جامعہ ملیہ اسلامیہ کے درودیوار لالہ زار کیوں؟

0
1495
نئی دہلی : نہتے طلبہ وطالبات پر لاٹھیوں کی بارش کرتی ہوئی آر ایس ایس نواز دہلی پولیس، واضح رہے کہ مسلم اقلیتوں پر دہلی پولیس کی ظالمانہ کاروائی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ ہمیشہ دہلی پولیس مسلمانوں اور اقلیتوں کے تعلیمی اداروں میں اس قسم کی دہشت کا کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔
All kind of website designing

قوم کے لئے ایک سوالیہ نشان؟

محمد قمرالعین

ڈیپارٹمنٹ آف ترکش،جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی

گزشتہ پانچ دنوں سے مسلسل ہم جامعہ کے طلباء و طالبات ملک کے آئین کی حمایت میں خون پسینہ ایک کرکے دستور ہند کے تحفظ کے لئے لڑ رہے ہیں، ہم میدان کارزار میں اتر پڑے ہیں، ہم طلباء وطالبات آپ کو چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں آپ کے تعاون کے منتظر ہیں، پھر بھی قوم و ملت کے سرکردہ شخصیات خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں،اے قوم کے سیاسی و ملی قائد و رہنما کہلانے والوں شرم کرو اسٹوڈنٹ جل رہا ہے جامعہ کی دیواریں ہمارے خونوں سے لالہ زار ہے پھر بھی تم اپنی کرسیوں کے تحفظ میں کأس گدائی لیکر حکومت سے بھیک مانگ رہے ہو، ہماری آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے نہیں خون کی لڑی بہہ رہی ہیں، ہر طرف ظالمانہ شب خون مارا جا رہا ہے، گزشتہ ١٥ دسمبر کو دہلی پولیس کے ذریعے ہمارے پر امن احتجاج کے اوپر بھی لاٹھی چارج کیا گیا، آخر ہمارا قصور کیا تھا؟ جی ہاں! ہمارا قصور یہ تھا کہ ہم آئین ہند کے تحفظ میں حکومت کے خلاف کیوں کھڑے ہوئے، ہمارا قصور یہ تھا ہم NRC اور CAB ہٹانے کی کیوں بات کررہے ہیں، اس ظالم پولیس کے ذریعے جامعہ کے کیمپس کا کون ایسا حصہ نہیں تھا جہاں پر ہمارے ساتھیوں کے خونوں کا قطرہ نہ گرا ہو یہاں تک لائیبریری میں پرامن طریقہ سے پڑھائی کرنے والے اسٹوڈنٹ کو بھی نہیں چھوڑا گیا، ایسی حالت میں بھی ہماری وہ بہنیں اٹھ کر سامنے آئی جنہوں نے ماضی کی تمام تاریخوں کا احیا کرا دیا، تمہارے اس جزبئہ دستور ہند کو ہزاروں گلہائے عقیدت پیش کرتا رہوں جسے آنے والے وقت میں مؤرخ اپنے سنہرے قلم کے سنہری روشنائی سے قرطاس زریں پر تحریر کرے گا،
میری بہنوں تم نے تو سمیہ رضی اللہ عنہا کے جزبئہ قربانی کا نشأۃ ثانیہ پیش کیا- مصر کی زینب الغزالی کی دلیری کا ڈنکا بجا یا، لیلیٰ خالد کی شمع کو فیروزاں رکھا، تیرے ان کے جزبات و احساسات کو ہزاروں سلام !
فلک و افلاک نے دیکھا ظالم کی گردنیں کیسے اٹھی تھی طالبات کو نشان بربریت سے کیسے داغا گیا، ان کے ساتھ درندگی کی کون سی حدیں پار نہیں کی گئی مگر ان سب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حق کے لئے قدم آگے بڑھاتی رہی، جب اپنے نعرے کی حفاظت نہیں کیا بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ تب کون سی جگہ سے آپ اپنے تحفظ کی امیدیں کئے بیٹھے ہیں، اس ظالم حکومت کے ذریعہ جامعات اور یونیورسٹیوں تک کو تحفظ فراہم نہیں کی گئی تو ملک کے کس حصے کے لیے تحفظ کی امیدیں وابستہ کر بیٹھے ہو جو طلباء و طالبات ملک کے مستقبل کے لئے آئین ادا ہیں، کس کس پر رویا جائے جب اپنے ہی دامن بچا بچا کر گلیوں کا راستہ ناپ رہے ہوں، افسوس اور شرمندگی تو اس وقت ہوتی ہے ہماری یہ مردہ قومیں ان سب مناظر کو اپنی نرم گرم بستر پر جائے کی چسکیاں لے لے کر بذریعہ سوشل میڈیا دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر یہ سوچ کر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں میرے ایک اکیلے آنے سے کیا بات بنے گی! مگر تاریخ شاہد ہے جب جب بھی ظلم نے سر اٹھایا انہیں جامعات اور اہل علم و دانشوروں ہی کے صفوں سے سر میں کفن باندھ کر میدان کارزار میں کود پڑے اسی طرح کچھ اس وقت بھی ہوا ہم چیخ رہے تھے، آپ کو آواز دے رہے تھے، مگر آپ کے سروں پر جوں تک نہیں رینگی لیکن امت کا درد رکھنے والے امت کے ہی جانباز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء و طالبات میدان عمل میں اتر پڑے ہیں یہ سوچ کرکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اس تحریک کو اگر کچل دیا گیا تو آنے والے دنوں میں اس گلستاں کی برباد  i  ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، اگر یہ چنگاری مدھم ہوئی تو بلاشبہ اپنی بوریا بستر سمیٹ کر دوسری ہجرت کے لئے تیار ہو جائیں،
اگر ملک نہیں چھوڑنا ہے تو ہماری صفوں میں شامل ہو کرپارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ان غنڈوں کے خلاف احتجاج کریں، انکے پتلوں کو پھونکا جائے، اپنے ملی و سیاسی رہنماؤں کے گریبان کھینچ کر باہر لایا جائے اور کندھے سے کندھے ملاکر لڑیں-
١٥ دسمبر کی رات کا منظر تو آپ سوشل میڈیا پر چھوٹی چھوٹی کلیپیں دیکھے اور اخبارات میں پڑھے ضرور ہونگے، اس ظالم حکومت کی ظالم پولیس نے بربریت کی ساری حدیں عبور کر دی حتی کہ مسجد تک کوحملہ کرنے سے خائف نہیں ہوا (اے اللہ تو اسے برباد و تباہ کر جس نے تیرے گھر تک کو نہیں چھوڑا) میں ان تمام مناظر اپنی آنکھوں دیکھا ایسا معلوم ہو رہا تھا جامعہ میں قیامت صغریٰ برپا ہو گیا، سرزمین اوکھلا اسرائیل اور فلسطین بنا دیا گیا، جامعہ کیمپس کے اندر کشمیر کو لے آیا گیا، ظلم کی ساری حدیں عبور کر دی گئی مگر ان سب کے باوجود ہم طلباء وطالبات نے بندوق کے سامنے سینۂ سپٹ ہونے کا عزم کر لیا یہ سوچ کر کہ آئین ہند کو جسطرح بھی ہو اپنے خون سے سینچنا ہے اس کے لئے چاہے ہمیں جو بھی کرنا ہو، اور حکومت کو یہ بتانا ہے ہمارے رگوں کے اندر ٹیپو سلطان کا خون گردش کررہا ہے، ہم مولانا آزاد کی اولاد ہیں، ہم نے صادقان صادقپور کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے، تمہارے جیسے نا مرد نہیں ہیں تم نے زہریلے سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالا ہے ہم ڈنک مار کر ہی چھوڑیں گے، تمہارے جیسے ناجائز گوڈسے کی اولاد نہیں ہیں، ہم یہاں ساورکر کے قانون کو نہیں نافذ ہونے دیں گے،ملک میں انقلاب آئے گا انشاء اللہ ضرور آئے گا اس لیے کہ ہمارے سپورٹ میں ملک کے تمام چھوٹے بڑے جامعات اور یونیورسٹیوں کے طلباء وطالبات ہماری حمایت میں کھڑے ہو چکے ہیں ہمارا خون یونہی رائیگاں نہیں جائے گا، ہم نے یہ عہد کرلیا اس حکومت کو اکھاڑ پھینکنا ہے چاہے اس کے لئے ہم اپنی جان دے بھی سکتے ہیں اور کسی کی جان لے بھی سکتے ہیں، ہماری شریعت نے ہمیں دونوں ہاتھوں میں لڈو دیا ہے کا ٹنگے تب بھی ثواب کٹنگے تب بھی شہادت کا ثواب، دنیا نے یہ منظر دیکھا ہے ہم اسٹوڈنٹ کے اوپر لاٹھیاں اور ڈنڈے کی کس طرح برسات کی گئی یہاں تک کہ ربڑ کی گولیوں سے بھی داغا گیا پھر بھی پیچھے نہیں ہٹیں کیونکہ تاریخ میں ایک اورباب کا اضافہ کر نا ہے ہم جامعہ ملک کے لئے کٹ تو سکتے ہیں، جل تو سکتے ہیں، گولیوں اور بارودوں کا استقبال تو کر سکتے ہیں مگر گوڈسے کی ناجائز اولاد کے سامنے جھک نہیں سکتے، آج بھی جامعہ مقفل ہونے کے باوجود ہم اپنا احتجاج جاری کر رکھا ہے یہاں کی درودیوار چیخ کر امت کو جگا رہی ہے ہم تمہاری مدد کے منتظر ہیں مگر یہ خرگوش کی نیند سونے والی قوم اپنے اپنے گھروں میں راشن اسٹوک کرتے نظر آرہے ہیں ہمارا لہو آپ کے لئے بہا جارہاہے اور آپ کو پیٹ کی جہنم بجھانے کی فکر ہے، ہم نے یہ منظر آنکھوں دیکھا ہم لوگ جامعہ سے لاٹھیاں کھاکر آرہے ہیں جامعہ نگر کی عوام کرانے کی دکانوں میں راشن کا اسٹوک جمع کرنے میں لگے ہیں، اس قوم پر ترس بھی آتا ہے افسوس بھی ہوتا ہے اس وقت ان کے لئے چلو بھر پانی میں نہیں بلکہ پیشاب کے قطرے میں ڈوب مرنے کا مقام تھا، تمام سانحہ معلوم ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ایک جگہ بریک کر رکھا ہے اللہ اس امت کو عقل سلیم سے نوازے، اور ہمارے قائدین کو ہمارے خون کی ہمدردی ان کے دلوں میں پیدا کر، آمین ثم آمین یارب العالمین-
میں اپنے اس مختصر سے موضوع میں ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے ساتھ اپنے دل کے احساسات اور آنکھوں دیکھا منظر کو بیان کرنے کی کوشش کی، لکھنا تو اور چاہ رہا تھا: مگر میرا قافلہ آواز دے رہا ہے چلو میدان احتجاج میں، اے اللہ! تو ان لوگوں کی بھی کاوشوں کو قبول کر جو غیر مسلم ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ ہماری حمایت میں کھڑے ہیں، بالخصوص سکھ بھائیوں کو جنہوں نے بغیر پکارے جامعہ کے طلباء و طالبات کے ساتھ کھڑے ہیں:

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here