہے۔
راہل کے سامنے بڑے چیلنج؟
راہل گاندھی، ایک شریف اور بھولے بھالے انسان ہیں۔ان کے اندر نیتاؤں والی چالبازیاں نہیں ہیں۔ وہ ان کمینہ خصلتوں سے پاک ہیں جو آج کل کے سیاست دانوں کے لئے لازمی مانی جاتی ہیں۔ایسے میں یہ سب باتیں راہل کے لئے طاقت بھی ہیں اور کمزوری بھی۔راہل اگر کسی عام ہندوستانی گھرانے میں پید اہوئے ہوتے تو شاید کسی پرائیویٹ یونیورسٹی سے ایم بی اے یابی ٹیک کر کسی معمولی کمپنی میں جاب کر رہے ہوتے اور اپنے دو، تین بچوں کی پرورش میں مصروف ہوتے مگر خوش قسمتی سے وہ آزاد ہندوستان کی رائل فیملی میں پیدا ہوئے اور آج ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہے،اس لحاظ سے ان کے سامنے کئی بڑے چیلنج ہیں۔ یہ وقت ان کے لئے کسی امتحان کی گھڑی سے کم نہیں ہے کیونکہ کانگریس گزشتہ چند سالوں سے ایک دم بے جان ہے۔اس میں جان ڈالنے کا کام مشکل ہے اور راستہ آسان نہیں ہے۔ راہل کی سیاسی برتری کی راہ میں اس وقت ،ملک کی سب سے طاقتور سیاسی شخصیت کی حیثیت سے وزیر اعظم نریندر مودی کھڑے ہیں اور ان کے دست راست عہد حاضر کے ’چانکیہ‘ امت شاہ ہیں۔ ان دونوں کی جوڑی نے ثابت کیا ہے کہ وہ اقتدار کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں اور کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ایسے میں راہل کی راہ مشکل ہے۔کانگریس اور عوام کو راہل گاندھی سے اس لئے بھی ہے کہ انھوں نے مودی کے گڑھ گجرات میں نہایت ہوشیاری کے ساتھ جنگ لڑی۔ ریاست سے بی جے پی کا قتدار اگرچہ ختم نہیں ہوا مگر کانگریس کی سیٹوں میں ضافہ ہوا۔گجرات میں بی جے پی کو99 سیٹوں پر قناعت کرنا پڑا جب کہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے مطابق، بی جے پی 162 اسمبلی نشستوں پر آگے تھی۔مزیدبرآں کہ ریاست کے آدھ درجن منتری چناؤ ہار گئے۔ اس کے بعد کرناٹک کا مرحلہ آیا جہاں راہل گاندھی نے انتہائی دانشمندی کے ساتھ اپنے داؤ پیچ چلے۔ کانگریس کو سبھی پارٹیوں سے زیادہ ووٹ ملے، یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی کو زیادہ سیٹیں مل گئیں۔ دوسری لڑائی انھوں نے کرناٹک میں بی جے پی کو حکومت بنانے سے روکنے کے لئے لڑی۔ یہ کئی سطح پر لڑی گئی اور کہیں بھی راہل پیچھے ہٹتے نہیں دکھائی پڑے۔ گجرات اور کرناٹک کے الیکشن کو اس لئے بھی یاد رکھا جائے گا کہ یہاں سے ہندوستان کے سامنے ایک نئے راہل کا ظہور ہواہے۔
اگلے وزیراعظم راہل گاندھی؟
ملک کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟ یہ تو وقت اور حالات بتائینگے مگر نریندر مودی کی ناکامیوں نے راہل کے لئے کامیابیوں کے راستے کھول دیئے ہیں۔چند مہینے قبل جب راہل گاندھی کے پارٹی صدر بننے کی خبر پر بھاجپا کے اندر بوکھلاہٹ دیکھی گئی، وہیں کانگریس اور بھاجپا مخالف خیمے میں خوشی کے شادیانے بجے تھے۔ بہار کے سابق وزیراعلی لالوپرساد یادو نے تو راہل کوابھی سے اگلا وزیراعظم بھی اعلان کردیا ۔ راشٹریہ جنتا دل کے صدر لالو یادو نے راہل گاندھی کے بارے میں کہا کہ 2019 کے عام انتخابات میں راہل گاندھی، غیر بی جے پی پارٹیوں کے لئے وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے۔ آر جے ڈی رہنما نے کہا کہ میری پارٹی اور میری حمایت ابھی سے راہل گاندھی کو ہے۔دوسری طرف بھاجپا کی بڑھتی قوت سے پریشان اس کی حلیف پارٹی شیو سینا نے بھی راہل کے بی جے پی سے مقابلے کے لئے سامنے آنے پر دبے الفاظ میں خوشی کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ گجرات کے اسمبلی انتخابات نے کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کو ایک نیتا میں تبدیل کر دیا ہے۔ راہول گاندھی اب ’’پپو‘‘ نہیں ہیں۔بی جے پی کو یہ بات با دِل نخواستہ قبول کرلینا چاہئے۔ شیو سینا نے کہا کہ گجرات کے انتخابات کے آخری دور تک پہنچنے کے بعد، وزیراعظم مودی نے کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کو ’’مضبوط مخالف‘‘ قرار دیا۔ شیو سینا نے یہ بات اپنے ترجمان اخبار ’’سامنا‘‘میں کہی ۔ اب کرناٹک الیکشن کے دوران راہل گاندھی نے خود کہہ دیا ہے کہ اگر اگلے عام انتخابات میں کانگریس کو اکثریت ملی تو وہ ملک کے وزیراعظم بن سکتے ہیں۔
کانگریس کے لئے امید کی کرن
راہل گاندھی کانگریس کے اندرایک امید کی کرن کے طور پر ابھرے ہیں اور اسے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ پارٹی کو اقتدار تک واپس پہنچانے میں کامیاب ہونگے۔حالانکہ اس کے لئے ملک بھر کی علاقائی جماعتوں سے اتحاد اور بہتر تال میل ضروری ہے۔ اگر علاقائی جماعتیں منتشر رہیں تو ایک بار پھر مودی بازی مالینگے۔ کانگریس کے ایک بڑے لیڈر ویرپا موئلی کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لئے، راہل گاندھی میں دیگر جماعتوں کو ایک ساتھ لانے کی صلاحیت موجودہے۔ سینئر پارٹی رہنما ایم ویرپا موئلی نے کہا کہ ان کے اندر سابق وزرائے اعظم جواہر لعل نہرو اور دادی اندرا گاندھی کی خصوصیات ہیں۔کرناٹک کے سابق وزیر اعلی نے کہا کہ، راہل اپنی شرافت کے لئے جانے جاتے ہیں اور دوسری جماعتوں سے انھیں ضرور جمہوریت، سیکولرزم اور سوشلزم کو آگے بڑھانے لئے تعاون ملے گا۔موئلی کا کہنا ہے کہ، وہ (راہل) ایک مقناطیس کی طرح ہیں جودیگر جماعتوں کو اپنی طرف کھینچ لینگے۔ کانگریس کو متحد کرنے کے علاوہ، وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہم خیال جماعتوں کے درمیان، فرقہ وارانہ عناصر کے ساتھ لڑنے کے بارے میں بہتر افہام و تفہیم پیدا ہو۔
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
رواں سال میں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ راہل گاندھی، 2019 میں مودی کا مقابلہ کرپائینگے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے انتخابی نتائج کرینگے۔کانگریس کو جس آب حیات کی ضرورت ہے وہ انھیں ریاستوں سے ملے گا۔ چارریاستوں میں جیت اور ہار کانگریس کی حکمت عملی پر مبنی ہے۔2019 کا لوک سبھا انتخاب جیتنے یا کم از کم باعزت اسکور تک پہنچنے کے لئے راہل کو چاروں اسمبلی انتخابات میں چیلنجر بن کر ووٹروں کے دل تک خود کو پہنچانا ہوگا۔ آج اگر آپ لوگوں سے سوال کریں کہ لوک سبھا انتخابات میں وزیراعظم کیلئے آپ کا پہلا انتخاب کون ہو گا؟ مودی یا راہل؟ توزیادہ تر لوگ مودی کہیں گے۔ مودی کے ساتھ ووٹروں کا ایک بڑا حصہ اب بھی ہے۔ راہل گاندھی کی گجرات مہم کے بعدان کے چاہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے،کرناٹک میں انھوں نے جس طرح سے جنگ لڑی، اس سے بھی ملک بھر میں ان کے تئیں اچھا پیغام گیا ہے لیکن ووٹروں کے ذہن میں،اب بھی مودی موجود ہیں اور اپنے کئی سخت اقدام کے باوجود ان کی اہمیت ووٹروں کے لئے ختم نہیں ہوئی ہے، ایسے میں راہل اور کانگریس کے لئے مودی کودرکنار کر اپنے لئے جگہ بنانے کی حکمت عملی سوچنی پڑے گی۔ کانگریس کے لئے اچھی بات یہ ہے کہ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اس کا مقابلہ سیدھے طور پر بی جے پی سے ہے اور گجرات کے برعکس یہاں کانگریس کی مقامی لیڈر شپ بھی ہے۔ ایسے میں راہل گاندھی اور ان کی ٹیم ان ریاستوں میں بہتر مظاہرہ کرسکتی ہے بشرطیکہ وہ پہلے انتخابی روڈ میپ تیار کریں اور سنجیدگی کے ساتھ الیکشن لڑیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں