قندِ مکرّر : کئی برس قبل کی ایک تحریر ، جو احباب کی دل چسپی کے لیے پیشِ خدمت ہے
محمد رضی الاسلام ندوی
آج نعمت اللہ بہت خوش تھا _ اس کی خوشی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی _ پہلے اس نے کھڑے کھڑے قصیدہ پڑھنا شروع کیا :
” میں آپ کا بہت احسان مند ہوں ، آپ نے مجھے پڑھنا لکھنا سکھایا ، اب میں نے قرآن پڑھنا شروع کردیا ہے ، اللہ آپ کو اس احسان کا اچھا بدلہ دے _ “
وہ بولتا جا رہا تھا _ اچانک اس نے جیب سے سو کا نوٹ نکال کر میری طرف بڑھا دیا _
” یہ کیا؟” میرے منہ سے فوراً نکلا_
“میری طرف سے مٹھائی کھا لیجیے گا _ یہ میں اپنی خوشی سے دے رہا ہوں _”
کئی ماہ پہلے جب مجھے معلوم ہوا کہ مرکز جماعت اسلامی ہند میں کام کرنے والا یہ خوش شکل اور خوش پوش نوجوان بالکل ناخواندہ ہے تو مجھے بہت تعجب ہوا تھا _ میں نے اسے پڑھنے کی ترغیب دی _ اس نے آمادگی ظاہر کی تو اسے ‘تیسیر القرآن’ (مولانا سید حامد علی) اور اردو کی ایک کتاب لاکر دی _ سمیناروں میں ملنے والے لیٹر پیڈ لکھنے کی مشق کے لیے دیے _ پھر اپنے معاون برادر محمد اسعد فلاحی کو لگا دیا کہ اسے پڑھائیں _
نعمت اللہ محنت سے پڑھنے لگا _ پہلے اس کے ہاتھ میں ہر وقت جھاڑو اور پونچھا کا ڈنڈا نظر آتا تھا _ اب درمیان میں کچھ وقت کتاب اور کاپی بھی نظر آنے لگی _ کبھی لکھنے کے لیے میرے قلم دان سے قلم مانگ لے جاتا تھا –
ایک ماہ قبل میں نے نعمت اللہ سے کہا کہ ” تمھیں رمضان شروع ہونے سے قبل قاعدہ ختم کرنا ہے اور رمضان شروع ہوتے ہی قرآن پڑھنے کا آغاز کرنا ہے _ ” میں نے اسے پارہ عم بھی لاکر دے دیا _ پھر تو وہ جوش میں آگیا _ اس نے پڑھائی کی رفتار تیز کر دی _ دوپہر کے وقفے میں آرام کرکے میں آفس پہنچتا تو اسے پڑھتا ہوا پاتا _ وہ خود بتاتا کہ مجھے جو نہیں آتا ہے وہ استقبالیہ پر بیٹھنے والے بھائی سے پوچھ لیتا ہوں _
رمضان شروع ہوتے ہی میں نے نعمت اللہ کا حال چال معلوم کیا _ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے میری طبیعت خراب ہو گئی تھی ، جس کی وجہ سے میں قاعدہ ختم نہیں کرپایا _
نعمت اللہ نے میری طرف نوٹ بڑھایا ، لیکن میرا ہاتھ اپنی جگہ جم کر رہ گیا _ وہ کیا بولتا چلا جا رہا تھا ، میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا _ اس لیے کہ میرے دماغ میں طوفان برپا تھا :
” یہ مجھے پڑھانے کی اجرت دے رہا ہے؟ نہیں ، یہ تو مٹھائی کھانے کے لیے دے رہا ہے _ اپنی خوشی سے دے رہا ہے _ نہیں لوں گا تو اسے تکلیف پہنچے گی ، اس کا دل دکھے گا _ اس وقت لے لوں ، بعد میں کسی بہانے واپس کردوں گا _ “
ایک طرف میرے دل میں یہ خیالات آ رہے تھے ، دوسری طرف اللہ کے رسول ﷺ کی ایک حدیث تہلکہ مچائے ہوئے تھی : آپ ص نے حضرت عبادۃ بن صامت رض کو اصحاب صفہ کی تعلیم کے لیے مقرر کیا تھا _ ایک مرتبہ ان کے کسی شاگرد نے انھیں تحفے میں ایک کمان دی _ وہ اسے لے کر آپ ص کی خدمت میں حاضر ہوئے ، ماجرا سنایا اور کہا کہ اس کے ذریعے میں اللہ کی راہ میں جہاد کروں گا _ آپ ص نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
“اگر تم اپنی گردن میں آگ کا طوق ڈالنا چاہتے ہو تو اسے قبول کر لو _”
حضرت عبادہ نے فورا جاکر کمان واپس کردی _ ( ابوداؤد : 3416 ، ابن ماجہ :2157 )
مجھے لگا کہ اگر یہ نوٹ میرے ہاتھ سے مَس ہوگیا تو میرا ہاتھ جل جائے گا _ میں نے مسکرا کر نعمت اللہ سے کہا :
” رمضان کے بعد مٹھائی لانا ، اپنے سب دوستوں کو کھلانا ، تب مجھے بھی کھلانا _”
میرا خیال ہے کہ اللہ تعالی نے جن لوگوں کو علم کی دولت سے نوازا ہے ، اگر وہ اپنی پوری زندگی میں صرف ایک فرد کو خواندہ بنادیں تو تعلیمی انقلاب آسکتا ہے_
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں