محمد قاسم ٹانڈؔوی
اتنی بات تو طے شدہ ہے کہ روئے زمین پر رونما ہونے والے شر و فساد اور اجتماعی طور پر انسانی برادری کو لاحق ہونے والے اکثر آلام و مصائب کا تعلق خود انسانوں کے کرتوتوں کا نتیجہ اور اعمال و افعال کا ظہور ہوتا ہے، جس کو قرآن کی اس آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے (مفہوم ہے)’’کہ جو تم پر کوئی سختی ہو تو وہ تمہارے ہاتھوں کمایا بدلہ ہے‘‘ (ألشّوریٰ:30) مذکورہ آیت میں واضح طور پر عاقل و بالغ انسانوں کو خواہ نیک ہوں یا گنہگار سوائے انبیاء و کمسن بچوں کے عام خطاب فرماتے ہوئے ’’دنیا کی سختی اور پریشانی کو بھی بتا دیا گیا ہے اور قبر و آخرت کے مراحل کو بھی بیان کر کےمتنبہ کر دیا گیا ہے‘‘۔
قرآن مجید رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لیے سرچشمۂ ہدایت اور بصیرت سے لبریز کتاب ہے، مگر اس کے بحر بیکراں سے مستفید وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اس میں غوطہ زن ہونے کی ایک تو اہلیت و صفات اپنے اندر رکھتے ہوں، دوسرے ان کے اذہان و قلوب بھی اس امر پر آمادہ ہوں کہ اس میں غوطہ زنی کی جائے اور اپنی دنیاوی زندگی کو کارآمد و مفید بنانے کے ساتھ اخروی زندگی کےلیے بھی کچھ لعل وگہر چنے جائیں۔ اس لیے کہ ایک صاحب ایمان کی خوبی اور بہتری اس بات میں پوشیدہ ہے کہ اس کی نگاہیں ہر وقت آخری منزل کی تلاش و جستجو میں سرگرداں رہتی ہوں اور یہ خصوصیت انہیں اشخاص کو حاصل ہوتی ہے جو اس مادی دنیا سے کچھ ہٹ کر آگے پیش آنے والی ہمیشہ ہمیش کی زندگی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
بہر کیف آج موجودہ دنیا کی جو صورت حال بنی ہوئی ہے، جس میں ہر شخص ڈرا سہما گھروں میں مقید ہے، موجودہ حالات انہیں دعوت فکر و عمل پیش کرکے اس کے بنیادی مقصد کی یاد دہانی کرا رہے ہیں اور بزبان حال اس بات کا اعادہ و اشارہ کر رہے ہیں کہ: ’’انسان جب طاعت و بندگی کے حصار سے باہر ہو کر قدرت کے متعین کردہ اصول و ضوابط سے کھلواڑ کرتا ہے اور الہی قانون کی بندشوں کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ و مانع تصور کرتا ہے تو اس وقت قدرت اس بےحیثیت و بےوقعت مٹی کے پتلے کو اس کی اوقات سے واقف و باخبر کرنے کےلیے ایک معمولی سے جرثومے اور نظر نہ آنے والے وائرس کے ذریعے اس کی حیثیت کا احساس و ادراک کراتا ہے، جس کی ہولناکی اور خطرناکی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اس سے حفاظت کے واسطے وہ سب محفوظ مقامات میں مکین ہو جاتے ہیں، جو کبھی تو طاقت و اقتدار کے نشہ میں چور ہوکر مخلوق خدا کو ایذا رسانی، کبھی تعلیم و ترقی کے میدان میں خدا فراموشی کا دم بھرتے نہیں تھکتے تھے، مگر آج ان کی بےبسی اور لاچاری کا عالم یہ ہےکہ کم و بیش چھ ماہ کا عرصہ ہونے کو ہے، مگر ابھی تک نہ تو اس عالمی وبا کی صحیح معنوں میں تحقیق ہو پائی ہے کہ وہ کیا اسباب و وجوہات ہیں جن کی بدولت پوری دنیا اس کے بھیانک نتائج بھگتنے پر مجبور ہے اور نہ ہی ابھی تک اس کے علاج کے واسطے کوئی تشفی بخش میڈیسن تیار کی جاسکی ہے؟ نتیجتاً ہر سو خاموشی، سناٹا، ویرانی، وحشت ودہشت اور موت کا خیال پاؤں پسارے کھڑا ہے۔ اور ان سب کا ایک ہی حل اور جواب ہے کہ جب تک انسان اپنے من مرضی سے جینے کی ضد باندھے رہےگا ،یہاں تک کہ ہر اس جگہ اپنے قدم رنجہ کرنا چا ہےگا، جہاں نہ تو عقل و شریعت اجازت دیتی ہیں اور نہ ہی قدرت و فطرت اس بات کی گنجائش فراہم کرتی ہے کہ انسان ان نامناسب و غیر موزوں مقامات تک رسائی حاصل کرے اور قدرت کے چھپے مقاصد کو آشکار و عام کرے، تب تک مسائل سے چھٹکارا حاصل ہونے والا نہیں، اب چاہے گوشت پوست کا یہ منحنی سا ٹکڑا اپنی اکڑ فوں اور متکبرانہ روش میں گلے تک ڈوبتا چلا جائے، اس کا کوئی علاج اور حل نہیں ہے۔ اور جب تک تمام انسانی اذہان اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ،حالات بد سے بدتر کی طرف رواں دواں تو ہو سکتے ہیں، مگر اصلاح و سدھار کی طرف نہیں آ سکتے۔ اس لیے کہ رب کا قرآن یہی کہتا ہے : ہاں بعض علاقوں اور خطوں کو وقتی طور پر اس سے جزوی چھٹکارا حاصل ہو جائے یا کسی آبادی، بستی اور ملک کے لوگوں کو عارضی طور پر اس سے آرام و سکون میسر ہو جائے تو قرآن اس کی نفی بھی نہیں کرتا۔ مگر حقیقی راحت و سکون اور دائمی نجات ایک خدا کی بندگی بجا لانے اور ایک معبود حقیقی کو اپنا کارساز و وکیل تسلیم کرنے سے ہی ہوگا۔
قارئین کرام ! حسب سابق ہم آج پھر آیات قرآنی پر مشتمل مختصر’واٹس اپ اسٹیٹس‘ کا ذخیرہ اور مجموعہ لےکر حاضر خدمت ہوئے ہیں جن کو رواں ہفتے ہم نے واٹس اپ سے منسلک دوست احباب کی خدمت میں پیش کر نے کے بعدمحفوظ کر لیا تھا اور افادۂ عامہ کی خاطر وہاں سے کاپی کرکے معمولی حذف و اضافہ کے بغرض اشاعت’’اسلامیات‘‘ محترم مدیران اخبار کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
چنانچہ اس ہفتے ہمارا پہلا قرآنی اسٹیٹس ﴿نَبْعَثَ رَسُوْلًا تھا، اس میں ہم نے مختصراً یہ بتانے کی کوشش کی ہےکہ لوگو !اعمال بد سے بچو اور احکام خداوندی کی اطاعت و فرماں برداری کرو ،کیوں کہ:’’ آفت و بلاؤں کا آنا دراصل یہ انسانوں کے ہی برے اعمال و افعال کا اثر و نتیجہ ہوا کرتا ہے‘‘ ۔ اسی لئے لوگوں کو اعمال بد سے روکنے، ضَلالت و گمراہی سے نکالنے، بندوں کو راہ راست اختیار کرنے اور ہروقت اسی سے ڈر کر رہنے کی تعلیم و تلقین کے واسطے اللہ پاک نے روزِاول سے وحی و رسالت (ڈرانے والوں) کا سلسلہ جاری کیا، تاکہ (یہ ڈرانے والے) فرامین ربانی کی روشنی میں لوگوں کو سمجھا بجھا کر جہاں دنیا کا ماحول پاکیزہ بنائیںتو وہیں اس کی بھی نشاندہی کر دیں کہ جب کسی قوم کو دنیا یا آخرت میں عذاب دیا جانے لگےگا تو وہ قوم احکام الہی میں بےخبری یا نادانی کا عذر پیش کرکے عذاب سے بچ نہیں سکتی؟
ہفتے کا دوسرا اسٹیٹس انسانی اعمال بد کے نتیجہ میں ہونے والی خدائی آزمائشوں پر صبر کرنے اور حدود اسلام کی پابندی کے متعلق’’ ﴿اِصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا ‘‘ تھا؛ کہ: مسلمانوں پر سختی یا آزمائشی حالات کا آنا کوئی نئی بات نہیں، قرآن کے مطابق پہلے بھی ایمان والوں کو آزمایا گیا اور صبر و تسلی نیز یہ نصیحت فرمائی گئی کہ: ’’اگر کامیاب ہونا ہے اور دونوں جہان میں اپنی مراد کو پہنچنا ہے تو سختیاں اٹھا کر طاعت پر جَمنا ہوگا، گناہوں سے رُکنا ہوگا، دشمن کے مقابلے میں مضبوط اور ثابت قدم رہنا ہوگا، اسلام اور حدودِاسلام کی حفاظت میں لگے رہنے ہوگا‘‘۔موجودہ آزمائشی حالات میں بھی ہمارے لیے یہی سبق ہے ،جسے ہم سب کو دوہرانا اور انابت الی اللہ پر گامزن ہوجانا چاہئے۔’’ آج بھی اہل ایمان صبر کریں، حالات کا مقابلہ کریں اور مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہیں‘‘۔
ہمارا تیسرا اسٹیٹس ﴿کَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا ‘‘ تھا، اس میں انسان کی ایک خصلت’’جلد بازی‘‘ کو بتایا گیا ہے، جو اسے ہر جگہ مطلوب و درکار ہے، حالانکہ جلد بازی ہر جگہ پسندیدہ نہیں، اس سلسلے میں بتایا گیا ہےکہ: ’’قرآن بھلائی کی دعوت دے کر بشارتیں سناتا ہے اور برائی کے مہلک انجام سے باخبر کرتا ہے‘‘ ۔ مگر انسان کا حال بھی بڑا عجیب و غریب ہے کہ سب کچھ سننے جاننے کے باوجود برائی کی طرف چلنا ایسے ہی پسند کرتا ہے جیسے کوئی خیر و بھلائی کی طرف لپکتا ہے، اور اس وقت ہرقسم کے انجام سے آنکھیں موند لیتا ہے۔ آگے فرمایا گیا کہ بعض’بدبخت‘ تو عذاب خداوندی کا مطالبہ ہی کر بیٹھتے ہیں کہ: خداوند ! اگر پیغمبرؑ اپنی بات اور دعوے میں سچا ہے تو ہم پر سخت عذاب نازل فرما ،یا اسی طرح بے وقوف لوگ غصہ میں اپنی اولاد کے حق میں بددعا کر بیٹھتے ہیں اور ایسے جلد باز انسان نتائج پر غور نہیں کرتے۔
ہفتے کا چوتھا اسٹیٹس ﴿فَصَّلْنٰہُ تَفْصِیْلًا تھا؛ اس میں ایک خدائی اصول کی بابت متنبہ کرتے ہوئے پیش آمدہ حالات سے گھبرانے یا پریشان ہونے سے منع کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ:
’’جس طرح یہ حقیقت ہے کہ تمام خیر و شر کا نزول اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے، ویسے ہی یہ بھی مسلّم ہے کہ اس کے رہنے کا انداز اور ہٹنے کا پیمانہ بھی اللہ کے یہاں متعین و مقرر ہے کہ کب تک بندے ان سے متاثر رہنے ہیں؟ اس لیے حالات کی ناسازی کو دیکھ کر نہ تو گھبرانا چلانا کچھ فائدہ پہنچاتا ہے اور نہ ہی ایسا کرنے سے آئی ہوئی آفت و مصیبت ٹلتی ہے؟ بلکہ اس دنیا کی گرد آلود زندگی اور پریشان کن حالات کو برداشت کرتے اور اندھیری رات کے مانند سمجھتے ہوئے حق تعالی اور انبیاء و مرسلین کے بتائے ہوئے راستوں پر چلیں یا جن کاموں سے روکا ہے ان سے رکیں‘‘۔یہ سب کھول کر سنا دیا گیا ہے‘‘۔
آیات کے مختصر مفہوم و معانی سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ حالات آتے ہیں، جس سے کبھی تو پوری انسانی برادری متاثر ہوتی ہے، جیسا کہ موجودہ حالات میں مشاہدہ ہو رہا ہے اور کبھی حالات علاقائی یا جغرافیائی ہوتے ہیں ،جس سے دائرۂ محدود کے افراد متاثر ہوتے ہیں، مگر انسان کو بہر دو صورت اس سے بچاؤ کی تمام ظاہری تدابیر پر عمل کرتے ہوئے حالات کا سامنا کرنا چاہئے، اور اس کے خاتمہ کےلیے اس کے پیدا کرنے والے کی طرف مکمل رجوع بھی کرنا چاہئے، کہ وہیں سے عرش و فرش کے درمیان رونما ہونے والے حادثات و واقعات پر مہر لگتی ہے اور وہیں انسانیت کی راحت رسانی کے فیصلوں کا نفاذ ہوتا ہے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں