بقلم پروفیسر عبدالحليم
تقسیمِ مال، تقسیمِ کار، تقسیم وارثت مواقع اور تدابیر کے لحاظ سے نہ صرف بہتر بلکہ بسا اوقات باعث خیر و برکت ہونے کے ساتھ ساتھ از روئے شرع باعث اجر و ثواب بھی ہوا کرتا ہے،
لیکن تقسیم کی بعض اقسام مثلاً تقسیمِ ذہن اور تقسیمِ علم بہر صورت تقسیمِ ملک سے کہیں زیادہ مُضِر اور خَطَرناک ہوا کرتی ہیں،
قارئین : تقسیمِ ذہن اور تقسیمِ علم اُس وقت زیادہ تشویشناک اور خطرناک ہو جایا کرتا ہے جب اُس تقسیم کو مذہبی رخ اور پہلو سے پیوستہ و آراستہ کر کارِ ثواب کا ذریعہ بنا اور بتا دیا جاتا ہے،
تاریخ اسلام کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے کہ ماضی میں ہمارے بعض
قاعدینین، مفکرین اور رہنماؤں سے لا شعوری طور پر کہیں نہ کہیں بحیثیت انسان کچھ لغزشیں ضرور ہوئیں،
تقسیمِ ہند کے بعد امت مسلمہ کی مجموعی ترقیاتی و تعلیمی منصوبوں اور فیوچر پلان اور دنیاوی جائز وسائل کے حصول پر بتدریج منظم کام ہوا ہوتا تو یقیناً آج ہندوستانی مسلمانوں کی پوزیشن مزید مستحکم و پائدار ہوتی،
ہندوستانی تناظر میں آزادی کے بعد پچاس سال کے دورانیہ پر مشتمل دو نسلیں اور جنریشن کم و بیش اس تقسیمِ تعلیم اور تقسیمِ ذہن کا بہت بری طرح شکار ہوئیں،
تقسیمِ تعلیم سے کہیں زیادہ تقسیم ذہن کے برے اثرات سماجی طور پر دیکھنے کو ملے ہیں ،
غیرجانبدارانہ و منصفانہ تجزیہ و محاسبہ کرنے کے علاوہ تاریخ اسلام اور ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ کے مطالعہ سے اس موقف کی مکمل تائید ہوتی ہے،
اکیسویں صدی کی ابتداء سے نت نئے ایجادات، ذرائع ابلاغ، نیٹ ورکنگ،إرسال و ترسیل، تبادلہ خیال کے مختلف آزاد پلیٹ فارم کی ایجادات سے توہم پرستی، اجارہ داری، بے تکی غیر مستند دلائل، بے بنیاد باتوں کا بتدریج کسی حد تک خاتمہ ممکن ہوا،
چنانچہ اکیسویں صدی کے پہلے بیس سال مکمل ہونے پر آزادی کے بعد یہ تیسری نسل اور جنریشن عنقریب میدان عمل میں اترنے والی ہے،
نئی نسل بہر حال موجودہ حالات کے تناظر میں تقسیمِ علم کا شکار کسی حد تک تو نہیں البتہ تقسیم ذہن کے تاثر سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا،
تقسیمِ ذہن کا شکار قومیں کسی نہ کسی کاز اور ایشوز کو لیکر اپنے درمیان ہمیشہ حد فاصل اور رابطہ کا خلاء اور ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف رائے و ذہن کی وجہ سے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا نہیں ہو پاتی ، یہی وجہ ہے کہ انتشار کے امکانات زیادہ اور اتحاد کے اثرات کم دیکھنے کو ملتے ہیں،
ذہنی و فکری اتحاد جسمانی اتحاد سے کہیں زیادہ مُفید و کارآمد اور دور رس کامیاب نتائج کے علاوہ حصولِ مقصد میں معاون ہوا کرتا ہے،
تجزیہ نگاروں کا ایسا ماننا ہے کہ دنیاں میں بسنے والی شاطر و تخریب کار قومیں کسی بھی قوم کی علمی، سماجی، سیاسی،اقتصادی ترقی پر ڈائریکٹ حملہ آور نہیں ہوتیں بلکہ مصلحت پسندانہ سوچ کی پرواز سے قوموں کے درمیان انھیں کے قائدین، مفکرین کا استعمال کر تقسیمِ علم، تقسیم ذہن اور درجہ بندی کو مذہبی جذبات سے کھلواڑ کر ، رائی کا پہاڑ بنا کر، کار ثواب سے جوڑ کر کسی خاص شعبہ تک محدود کر دور سے بیٹھکر تماش بین ہوا کرتی ہیں،
اس لائحہ عمل سے دنیاں کی بڑی بڑی طاقتیں، سلطنتیں ڈھیر ہوتی ہوئی، بتدریج اپنی شناخت کو کھوتے ہوئے محکومیت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہوئے دیکھی گئیں ،
شرعی اصولوں اور بنی نوع انسانی سے متعلق کسی بھی علم و فن اور خدمات کی تقسیم اور موجودہ وقت کی ضروریات کی اَندیکھی و پامالی نہ صرف نقصان دہ بلکہ دنیاں و آخرت دونوں جہان میں قابلِ گرفت بھی ہے،
وقت رہتے نونہالان قوم کی ذہن سازی قطع نظر ذہنی و علمی تقسیم و تفریق وقت کی اہم ترین ضرورت ہے،
والسلام
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں