ملت کو کہاں لے جارہی ہیں ملی تنظیموں کی یہ ریلیاں؟

0
1102
فائل فوٹو
All kind of website designing

حکیم نازش احتشام اعظمی

ایک بات سمجھ سے بالاتر لگتی ہے کہ ہمارے ارباب قیادت اور ملک کے مسلمانوں ،شریعت اسلامی اور ملی تشخص کو محفوظ رکھنے کا ڈھنڈورا پیٹنے والی تنظیموں اور ان کے ذمہ داران کو امت کو متحد کرنے ،شہر در شہر ان کی بھیڑ جمع کرنے اور مختلف ایشوزکو لے کربڑی بڑی ریلیاں نکالنے کاخیال اسی وقت کیوں آتا ہے جب ملک میں کہیں نہ کہیں انتخابات کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ہمیں یہاں ان ملی احتجاج اور مظا ہروں کاجائزہ لیتے ہوئے اس گتھی کو سلجھانا ہے اوران ریلیوں کے محاسن و مفاسد پر سنجیدگی سے غور کرکے یہ بتانا ہے کہ موجودہ وقت میں ملک کی سیاست نے نفرت اور فرقہ واریت کی جو تعمیر شروع کررکھی ہے اس کے درمیان یہ ہماری ریلیاں یا کسی بھی قسم کا احتجاج اوراسی طرح تمام مسالک کو اپنے فروعی اختلافات بھلاکرایک اسٹیج پر آنے کی دعوت دینے کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرکے بڑے بڑے اجتماعات منعقد کرنا

حکیم نازش احتشام اعظمی

کسی نیک مقصد ،خلوص نیت اور ملت اسلامیہ کی سچی ہمدردی میں ہورہا ہے یا یہ بھی ماضی کی طرح ہمیں فروخت کرنے اور سیاسی جماعتوں کی ہدایات پر ہورہے ہیں۔
یہاں کسی کی نیت پر سوال اٹھانے کا ہمیں کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ مگر ہندوستان میں مسلم ووٹروں کو گمراہ کرکے ہندووٹوں کو پولرائز کر نے کیلئے جس طرح سے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت طرح طرح کے حر بے اپناکر وطن عزیز کی سب سے بڑی اقلیت کی کمر توڑ دینے کی مہم کو انتہائی منظم طریقے سے چلا رہی ہے ،اسے دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ ضرور ہوتا ہے کہ کہیں ان اجتماعات کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی تو نہیں ہے! ۔بی جے پی آئی ٹی سیل کے سابق ممبر مہاویر کھیلیری جن کا تعلق وسندھرا راجے سندھیا کی ریاست راجستھان سے ہے ،انہوں نے باضابطہ طور پر ثبوتوں کے ساتھ کہا ہے کہ ہندوؤں کو متحد کرانے کیلئے مسلمانوں کو پیسے دیکر اتحاد کے نام پراجتماعات منعقد کرانے کی سہولت فراہم کرائی جاتی ہے۔ ممکن  ہے  یہ بات صد فیصد درست نہ ہو۔ مگر اتحاد ملت کے نام پر ہونے والے اجتماعات اور مسلمانوں کو متحد ہونے اور اپنے حقوق کیلئے آپسی اختلافات پر مٹی ڈال کر ایک ہوجانے کی تمام کوششیں اب تک ناکام ہی ثابت ہوئی ہیں یہ مشاہدے کی بات جس کا ہندوستانی مسلمان آزادی کے بعد سے ہی تسلسل کے ساتھ تجربہ کرتے آ رہے ہیں۔اس کے برعکس ان اجتماعات کو دکھا کرانتہائی خاموش اور شاطرانہ طریقے سے یرقانی خیمہ فاشسٹ قوتوں کو متحد کرر رہا ہے اور وہ قوتیں اپنی مہم میں کامیاب بھی نظر آ تی ہیں۔ اس کا ثبوت گزشتہ عام انتخابا ت میں مسلم ووٹروں کا انتشار اور فسطائی طاقتوں کے مضبوط و متحد پولنگ کی شکل میں ساری دنیا نے دیکھا ہے۔حالاں کہ 2014کے عام انتخابات میں ٹکٹ دینے کے معاملے میں مسلمانوں کو بالکل کنارے لگادیا گیا تھا۔اسی طرح اتر پردیش میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا یا یوں کہاجائے کہ انہیں نمائندگی کا اہل ہی نہیں سمجھا گیااس کے باوجودفسطائی قوتیں ناقابل تسخیرکامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور اس کے بعد نفرت کی سیاست یوپی کو کیسے جلابھون کرکھا رہی ہے یہ محتاج بیان نہیں ہے۔اترپردیش میں مسلمانوں ٹکٹ دیے بغیر کیسے کامیاب ہوا جاسکتا ہے اسے پیمانے اور مشاہدے کی شکل آزمایا گیا تھا،جس فسطائیت کو بخوبی اندازہ ہوگیا کہ وہ مسلمانوں کے بغیر بھی اقتدار حاصل کرسکتے ہیں اور یہ بات تو درجنوں یرقانی لیڈروں کی زبان سے نکل چکی ہے کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔اس ساری حقیقتوں کے باوجود ہم ان ریلیوں اور ’’ مہارَیلوں‘‘ سے کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کا جواب ان لوگوں سے پوچھاجان چاہئے جو مسلمانوں کو متحد کرنے کے نام پر دانستہ یا غیر دانستہ طریقے سے ہندوؤں کو پولرائز کرنے کی سازش میں معاون بن رہے ہیں۔ 
ابھی زیادہ دن بھی نہیں گزرے ہیں مسلم پرسنل لاء نے مسلم خواتین کی ایک ہمالیائی ریلی منعقد کردی ،جس میں بورڈ کے وہ ممبران پیش پیش نظر آئے جن کی سیاسی سرگرمیاں جگ ظاہر ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ حکومت اپنے ایجنڈے سے پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے اس لئے کہ یہ ہوم ورک اسے سنگھ کی جانب سے دیا گیا ہے۔خود بورڈ کے ایک انتہائی وفادار مضمون نگار نے بھی اس کا اندیشہ ظاہرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’مسلم خواتین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے یہ بات ثابت کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے کہ تمام مسلمان مردوخواتین اس بل کے خلاف ہیں۔یہ سب جانتے ہوئے بھی حکومت اگر بل واپس نہیں لیتی ہے اور راجیہ سبھا سے پاس کراتی ہے ،پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرتی ہے یا پھر آرڈیننس لاکر قانونی شکل دینے کی کوشش کرتی ہے تو اسے ظالمانہ قانون اور غیر جمہوری اقدام کہاجائے گا کیوں کہ ایک جمہوری ملک میں جمہوری انداز سے اپنا حق حاصل کرنے کیلئے جوکوششیں کی جاسکتی تھیں بورڈ نے اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے‘‘۔
یہ بات پڑھ کر ہنسی آ رہی ہے کہ جن قوتوں کے ارادوں اور منصوبوں سے ساری دنیا حتی کہ غیر تعلیم یافتہ ایک بدوی بھی بھلی بھانتی واقف ہے ان طاقتوں کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ حواکی بیٹیوں کی بھیڑ دکھا کر فسطائی قوتوں کو ان کے اہداف سے روکنے میں کامیابی مل جائے گی۔یہ فیصلہ دانشمندی اور دور اندیشی سے عبارت ہے اور اتقو فراسۃ المؤمن فانہ ینظر من نور اللہ کے سراسرمتغایر ہے یا کسی سیاست منفعت پسندی کی مرہون منت ۔کیایہ بات موجودہ حکومت اور سنگھ کو معلوم نہیں ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اپنی شریعت کو جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتی ہے۔مگر میڈیا کے ذریعہ یہ عام کرایا گیا کہ طلاق جیسے معاملے میں مسلم عورتیں بی جے پی کے ساتھ ہیںیہ تو ایک سازش تھی ،ایک بے بنیاد اور جھوٹا پروپیگنڈ ہ تھا ،جسے منصوبہ بند طریقے سے مین اسٹریم میں شامل گودی میڈیا کے ذریعہ سیاسی فا ئدہ حاصل کرنے اور مسلمانوں کو چوٹ پہنچانے کے مقصد سے اچھالاگیا تھا۔جب ہم یہ ساری باتیں ،سنگھ کے وعدے ،ارادے کواچھی طرح جانتے ہیں پھر ہمیں ریلی کا کھیل کھیلنے کی کیا ضرورت تھی؟۔
گزشتہ 4اپریل2018کو ہی ایک طرف تاریخی رام لیلا گراؤنڈ میں خواتین اسلام کی ریلی سجی ہوئی تھی اور دوسری جانب بورڈ کے اراکین کا ایک وفد اپنے مطالبات کی فہرست لے کر وزیر داخلہ کی بارگا ہ میں نیاز حاصل کررہا تھا،اس وفد میں کئی ایسے مہرے بھی شامل تھے جو بیشتر موقعوں پر سیاسی بساط پراچھلتے کودتے نظر آتے ہیں۔بہر حال میری اس خامہ فرسائی کا مقصد اس ریلی کی خامیوں ،خوبیوں یا بورڈ کی سیاست سازی پرتنقید کرنا نہیں ہے ۔ہم بتا نایہ چاہتے ہیں کہ ان عظیم الشان اجتماعات سے جن میں سے ایک اجتماع ملک کی معروف تنظیم کی جانب سے ابھی ابھی کشن گنج میں اختتام پذیر ہوا اور اس سے قبل بھی وہی تنظیم ملک کی مختلف ریاستوں کے بڑے شہروں میں سو سے زائد جلسے منعقد کرچکی ہے ۔ابھی دوروزبعد ہی دین اور شریعت بچانے کے نام پر بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں ایک پرانی مسلم تنظیم کے زیر اہتمام جلسہ ایک جم غفیر جمع کیا جانے والا ہے ،ظاہر سی بات ہے کہ اس ریلی پر بھی پچاسوں لاکھ روپے صرف ہوئے ہوں گے ۔مگر اس سے نتیجہ کیا برآمد ہوگا ۔پٹنہ کی ریلی سے یا اس سے پہلے کشن گنج کے اجلاس یا دہلی کے رام لیلا میدان میں خواتین کی ریلیوں سے ہمیں کیاملا یا کیا ملنے والا ہے ؟ کیا اس سے ہماری شریعت بچ گئی یا دین محفوظ ہوجائے گا۔یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ ہمیں اپنے دین وشریعت کے تحفظ کیلئے داعیانہ انداز میں اپنی ملت کو ہادی عالمؐ کے دین پر عمل آوری کیلئے ابھار نا اوردینی ہدایات پر زندگی گزارنے کیلئے انہیں مہمیز کرنے کا حکم قرآن کریم کے ذریعہ خود خلاق دوعالم نے دیا ہے۔دین کو بچائے رکھنے اور شریعت پر عمل کرکے اسے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری ہر فرد مومن کو دی گی گئی ہے۔مگر میرے ناقص علم کے مطابق اس کیلئے ریلیوں کے انعقاد کا فلسفہ سود مند نہیں ہے۔شاید عام لوگو ں کویہ بات معلوم نہ ہو کہ ہماری اس ریلی کو دکھا کر فسطائی قوتیں سادہ لوح برادران وطن کو گمراہ کررہی ہیں اور انہیں یہ سمجھانے میں جٹ گئی ہیں کہ دیکھو ! یہ مسلمان دیش کے آئین میں یقین نہیں رکھتے ، اپنے دھرم کو ہندوستان پرمسلط کرنے کی سازش کررہے ہیں۔یعنی معاملہ اس کا الٹا ہورہا ہے ۔کہاں ہم مسلمانوں کو ان کی تباہی وخسران کیلئے دین سے دوری اور شریعت سے مغایرت کا احساس دلانے کیلئے اجتماعات اور ریلیوں کا سہارا لے رہے ہیں،مگر ہمیں اس میں دور دور تک کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے اور دوسری طرف اسلام دشمن طاقتیں ہمارے ہی اجتماعات کو غلط رنگ دے کر اکثریت کو ہمارے خلاف بھڑکانے اور گمراہ کرنے میں کا میاب ہورہی ہیں۔اس سے بھی انکار نہیں کہ ان جلسوں میں جو موضوع اٹھائے جاتے ہیں وہ انتہائی اہم ہوا کرتے ہیں مگر ان کی پیش کش کا جو طریقہ ملی تنظیموں اور مسلم قائدین نے اختیار کیا ہوا ہے اس کی وجہ سے ہمارے یہ اجتماعات فائدے کے بجائے ہمارے ہی خلاف ماحول سازی میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔
اس سے زیادہ ضروری اور مناسب طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی کونسلنگ کا کو ئی طریقہ اختیار کیا جائے ،ملت کی پسماندگی کی بنیادی وجہ تعلیم سے دوری ہے ،اسی کی وجہ سے ہمارا سماج غربت وافلاس کی بھٹی میں کوئلہ بنتا جارہا ہے ۔مناسب اور نتیجہ خیز تعلیم اس قدرمہنگی ہوگئی ہے کہ اسے اپنے بچوں کو فراہم کرا نا اب 95 فیصد مسلمانوں کے بس سے باہر کی بات ہوگئی ہے۔اعلیٰ تعلیم کیلئے تو ہمارے اسکالر شپ دینے کے سارے انتظامات ہیں۔مگر اعلیٰ تعلیم پہنچنے کے راستے عام مسلمانوں کیلئے مشکلات کے سنگریزوں سے بھرے ہوئے ہیں۔بنیادی تعلیم سماج کے عام بچوں کیسے مل سکے اور وہ بھی دینی ماحول میں اس جانب غورو فکر کرنا امت کے ارباب قیادت کی سب سے اولین ذمہ داری ہے۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here