’’آج کچھ دردمرے دل میں سواہوتاہے۔‘‘

0
1051
All kind of website designing

کیا کبھی اس پربھی غور کیا آپ نے؟

مفتی احمدنادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی ،انڈیا

ہمارے مسلمانوں میں بڑے بڑے نام ہیں۔اور اللہ نے ان کو اتنانواز رکھا ہے کہ پچاس پچاس کڑور بات کی بات میں حکومت کے چیریٹی فنڈ میں دیدیتے ہیں ۔مگر ان سے معلوم کریں کہ قوم کے لیے کیا کیا اور کون سی ایسی یاد گارڈ چھوڑی جس کے طفیل ہماری مسلم قوم تعمیروترقی کے میدان آگے بڑھ سکے ۔میں جب پنجاب جالندھر گیا تو وہاں معلوم ہواکہ جالندھر میں ایک یونیورسٹی ہے جس کا نام لولی ہے اور بہت بڑی ہے۔اور یہ اس شخص نے بنائی ہے جو کسی زمانے ٹھیلے پہ پانی پوری اور چاٹ بیچتا تھا ۔آج اس شہر میں مٹھائی کی دکان سے لیکر تقریبا ہر چیز کے بڑے بڑے شوروم لولی کے نام سے موجودہیں ۔ہمارے مسلمان سرمایہ دار کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ان میں کئی ایسے ہیں جو خودمیڈیکل اوردواسازی کے کام سے جڑے ہوئے ہیں۔ مگر کسی نے آج تک کوئی یونیورسٹی اور بڑے بڑے

مفتی احمد نادر القاسمی
مفتی احمد نادر القاسمی

تعلیمی ادارے ۔IIT کالج ۔لاءٕکالج تو دور کی بات ہے کسی نے 100 یاپچاس بیڈ کے ہاسپٹل تک نہیں بنائے کہ جہاں اپنی قوم کے پستہ حال لوگ دواعلاج کراسکیں ۔آج جب اخبارات اور سوشل میڈیا پر خبریں آتی ہیں کہ اسپتالوں سے یہ کہ کر واپس کردیاجاتاہے کہ تم مسلمان ہو اس لیے ہم یہاں تمہاراعلاج نہیں کریں گے تو دل صدمہ سے چور ہوتاہے۔ حالیہ کورونا وائرس کی وبا کے ماحول میںسنگھ کے پروردہ کئی چہرے بے پردہ ہوچکے ہیں، جو مسلم مریضوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہی نہیں کرتے ، بلکہ آر ایس ایس کے منصوبہ کے مطابق مسلم سماج کی ایذا رسانی کےسارے کرتب آزمارہے ہیں۔ دراصل ان کی تربیت ہی انہیں خطوط پر ہوئی ہے کہ وہ جس شعبے یا پیشے میں جائیں وہاں آنے والے مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کا کوئی بھی موقع فروگزاشت نہیں کرنا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اس مظلوم قوم کی تذلیل اور اس کے تنزل کے لیے کام آنے والے تمام علوم و فنون کے تربیتی وتعلیمی ادارے و ہزاروں کی تعداد میں انہوں نے قائم کررکھے ہیں۔ سب سے پہلے ایام طفولیت سے بچوں کے شفاف دلوں میں نفرت خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر گھولنے کیلئے انہوں نے ملک گیر سطح پر چالیس ہزار سے زائد’’ شیشو مندر‘‘ کےنام سے پرائمری تک کی تعلیم کے لیے ادارے قائم کررکھے ہیں، اس کے بعد پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک کے ہزاروں ادارے آر ایس ایس اور اس کے نظریات کی حامل مختلف تنظیمیں چلارہی ہیں۔ پہلے تو ابتدائے عمر میں ہی پہلی جماعت سے پانچویں تک ان نونہالوں کو مسلمانوں ، دلتو، قبائلیوں اور دیگر اقلیتوں سے نفرت کا سبق ازبر کرادیا جاتا ہے۔ پھر پانچویں جماعت کے بعد یہی بچے پری میٹرک اداروں میں جاکر نفرت کی آگ کو اپنے سینے میں چنگاری سے شعلے بنالیتے ہیںاور پوسٹ میٹرک تک پہنچنے کے بعد یہی ذریت پر امن احتجاج کرنے والوں ،جمہوری ملک میں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں اور سیکولرزم کی بالادستی کی دہائی دینے والوں کا دنیا سے ہی صفایا کردینے کی دہشت گردانہ مہم پر نکل پڑتے ہیں۔
مبینہ دہشت گردسادھوی پرگیہ، رام سینا کا سربراہ پرمود متالک ،معروف وکیل پرشانت بھوشن پر جان لیوا حملہ کرنے والا تجیندر سنگھ بھلا۔رام سینا کا رکن اندر ورما اور وشنو گپتا جیسے ہزاروں سانپ آرایس ایس پالے ہیں، اس میںکوئی کلبرگی کا قاتل نکلتا ہے تو کوئی ڈاکٹر پرمود دابھولکر کا گلاریت کر جشن مناتا ہے۔یہی تنظیم یو پی ایس سی،وکالت کے لیے کلیٹ، نیٹ ، جے ای ای ای اور مینجمنس کی اعلی تعلیم کے تربیتی کوچنگ کے سینکڑوں سینٹر چلاتی ہے۔اب غور کیجیے اس تربیتی اداروں سے میڈیکل ، انجینئرنگ، منجمینٹ اور سول سروسز کے ٹیسٹ میں بیٹھ کرکامیاب ہونے والے ڈاکٹروں، انجینئروں ، وکیلوں ، بیورو کریٹس اور فوج میں اعلیٰ عہدے پانے والے فسطائیت کے پروردہ افراد آپ کو مٹانے اور نقصان پہنچانے کے جتن کریں گے یا آپ کی ترقی ،کامیابی اور پرامن طریقے سے آپ کوملک کے اندرجینے کا موقع فراہم کریںگے؟
میرے خیال سے اس سوال کا حتمی جواب بلا کسی قیل و قال یا تاویل کے نفی میں ہی ہوگا۔اس لیے کہ مسلمانوں قتل عام کی تاریخ رقم کرنے والے لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت، میجر رمیش اپادھیائے، سمیر کلکرنی، اجے راہرکر، سدھاکر دیویدی اور سدھاکر چترویدی جیسے ہزاروں ہندو دہشت گرد نفرت اور تشدد پھیلانے والے ناپاک لوگ اسی شدت پسند تنظیم آر ایس ایس کی دین ہے۔جس نے حکومت اور عدلیہ ،فوج، میڈیکل اور بیوروکریسی جیسے تمام شعبوں میں اپنے زہریلے ناگوں کو بٹھا رکھا ہے ،جن کی تربیت میں سنگھ نے کم ازکم دس ،پندرہ برس صرف کیے ہیں اور ان ناگوں کو اس منزل تک پہنچانے کے لیے خطیر رقم بھی صرف کی ہے جو کئی سو ارب روپے پر محیط ہوسکتی ہے۔ کان پور میں میڈیکل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر لال چندانی نے تبلیغی جماعت سے وابستہ کورونا متاثرین کے ساتھ جو برتاؤ کیاتھا، اس سے ہمیں حیرت زدہ نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ان کی پرورش اور تعلیم ہی اسی کام کے لیے ہوئی ہے۔  
اور جب اپولو فورٹس۔بی ایل کپور جیسے ہسپتالوں کو دیکھتاہوں تو حسرت ویاس میں مزید اضافہ ہو جا تا ہے ۔کہ وہی سرمایہ غیر مسلم کے پاس بھی ہے اور مسلمانوں کے پاس بھی ۔مگر ان کو اپنی قوم اور انسانیت کی خدمت کا ایساجذبہ کہ ان کے کارناموں پر رشک آتاہے ۔اور ایک مسلمان ہے جو پوری زندگی اس عارضی اور کاغذی خود نمائی میں گزار دی اور کوئی قابل قدر چیز ایسی نہیں چھوڑی جس پر آنے والی نسل فخر کرے اور فائدہ اٹھاسکے ۔سوائے ۔ جامعہ ہمدرد،مجیدیہ ہاسپٹل کے۔ اللہ تعالی حکیم عبد الحمید صاحب کی قبر کو نور سے منور فرمائے کہ انھوں نے ہمدرد وقف کے سرمایہ کاصحیح استعمال کیا اور قوم کو آزاد بھارت میں ایک عظیم سوغات دی۔اسی طرح حیدرآباد میں اویسیمیڈیکل کالج و اسپتال جو اسد الدین اویسی صاحب کے والد سالار سلطان صلاح الدین اویسی کی شاندار یاد گار ہے۔اسی طرح جنوبی ہندوستانی کے شہر حیدرآباد اور بنگلور میں اور بھی ہیں۔ مگر ہاسپٹلٹی سے متعلق جتنے مراکز کی ضرورت ہے ان کافقدان ہے۔ یہ میری معلومات کی حد تک ہے ۔۔غرض ان چندکے علاوہ ۔اور کسی کاقابل ذکر کارنامہ سامنے نہیں آیا۔۔ملک میں اس وقت مسلمانوں کے ساتھ سماجی اورمعاشرتی کے ساتھ طبی میدان میں بطورخاص جس طرح کا متعصبانہ رویہ اختیار کیا جارہاہے ۔اور بالکل خصوص خواتین کے ساتھ جس طرح کے اہانت آمیز واقعات سامنے آئے ہیں ۔بشمول کانپور اور راجستھان کے واقعات کے ۔ان واقعات نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیاہے ۔کہ اب تک جو وقت غفلت میں گزرگیا وہ گزرگیا ۔مگر اب بحیثیت قوم اپنی آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے ۔آج سرکاری سے لیکر پرائیویٹ اسپتالوں تک میں جس طرح اذیت ناک اور مخدوش صورت حال مسلم مریضوں کے ساتھ پیش آئی ہے اور آرہی ہے ۔ان کو پیش نظر رکھاجائے تو آنے والا وقت مزید آزمائشوں والا دکھائی دیتاہے۔۔یہ وقت روشن مستقبل کے منصوبہ بند اورمستحکم اقدام کا ہے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے تمام اضلاع اور قصبات میں ۔مسلمان اپنے سو اور کم ازکم پچاس بیڈ کے ہاسپٹل اور طبی سہولیات کے ادارے اور میٹرنٹی ہومس قائم کریں ۔اپنے بچوں اور بچیوں کو میڈیکل اور بائیو سائنس کی تعلیم سے آراستہ کرنے پر توجہ دیں ۔یہ موجودہ وقت کی اہم ضرورت،بلکہ فرض کفایہ ہے۔ اس کام کے لیے وسائل کا رونا رونے کی ضرورت نہیں ہے ۔صرف منصوبہ بندی درکار ہے۔٣٥ کڑور کی مسلم آبادی صرف فی کس ١٠٠٠ کاعطیہ اپنے ذمہ لے لے تو اس میدان میں انقلابی کام ہوسکتا ہے ۔اللہ تعالی ملت کے باشعور افراد کو اس کام کے لیے منتخب اور تیار فرمائے آمین۔

 

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here