(قیادت کے اسلامی اصول )
محمد ندیم الدین قاسمی ۘ+91 84979 45720
کوئی ملک ،کوئی ریاست اورادارہ صحیح قیادت ونظامت کے بغیر منظم چل نہیں سکتا، اپنے نصب العین اور مقصد اصلی کی طرف اچھے قائدوناظم ،امام و رہبر کے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا،لیکن قائد بھی ایسا ہوجو اپنے کردار میں بے مثال ہو اور اعلیٰ اعمال کا خوگر ہو، جس کا کردار دوسروں کے لئے ماڈل ونمونہ ہوجس کی سوچ عقابی اور جس کی پرواز شاہین کی طرح ہو جس کی لوگوں کے دلوں پر حکمرانی ہو،جواپنے اخلاق عالیہ و صفات حمیدہ کی وجہ سے اس قدر بلند ہو کہ سننے ،دیکھنے والوں کے قلوب میں گھر کر جائے ،جب اشارہ کرے تو لوگ نہ صرف سر تسلیم خم ہو بلکہ اپنی گردنیں نثار کردینےکو بھی باعث صد افتخارسمجھےتو وہ ایک بہترین قائد وناظم ہے ،بہ قول علامہ اقبال؛
نگہ بلند، سخن دلنواز جان پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے۔
البتہ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ قیادت صرف فرد واحد (حکمراں)میں منحصر نہیں بلکہ والدین اپنی اولاد،ناظم اپنے افراد کار ،شیوخ اپنے مریدین اور اساتذہ اپنے تلامذہ کے قائد ورہبر ہیں۔
لیکن عقابی نگاہ رکھنے والی اور دور اندیش قیادت کے لئے درج ذیل اوصاف لازمی امر ہیں جس کے بغیر وہ ملک و ادارہ تو کیا ایک خاندان کا حق بھی ادا نہیں کرسکتا۔
۱۔حسن خلق
حدیث پاک میں ہےکہ حسن خلق سے زیادہ میزان میں کوئی چیز وزنی نہیں ہے۔ اچھے اخلاق، عمدہ عادات اور نفیس اطوار نبوت کی اعلیٰ خصوصیات ہیں ، اللہ نے فرمایا “انک لعلی خلق عظیم”اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے ابتدائے وحی کا واقعہ سننے کے بعد آپ کو تسلی دیتے ہوے فرمایاتھا کہ آپ غریبوں کی مدد کرتے ہیں۔ بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں، یتیموں کا خیال رکھتے ہیں ،ایک قائد کو بھی زندگی کا ہر قدم اخلاقی اقدار کے خطوط پر رکھنا چاہئے کیونکہ حسن اخلاق ہی قیادت و سیادت کو مستحکم کرنے کا باعث بنتا ہے ، حسن خلق سے ہی ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑا جا سکتا ہے،اپنے تو اپنے رہے باغی اور سرکش اذہان بھی اطاعت و فرمانبرداری کے قلادہ کواپنے گلے کی زینت بنا لیتے ہیں۔
۲۔اعتماد۔
اسی طرح اعتمادبھی خصوصیاتِ قیادت میں سے اعلیٰ، اساسی اور گراں قدر خصوصیت ہے۔ قائد کا جس قدر خود پر اعتماد مضبوط ہوگا اسی قدر وہ رائے میں صائب ہوگا، اس کے برعکس بداعتمادی اور عدم یقین کی کیفیت تو قیادت کا بہت بڑا نقص شمار کی جاتی ہے ،جس سے قائد کی جڑیں کھوکھلی تصورہوں گی اس گومگو کی کیفیت میں خود تو ڈوبے گا ہی مگر قوم کو بھی لے ڈوبے گا ،اسی لئے کہا جاتا ہے”غلامی سے بدتر ہے بے یقینی”
قائد کا اپنی کوششوں کے کامیاب ہونے پر اعتماد تو پہاڑوں سے بھی مضبوط تر اور صحراؤں سے بھی وسیع تر ہونا چاہئے،اسی کے اعتماد کے آفتاب سے جو کرنیں پھوٹیں گی وہ زیر قیادت افراد میں یقین و وثوق کی روشنی پیدا کریں گی اور کارکنوں میں مصیبتوں کے پہاڑ گرتے ہوئے دیکھ کر بھی مسکرانے کا حوصلہ بھردیں گی، جو بالآخر حصول مقاصد پر منتج ہوگا ،اس قسم کا فولادی اعتماد ہی ایک عظیم جرات کو جنم دیتا ہے جو اگر گداؤں میں پیدا ہوجائے تو وہ شاہانہ جاہ و جلال کو بھی خاطر میں نہیں لاتے، اگر غلاموں میں پیدا ہوجائے تو وہ آقاؤں کے کروخر کے سامنے سدِّ سکندری بن جاتے ہیں اور جب یہ جوہر ایک قائد میں پید ا ہوجائے تو وہ قوم کی ڈوبتی ہوئی نیا کو بھی ساحل آشنا کردیتا ہے۔حضرت عمرؓ ابو عبیدہ بن جراحؓ سے فرماتے ہیں’’فتح امید سے نہیں ،یقینِ محکم اور خدا پر اعتماد سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘طارق بن زیاد کو جب اندلس کی مہم پر سپہ سالار بنا کر بھیجا گیاساحل سمندر پر پہنچ کر اس نے ایک تاریخی اور حیران کن اقدام کرتے ہوئے اپنی ساری کشتیاں جلادیں اور فوج کے سامنے ایک ولولہ انگیز تقریر کی کہ’’ہم لو گ یہاں اللہ کے پیغام کو عام کرنے اور اس کی حکومت قائم کرنے کے لئے آئے ہیں اب ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے یا پھر اپنی جانیں جان آفریں کے حوالے کردیں گے لیکن اللہ کی حکومت قائم کیئے بغیر نہیں لوٹیں گے‘‘۔یہ طارق کی اولوالعزمی ہی تھی کہ پوری فوج میں ایک ولولہ پیدا ہوگیا اور انھوں نے اندلس کو فتح کرلیا۔
3۔ عدل و انصاف؛ عدل وانصاف قیادت کی اعلی خصوصیت ہے،جو قائد اعظم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بدرجہ اتم موجود تھی ،غزوہ بدر کے موقع پر دوسرے قیدیوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بھی گرفتار ہوئے تھے۔قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں رہا کیا جا رہا تھا۔ فدیہ کی رقم چار ہزار درہم تھی لیکن امیر ترین لوگوں سے اس سے بھی کچھ زیادہ رقم لی جا رہی تھی۔حضرت عباسؓ سرکارصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے اس لیے چند صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اجازت دیجئے کہ حضرت عباسؓ کا فدیہ معاف کر دیا جائے اور انہیں یو نہی رہا کر دیا جائے یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہرگز نہیں بلکہ عباسؓ سے ان کی امیری کی وجہ سے حسب قاعدہ چار ہزار درہم سے زیادہ وصول کیے جائیں۔(صحیح بخاری، کتاب المغازی)اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی نظر میں قرابت بعد میں ہے اور عدل و انصاف پہلے ہے۔اگر قائد عدل و انصاف سے کام لینے میں پہلو تہی کر ے تو اسے اس کا خمیازہ دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر بھگتنا پڑے گا۔عدل و انصاف کے بغیرامن و امان کا تصور بھی محال ہے اسی لئے قیادت کے لئے لازم ہے کہ وہ ہر جگہ ،ہر معاملے میں عدل و انصاف کادامن تھامے رہے
۴۔ قوانین واصولوں کی پاسداری؛۔
قائد اپنی زندگی میں نظم و ضبط اور اصول و قواعد کا سختی سے پابند ہو کیونکہ اس کی پابندی کا عکس جمیل معاشرہ اوراس کےادارہ کے افرادو ماحول پر پڑے گا جہاں وہ ایام حیات بسر کررہا ہے۔ اصولوں کو ترتیب بھی تو اس مقصد کے لئے دیا جاتا ہے کہ ہر کوئی ان تنظیمی ضوابط اور مجموعہ قوانین کی پاسداری کرے، کوئی مصلحت و منفعت اصولوں پر عملدرآمد سے رکاوٹ پیدا نہ کرسکے۔ تعلقات، قرابت داری اور اقربا پروری ان قواعد میں نرمی، جھکاؤ اور ڈھیل کا باعث نہ بن سکے۔ عہدہ اور منصب بھی تنظیم سے غداری کے مرتکب کو کیفر کردار تک پہنچانے میں حائل نہ ہوں۔ اصول پسند قائد کی قیادت کے زریں دور میں جب اصولوں کی بالادستی ہوگی تو ایسے قائد کی مقبولیت کو چار چاند لگ جائیں گے اور حقیقی رعب و دبدبہ میں غیر معمولی اضافہ ہوگا،نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی حیات طیبہ سے ہم کو قانون کی پاسداری اور اصول پسندی کی تعلیم دی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے چوری کی مرتکب عرب کی ایک معزز وبا اثرخاتون کے ہاتھ کاٹ دینے کا جب حکم جاری فرمایاتو اس کے قبیلے والوں نے رسوائی اور سزا سے بچنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سفارش کی ،توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:’’پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوگئیں کہ جب کوئی بڑا غلطی کا ارتکاب کرتا تو مختلف حیلے،بہانوں سے سزا سے بچ جاتا اور جب کوئی عام انسان کسی فعل شنیع کا مرتکب ہوتا تو سزا پاتا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر فاطمہؓ بنت محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘اس حدیث مبارک سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصولوں کی پاسداری اور حدود کے نفاذ میں تعلقات اور قربت داری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔قائد میں جب اصولوں پسندی کا یہ جذبہ بیدار ہوجاتا ہے تو ہر طرف امن و امان کا دور دوررہ رہتا ہے۔امیر غریب الغرض معاشرے کے ہر فرد کے حقوق محفوظ ہوجاتے ہیں ،اس لئےجہاں اصولوں کی پاسداری کی بات آئے تو وہاں تعلقات اور قرابت داری کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور اصول کے نفاذ میں کوئی پس و پیش نہ کی جائے،تو وہ تنظیم، وتحریک، معاشرہ یا ملک وادارہ امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا اور ہر طرف سکون و چین سایہ فگن ہوگا۔ بایں طور امراء و روسا معاشرے کے غرباء و فقراء کی عزتوں کو شیر مادر سمجھ کر ہضم نہ کرسکیں گے۔
۵۔رواداری
ایک قائد کے زیر قیادت مختلف الخیال اور متعدد اذہان کے لوگ مصروف کار ہوتے ہیں۔ جن کے مابین نظری و فکری اختلاف کا ہونا بھی ایک بدیہی امر ہے،جس کا لحاظ رکھنا ایک قائد کے لئے ضروری ہے،ان پر اپنا نظریہ اگرچہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہوجبرا وکرھا لازم کرنا یہ اصول قیادت سے عدم واقفیت کی علامت ہے ،ایسا شخص قائد وناظم نہیں بلکہ قائد نما شیطان ہے،اسےقیادت ونظامت کا کوئی حق نہیں ہے یہی وجہ یے کہ جب مدینہ منورہ میں عیسائیوں کا ایک وفد نجران سے آیا جو کسی سیاسی یا سماجی معاہدے کے لئے نہیں آیا تھا بلکہ آپ سے مناظرہ کرنے کی نیت سے آیا تھا۔ آمد کے مقاصد میں دشمنی کا عنصر غالب تھا جب اس وفد کے قیام کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استفسار کیا گیا تو آپ نے فرمایا ان کو مسجد نبوی میں ٹھہراؤ اور جب ان کی عبادت کا وقت آیا تو ایک بار پھر آپ کی طرف ہی رجوع کیا گیا تو آپ نے ان عیسائیوں کی عبادت کے لئے مسجد نبوی کو کھول دیا اور انہوں نے مسجد نبوی میں اپنے طریق عبادت کےمطابق عبادت ادا کرنے کی اجازت دے دی۔
۶۔ اخلاص
ہر جدوجہد اور کوشش و کاوش کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے اخلاص کا ہونا از حد مفید ہے۔
سیرت مصطفوی پر نگاہ رکھنے والے کسی صاحب علم سے یہ امر مخفی نہیں کہ فاران کی چوٹی سے روشن ہونے والے آفتاب نبوت و رسالت سے اولین اہل عرب ہی منور ہوئے مگر ان ہزاروں بتوں کے پجاریوں نے اس پرچم توحید کو سرنگوں کرنے کے لئے کون کون سے لالچ نہ دیئے، قبائل کی سرداریاں، مال و دولت کے انبار اور نکاح کے لئے حسب منشاء عورتیں بھی مہیا کرنے کا وعدہ کیا مگر اللہ کے پُرخلوص، وفادار، جفاکش داعی الی اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر دعوت کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا۔ یہ تنہائی اور جانفشانی کا سفر چند سالوں کی مختصر مدت میں کٹ گیا اور 23 سالوں میں انقلاب برپا کردیا۔ اس نئی تاریخ کے رقم کرنے میں تائید ربی، جدوجہد رسالت اور آپ کی پُرخلوص کوششوں کو بے حد دخل ہے۔ وہ خلوص کا کوہ گراں قائدین قوم و ملت کے لئے مینارہ نور ہے،کسی بھی تحریک انجمن اور تنظیم وادارہ کے قائد اور کارکنان میں خلوص نیت کا پایا جانا اہم ہے۔جب قائد و قوم اخلاص سے متصف ہوجاتے ہیں تو ان کے قدموں تلے عظمتوں اور رفعتوں کے پرچم سرنگوں ہوجاتے ہیں،ان کا ادارہ ،تنظیم وتحریک ترقی پذیر ہوتے ہیں۔
۷۔ حلم و بردباری
اچھے قائد و رہ نما کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صبر و تحمل کی صفت سے متصف ہو۔ ہر ایک کی بات کا جواب دینا، ذاتی معاملات میں غیض و غضب میں آ جانا اورکارکنوں کی تنقیدوں کا سخت نوٹس لینا، بات بات پر چھینٹے مارنا،ایسے فیصلے کرنا جو ملک وادارہ کے مفاد کے خلاف ہو،اصولِ قیادت کے سراسر خلاف ہے۔ جن کے اندر صالح قیادت کا جوہر ہوتا ہے وہ اِن باتوں سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ قوتِ برداشت رکھنے والے قائد ین ہی در حقیقت قوم وملت کی صحیح خدمت اور اُن کے دلوں پر طویل مدت تک راج کر پاتے ہیں۔تاریخِ عالَم آپﷺ جیسی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپ غور فرمائیں ! کہ حضور ﷺ نے فتحِ مکہ کے موقع پر کیسے بے مثال صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمایا۔ انتقام پر قدرت رکھنے کے باوجود اُن تمام مجرموں کو معاف فرما دیا ،جنہوں نے مکی زندگی میں آپ اور آپ کے صحابہ پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے تھے، حتی کہ عکرمہ بن ابو جہل، ہندہ، ابو سفیان، صفوان بن امیہ، وحشی اور دیگر دشمنانِ دین کو نہ صرف یہ کہ معاف فرمایا بلکہ اُن سے اُن کے جرم کا ذکر تک نہ فرمایا۔ اِسی لیے آپ ﷺ کی حکمرانی اُن کے دلوں پر قائم ہوئی اور اُنہوں نے برضا و رغبت دامنِ اسلام میں پناہ لینے میں فخر محسوس کیا؛اسی ایک قائد میں حلم وبردباری کا ہونا بے حد ضروری ہے۔
۸۔ امانت و دیانت
امانت ایک اعلی ترین وصف اور خوبی ہے اور یہ خوبی اپنے مفہوم کے اعتبار سے بہت وسعت کی حامل ہے جو بلاتفریق مسلک و مذہب جس شخص میں بھی پائی جائے وہ دادِ تحسین وصول کرتا ہے،قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا :
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّواْ الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا. (النساء، 4 : 58)
’’بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کردو‘‘حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعلان نبوت سے قبل بھی جس وصف سے موسوم کئے جاتے تھے وہ امانت ہی تھا۔ حجر اسود کی تنصیب کے وقت معاملہ متنازعہ فیہ ہو چکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کمال دانشمندی اور اعلیٰ درجے کی سیاسی بصیرت سے ایسا فیصلہ کیا کہ بے نیام تلواریں نیاموں میں چلی گئیں، منتشر ہوجانے والے پھر سے متحد ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس نمایاں صفت کامزید اظہار لوگوں کے سامنے آیاجس کی بناء پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ سب نے منظور کیا۔ ہر دور کے قائدین کو اس صفت کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح ماضی میں تھی۔
۹۔احترام انسانیت
قائدوناظم کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُس کے اندر اپنی قوم و افراد کی عزت اور اُن کی خدمت کا جذبۂ صادق موجود ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ۔قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے [رواہ الخطیب فی التاریخ ج : ۱۰ ص: ۱۸۷]لہذا جس قائد و رہ نما اور ناظم کے اندر خادمانہ جذبات دوسروں کی بنسبت زیادہ ہوں گے وہ بہترین قائد وناظم ہے،اِس اصول کو اپنانے میں عوام کے ساتھ قائد کا بھی فائدہ ہے۔ قائد کا فائدہ یہ ہوگا کہ اُس کی عوام و خواص میں پزیرائی ہو گی، لوگوں کے دلوں میں اُس کی محبت بڑھے گی، قوم اُس پر اعتماد کرے گی ، عوام الناس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اُس کا قائد اُن کے معاملات پر بھر پور توجہ دے گا۔ اُن کے مسائل حل کرنے کی بھر پور کوشش کریگا۔ اُن کی عزت و خدمت اپنے لیے باعثِ فخر سمجھے گا اور دونوں کے باہمی تال میل اور ہم آہنگی سے ایک خوش گوار فضا قائم ہوگی اور ہر طرف امن و شانتی کے دیے روشن ہوتے نظر آئیں گے
۱۰۔تفتیشِ احوال :
رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک سے مسلم قیادت کایہ اصول بھی ملتا ہے کہ دورانِ قیادت قوم کو کسی بھی حالت میں بے یار و مدد گار نہ چھوڑا جائے، اُن کے احوال و کوائف کی جستجو کرکے اُن کی حاجتیں پوری کی جائیں،ان کی ضروریات کو نظر انداز کردینا ،سال و مہینہ میں ایک بار بھی ان سے خیر خیریت دریافت نہ کرنا ،ان کی پریشانیوں کو دور نہ کرنا ،خو د ایئرکنڈیشن میں رہ کر اپنے ملازمین کی گرمی وسردی کی فکر نہ کرنا یہ اصول قیادت سے عدم واقفیت کی علامت ہےاس لئے قائدین پر لازم ہے کہ اپنی قوم کی ہر ممکن معاونت کریں۔ اُن سے بنفسِ نفیس ملاقات کرکے حالات دریافت کریں اور اپنے خصوصی اثر و رسوخ سے اُن کے گھروں میں خوشیوں کے دیے روشن کریں۔ صرف اپنی ہی تجوری نہ بھریں بلکہ عوام الناس سے بھی غربت و افلاس ختم کرنے کی سعی کریں۔ اُن کی بنیادی ضرورتیں پوری کریں۔ اُن کی تعلیم کا بہترین انتظام کریں۔ اُن کے ژولیدہ مسائل حل کریں۔ مصائب و آلام کے وقت صورتِ حال کا صحیح ادراک کرکے پیش آمدہ مسائل کے حل کی مناسب تدبیر یں کریں۔
۱۱۔احساس ذمہ داری؛۔اسلام ہر انسان میں احساس ذمہ داری اور جواب دہی کا جویا پیدا کرتا ہے ۔یہ احساس انسان میں نیکی، تقویٰ، پرہیزگاری، صالحیت اور اعلیٰ اخلاق و اقدار کو پروان چڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عالی شان ہے ’’تم میں ہر شخص ذمہ دار ہے ہر ایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں باز پرس ہوگی۔‘‘(بخاری)۔ذمہ داری اور جواب دہی کے اسی احساس نے صحابہ اکرمؓ کو دنیا والوں کے لئے ایک بے مثال نمونہ بنا دیا۔سرکارصلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ میں ذمہ داری اور پاسداری کا ایسا احساس پیدا کیا جو رہتی دنیا تک کے لئے ایک روشن مثال ہے۔حضرت ابوبکرؓ نے پوری ذمہ داری اور دوراندیشی سے خلافت کے فرائض کو انجا م دیا۔بیت المال سے کسی قسم کی مد د یا رعایت کبھی حاصل نہیں کی اور نہایت کسم پرسی میں زندگی گزاری۔دنیا کے ایک وسیع رقبے کو اسلامی حکومت کے پرچم تلے کرنے والے حضرت فاروق اعظمؓ کے احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ وہ کھجور کی چٹائی پر سوتے، راتوں کو جاگ کر رعایا کی خبر گیر ی کرتے ،ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے حتی کہ اپنی پیٹھ پر غلے کا بوجھ لادکر رعایا تک پہنچاتے کیو نکہ آپ نے اپنے آقا و قائد سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دست مبارک سے خندق کھودتے ہوئے دیکھا تھا۔قائد اپنی قوم کا سربراہ ہوتا ہے ۔یہ مخدوم نہیں بلکہ خادم ہوتا ہے۔عوام کی خیرخواہی،ان کی ضرورتوں کا خیال،ان کی بہتری کی فکرنہ صرف قائد کی ذمہ داری ہے بلکہ اس کا فرض منصبی بھی ہے۔قائد میں جب احساس ذمہ داری و جواب دہی جاگزیں ہوتا ہے تو وہ اپنے فرائض کو ٹھیک طور سے انجام دیتا ہے جس کے نتیجے میں عوام اور اس کے ماتحت اس سے خوش رہتے ہیں۔ان میں جاں نثاری کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور وہ قائد کو اپنا علمی وعملی تعاون پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
۱۲۔سخاوت؛۔سخاوت ایک عبادت اور اللہ کی نعمتوں کے شکر کا نام ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سخاوت کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی ہے،حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی نے مانگا تو آپ نے انکار نہیں کیا،حتیٰ کہ آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اپنے تن پر موجود قمیص بھی اتار کر دے دی۔یہ بھی آپ کی سخاوت ہی ہے کہ آپ نے اپنی ساری زندگی امت کی خیر خواہی کیلئے وقف کردی،امت سے آپ کی محبت بھی آپ کی جود و سخا کی ایک مثال ہے۔حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے،قیادت سخاوت کے وصف سے آراستہ ہونی چاہئے۔قائد کو معلوم ہونا چاہئے کہ مال و اسباب کاباٹنا ہی سخاوت نہیں ہے۔ سخاوت کے کئی طریقے ہیں، مال خرچ کرناسخاوت ہے۔ظالم کو معاف کر دیناسخاوت ہے۔ زیادتی کرنے والے سے درگزرکرناسخاوت ہے۔ قطع تعلق کرنے والے سے تعلق جوڑناسخاوت ہے۔مسلمانوں کی اصلاح کرناسخاوت ہے۔ غیرمسلموں کواسلام کی دعوت دیناسخاوت ہے۔کسی کا عذرقبول کرناسخاوت ہے۔علم و معرفت اور اپنا تجربہ کسی کو دینا سخاوت ہے۔اپنے حقوق سے دستبردارہونا سخاوت ہے۔کسی کی حوصلہ افزائی کرناسخاوت ہے۔کسی کی عزت افرائی کرناسخاوت ہے،اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا سخاوت ہے۔معاشرے کے کسی بگاڑ کو دورکرناسخاوت ہے۔ اپنا وقت کسی کو دینا سخاوت ہے۔کسی کی حق پر سفارش کرناسخاوت ہے۔کسی کی خدمت کرناسخاوت ہے۔تکلیف دہ اشیاکو راستے سے ہٹانا اورلوگوں کی خدمت کے لئے ان کے ساتھ چلنا بھی سخاوت ہے،کسی کی خیریت دریافت کرنے کیلئے ملاقات کرنا،اچھی بات کہنا، دعا دینا، کسی کی تھوڑی بہت مدد کردینا، دوا خرید کر دینا،یہ بھی سخاوت ہے،اگر کوئی آئے توبے نیازی برتے بغیر اس سے بات کرنا یہ بھی سخاوت ہے،جو ایک قائد کے لئے بے حد ضروری ہے۔
۱۳ایفائے عہد؛۔ایفائے عہد کی اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔قائد میں عہدو پیمان کی پاسداری اگر نہ ہو تو عوام کا قیادت پر سے یقین و اطمینان اٹھ جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم وعدے کے اتنے پکے تھے کہ کفارمکہ آپ کو صادق و امین کہہ کر پکارتے تھے اور اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھتے تھے۔آج قیادت دھوکہ دہی،مکروفریب ،جھوٹ،بددیانتی ،خیانت جیسے موذی امراض میں مبتلاہے۔بات بات میں جھوٹ بولنا اور معاملات میں بددیانتی کرنا آج کے قائدین کا وطیرہ بن چکا ہے۔اسلام میں ایفائے عہد کا بڑی سخت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے اور وعدہ خلافی و عہد شکنی کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’عہد کو پورا کرو، کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہو گا۔‘‘(بنی اسرائیل) قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے وعدے وفا کرتے ہیں ۔خود اللہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت کا بار بار ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ (الحج)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات کے ذریعے بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی برائی کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس میں تین باتیں پائی جاتی ہوں وہ منافق ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اگر امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔‘‘ (بخاری) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی نگاہ میں ایفائے عہد کس قدر اہم تھا۔قائد و کارکنان ہر دم دوست ہو یا دشمن ،قرابت دارہو یا بیگانہ،مسلمان ہو یا غیر مسلم ہر ایک کے ساتھ عہد و پیمان کی پابندی کریں۔
۱۴۔قول و فعل میں مطابقت
قائد کے قول و فعل میں مطابقت ہونا اشد ضروری ہے ۔ قول و فعل میں تضاد کا حامی شخص قائد بننا تو دور ، ایک اچھا انسان بھی نہیں بن پاتا۔ اللہ و رسول اسے منافق گردانتے ہیں۔ اور منافق شخص کبھی اپنی قوم سے مخلص نہیں ہوسکتا ۔ قائد کے لیے ضروری ہے کہ اپنے کارکنان اور قوم کو کسی راہ پر چلانے سے پہلے خود اس راہ پر چلے۔ کسی سے قربانی طلب کرنے سے پہلے خود قربانی کا پیکر بنے ۔ اگر قوم کو جہاد پر آمادہ کرے تو خود پہلے میدان جنگ میں اترے۔ اگر قوم کو نیکی، تقوی، دیانت ، امانت ، اخلاص اور غیرت کی تلقین کرے تو خود پہلے سے ان صفات سے مزین ہو۔
مگر افسوس ! کہ ہمارے قائد وناظم علی العموم اِن تمام اوصاف سے عاری ہیں، اُنہیں صرف اپنے اہل و عیال اور دوست و احباب یا چاپلوسوں کی ہی فکر ہے۔ اُن کی مداہنت کرنے والے ہی اُن کے اثر و رسوخ سے متمتع ہو پاتے ہیں،از خود کسی شخص کے گھر جا کر حالات دریافت کرنا تو دور، اگر کوئی پریشاں حال ملنا بھی چاہے تو اسے رسوائی کے سوا کچھ نہ ملےگویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے افرادِ کارکے نہیں بلکہ صرف اپنے گھر والوں کے لیڈر ہیں،جب کہ آپﷺ نے فرمایا “کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ “اس لئے ہر ناظم وقائد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان اصولوں کو اپنائیں ۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں