(ایک قابلِ قدر تحقیقی مقالہ)
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
قرآن کریم رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے الٰہی ہدایت نامہ ہے۔ اس میں ان کے لیے زندگی گزارنے کا طریقہ بیان کیاگیاہے۔ان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کن کاموں سے اللہ خوش ہوتاہے؟ پھر ان پر عمل کریں اور کن کاموں سے وہ ناراض ہوتاہے، پھر ان سے بچیں۔ اس کے لیے قرآن کو سمجھنا ضروری ہے۔ قرآن عربی مبین میں نازل ہوا۔ اس لیے کہ جن لوگوں کے درمیان آخری رسول حضرت محمد ﷺ مبعوث کیے گئے تھے، ان کی یہی زبان تھی،لیکن اسلام جب سرزمین ِ عرب کے باہر پہنچا اور عربوں کے علاوہ دیگر بہت سی قومیں مشرف بہ اسلام ہوئیں تو شدت سے ضرورت محسوس ہوئی کہ دیگر زبانوں میں اس کا ترجمہ کیاجائے ۔چنانچہ یہ خدمت انجام دی جانے لگی اور رفتہ رفتہ اس میں تیزی آتی گئی۔ آج دنیا کی بیش تر زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم موجود ہیں۔ ہرزبان میں ایک سے زائد مکمل ترجمے کیے گئے ہیں اور جزوی (سورتوں اور آیات کے) تراجم کا تو
کوئی شمار ہی نہیں ہے۔
اردو زبان اس حیثیت سے بہت مالا مال ہے کہ اس میں ترجمۂ قرآن اور تفسیر پر قابلِ قدرکام ہواہے اور مکمل اور نامکمل تراجم وتفاسیر بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ترجمۂ قرآن کے کام کا سراغ سولہویں صدی عیسوی سے ملتاہے جب کہ اردو زبان ابھی مرحلۂ طفولیت میں تھی اور چھاپہ خانے قائم نہیں ہوئے تھے۔ بعد کی صدیوں میں طبعی رفتار سے اس میں اضافہ ہوتاگیا۔ یہاں تک کہ اب یہ شکر اور فخر کا مقام ہے کہ اردو کا شمار ان زبانوں میں ہوتاہے جن میں سب سے زیادہ قرآن کے ترجمے،تفسیر اور اس کی تعلیمات کی تشریح وتوضیح کا کام ہواہے۔اردو زبان میں ترجمۂ قرآن کی تاریخ پر خاصا کام ہوا ہے۔ تاریخ ادب اردو پر لکھنے والوں نے اس پر دادِ تحقیق دی ہے۔ چنانچہ مولوی عبدالحق نے اپنی تصنیف ’قدیم اردو‘ میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور اسلامیات و قرآنیات کے محققین نے بھی اس پر خوب خامہ فرسائی کی ہے۔بہ طور مثال’قرآن حکیم کے اردو تراجم‘ (صالحہ عبدالحکیم شرف الدین)،’اردو میں تفسیری ادب‘(پروفیسر محمد نسیم عثمانی)،’اردو میں تراجم و تفاسیر۔ ایک تاریخی جائزہ‘(مسعود احمد)،’قرآن مجید کے اردو تراجم وتفاسیر کا تنقیدی مطالعہ ۴۱۹۱ء تک‘(سید حمید شطاری)کے نام پیش کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن بہرحال اس موضوع پر مزید تحقیق کی ضرورت باقی رہی ہے۔ اس لیے کہ کتب خانوں میں ترجمۂ قرآن مجید کے قدیم قلمی نسخوں کا برابر انکشاف ہورہاہے، بیسویں صدی عیسوی میں بہت سے تراجم اور تفاسیر منظر عام پر آئی ہیں اور اکیسویں صدی کی دو دہائیوں میں بھی اس میدان میں خاصا کام ہوا ہے۔ چنانچہ ضرورت تھی کہ اردو زبان میں ترجمۂ قرآن کی پوری تاریخ کا جائزہ لیاجائے، موجود اور دست یاب تراجم کی قدر وقیمت متعین کی جائے اور ادبی ولسانی اعتبار سے ان کے مقام ومرتبہ کو جانچاجائے۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ برادر مکرم جناب سید وہاج الدین ہاشمی نے اسے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور اس پر انہیں شعبۂ ترجمہ ، اسکول برائے السنہ،لسانیات و ہندوستانیات، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی حیدرآباد سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔ ان کی یہ تحقیقی کاوش اس قابل ہے کہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہواور علمی حلقوں میں پہنچے۔
یہ تحقیقی مقالہ آٹھ(۸) ابواب پر مشتمل ہے۔ ابتدائی تین(۳)ابواب تمہیدی نوعیت کے ہیں۔باب اول میں قرآن مجید کا عمومی تعارف کرایاگیاہے۔ مثلاً اجزا:سورتیں، پارے، منازل، رکوع، آیات،حروف، حرکات، نزول، تدوین کے مراحل وغیرہ۔باب دوم میں ترجمہئ قرآن کی ضرورت واہمیت سے بحث کی گئی ہے اور اس راہ کی مشکلات کا تذکرہ کیاگیاہے۔ باب سوم میں فنِ ترجمہ نگاری کی تاریخ اور عہد اسلامی میں ترجمہ کی روایات پر اجمالی روشنی ڈالنے کے بعد اردو زبان میں ترجمہ نگاری کے آغاز وارتقا سے بحث کی گئی ہے۔
باب چہارم ڈاکٹر ہاشمی کی تحقیق کی اصل جولان گاہ ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ کے تقریباً دوتہائی حصے کو محیط ہے۔اس میں انہوں نے صدی بہ صدی قرآن مجید کے مکمل اور جزوی تراجم کا تذکرہ کیاہے اور ان کا جائزہ لیاہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق سولہویں صدی میں صرف چند اجزائے قرآن کے ترجمے ہوئے تھے۔ ستراہویں صدی میں صرف ایک مکمل ترجمہ و تفسیر(تفسیر وہابی1686ء)لکھی گئی اور پانچ نامکمل جزوی تراجم ہوئے۔البتہ اٹھارہویں صدی میں اس سلسلے میں خاطر خواہ کام ہوا۔ چنانچہ نو(9) مکمل تراجم اور پندرہ(15)تابیس(20) جزوی تراجم کا پتہ چلتا ہے۔ شاہ عبد القادر کا با محاورہ ترجمہ اور شاہ رفیع الدین کا لفظی ترجمہ اسی صدی کے آخری زمانے میں ہوگئے تھے، البتہ ان کی اشاعت انیسویں صدی کے اوائل میں ہوئی۔ مقالہ نگار نے اس صدی کے تیرہ(13) تراجم کا مختصر تعارف کرانے کے بعد ان میں سے تین تراجم(شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین کے تراجم کے علاوہ شاہ مراد اللہ انصاری کے ترجمہ وتفسیر)کا مفصل تعارف کرایاہے۔ مؤرخین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ اردو کا اوّلین ترجمۂ قرآن کون سا ہے؟ فاضل مقالہ نگار نے تمام اقوال نقل کرنے کے بعد ان کا محاکمہ کیا ہے۔ اس سے ان کے تحقیقی ذوق کا اظہار ہوتا ہے۔ان تین صدیوں کو انھوں نے ترجمۂ قرآن کا پہلا دور قرار دیا ہے۔
انیسویں صدی عیسوی سے فاضل مقالہ نگار کے مطابق تراجم کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ اس صدی میں انھوں نے ستّر(70) مکمل اور تیس (30) جزوی تراجم کا مختصر تذکرہ کیا ہے۔ اس کے بعد ان میں سے دس(10) تراجم کا مفصّل تعارف کرایاہے۔ وہ یہ ہیں:(۱)ترجمۂ قرآن، فورٹ ولیم کالج(۲)ترجمہ و تفسیر، سید قادری بابا (۳)تفسیر مجدّدی،رؤف احمد مجدّدی (۴)تفسیر القرآن، سر سید احمد خاں (۵)ترجمان القرآن بلطائف البیان، نواب صدیق حسن خاں (۶)تفسیر فتح المنّان المعروف بہ تفسیر حقّانی، مولاناابو محمد عبد الحق حقّانی(۷)تفسیر ثنائی، مولانا ثناء اللہ امرتسری(۸)غرائب القرآن، ڈپٹی نذیر احمد(۹)ترجمہ و تفسیر نورِ ہدایت المعروف بہ فتح الحمید، مولانافتح محمد جالندھری (١۰) ترجمۂ قرآن پاک، مولانا عاشق الٰہی۔
بیسویں صدی عیسوی میں اردو زبان میں قرآن مجید کے سب سے زیادہ ترجمے ہوئے۔ فاضل مقالہ نگار نے اسے تراجم کا سنہری اور انقلابی دور کہا ہے۔ انھوں نے اس صدی کے ایک سو چار(104) مکمل اور ستّانوے(97)جزوی تراجم کا مختصر تعارف کرایا ہے اور ان میں سے گیارہ(11) تراجم کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔ وہ یہ ہیں:(۱) بیان القرآن، مولانا اشرف علی تھانوی (۲) کنز الایمان، مولانا احمد رضا خاں (۳)ترجمان القرآن، مولانا ابو الکلام آزاد (۴)تفسیر ماجدی، مولانا عبد الماجد دریابادی(۵) ضیاء القرآن، پیر کرم شاہ ازہری(۶)تفہیم القرآن، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی(۷)تشریح القرآن، مولانا عبد الکریم پاریکھ(۸) تذکیر القرآن، مولانا وحید الدین خاں (۹)تدبر قرآن، مولانا امین احسن اصلاحی (١۰)دعوۃ القرآن، مولانا شمس پیر زادہ(۱۱) تفسیر قرآن، محمود النساء بیگم۔
اکیسویں صدی کی ابھی صرف دو دہائیاں گزری ہیں، لیکن مقالہ نگار کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق اس عرصے میں قرآن کے چالیس(40) مکمل تراجم ہو چکے ہیں۔ جزوی تراجم کا شمار نہیں۔ انھوں نے نو(۹) تراجم کا مفصّل تعارف کرایا ہے۔ وہ یہ ہیں: (۱) بیان القرآن، ڈاکٹر اسرار احمد (۲)آسان ترجمۂ قرآن، مفتی محمد تقی عثمانی(۳)غیر منقوط ترجمہ، پروفیسر طاہر مصطفیٰ (۴)آخری وحی، مولانا سلمان حسینی ندوی (۵) عرفان القرآن، ڈاکٹر طاہر القادری(۶) مصباح القرآن،پروفیسر عبد الرحمٰن طاہر (۷) مفہوم القرآن،محترمہ رفعت اعجاز(۸) آسان ترجمۂ قرآن، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی(۹) تبیین القرآن فی تفسیر القرآن، محترمہ ثریا شحنہ۔
فاضل مقالہ نگار نے جن تراجم کا مفصّل تعارف کرایا ہے ان کے مترجمین کے حالاتِ زندگی پر روشنی ڈالی ہے، تراجم کی خوبیاں اور خامیاں بیان کی ہیں اور مترجمین کے فکری رجحانات کا تذکرہ کیا ہے۔ آخر میں ترجمے کے نمونے بھی پیش کیے ہیں۔ ان کا تجزیہ ہے کہ اکیسویں صدی میں منظر عام پر آنے والے تراجم میں نئے انداز اپنائے گئے ہیں،عموماً وہ مسالک کی نمائندگی نہیں کرتے، تحت اللفظ سے آگے بڑھ کر ان میں ترجمانی کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے اور خانوں، رنگوں اور علامات کے ذریعے انہیں دل چسپ اور عام فہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس تحقیقی مقالے سے بعض دل چسپ معلومات حاصل ہوتی ہیں۔مثلاً یہ کہ قرآن مجید کے کئی تراجم اور تفاسیر(تفسیر قرآن، محمود النساء بیگم، تبیین القرآن فی تفسیر القرآن، محترمہ ثریا شحنہ) خواتین نے تیار کی ہیں۔ ہے اسی طرح انھوں نے ایک غیر منقوط ترجمۂ قرآن کا سراغ لگایا ہے ،جو پروفیسر طاہر مصطفیٰ نے کیا ہے۔
باب پنجم میں منظوم تراجم اور باب ششم میں خواتین کے ذریعے ہونے والے تراجم کا تعارف کرایا گیا ہے۔ راقم کا احساس ہے کہ یہ دونوں ابواب کم زور ہیں۔ باب پنجم میں بائیس (22) مکمل اورتین (3) جزوی تراجم کا تعارف کرایا گیا ہے۔ مقالہ نگار نے ڈاکٹر محمد سعید شیخ کے ایک مقالے(مطبوعہ سہ ماہی فکر و نظر اسلام آباد، جلد٥۳،شمارہ۳) کے حوالے سے دو سو(200) جزوی تراجم کی خبر دی ہے۔ ڈاکٹر سعید شیخ کا تو منظوم تراجم قرآن پر تحقیقی مقالہ ہے، جس پر انہیں بہاول پور یونی ورسٹی (پاکستان) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔ باب ششم میں خواتین کے ذریعے کیے گئے گیارہ(11) مکمل اور جزوی تراجم قرآن کا تعارف کرایا گیا ہے۔ ان میں سے بعض کا تذکرہ گزشتہ ابواب میں آ چکا تھا۔ خواتین کا کام اس سے کہیں زیادہ ہے، لیکن افسوس کہ خواتین کی طرح ان کا کام بھی پردے میں ہے۔ میری بھتیجی ڈاکٹر ندیم سحر عنبرین نے’تفسیر و علوم قرآنی میں خواتین کی خدمات‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا ہے، جس پر اسے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔ اس میں کچھ اور تراجم کا تذکرہ ہے۔
باب ہفتم’چند معروف مترجمینِ قرآن‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں گزشتہ چار صدیوں میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے والی انیس (19) مشہور شخصیات کے حالات ِ زندگی اور ان کی علمی و دینی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ راقم کے نزدیک اس باب کی ضرورت نہ تھی۔ اس لیے کہ ان شخصیات کے کچھ احوال ان کے تراجمِ قرآن کے ذیل میں بیان کیے جا چکے تھے۔ اس باب کا اضافہ محض تکرار معلوم ہوتا ہے۔
باب ہشتم اگرچہ مختصر(12 صفحات)، لیکن اہم ہے۔ اس میں فاضل مقالہ نگار نے تراجمِ قرآن میں لسانی ارتقا کا جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے منتخب تراجم کی روشنی میں لسانی ارتقا کے مختلف پہلوؤں، مثلاً محاورات کا استعمال، ادبی چاشنی، الفاظ کی معنویت، ترجمانی، فنّی تدوین، قوسین کا استعمال، نکتہ سنجی وغیرہ سے بحث کی ہے اور تراجم کے نمونے بھی پیش کیے ہیں۔
اردو زبان میں ترجمۂ قرآن کی تاریخ پر متعدد کتابیں شائع ہوئی ہیں، لیکن ان میں عموماً نصف صدی سے قبل کے تراجم کا تذکرہ ہے۔ اس عرصے میں ترجمۂ قرآن کے کام میں کافی تیزی آئی ہے اور متعدد پہلوؤں سے معیاری، قیمتی اور عمدہ ترجمے منظر عام پر آئے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں ان سب کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور خاص طور پر لسانی اعتبار سے ان کا جائزہ لیا گیا ہے۔ برادر مکرم ڈاکٹر سید وہّاج الدین ہاشمی کی اس تحقیق پر میں انہیں دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے، اردو میں ترجمۂ قرآن کی تاریخ پران کا یہ کام قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور اس موضوع پر آئندہ کام کرنے والے اس سے رہ نمائی حاصل کریں گے ۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں