اویس جمال شمسی
06فروری محض ایک عام سی تاریخ نہیں بلکہ ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں بے پناہ اہمیت کی حامل ہے کیونکہ آج ہی کے دن عظیم گاندی وادی، ملک کی آزادی کے عظیم رہنما، بابائے قوم مہاتما گاندھی کے عظیم پیرو اور مادرِ وطن کے لائق ترین سپوت’’ بھارت رتن ‘‘خان عبدالغفار خاں پیدا ہوئے تھے۔وہ ایک عظیم گاندھی وادی تھے۔انہوں نے ملک کی آزادی میں نہ صرف مہاتما گاندھی کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملاکر حصہ لیا بلکہ انہوں نے’’ لال قمیض‘‘ تحریک چلاکر افغانستان کے پٹھانوں میں آزادی کی روح پھونک کر انہیں مہاتما گاندھی کی تحریکِ آزادی سے جوڑکر گاندھی جی کی تحریک کو حیاتِ نو بخشی جس کی وجہ سے انہیں ’’ سرحدی گاندھی‘‘، ’’باچا خاں‘‘ اور’’ فخرِ افغان‘‘ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفہ سے متاثر ہوکر اس کو پہاڑوں کی چٹانوں پر روشن کرکے امن کا عظیم پیغام دیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے’’ خدائی خدمت گار تحریک‘‘ چلائی جس کے توسط سے انہوں نے نہ صرف سماجی خدمات کے میدان میں نئے سنگِ میل قائم کئے بلکہ عوامی فلاح کے میدان میں نئی جہات قائم کیں۔ خان عبدالغفار خاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایسے عظیم سپوت تھے جن کی زندگی ہر شعبہ میں نہ صرف اپنی مثال آپ ہے بلکہ دوسروں کے لئے باعثِ ترغیب اور حب الوطنی کی نقیب ہے۔ وہ بے مثل انقلابی شخصیت کے حامل تھے اور ان کی تمام زندگی عوامی حقوق کے حصول کی کاوشوں سے عبارت ہے۔انہوں نے حقوق کے حصول کے لئے گاندھی جی کی راہ پر چلتے ہوئے جبر و تشدد کے مقام پر عدم تشدد کا علم بلند کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے’’ انجمن اصلاحِ افغانیہ‘‘ کی بھی بنیاد رکھی جس کا مقصد سماجی اصلاح کے ساتھ عوامی مسائل کا حل تلاش کرنا اور نئی نسلوں میں تعلیم کی ترویج و اشاعت تھا۔
خان عبدالغفار خاں نے محض بیس سال کی عمر میں1910میں تعلیم کی ترویج و اشاعت کے لئے ایک مدرسہ قائم کیا اور مختلف علاقوں کا دورہ کرکے لوگوں کو تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرایا۔1915میں انگریزی حکومت نے ان کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی غرض سے ان کے مدرسہ پر پابندی عائد کردی مگر انہوں نے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے1919میں رولٹ قانون کے خلاف آواز بلند کی اور1920میں باقاعدگی کے ساتھ خلافت تحریک سے وابستگی اختیار کرلی جس کے بعد ان کو خلافت کمیٹی کا ضلع صدر منتخب کیا گیا۔
مہاتما گاندھی سے خان عبدالغفار خاں کی وابستگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے قبل خان صاحب کی رائے ضرور لیتے تھے۔ ملک کی آزادی اور تقسیمِ وطن کے بعد خان عبدالغفار خاں نے پاکستان میں رہ کر پشتون قوم کے درمیان کام ضرور کیا لیکن انہیں ہندوستان سے عشق کی حد تک پیار تھا جس کی پاداش میں پاکستانی حکومت ان کو شبہ کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور ان پر ہندوستان نواز ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا۔
پشتون عوام کے حقوق کی بازیابی کے جرم میں انہیں متعدد مرتبہ گرفتار کیا گیا۔ خرابئ صحت کی سبب وہ1964میں علاج کی غرض سے لندن گئے جہاں سے معالجین نے انہیں امریکہ جانے کا مشورہ دیا۔ اس کے بعد وہ افغانستان چلے گئے جہاں سے 1972میں پاکستان واپسی پر انہیں پھر گرفتار کرلیا گیا۔
خان عبدالغفار خاں کی خدمات کے اعتراف میں ہندوستان نے انہیں1987میں اپنے سب سے باوقار اعزاز’’بھارت رتن‘‘ سے سرفراز کیا۔اس کے علاوہ انہیں اس سے قبل1962میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور1967میں جواہر لعل نہرو ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا تھا۔
خان عبدالغفار خاں کو برصغیر کی تقسیم کے بعد قائم شدہ پاکستانی حکومت نے دشمنِ وطن قرار دیتے ہوئے پندرہ سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا۔ انہوں نے اپنی سوانحِ حیات میں تحریر کیا ہے کہ ’’ہندوستان کی آزادی کی پاداش میں انگریزی حکومت نے جیل میں جو سلوک ہمارے ساتھ روا رکھا تھا اس سے دس گنا خراب سلوک پاکستان کی اسلامی حکومت نے ہمارے ساتھ کیا۔ پاکستانی حکومت نے مجھے ہمیشہ ایسی کوٹھری میں رکھا جس کی روشنی بھی رات کو گُل کردی جاتی تھی۔ میں نے پندرہ برس انگریزوں کی جیل میں کاٹے اور پاکستان کی اسلامی حکومت میں بھی پندرہ برس کاٹے جہاں کی آب و ہوا میرے موافق نہ تھی اور میں سخت بیمار پڑگیا۔‘‘
زمانے کے سرد و گرم سے نبرد آزما مجاہدِ قوم خان عبدالغفار خاں کا1988میں پشاور میں97برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ جنگِ آزادی کے اس مجاہد کی عملی، علمی، روحانی، سماجی اور سیاسی زندگی کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا جائے اور ان کی فکر کی بڑے پیمانے پر ترویج و اشاعت کی جائے تاکہ نئی نسلیں ان سے درس حاصل کرکے حب الوطنی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں