ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
انسانوں کی خدمت کرنا ، ان کے کام آنا ، ان کی مدد کرنا ، ان کا مالی تعاون کرنا ، ان کی بیماری میں علاج معالجہ کی فکر کرنا اور انہیں غذائی اشیا ءفراہم کرنا عظیم رفاہی کام ہیں۔ _ اللہ کا شکر ہے کہ بہت سے مسلمان ان کاموں میں لگے ہوئے ہیں _ ، وہ کورونا کے مریضوں کی جی جان سے خدمت کر رہے ہیں ، لاک ڈاؤن میں بے روزگار ہوجانے والوں کو راشن فراہم کررہے ہیں، _ اس کے علاوہ بھی سماج میں غربت کے مارے لوگوں تک رمضان کِٹس اور عید الفطر کِٹس پہنچا رہے ہیں _ ان کاموں پر ان شاء اللہ وہ بارگاہِ الٰہی میں اجر کے مستحق ہوں گے ۔
لیکن ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی بعض حرکتوں سے بے پایاں اجر کو ضائع کردیتے ہیں اور عظیم بھلائی سے خود کو محروم کرلیتے ہیں _ انہیں فوٹو گرافی کا چسکا لگا رہتا ہے ، چنانچہ وہ کسی غریب کو کچھ دیتے ہیں تو ساتھ ہی فوٹو کھینچ لیتے ہیں اور اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں _ اس طرح شاید وہ سوچتے ہیں کہ ان کے اس عمل کو سماج میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جائے گا اور دوسرے لوگوں میں بھی یہ کام کرنے کی ترغیب ہوگی ، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ دینی اعتبار سے یہ سخت ناپسندہ عمل ہے ، جس سے ہر حال میں بچنا چاہیے _۔
قرآن و حديث میں خود نمائی اور ریاکاری سے سخت منع کیا گیا ہے اور اس پر وعید سنائی گئی ہے _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِكُمۡ بِالۡمَنِّ وَالۡاَذٰىۙ كَالَّذِىۡ يُنۡفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا يُؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِؕ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفۡوَانٍ عَلَيۡهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلۡدًا ؕ لَا يَقۡدِرُوۡنَ عَلٰى شَىۡءٍ مِّمَّا كَسَبُوۡا ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡـكٰفِرِيۡنَ (البقرۃ : 264)
” اے ایمان لانے والو ! اپنے صدقات کو احسان جتاکر اور دکھ دے کر اس
شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو ، جو اپنا مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے نہ آخرت پر ۔ اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان تھی ، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی ، اس پر جب زور کا مینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی ۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کرکے جو نیکی کماتے ہیں اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا _ اور کافروں کو سیدھی راہ دکھا نا اللہ کا دستور نہیں ہے _”
اگرچہ کھلے اور چھپے دونوں طریقوں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو کہا گیا ہے ( البقرۃ : 274 ، الرعد : 22 ، ابراہیم :31 ، فاطر :29) لیکن نفلی صدقات چھپاکر دینے کو افضل بتایا گیا ہے ۔ _ ایک حدیث میں ہے کہ سات قسم کے لوگ روزِ قیامت عرش الٰہی کے سایے میں ہوں گے، جب کہ اس کے سایے کے علاوہ اور کہیں سایہ نہ ہوگا، _ ان میں سے ایک ایسا شخص بھی ہوگا :
وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَى حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ( بخاری :660 ،مسلم: 1031)
” وہ شخص جو چھپاکر صدقہ کرے ، یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوسکے، کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ _”
بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو خدمتِ خلق کے کام انجام دیتے ہیں تو ان میں نام و نمود اور ریا کاری سے بچتے ہیں اور صرف خلوص ، للہیت اور رضائے الٰہی کو پیش نظر رکھتے ہیں _
اور بڑے بد نصیب ہیں وہ لوگ جو خدمتِ خلق کے کاموں میں اپنے آپ کو تھکاتے ہیں ، لیکن اس کے پسِ پردہ ان کی غرض خود نمائی اور ریاکاری ہوتی ہے ، اس لیے وہ بارگاہِ الٰہی میں اجر و انعام سے محروم رہتے ہیں اور انہیں کچھ ہاتھ نہیں آتا _
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں