شرابیو! زانیو! کینہ پرورو! اور رشتے توڑنے والو! آج بھی بخشے نہیں جاؤ گے
میم ضاد فضلی
ماہ رمضان کی ۲۱ ویں تاریخ سے ان بابرکات راتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ، جس کی فضلیت میں ہادی عالم ﷺ کی سینکڑوں احادیث صحاح، سنن ، مستدرکات اور مصنفات میں موجود ہیں۔ مگر مناسب ہے کہ اس کی ابتدا وحی الہی سے کی جائے۔چناں چہ لیلۃ القدر کی اہمیت و فضیلت پہ ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے جس سے اس کی فضیلت کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے ۔
إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِي لَيْلۃُِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَيْلۃُ الْقَدْرِ (2) لَيْلۃُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شہْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِيہَا بِاِِذْنِ رَبِّہِمْ مِنْکُلِِّّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ ہیََ حَتّیٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)(سورۃ القدر)
ترجمہ: بیشک ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر یعنی باعزت وخیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے ۔ اورآپ کو کیا معلوم ہےکہ لیلۃالقدرکیا ہے ۔لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور جبریل روح الامین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر آسمان دنیا پراترتے ہیں۔ وہ رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوع فجر تک ۔
اس سورت میں چند فضیلتوں کا ذکر ہے ۔
(1) شب قدر میں قرآن کا نزول ہوا یعنی یکبارگی مکمل قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیا جو تئیس سالوں میں قلب محمد ﷺ پر نازل کیا گیا۔
(2)یہ قدرومنزلت والی رات ہے ، قدر کی تفصیل اللہ نے ہزار مہینوں سے بیان کی ہےجو مبالغہ پر دلالت کرتاہے ،یعنی یہ رات ہزاروں ماہ و سال سے بہتر ہے ۔
(3) یہ اس قدر عظیم رات ہے کہ اس میں فرشتوں بالخصوص جبریل علیہ السلام کا نزول ہوتا ہے، ان کاموں کو سرانجام دینے کی غرض سےجن کا فیصلہ اللہ تعالی اس سال کے لئے کرتا ہے ۔
(4) یہ مکمل رات سراپا امن و سلامتی والی ہے ۔ مومن بندہ شیطان کے شر سے محفوظ ہوکر رب کی خالص عبادت کرتا ہے ۔
(5) اس رات سال میں ہونے والے موت وحیات اور وسائل حیات کے بارے میں سال بھر کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ فِيہَا يُفْرَقُکُلُُّّ أَمْرٍ حَکيمٍ(الدخان:4)
ترجمہ: اسی رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔
(6) لیلۃ القدر میں قیام کا اجر پچھلے سارے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
مَن قام ليلۃَ القدرِ إيمانًا واحتسابًا، غُفِرَ لہٗ ما تقدَّمَ من ذنبِہٖ(صحيح البخاري:1901)
ترجمہ: جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کرے اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔
(7) لیلۃ القدر کی فضیلت سے محروم ہونے والا ہرقسم کی بھلائی سے محروم ہے ۔
دخلَ رمضانُ فقالَ رسولُ اللّہِ صلی اللہُ علیہِ وسلَّمَ إنَّ هہذا الشّہرَ قَد حضرَکُموفیہِ ليلۃٌ خيرٌ مِن ألفِ شَہْرٍ من حُرِمَہَا فقد حُرِمَ الخيرَ کلَّۃُ ولا يُحرَمُ خيرَہا إلَّا محرومٌٍ(صحيح ابن ماجہ:1341) ترجمہ: ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تونبی ﷺنے فرمایا کہ: تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سےافضل ہے، جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا ،گویا ساری بھلائی سے محروم رہ گیا۔
لیلۃ القدرکا تعین:
لیلۃ القدر کے تعین کے سلسلے میں علماء کے مختلف اقوال ملتے ہیں، مگر راحج قول یہ ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (21،23،25،27،29) میں سے کوئی ایک ہے ۔ اس کی دلیل نبی ﷺ کا فرمان ہے: تَحَرَّوْا ليلۃ القدرِ في الوِتْرِ، من العشرِ الاواخرِ من رمضانَ ۔(صحيح البخاري:2017)ترجمہ: لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
کیا ستائیسویں کی رات لیلۃ القدر ہے ؟
بعض لوگوں نے 27 ویں کی رات کو لیلۃ القدر قراردیا ہے جوصحیح نہیں ہے ۔یہ صحیح ہے کہ بعض روایتوں میں شب قدر ستائیسویں کی رات بتلایا گیا ہے، مگرستائیسویں کو ہی ہمیشہ کے لئے شب قدر قرار دینا غلط ہے ۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔
اولاً: بخاری کی روایت اس موقف کی تردید کرتی ہے جس میں شب قدر کو پانچ طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، صرف ستائیسویں کی حدیث لے کر فیصلہ کرنا درست نہیں ہے ۔
ثانیاً: روایات میں ستائیسویں کے علاوہ دیگر رات کا بھی ذکر ہے ۔ صحیحین میں مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے شب قدر پانے کے لئے کبھی پہلے عشرے میں اعتکاف کیا، کبھی درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا تو کبھی آخری عشرے میں اور آخر میں فرمایا:
إني أُريتُ ليلۃَ القَدْرِ، ثم أُنْسيتہا، أو نُسِّيتہا، فالتمِسوہا في العَشْرِ الاواخرِ في الوَتْرِ(صحيح البخاري : 2016 ، صحيح مسلم:1167) ترجمہ: مجھے وہ رات دکھائی گئی تھی مگرپھر بھلا دیا گیا، لہذا اب تم اسے رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرو۔
ایک روایت میں ہے : مَن كان مُتَحَرِّيہا فلْيَتَحَرَّہا في السبعِ الاواخرِ(صحيح البخاري:2015، صحيح مسلم : 1165) ترجمہ : جس کو شب قدر کی تلاش کرنی ہووہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔
ان کے علاوہ کسی روایت میں 21 کا ذکر ہے ، کسی میں 23 کا ذکر ہے ، کسی میں 25 کا ذکر ہے تو کسی میں 29 کا ذکر ہے ۔
ان ساری روایات کو سامنے رکھتے ہوئے عشراخیرکے اندر وسعت پائی جاتی ہے ، ان میں سبع اخیراور دیگر ساری روایات داخل ہیں۔اس وجہ سے شب قدر آخری عشرے کی کوئی طاق رات ہے ۔ یہی موقف اکثر اہل علم کاہے ۔ جہاں تک ستائیس کا مسئلہ ہے تو کسی سال ستائیس کی رات قدر کی رات کی ہوگی ،جیساکہ کبھی اکیس، کبھی تئیس ، کبھی پچیس تو کبھی انتیس رہی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ رات ہرسال آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں منتقل ہوتی رہتی ہے ۔
ثالثاً: نبی ﷺ کے فرامین کے علاوہ آپ کا عمل بھی ثابت کرتا ہے کہ لیلۃ القدر آخری عشرے کی کوئی ایک طاق رات ہے ۔
عنْ عَائِشۃَ رَضِيَ اللہُ عَنہَا قَالَتْکا نَ النَّبِيُّ صَلّی اللَہُ عَلَيہِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرہُ وَأَحْيَا لَيْلہُ وَأَيْقَظَ أَہْلہُ(صحيح البخاري:2024)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو ﴿عبادت کے لیے کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔
لیلۃ القدر کی علامات:
احادیث میں اس شب کی چند نشانیاں ملتی ہیں۔
(1) صبح کے سورج میں شعاع نہیں ہوتی :ہِیَ ليلۃُ صبيحۃُ سبعٍ وعشرين . وأمارتُہا أن تطلعَ الشمسُ في صبيحۃِ يومِہا بيضاءَ لا شُعاعَ لَہا(صحيح مسلم:762) ترجمہ: وہ (لیلۃ القدر) ستائیسویں رات ہے ، اور اُس کی نشانی یہ ہے کہ اُس کی صبح میں جب سورج طلوع ہو تا ہے تو وہ سفید ہوتا ہے اور اُس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی۔
(2)لیلۃ القدر معتدل ہوتی ہے :ليلۃُ القدْرِ ليلۃٌ سمِحۃٌ ، طَلِقۃٌ ، لا حارۃٌ ولا بارِدۃ ، تُصبِحُ الشمسُ صبيحتہا ضَعيفۃً حمْراءَ(صحيح الجامع:5475) ترجمہ : قدر کی رات نرمی والی معتدل ہے ، نہ گرم نہ ٹھنڈی ، اُس رات کی صُبح سورج کی روشنی کمزور اور سُرخی مائل ہوتی ہے ۔
(3)کبھی بارش بھی ہوسکتی ہے:وإني رأيتُ كأني أسجدُ في طينٍ وماءٍ (صحيح البخاري:813) ترجمہ: میں نے (خواب میں) اپنے کو دیکھا کہ اس رات مٹی اور پانی (کیچڑ) میں سجدہ کر رہا ہوں۔
علامات سے متعلق لوگوں میں غلط باتیں مشہور ہیں مثلا اس رات کتے نہیں بھونکتے ، گدھے کم بولتے ہیں ۔ سمندر کا کھارا پانی بھی میٹھا ہوجاتا ہے ۔ درخت زمین کو سجدہ کرتے ہیں پھر اپنی جگہ لوٹ جاتے ہیں ۔ ہرجگہ روشنی ہی روشنی ہوتی ہے ، اس دن شیطان سورج کے ساتھ نہیں نکل سکتا۔وغیرہ وغیرہ
لیلۃ القدر میں ہم کیا کریں ؟
حدیث میں لیلۃ القدرکے حصول کے لئے نبی ﷺ کے بالغ اجتہاد کا ذکر ملتا ہے ۔
عنْ عَائِشۃَ رَضِيَ اللَہُ عَنہَا قَالَتْ کاَ نَ النَّبِيُّ صَلی اللہُ عَلَيہِِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرہُ وَأَحْيَا لَيْلۃُ وَأَيْقَظَ أَہْلَہُ(صحيح البخاري:2024) ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو ﴿عبادت کے لیےکمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔
اس حدیث میں تین باتیں مذکورہیں ۔
(1) شد مئزرہ : کمر کس لیتے یعنی عبادت کے لئے بالغ اجتہادکرتے ۔عورتوں سے کنارہ کشی کے بھی معنی میں آیا ہے ۔
(2) احیالیلہ : شب بیداری کرتے رات میں عبادت کے لئے خود کو بیدار رکھتے ۔
(3) ایقظ اھلہ : اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے کیونکہ یہ اہم رات ہوتی ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شب قدر میں عبادت پہ خوب خوب محنت کرناہے، تاکہ ہم اس کی فضیلت پاسکیں جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن قام ليلۃَ القدرِ إيمانًا واحتسابًا، غُفِرَ لہٗ ما تقدَّمَ من ذنبہٖ(صحيح البخاري:1901) ترجمہ: جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کرے اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔
قیام کے ساتھ ذکرودعا اور تلاوت و مناجات سے اس رات کو مزین کریں ۔ اس رات کی ایک خصوصی دعا ہے جو نبی ﷺ نے اپنی امت کو سکھائی ہے ۔
عن عائشۃ أنّہا قالت يا رسول الله أرأيت إن وافقت ليلۃ القدر ما أدعو ؟ : قال: تقولين اللہم إنک عفو تحب العفو فاعف عني ( صحيح ابن ماجہ:3119) ترجمہ : عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےانہوں نے نبی کریم صلی اللہ علی وسلم سے دریافت کیا کہ اگر مجھے شب قدر مل جائے تو میں کون سی دعا پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پڑھو:’’اللّہُمَّ إنکَ عفوٌّ تحبُّ العفوَ فاعفُ عنِّي‘‘(اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے ،لہذا تو مجھے معاف کردے)۔سنن ترمذی میں عفو کے بعد “کریم” کی زیادتی ہے ، اس زیادتی کی کوئی اصل نہیں یعنی یہ ثابت نہیں ہے ۔
اس رات کو بعض شارحین حدیث نے بخشش کی رات بھی کہا ہے۔ جبکہ ماہ رمضان کریم کی ہر شب عام مغفرت کی بارش ہوتی ہے۔مگر اس میں بھی شب قدر کی بات ہی کچھ اور ہے کہ اسے بطور خاص محسن انسانیت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے علیحدہ کرکے اس بے شمار فضیلتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ قراٰن کریم میں تو اس ایک رات کی عبادت و ریاضت اوراستغفار وانابت کوایک ہزار مہینوں سے بھی افضل کہا گیا ہے۔جیساکہ سورۃ القدر جیسی مکمل سورت ہی اس رات کی فضیلت کے لیے اللہ کریم نے نازل فرمائی ہے۔ مگر رب کی ایسی فیاضی اور بخشش کے عام اعلان کے باوجود کچھ بد نصیب ایسے ہیں جو اس رات میں بھی اللہ کی جانب دھتکار دیے جاتے ہیں اور ان کی بخشش نہیں ہوتی۔ہم سنن بیہقی ؒ کی شعب الایمان سے ایک مفصل حدیث کے کچھ حصے نقل کرتے ہیں،جس میں ان بدنصیبوں کا بطور خاص ذکر ہے ،جن کی اس رات میں بھی بخشش نہیں ہوتی۔چاہے وہ پوری رات سر پٹکتارہے اور زاروقطار روتےہوئے پوری رات کاٹ دے۔
چناں چہ اس طویل حدیث پاک میں چار اشخاص کا ذکر ہے کہ ان کی رمضان میں بھی مغفرت نہیں ہوتی، جو درج ذیل ہیں:
۔ایک وہ شخص جو شراب کا عادی ہو۔
2۔دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو ۔
3۔تیسرا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو ۔
4۔چوتھا وہ شخص جو (دِل میں)کینہ رکھنے والا ہو اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو ۔‘‘
زانی حاجی صاحب آپ کی بخشش بھی نہیں!
حضرت عثمان ابن ابی العاصؓ کی روایت میں زانی کا تذکرہ بھی آیا ہے، چاہے وہ زانی حاجی صاحب ، حافظ صاحب، مولانا صاحب یا مفتی صاحب ہو یاکوئی عام انسان ۔اگر وہ زناکار ہے تو یقین کرلے کہ کسی بھی قیمت پر اس فضلیت والی رات میں بھی رب کی جانب سے اسے معافی اور بخشش کا پروانہ ملنے والا نہیں ہے۔
بیہقی کی حدیث کا ایک حصہ درج ذیل ہے، ملاحظہ فرمائیں : حق تعالیٰ شانہ رمضان شریف میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے خلاصی مرحمت فرماتے ہیں جو جہنم کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں ، اور جب رمضان کا آخری دِن ہوتا ہے تو یکم رمضان سے آخری رمضان تک جس قدر لوگ جہنم سے آزاد کیے گئے ہوتے ہیں اُن کے برابر اُس ایک دِن میں آزاد فرماتے ہیں ۔
اور جس رات ’’شبِ قدر‘‘ ہوتی ہے تو اُس رات حق تعالیٰ شانہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ( زمین پراُترنے کا ) حکم فرماتے ہیں، وہ فرشتوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ زمین پر اُترتے ہیں ، اُن کے ساتھ ایک سبز جھنڈا ہوتا ہے، جس کو کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں ۔
حضرت جبرئیل ؑ کے سو (100)بازو ہیں جن میں سے دو بازو صرف اِسی ایک رات میں کھولتے ہیں ، جن کو مشرق سے مغرب تک پھیلا دیتے ہیں ، پھر حضرت جبرئیل ؑ فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں : ’’جو مسلمان آج کی رات کھڑا ہو یا بیٹھا ہو، نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کر رہا ہواُس کو سلام کریں اور اُس سے مصافحہ کریں اور اُن کی دُعاؤں پر آمین کہیں ، صبح تک یہی حالت رہتی ہے، جب صبح ہوجاتی ہے تو حضرت جبرئیل آواز دیتے ہیں : ’’اے فرشتوں کی جماعت! اب کوچ کرواور چلو!۔‘‘ فرشتے حضرت جبرئیلؑ سے پوچھتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے مؤمنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا معاملہ فرمایا ؟‘‘ وہ کہتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ نے اِن پر توجہ فرمائی اور چار شخصوں کے علاوہ سب کو معاف فرمادیا ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا : ’’ وہ چار شخص کون سے ہیں؟ ‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
1۔ایک وہ شخص جو شراب کا عادی ہو۔2۔دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو ۔ 3 ۔ تیسر ا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو ۔4۔چوتھا وہ شخص جو (دِل میں)کینہ رکھنے والا ہو اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو ۔‘‘
پھر جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس رات کا نام آسمانوں پر ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ (یعنی انعام کی رات) رکھا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں ، وہ زمین پر اُتر کر تمام گلیوں اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے (کہ جس کو جنات اور انسانوں کے علاوہ ہر مخلوق سنتی ہے) پکارتے ہیں : ’’اے حضرت محمدﷺ کی اُمت! اُس کریم رب کی (بارگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے ، پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں : ’’کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟‘‘ وہ عرض کرتے ہیں : ’’اے ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اُس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی مزدوری اُس کو پوری پوری دے دی جائے ۔‘‘ تو حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں : ’’اے میرے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اُن کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطاکردی ۔‘‘ اور بندوں سے خطاب فرماکر ارشاد ہوتا ہے : ’’اے میرے بندو!مجھ سے مانگو! میری عزت کی قسم ، میرے جلال کی قسم! آج کے دِن اپنے اِس اِجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے میں پورا کروں گا اور دُنیا کے بارے میں جو سوال کروگے اُس میں تمہاری مصلحت دیکھوں گا ۔ میری عزت کی قسم !جب تک تم میرا خیال رکھوگے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (اور اُن کو چھپاتا رہوں گا)، میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں (اور کافروں) کے سامنے ذلیل اور رُسوا نہیں کروں گا ۔ بس! اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ ! تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔‘‘پس فرشتے اِس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اِس اُمت کو افطار (یعنی عید الفطر )کے دِن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں اورکھِل جاتے ہیں۔‘‘(الترغیب و الترہیب)
(رواہ الشيخ ابن حبان في کتاب الثواب والبيہقي، واللفظ لہ، وليس في إسنادہ من أجمع علی ضعفہٖ۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں