ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ہرسال جومسلمان دنیا بھر سے حج کرنے کے لیے مکہ جاتے ہیں وہ وہاں قربانی کرتے ہیں ۔ جو وہاں نہیں پہنچ پاتے وہ بھی اپنے اپنے مقامات پر بقرعید کی نماز کے بعد قربانی کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اس طرح قربانی کے نام پر ہر سال لاکھوں جانور ذبح کیے جاتے ہیں ۔ بہت سے لوگ اس پر اعتراضات کرتے ہیں ۔ ان میں سے بعض کو اس میں بے رحمی اور جانوروں پر ظلم نظر آتا ہے اور وہ اسے سنگ دلی سے تعبیر کرتے ہیں ،جب کہ بعض اسے لا یعنی اورمسرفانہ رسم قرار دیتے ہیں اور اس کے بجائے اس میں خرچ ہونے والی خطیر رقم کو رفاہی کاموں میں صرف کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ یہ تمام حضرات قربانی کے فلسفہ ، مقصد ، حکمت اور پیغام سے واقف نہیں ہیں ۔
انسانوں کی فطرت میں ہے کہ وہ جس ہستی یا ہستیوں کو اپنا کارساز اور حاجت روا سمجھتے ہیں ، ان کے سامنے عاجزی اختیار کرتے ،ان کی پرستش کرتے اور ان کے سامنے نذر و نیاز اور قربانی پیش کرتے ہیں ۔ اسلام نے عبادت کی تمام شکلوں کو صرف اللہ کے لیے خاص کیا ہے ۔ اس نے جانوروں کو بھی صرف اللہ کے لیے قربان کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو مختلف نعمتوں سے نوازا ہے اور کائنات کی مختلف چیزوں کو ان کی خدمت اور فائدے میں لگا رکھا ہے ۔ مثلاً وہ زمین سے اگنے والی نباتات ، پھلوں اور غلّوں کو اپنی غذا بناتے ہیں_اسی طرح جانوروں سے مختلف کام لیتے ہیں اور ان کا گوشت بھی کھاتے ہیں ۔ ان نعمتوں پر شکر گزاری کا تقاضا ہے کہ ان چیزوں کا کچھ حصہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہیں اوراس کے حضور نذر و نیاز میں پیش کرتے رہیں ، تاکہ انھیں یاد دہانی رہے کہ وہ ان کے مالک نہیں ہیں ، بلکہ وہ انہیں اللہ کی جانب سے عطا کی گئی ہیں۔
قربانی کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تاریخی واقعہ کی یاد دلاتی ہے ۔ انھوں نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اللہ کی راہ مین ذبح کر رہے ہیں ۔ اسے وہ حکمِ الٰہی سمجھ کر اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوگئے ، اس لیے کہ ان کے دل میں اللہ کی محبت ہر محبت پر غالب تھے ۔ جب وہ اس آزمائش میں کام یاب ہو گئے تو اللہ نے انھیں بیٹے کا خون بہانے سے روک دیا اور ایک بڑی قربانی کو اس کا فدیہ بنا دیا ۔ اللہ تعالی نے اس عظیم الشان واقعہ کی یادگار کے طور پر یہ سنت جاری کردی کہ ہر سال تمام صاحبِ حیثیت مسلمان جانوروں کی قربانی کریں۔ اس عمل سے انھیں یہ ہاددہانی ہوتی ہے کہ اللہ کی محبت، وفاداری، جاں نثاری اور قربانی کا ویسا ہی جذبہ مطلوب ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں پایا جاتا تھا۔
قربانی کے معاشی لحاظ سے بھی بہت سے فائدے ہیں ۔ قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس سے بہت سے انسانوں کو ، جو خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں ، اچھی قوت بخش غذا نصیب ہو جاتی ہے ، لاکھوں قصاب جانوروں کو ذبح کرنے کی اجرت پاتے ہیں ، لاکھوں گلہ بانوں کا فائدہ ہوتا ہے، جو سال بھر جانوروں کو پال کرقربانی کے موقع پر انھیں اچھی قیمت میں فروخت کرتے ہیں ۔
اس طرح قربانی کا عمل اپنے اندر ظاہری طور پر بھی بہت سے فائدے رکھتا ہے اور اس کا اصل فائدہ تو روحانی ہے، جو یہ عمل انجام دینے والوں کو حاصل ہوتا ہے۔
(تلخیص مضمون ‘قربانی اور اس کی اہمیت ، مشمولہ در کتاب َحقائق اسلام: اعتراضات کا جائزہ ، شائع کردہ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی _ یہ کتاب www.kitabosunnat.com پر موجود ہے _)
حاملہ جانور کی قربانی
سوال: کیا حاملہ جانور کی قربانی جائز ہے؟
جواب: جس جانور کے پیٹ میں بچہ ہو، اس کی قربانی جائز ہے ، البتہ جان بوجھ کر ولادت کے قریب والے جانور کو ذبح کرنا مکروہ ہے _۔
* اگر جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے بچہ مردہ حالت میں نکلے تو اس بچے کا گوشت کھانا جائز نہیں ، وہ مردار کے حکم میں ہے ۔
* اسی طرح اگر وہ پیٹ سے نکلتے وقت تو زندہ ہو ، لیکن ذبح کرنے سے پہلے مرجائے تو بھی وہ حرام ہے _۔
* البتہ اگر اسے زندہ حالت میں ذبح کرلیا جائے تو حلال ہے _۔
[ زندگی کے عام فقہی مسائل ،جلد سوم ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی ]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں