مودی ، شاہ اور یوگی کی پولس کی بربریت اور ظلم و ستم

0
1299
All kind of website designing

کیا خونی پنجوں سے عوامی تحریک روکی جاسکتی ہے؟

عبدالعزیز

’این آر سی‘ اور شہریت ترمیم قانون کے سلسلے میں مودی، شاہ اور ان کی پارٹی کے لیڈران اور ترجمان جو تقریریں کرتے رہے اور بیانات دیتے رہے ان سب کا دو مقاصد تھے۔ ایک مقصد تھا سارے ملک کے مسلمانوں کے دل میں خوف و دہشت پیدا کرنا، دوسرا مقصد ہندومسلمان کو تقسیم کرکے انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا تھا۔ بھاجپا کے سارے لیڈروں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں میں اور ملک کے انصاف پسند شہریوں میں ان کی تقریروں اور بیانات سے کس قسم کا ردعمل پیدا ہوگا۔ اب جبکہ پورے ہندستان میں بڑے پیمانے پر گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ اور شہر شہر این آر سی اور شہریت ایکٹ کے خلاف مظاہرے اور احتجاج ہورہے ہیں تو بھاجپا کے لیڈران اپنی سابقہ تقریروں اور بیانات سے پیچھے ہٹتے نظر آرہے ہیں۔ جارحانہ اور فرقہ پرستانہ تقریروں کے بجائے کئی کام کر رہے ہیں جس سے ملک بھر میں پھیلتی اور جڑ پکڑتی عوامی تحریک کے بڑھتے ہوئے قدم کو روکنا چاہتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہہ رہے ہیں کہ این آر سی اور شہریت قانون کے سلسلے میں اپوزیشن پارٹیاں خاص طور پر کانگریس لوگوں کو گمراہ کر رہی ہیں۔ دوسری بات یہ کر رہے ہیں کہ مظاہرین کے درمیان اپنے ایجنٹوں کو بھیج کر مظاہرین کو بدنام کرنے کیلئے تشدد اور ہنگام

عبد العزیز

ہ آرائی کے ذریعے مظاہرے کو Discredit (بدنام) کرنا چاہتے ہیں۔ تیسرا بڑا کام پولس فورسز کے ذریعے مظاہرین اور احتجاجیوں پر لاٹھی، ڈنڈے، ٹیئر گیس چھوڑنے کے ساتھ ساتھفائرنگ کرکے ان کے حوصلے پست کرنا چاہ رہے ہیں سب سے پہلے احتجاج اور مظاہرے ملک کے شمال مشرقی حصے میں شروع ہوئے، جس میں آسام سب سے آگے تھا۔ کئی دنوں تک مظاہرے ہوتے رہے۔ کروڑوں کی جائیدادیں تباہ و برباد کر دی گئیں۔ تحریک اتنی زبردست تھی کہ وہ قابو سے باہر ہوگئی۔ بی جے پی کے ایم ایل اے، ایم پی، وزراء یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ منہ چھپاتے پھر رہے تھے۔ ان کو اپنے گھروں میں پناہ لینی پڑی۔ تقریباً دس روز تک انٹرنیٹ اور مواصلات کے سارے ذرائع بند کر دیئے گئے۔ شمالی مشرقی حصے کے بعد ہی ملک بھر میں احتجاج اور مظاہروں کا دور شروع ہوا۔ دیکھتے دیکھتے ملک بھر میں پھیل گئے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی جس طرح پولس لائبریری، کینٹین اور مسجد میں گھس کر طلبہ اور طالبات کو زد و کوب کیا، ان کو مارا پیٹا اور گولیوں تک کا استعمال کیا اسے پورے ملک کے طلبہ میں غم اور غصے کی لہر پھیل گئی۔ دوسرے دن ہی پچیس تیس یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات نے جامعہ ملیہ کے مظلوم طالب علموں کے ساتھ اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ دوسرے دن 22یونیورسٹی طلبہ کے مظاہرے ہوئے۔تیسرے دن یعنی گزشتہ روز پچیس سے زیادہ یونیورسٹیوں کے طلبہ نے مظاہرہ کیا۔ جنترمنتر اور دیگر جگہوں پر سول سوسائٹی کے ذمہ داروں نے مظاہرے کئے۔ سب سے بڑے پیمانے پر یوپی میں مظاہرے ہوئے۔ تقریباً 30ضلعوں میں گزشتہ روز احتجاج اور مظاہرے کئے گئے۔ تین روز پہلے لکھنؤ میں ایک شخص کی موت مظاہرے میں ہوئی تھی۔ گزشتہ روز کے مظاہرے میں اموات کی متضاد خبریں آرہی ہیں۔ یوگی پولس کے مطابق اب تک 6 افراد جاں بحق ہوئے لیکن اسپتال کے ریکارڈ کے مطابق 11 افراد کی ہلاکت کی خبر آرہی ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ ایک غیر متوازن اور بددماغ حکمراں نظر آتے ہیں۔ دو روز پہلے انھوں نے بیان دیا تھا کہ جو لوگ جائیدادوں کے جلانے اور تباہ و برباد کرنے میں پکڑے جائیں گے ان سے بدلہ لیا جائے گا اور ان کی جائیدادوں کو بیچ کر سرکاری جائیدادوں کی تباہ کاری کی بھرپائی کی جائے گی۔ اس کی وجہ سے احتجاج میں کمی ہونے کے بجائے شدت پیدا ہوگئی اور بڑے پیمانے پر لوگ اپنے گھروں سے نکل نکل کر احتجاج اور مظاہرے میں شریک ہوئے۔
کچھ دنوں پہلے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ مظاہروں کو بدنام کرنے کیلئے بھاجپا اور آر ایس ایس کے ایجنٹ اس میں شامل ہورہے ہیں۔ انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سیالدہ سے چلنی والی ٹرین ’لال گولہ‘ اسٹیشن کی لائن پر ، ٹرین پر پتھراؤ کرتے ہوئے لوگوں نے ایک شخص کو لنگی اور ٹوپی پہنے ہوئے پکڑا اور پولس کے حوالے کردیا۔اس کا نام ابھیشیک سرکار ہے۔ لوگوں نے اسے کپڑے بدلتے ہوئے دیکھا تھا، جس کی وجہ سے اس پر نظر رکھا تھا۔ مرشد آباد کے ایس پی مکیش نے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔ اسی طرح کی حرکت لگ بھگ ہر مظاہرے کے درمیان بی جے پی والے کررہے ہیں۔ لیکن کسی اور جگہ لوگ پکڑے گئے نہیں گئے ہیں۔ البتہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جب پہلے دن مظاہرہ ہوا تھا تو ویڈیو کے ذریعے یہ دکھایا گیا تھا کہ بی جے پی کی طلبہ تنظیم ’اے بی وی پی‘ کے ارکان پولس کی سادہ وردی میں جامعہ ملیہ کے طلبہ کے مظاہرے میں شامل ہوگئے تھے۔سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے شنوائی سے انکار کردیا اور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کیلئے کہا۔ ہائی کورٹ کے جج نے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کیا اور اگلی تاریخ 22 فروری کو دے دی جس کی وجہ سے مظلوم طلبہ میں کورٹ کے اندر ہی بے چینی اور بے قراری پیدا ہوگئی اور کورٹ ہی میں کسی نے جج کی اس کارروائی سے شرم شرم کی آواز بلند کی ۔ بی جے پی آسام کے بعد مغربی بنگال پر نظر جمائے ہوئے ہے۔ لوک سبھا کے الیکشن میں 18 سیٹوں پر کامیابی کے بعد اس کا حوصلہ بڑھ گیا تھا۔ اس کے مظاہرے میں بھی شدت پیدا ہوگئی تھی۔ این آر سی پر زیادہ بیانات امیت شاہ نے بنگال ہی میں دیئے ہیں۔ ممتا بنرجی نے بی جے پی کی چال کو اچھی طرح بھانپ لیاجس کی وجہ سے ترنمول کانگریس یاممتا بنرجی کی طرف سے سخت جوابی قدم اٹھائے گئے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ضمنی انتخاب میں ٹی ایم سی کو تینوں سیٹوں پر کامیابی ملی۔ ٹی ایم سی اور ممتا بنرجی تین چار روز سے مظاہرے کر رہی ہیں۔ اور ہر مظاہرے میں این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سخت بیان دے رہی ہیں۔بنگال بھر میں اس کا Response ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سلسلہ اسمبلی انتخاب تک چلتا رہے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک بھر کی عوامی تحریک کو کیا مودی-شاہ اپنے خونی پنجوں سے دبانے اور کچلنے میں کامیاب ہوں گے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی حکمراں ، کوئی بھی ظالم و جابر بادشاہ عوامی تحریک کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ راقم الحروف نے اپنے ایک مضمون میں ہندستان میں ایمرجنسی سے پہلے کانگریس کے خلاف عوامی تحریک، تیونیشیا اور مصر کی تحریکوں کا ذکر کیا تھا۔ ان تحریکوں کو روکنے میں کسی بھی حکمراں کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ مودی-شاہ کے برے دن میرے خیال سے شروع ہوگئے ہیں۔ اس کی دھمک خود ان کے کانوں کو سنائی دینے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیانات جارحانہ کے بجائے مدافعانہ ہوگئے ہیں۔ این ڈی اے میں شامل تمام حلیف پارٹیوں کے اندازِ بیان بھی بدل گئے ہیں۔ نتیش کمار نے کہا ہے کہ وہ بہار میں این آر سی لاگو نہیں کریں گے۔ لوک جن شکتی کے لیڈر بھی این آر سی کے خلاف بیان دینے لگے ہیں۔ اکالی دل کے ذمہ داروں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون میں مسلمانوں کو بھی شامل کرنا چاہئے۔ نوین پٹنائک نے شہریت ترمیمی بل کی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں حمایت کی تھی لیکن وہ بھی اب یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اڑیسہ میں این آر سی لاگو نہیں کریں گے۔ مہاراشٹر میں موجودہ حکومت کا انداز بھی این آر سی کے حق میں نہیں ہے۔ اب اس معاملے میں بی جے پی تنہا رہ گئی ہے۔ اس میں بھی پہلے جیسی بات نہیں رہی۔ ان چیزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی تحریک مضبوط اور مستحکم ہورہی ہے اور جن جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے ان کے وزرائے اعلیٰ بھی خاموش ہوگئے ہیں۔ وہ صرف ایک ہی کام کر رہے ہیں کہ عوامی تحریک کو پولس اور نیم فوجیوں کے ذریعے دبانے اور کمزور کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ مودی اور شاہ کے خونی پنجوں سے یہ تحریک نہ دبے گی نہ رکے گی بلکہ روز بروز زور پکڑے گی اور اس میں شدت پیدا ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مظاہرہ اور احتجاج جتنے بڑے پیمانے پر ہو مگر وہ پر امن ہو۔ تشدد اور اشتعال انگیزی سے مظاہرے اور احتجاج کا مقصد فوت ہوجاتا ہے اور زیادہ دنوں تک وہ جاری بھی نہیں رہ پاتا۔ ہر مظاہرے کو بدامنی، بدنظمی اور تشدد سے بچانے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ جو بھیس بدل کر، مظاہروں میں شامل ہوکر بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان پر کڑی نظر رکھنی چاہئے۔ سیکڑوں لوگوں کو ایسے بدنام زمانہ لوگوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جب ہی کامیابی ہوسکتی ہے۔ جہاں تشدد اور پولس کی جارحیت کا سامنا ہو وہاں مظاہرے کے انداز میں تبدیلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔
گزشتہ روز بنگلور کی ایک یونیورسٹی میں نہایت عجیب و غریب طریقہ سے طلبہ اور طالبات نے مظاہرہ کیا۔ سیکڑوں طلبہ یونیورسٹی کے اندر جمع ہوئے اور دفعہ 144 کو توڑے بغیر گیٹ سے ایک ایک کرکے باہر نکلے۔ اپنے جوتے اور چپل کو گیٹ سے باہر رکھ کر ننگے پاؤں یونیورسٹی کے اندر واپس آئے۔ کئی ایک نے اپنے چپلوں پر پھول بھی رکھ دیئے۔ پولس کھڑی کی کھڑی رہ گئی اور جوتوں اور چپلوں کا مظاہرہ دیکھتی رہی۔ جوتے اور چپل بتارہے تھے کہ ان پر گولیاں نہیں چلائی جاسکتیں اور نہ ان کی بھیڑ کو پولس ہٹا سکتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بنگلور میں ایک دو روز پہلے جو وہاں کے چیدہ شخصیتوں پر پولس کا ظلم ہوا اور خاص طور پر مشہور تاریخ داں، صحافی اور مصنف رام چندر گوہا کے ساتھ پولس کا ناروا سلوک ہوا تھا اس سے طلبہ اور طالبات پولس کو تشدد کرنے کا کوئی موقع دینا نہیں چاہتے ۔ بہت سی جگہوں پر یہ دیکھا گیا کہ مظاہرین میں شامل لڑکے اور لڑکیاں پولس کو گلاب کا پھول دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ زیادہ تر پولس نے اس پیشکش کو قبول کیا۔ کچھ ایسے بھی بدبخت اور فرقہ پرست تھے جنھوں نے پھول لینے سے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھ سے بھی بعض پولس والوں نے پھول لینانہیں چاہا۔ مظاہرین اگر بدل بدل کر تشدد اور جارحیت سے بچتے ہوئے اپنے مظاہرے کرتے ہیں تو پولس کو بھی خواہ اسے اوپر سے جو بھی آرڈر دیا گیا ہو مات کرسکتے ہیں۔ امید ہے کہ مظاہروں کا رنگ و روپ بدلتا رہے گا اور مودی -شاہ کے چہرے کا رنگ بھی اترتا رہے گا۔ ایک نہ ایک دن ظالم حکمرانوں کو اپنی گدی سے اترنا پڑے گا۔ جیسے کہ ماضی کے ظالم حکمرانوں کو اترنا پڑا ہے۔ ساحر لدھیانوی نے ظلم اور بربریت پر بہت پہلے کہا تھا :
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے … خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے … فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ یا لاشۂ بسمل پہ جمے … خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں … خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب … لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ظلم کی قسمت ناکارہ و رسوا سے کہو … جبر کی حکمت پرکار کے ایما سے کہو
محمل مجلس اقوام کی لیلیٰ سے کہو … خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلہ تند ہے خرمن پہ لپک سکتا ہے … تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے … کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے … سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا … ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے … ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے … ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے
E-mail:[email protected]

 

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here