ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ ندوی
ان دنوں چین و امریکہ کے درمیان جو کچھ چل رہا ہے ،اس سے اندازہ یہ ہو رہا ہے کہ اب دنیا پرتیسری عالمی جنگ کا خطرہ دستک دینے لگا ہے۔ جب سے امریکہ نے چین کو کاؤنسلیٹ بند کرکے 72 گھنٹوں کے اندر چینی عملوں کو امریکہ چھوڑنے کا حکم دیا ہے، تب سے چینی سفارت کار عملے اپنے دستاویزات کو جلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کاؤنسلیٹ کے بیک یارڈ سے لگاتار دھوئیں کے غولے اوپر کو اٹھ رہے ہیں۔ فائر بریگیڈ کا عملہ کاؤنسلیٹ تک پہنچ کرکافی دیر کھڑا رہا، لیکن اسے اندر آنے کی اجازت چینی عملے نے نہیں دی۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل بھی جرمنی نے اپنے دستاویزات کو جلانے کا یہی عمل کیا تھا۔ جنگ کے ماہرین کی رائے ہے کہ عام طور پر دستاویزات جلانے کا کام تبھی کیا جاتا ہے، جب جنگ کا ماحول تیار ہورہا ہوتا ہے۔ چین نے ہندوستان کی سرحد پر جس جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ امریکہ لگاتار ہندوستان کا استعمال کرکے اپنے حریف چین کو روکنا چاہ رہا ہے۔ مگر یہاں اس بات کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ چین کی طرح امریکہ بھی قابل اعتبار نہیں ہے، اپنے مفاد کی روٹی سینکنے کے لیے وہ دوسرے ملکوں کو اکساکر جنگ کی آگ میں جھونک دیتا ہے اور اس کے بعد جنگ میں مدد کے بہانے سوداگری کا بازار گرم کیے رہتا ہے۔امریکہ کی اس شاطرانہ چال کو امن پسند دنیا پچاس کی دہائی سے مستقل دیکھتی آرہی ہے، جب کہ 80 کی دہائی میں اس منافقانہ چہرہ ساری دنیا نے کھل کر دیکھا بھی ہے۔ امریکہ اپنے کے لیے ملکوں کو ہی آپس میں نہیں لڑاتا ، بل کہ بہت ساری تنظیموں اور افراد استعمال جنگی اسلحوں کے طور مسلسل کرتا آ رہا ہے۔ طالبان کو کس نے کھڑا کیا، اس کے لڑاکوؤں کو جنگی تربیت کس نے دی ، اسی طرح کرد وں کو جنگ کے لیے جراثیم کی سپلائی کہاں سے ہوئی ، حزب اللہ کو وہاں کے اقتدار کے خلاف جلاد کس نے بنایا، بابا جمال الدین افغانی،ملاعمر،اسامہ
بن لادن کو بموں اور میزائلوں کی طرح کس نے کھڑا کیا اور کس کے خلاف اس کا استعمال کیا ، عراق کو تاخت و تاراج کرنے کے لیے اس نے سعودی عرب سمیت کئی خلیجی ممالک سے سودے بازی کی اور اس کی چھاتی پر آکر بیٹھ گیا، یہ سب کوئی معمہ نہیں ہے ، بل کہ امریکہ کا اصلی چہرہ ہے جسے انسان کہنا انسانیت کی توہین۔ امریکہ کی طرح چین بھی بھروسے کے قابل نہیں ہے ، جس نے بھی اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا یا ،اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کے مطابق اس نے اسی کی زمین ہتھیانے اور اپنی سرحدیں وسیع کرنے میں پیش پیش رہا ہے، لہذا اسے بھی منافق ہی کہا جائے گا ۔مگر امریکہ سے چھوٹا منافق۔بہر امریکہ نے جوسرگرمیاں شروع کی اس سے یہ اندیشہ پختہ ہونے لگا ہے کہ امریکہ اور چین نے دنیاکو تیسری عالمی جنگ کے جہنم میں جھونکنے کا لگ بھگ فیصلہ کرلیا ہے۔
اسی پس منظر میں امریکہ نے بحر ہند میں ابھی دو ہفتہ قبل PASSEX بحری ایکسرسائز کیا ہے۔ دلچسپ یہ ہے کہ 1971 میں جب ہند و پاک جنگ جاری تھی اور مشرقی پاکستان کو کاٹ کر بنگلہ دیش بنانے میں ہندوستان اپنا تعاون دے رہا تھا، اس زمانے میں بھی امریکہ نے اپنا بحری بیڑا اسی خطہ میں بھیجا تھا۔ ان دنوں امریکہ پاکستان کا ’’گہرا‘‘ دوست ہوا کرتا تھا۔ دنیا سرد جنگ کے دور سے گزر رہی تھی۔ ہندوستان کے گہرے تعلقات سوویت یونین کے ساتھ تھے اور ان کی مدد حاصل تھی۔ امریکہ نے پاکستان کی مدد کا بہانہ بنایا تو تھا، لیکن مدد نہیں کیا تھا، بل کہ اپنی فطرت کے مطابق اس نے وہیں تک قدم بڑھایا، جہاں تک اس کےمفاد ات کی سرحد ختم ہورہی تھی ۔ یوں کہنا زیادہ مناسب حال ہوگا کہمدد کرنا مقصود نہیں تھا اور اسی لئے یہ بحری بیڑا تب پہنچا تھا، جب مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی ساری تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔ پاکستان جنگ ہار چکا تھا۔ اس بیڑہ کو بھیجنے کا صرف ایک مقصد تھا کہ ہندوستان مغربی پاکستان کی طرف محاذ نہ کھول دے۔ خود سوویت یونین یہ نہیں چاہتا تھا کہ ہندوستان ایسا کرے۔ جنگ کی تاریخ میں دوست ممالک اپنے حلیفوں کی مدد وہیں تک کرنا چاہتے ہیں، جہاں تک حلیف اکبر کے مفاد کو نقصان نہ پہنچے۔ سوویت ہندوستان کی مدد مشرقی پاکستان والے محاذ پر اس لئے کر رہا تھا کیونکہ پاکستان نے مشرقی پاکستان میں جو ظلم روا کر رکھا تھا، اس کے دفاع میں جواز موجود تھا، لیکن مغربی پاکستان کی طرف محاذ کھولنے کی صورت میں وہ جواز ختم ہورہا تھا، نیز اس کے علاوہ ایک ملک کے نقشے سے مٹنے کا خطرہ لاحق تھا، جس کے سنگین نتائج پوری دنیا کو بھگتنے پڑتے۔ اس لئے ہندوستان کو اشارہ مل گیا تھا کہ ایسا نہ کریں۔ ہندوستان بھی اس معاملہ کی نوعیت کو سمجھ رہا تھا اور اسی لئے مغربی محاذ کو نہیں کھولا گیا۔ عام طور پر کمزور دشمن کے خلاف ایک مضبوط حلیف کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لئے ہندوستان کو آج امریکہ جیسے دوست کی ضرورت ہے۔ اگر یہی جنگ پاکستان کے خلاف ہوتی تو ہندوستان کو کسی حلیف کی ضرورت نہیں پڑتی۔ صرف سفارتی سطح پر سوفٹ ڈپلومیسی کا استعمال کیا جاتا، لیکن چین کے مقابلے میں چونکہ ہندوستان کمزور ہے، اس لئے وہ کوئی بھی اقدام ایک مضبوط حلیف کے بغیر نہیں کر سکتا۔ اس پورے معاملہ کی پیچیدگی یہ ہے کہ چین کا اثر و رسوخ پاکستان میں ضرورت سے زیادہ ہے، جس کی قیمت پاکستان کو مستقبل میں چکانی پڑے گی۔ پاکستان نے اپنے تین ہوائی اڈے چین کے استعمال میں دے کر یہ اشارہ دے دیا ہے کہ چین آزادی کے ساتھ اس خطہ میں اپنا کام کرسکتا ہے۔ خدا کرے کہ اس جنگ کی نوبت نہ آئے، ورنہ دھوئیں کی لکیریں صرف چینی کاؤنسلیٹ کے بیک یارڈ سے ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے ہر گھر سے اٹھیں گی اور اکیسویں صدی کے لئے ایشیا کی صدی بن پانا شاید کبھی مقدر نہ ہوگا اور یہی امریکہ چاہتا ہے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں