✍: محمد وسیم غازی
سب لوگ جدھر ہیں، وہ ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ ر ہے ہیں (ابوالکلام آزادرح)
مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ الله ہندوستان کی ان عبقری شخصیات میں ہیں جنہوں نے تاریخ میں اپنا نام درج کروایا ہے، ان جیسا صاحب دماغ، ذہین، بالغ نظر قائد اور مفکر صدیوں میں پیدا ہوتا ہے، آئیے ان کی حیات و خدمات پر مختصر روشنی ڈال لیتے ہیں:
(1) نام و نسب: مولانا کا اصل نام ” محی الدین احمد” تھا، والدکانام ” مولانا سید محمدخیرالدین ولد احمد ” اور والدہ کا نام عالیہ بنت محمد تھا، مولانا کے والد انہیں ” فیروز بخت” کے نام سے پکارتے تھے، لیکن آپ ” مولانا ابوالکلام آزاد” کے نام سے مشہور ہوئے۔
(2)ولادت: مولانا کی ولادت 11/نومبر 1888عیسوی کو دنیا کے سب سے مقدس مقام، بلدالامین” مکہ معظمہ” میں ہوئی، سات سال اس مقدس سرزمین پر رہنے کے بعد آپ اپنے والدین کے ساتھ کلکتہ آگئے، یہاں ان کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی ۔ اللہ نے انہیں بلا کا حافظہ اور ذہانت سے سرفراز فرمایا تھا۔
(3)تحصیل علوم: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کی، ان کے والد ان کے استاد بھی تھے، اس کے بعد مختلف اصحاب علم و فن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، مولانا مطالعہ اور کتب بینی کے بہت شوقین تھے، انہیں اپنے گہرے مطالعے، سیروسیاحت اور کئی ممالک کے مختلف ماہرین سے تبادلۂ خیال اور گفتگو سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
*(4)خاندان : مولانا کاخاندان خالص مذہبی تھا،ایک عرصے سے ان کے دادیہال و ننہیال میں علماوصوفیااور پیروں کا سلسلہ چلاآرہا تھا،آپ کے والد واعظ،مشہور عالم اور صوفی تھے،اور آپ کے نانا مدینہ کے معتبر اور نامی گرامی عالم دین تھے، خلاصہ یہ کہ آپ کا بچپن بہترین ماحول میں گزرا۔
(5) مزاج و مذاق:
نایاب حسن صاحب لکھتے ہیں:
“آپ نے ہوش سنبھالا، زرا سمجھدار ہوئے، علم کی وادیاں طے کیں،کتابیں پڑھیں ،اسلامی مآخذخصوصاً قرآن و سنت کا براہِ راست مطالعہ کیا،لوگوں کو پرکھا، حالات کا جائزہ لیا،معاشرے کے رسوم و رواج کو گہرائی سے دیکھا،توانھیں لگاکہ مذہب کی اصل روح توکہیں گم ہوگئی ہے اور اربابِ مذہب بھی محض ظواہر کی پابندی و اہتمام پر زور دے رہے ہیں؛چنانچہ مولانا نے اپنے مذہبی شعور کی تخلیق میں براہِ راست قرآن و سنت کی تفہیم سے کام لیا،یہی وجہ ہے کہ وہ پوری زندگی جس فکر و نظر اور عمل و کردار کے جس راستے پر چلے،انشراحِ صدرکے ساتھ چلے،انھیں اپنے کسی نظریہ،خیال،عقیدہ اور فکر کے بارے میں کبھی کوئی تذبذب نہیں تھا.
یہ ایک حقیقت تھی کہ مولاناآزاد ایک عالمِ دین ہونے کے باوجود روایتی قسم کے عالمانہ تام جھام اور رکھ رکھاؤ کے قائل نہ تھے، ان کا زندگی گزارنے کا اپنا طریقہ تھااور وہ اس سے سمجھوتانہیں کرتے تھے،البتہ ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے اطوار و اخلاق یا اعمال و عادات میں شریعت کی مخالفت کو گوارا کرلیتے ہوں،ان کا مذہبی شعور نہایت پختہ تھا”۔
اسی طرح مولانا چائے کا خاص ذوق رکھتے تھے، لیکن بنادودھ کی چائے پسند فرماتے تھے، اور کبھی کبھی سگریٹ کا کش بھی مار لیا کرتے تھے، آپ کے 38/سالہ رفیق عبدالرزاق ملیح آبادی بیان کرتے ہیں:
” چائے میں مولانا ذوق بہت اعلیٰ تھا، نہایت لذیذ چائے بناتے تھے، مجھے تو کیتلی تک چھونے کی اجازت نہ تھی،فرمایاکرتے تھے: بھدے ہاتھ ہیں، چائے جیسی لطیف و نازک چیز کو گوارا نہیں ہوسکتے! پیالیاں تک دھونے کی ممانعت تھی، ہنستے اور کہتے: مولوی صاحب! آپ کا ہاتھ پیالی کو لگا، اور چائےدانی کے اندر کی چائے غارت ہوگئی۔ کبھی کبھی اس طرح کی توہینوں پر میرا منہ پھول جاتا؛ تو دنیا جہان کے لطیفے شروع ہوجاتے اور میں ہنسنے لگتا! یہ جلیل القدر انسان کسی کو اداس نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ ہائے افسوس! ” (ذکرآزاد ص: 370)
(6)سرگرمیاں: ہندوستان آنےکےبعد آپ نے کلکتہ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، یہیں سے سیاسی، صحافتی، اورسماجی زندگی کی شروعات کی، اس سے بہت پہلے کم عمری ہی میں انہوں نے شعرگوئی اور اس کے بعد نثر نگاری کا آغاز کردیاتھا، 1912 میں کلکتہ سے ” الھلال” کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالا، 1914 میں اس اخبار پر پابندی عائد کردی گئی، لیکن مولانا خاموش نہ بیٹھے، انہوں ” البلاغ ” کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا، مولانا نے کئی مجلات و رسائل جاری کیے، اور کئی اخبارات میں انہوں نے کام بھی کیا، جیسے وکیل، امرتسر وغیرہ
مولانا نے سیاسی محاذ پر پورے جوش و ہوش کے ساتھ حصہ لیا، تحریک خلافت میں جان پھونک دی، اور اسے کل ہند سطح پر متعارف کروایا، ” تحریک عدم تعاون ” اور ” ہندوستان چھوڑو”تحریک کا بھرپور ساتھ دیا، اس طرح آپ قدآور لیڈر کے طور پر سامنے آئے، اسلیے آپ کو کانگریس پارٹی کا صدر بھی بنایاگیا، آپ کانگریس کیلیے اندھیرے میں روشنی ثابت ہوئے، آپ قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد کے حامی اور علمبردار تھے،اس وجہ سے انہیں اپنوں کی مخالفت کا سامنا رہا، لیکن آزادی کے بعد کے حالات دیکھ کر انہیں بہت دکھ تھا کہ ان کی قوم کو ہر اعتبار سے اچھوت بنائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اپنے سیاسی نظریات اور پرجوش صحافت کی وجہ سے مولانا کئی بار نظربند کیے گئے، انہیں مشقتیں جھیلنی پڑیں، مگر وہ بہادر اور بیباک سپاہی کی طرح وطن کی آزادی کیلیے جدوجہد کرتے رہے،، ایسے موقع پر ان کی رفیقہ حیات ” زلیخا بیگم” نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، ان کے شانہ بہ شانہ اور قدم سے قدم ملاکر کھڑی رہیں، اسلیے ان کا شمار بھی جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والی جانباز خواتین میں ہوتا ہے۔
(7)تصنیفات و تالیفات: آپ نے اپنی عمر کا بڑا حصہ ہندوستان کی تعمیر و ترقی، آزادی کی کوشش، اور سیاست میں گزارا، لیکن اس کے باوجود آپ نے مختلف فنون میں کئی اہم کتابیں، رسائل و مجلات اور صُحف و اخبارات اپنی یادگار کے طور پر چھوڑا:
(1) ترجمان القرآن (2) النکاح (3)الصلاۃ و الزکوۃ (4) نیرنگ عالم (5) المصباح (6) احسن الاخبار (7) ہفت روزہ پیغام (8) الجامعہ (9) الھلال (10) البلاغ وغیرہ
ان کے علاوہ کئی سارے خطوط کا مجموعہ بھی ان کے ادب و نثر کی گہرائی و گیرائی کو ظاہر کرنے کیلیے بازار میں دستیاب ہیں، جن میں ” غبار خاطر” ادبی دنیا کا ایک شاہکار ہے۔
*(8)مولانا آزاد اور امارت شرعیہ : جب آپ رانچی میں نظر بند تھے، اس زمانے میں مفکر اسلام، بانی امارت شرعیہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمة نے آپ سے ملاقات کر کے اپنی فکر اور اپنے منصوبے سے آپ کو آگاہ کیا، مولانا آزاد نے ان کی فکر کی نہ صرف تائید کی، بلکہ امارت شرعیہ کے افتتاحی اجلاس میں بحیثیت صدر تشریف بھی لائے، محلہ پتھر کی مسجد بانکی پور، پٹنہ، بہار میں ایک شاندار کانفرنس بلائی گئی، جس میں بہت سارے معتبر علماء تشریف لائے، اور مولانا آزاد رح کی صدارت میں امارت کے پہلے امیر، اور نائب امیر کا انتخاب عمل میں آیا، یوں 19/شوال 1339ھ مطابق 21/جون 1921ء کو “امارت شرعیہ بہار( موجودہ اڑیسہ اور جھارکھنڈ)” کی شکل میں ایک بڑا کام ہوا۔
*(9) پہلے وزیر تعلیم( first Education Minister) :
آزادی ہند کے بعد آپ پہلے وزیر تعلیم بنے، اس عہدہ پر رہتے ہوئے آپ نے کئی قابلِ قدر اور انوکھے کارنامے انجام دیئے۔
محمد عبدالحمید خان صاحب لکھتے ہیں: آپ نے وزارت تعلیم اور سائنسی تحقیقات کے قلم دان کی ذمہ داری بہ حسن وخوبی نبھائی ۔ بقول آزاد ’’وزارت تعلیم کی ذمہ داری سنبھالتے ہی میں نے پہلا فیصلہ جو لیا وہ یہ تھا کہ ملک میں اعلی و فنی تعلیم کے حصول کے لئے سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ خود ہم اپنی ضرورتیں پوری کریں ۔ میں اس دن کا منتظر ہوں جب ہندوستان میں باہر سے لوگ آکر سائنس اور فنی تعلیم میں تربیت حاصل کریں”۔
ان مقاصد کی تکمیل کے لئے مولانا نے کئی اہم اور ٹھوس قدم اٹھائے اور انہوں نے کئی اداروں کا قیام عمل میں لایا ۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ، انڈین کونسل فار اگریکلچر اینڈ سائنٹیفک ریسرچ ، انڈیا کونسل فار میڈیکل ریسرچ ، انڈین کونسل فار سائنس ریسرچ وغیرہ ، سنٹرل کونسل فار انڈسٹریل ریسرچ ادارے کو متحرک بناتے ہوئے انہوں نے اس میں تحریک پیدا کیا، اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ، بنگلور کی توسیع و ترقی کی ۔ نیشنل کونسل فار ٹکنیکل ایجوکیشن کے توسط سے ملک میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کا جال بچھادیا ۔ مولانا آزاد کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے فنی تعلیم و تربیت کے لئے 1951 میں کھڑک پور انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹیکنالوجی کے قیام کو عمل میں لایا ۔ مولانا آزاد آخری دم تک ملک کی اعلی اور فنی تعلیم کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے ۔ جدید ہندوستان میں 1947ء سے 1957ء تک فنی تعلیم کی سہولتوں اور ان سے استفادہ کنندگان کا جائزہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مولانا کے دور وزارت میں اعلی اور فنی تعلیم کے ارتقاء کے لئے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ، رہتی دنیا تک ملک کے عوام اسے یاد رکھیں گے ۔ نیز جدید ہندوستان کی تعمیر میں مولانا نے اہم حصہ ادا کیا۔
*(10)سفر آخرت :
دنیا خصوصاََ ہندوستان کی اس روشن شمع کے بجھنے کا واقعہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قلم کے شہسوار اور بیباک صحافی ” آغا شورش کاشمیری رح”
کے سحر انگیز قلم سے ہدیہ ناظرین و قارئین کردیا جائے، وہ لکھتے ہیں:
“مولانا آزاد (رحمۃ اللہ علیہ) محض سیاست داں ہوتے تو ممکن تھا حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ، لیکن شدید احساسات کے انسان تھے ، اپنے دور کے سب سے بڑے ادیب، ایک عصری خطیب، ایک عظیم مفکر اور عالم متجر، ان لوگوں میں سے نہیں تھے ، جو اپنے لئے سوچتے ہیں ، وہ انسان کے مستقبل پر سوچتے تھے ، انہیں غلام ہندوستان نے پیدا کیا اور آزاد ہندوستان کیلئے جی رہے تھے ، ایک عمر آزادی کی جدوجہد میں بسر کی اور جب ہندوستان آزاد ہوا تو اس کا نقشہ ان کی منشا کے مطابق نہ تھا، وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سامنے خون کا ایک سمندر ہے ، اور وہ اس کے کنارے پر کھڑے ہیں ، ان کا دل بیگانوں سے زیادہ یگانوں کے چرکوں سے مجروح تھا، انہیں مسلمانوں نے سالہا سال اپنی زبان درازیوں سے زخم لگائے اور ان تمام حادثوں کو اپنے دل پر گذارتے رہے ۔
آزادی کے بعد یہی سانچے دس سال کی مسافت میں ان کیلئے جان لیوا ہو گئے ، 12/فروری 1958ء کو آل انڈیا ریڈیو نے خبر دی کہ مولانا آزاد علیل ہو گئے ہیں ، اس رات کابینہ سے فارغ ہو کر غسل خانے میں گئے ، یکایک فالج نے حملہ کیا اور اس کا شکار ہو گئے ، پنڈت جواہر لال نہرو اور رادھا کرشنن فوراً پہنچے ڈاکٹروں کی ڈار لگ گئی، مولانا بے ہوشی کے عالم میں تھے ، ڈاکٹروں نے کہاکہ 48 گھنٹے گذرنے کے بعد وہ رائے دے سکتیں گے کہ مولاناخطرے سے باہر ہیں یا خطرے میں ہیں ۔
ادھر آل انڈیا ریڈیو نے براعظم میں تشویش پیدا کر دی اور یہ تاثر عام ہو گیا کہ مولانا کی حالت خطرہ سے خالی نہیں ہے ہر کوئی ریڈیو پر کان لگائے بیٹھا اور مضطرب تھا، مولانا کے بنگلہ میں ڈاکٹر راجندرپرساد (صدر جمہوریہ ہند)، پنڈت جواہرلال نہرو وزیراعظم، مرکزی کابینہ کے ارکان، بعض صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اکابر علماء کے علاوہ ہزا رہا انسان جمع ہو گئے ، سبھی پریشان تھے 19!فروری کو موت کا خدشہ یقینی ہو گیا۔
کسی کے حواس قائم نہ تھے ، پنڈت جواہر لال نہرو رفقاء سمیت اشکبار چہرے سے پھر رہے تھے ، ہر کوئی حزن و ملال کی تصویر تھا۔ ہندوستان بھر کی مختلف شخصیتیں آ چکی تھیں ۔
جب شام ہوئی ہر امید ٹوٹ گئی۔ عشاء کے وقت سے قرآن خوانی شروع ہو گئی، مولانا حفیظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا محمد میاں ؒ، مفتی عتیق الرحمنؒ، سید صبیح الحسنؒ، مولانا شاہد فاخریؒ اور بیسیوں علماء وحفاظ تلاوت کلام الہیٰ میں مشغول تھے ۔
آخر ایک بجے شب سورہ یٰسین کی تلاوت شروع ہو گئی اور 22/فروری کو 2:15 بجے شب مولانا کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔
(انا ﷲ وانا الیہ راجعون)
اس وقت بھی سینکڑوں لوگ اضطراب میں کھڑے تھے ، جوں ہی رحلت کا اعلان ہوا تمام سناٹا چیخ و پکار سے تھرا گیا۔
دن چڑھے تقریباً 2 لاکھ انسان کوٹھی کے باہر جمع ہو گئے ۔ تمام ہندوستان میں سرکاری وغیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سرنگوں کر دئیے گئے ، ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لمبی ہڑتال ہو گئی، دہلی میں ہو کا عالم تھا حتی کہ بینکوں نے بھی چھٹی کر دی ایک ہی شخص تھا جس کیلئے ہر مذہب کی آنکھع میں آنسو تھے ، بالفاظ دیگر مولانا تاریخ انسانی کے تنہا مسلمان تھے ، جن کے ماتم میں کعبہ و بت خانہ ایک ساتھ سینہ کوب تھے ، پنڈت جواہر لال نہرو موت کی خبر سنتے ہی دس منٹ میں پہنچ گئے اور بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے انہیں یاد آ گیا کہ مولانا نے آج ہی صبح انہیں “اچھا بھائی خدا حافظ “کہا تھا۔
ڈاکٹروں نے 21 کی صبح کو ان کے جسم کی موت کا اعلان کر دیا اور حیران تھے کہ جسم کی موت کے بعد ان کا دماغ کیونکر 24 گھنٹے زندہ رہا۔
ڈاکٹر بدھان چندر رائے (وزیراعلیٰ بنگال) نے انجکشن دینا چاہا تو مولانا نے آخری سہارا لے کر آنکھیں کھولیں اور فرمایا “ڈاکٹر صاحب اﷲ پر چھوڑئیے ” ۔ اس سے پہلے معالجین کے آکسیجن گیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: “مجھے اس پنجرہ میں کیوں قید کر رکھا ہے ؟ اب معاملہ اﷲ کے سپرد ہے “۔
میجر جنرل شاہ نواز راوی تھے کہ تینوں دن بے ہوش رہے ، ایک آدھ منٹ کیلئے ہوش میں آئے ، کبھی کبھار ہونٹ جنبش کرتے تو ہم کان لگاتے کہ شاید کچھ کہنا چاہتے ہیں ، معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی کا ورد کر رہے ہیں ، پنڈت نہرو کے دو منٹ بعد ڈاکٹر راجندر پرساد آ گئے ان کی آنکھوں میں آنسو ہی آنسو تھے ، آن واحد میں ہندوستانی کابنیہ کے شہ دماغ پہنچ گئے ، ہر ایک کا چہرہ آنسوؤں کے پھوار سے تر تھا اور ادھر ادھر ہچکیاں سنائی دے رہی تھیں ۔
مسٹر مہابیر تیاگی سراپا درد تھے ، ڈاکٹر رادھا کرشنن نے آبدیدہ ہو کر کہا :
“ہندوستان کا آخری مسلمان اٹھ گیا، وہ علم کے شہنشاہ تھے ” ۔
کرشن مین سکتے میں تھے ، پنڈت پنٹ یاس کے عالم میں تھے ، مرار جی دیسائی بے حال تھے ، لال بہادر شاستری بلک رہے تھے ڈاکٹر ذا کرحسین کے حواس معطل تھے ۔ مولانا قاری طیب غم سے نڈھال تھے ، مولانا حفظ الرحمن کی حالت دیگر گوں تھی، ادھر زنانہ میں مولانا کی بہن آرزو بیگم تڑپ رہی تھیں ….
اب کوئی آرزو نہیں باقی
ان کے گرد اندرا گاندھی، بیگم ارونا آصف علی اور سینکڑوں دوسری عورتیں جمع تھیں ۔ اندرا کہہ رہی تھیں “ہندوستان کا نور بجھ گیا”
اور ارونا رورہی تھیں “ہم ایک عظمت سے محروم ہو گئے “۔
پنڈت نہرو کا خیال تھا کہ مولانا تمام عمر عوام سے کھینچے رہے ان کے جنازہ میں عوام کے بجائے خواص کی بھیڑ ہو گئی۔ لیکن جنازہ اٹھا تو کنگ ایڈورڈ روڈ کے بنگلہ نمبر 4 کے باہر 2 لاکھ سے زائد عوام کھڑے تھے اور جب جنازہ انڈیا گیٹ اور ہارڈنگ برج سے ہوتا ہوا دریا گنج کے علاقہ میں پہنچا تو 5 لاکھ افراد ہو چکے تھے ، صبح 4 بجے میت کو غسل دیا گیا اور کفنا کر 9 بجے صبح کوٹھی کے پورٹیکو میں پلنگ پر ڈال دیا گیا۔
سب سے پہلے صدر جمہوریہ نے پھول چڑھائے ، پھر وزیراعظم نے اس کے بعد غیر ملکی سفراء نے کئی ہزار برقعہ پوش عورتیں مولانا کی میت کو دیکھتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں ، ان کے ہونٹوں پر ایک ہی بول تھا
“مولانا آپ بھی چلے گئے ، ہمیں کس کے سپرد کیا ہے ؟”۔
ہندو دیویاں اور کنیائیں مولانا کی نعش کو ہاتھ باندھ کر پرنام کرتی رہیں ۔ ایک عجیب عالم تھا چاروں طرف غم و اندوہ اور رنج و گریہ کی لہریں پھیلی ہوئی تھیں ۔
پنڈت جواہر لال نہرو کی بے چینی کا یہ حال تھا کہ ایک رضا کار کی طرح عوام کے ہجوم میں گھس جاتے اور انہیں بے ضبط ہجوم کرنے سے روکتے ، پنڈت جی نے یمین ویسار سکیورٹی افسروں کو دیکھا تو ان سے پوچھا :
“آپ کون ہیں ؟”
“سکیورٹی افسر”۔
“کیوں “۔
“آپ کی حفاظت کیلئے “۔
“کیسی حفاظت؟ موت تو اپنے وقت پر آکے رہتی ہے، بچا سکتے ہو تو مولانا کو بچا لیتے ؟”
شری پربودھ چندر راوری تھے کہ پنڈت جی نے یہ کہا اور بلک بلک کر رونے لگے ، ان کے سکیورٹی افسر بھی اشکبار ہو گئے ، ٹھیک پون بجے میت اٹھائی گئی، پہلا کندھا عرب ملکوں کے سفراء نے دیا، جب کلمہ شہادت کی صداؤں میں جنازہ اٹھا تو عربی سفراء بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ، جوں ہی بنگلہ سے باہر کھلی توپ پر جنازہ رکھا گیا تو کہرام مچ گیا، معلوم ہوتا تھا پورا ہندوستان روہا ہے مولانا کی بہن نے کوٹھی کی چھت سے کہا :
“اچھا بھائی خدا حافظ”۔
پنڈت پنٹ نے ڈاکٹر راجندر پرساد کا سہارا لیتے ہوئے کہا :
“مولانا جیسے لوگ پھر کبھی پیدا نہ ہوں گے اور ہم تو کبھی نہ دیکھ سکیں گے “۔
مولانا کی نعش کو کوٹھی کے دروازہ تک چارپائی پر لایا گیا، کفن کھدر کا تھا، جسم ہندوستان کے قومی پرچم میں لپٹا ہوا تھا، اس پر کشمیری شال پڑا تھا اور جنازہ پر نیچے دہلی کی روایت کے مطابق غلاف کعبہ ڈالا گیا تھا۔ پنڈت نہرو، مسٹر دھیبر صدر کانگریس، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، جنرل شاہ نواز، پروفیسر ہمایوں کبیر، بخشی غلام محمد اور مولانا کے ایک عزیز جنازہ گاڑی میں سوار تھے ۔
ان کے پیچھے دوسری گاڑی میں صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرساد اور ڈاکٹر رادھا کرشنن نائب صدر کی موٹر تھی۔ ان کے بعد کاروں کی ایک لمبی قطار تھی جس میں مرکزی وزراء، صوبائی وزرائے اعلیٰ، گورنر اور غیر ملکی سفراء بیٹھے تھے ۔
ہندوستانی فوج کے تینوں چیفس جنازے کے دائیں بائیں تھے ۔ تمام راستہ پھولوں کی موسلادھار بارش ہوتی رہی۔ دریا گنج سے جامع مسجد تک ایک میل کا راستہ پھولوں سے اٹ گیا۔ جب لاش لحدتک پہنچی تو ایک طرف علماء و حفاظ قرآن مجید پڑھ رہے تھے دوسری طرف اکابر فضلاء سرجھکائے کھڑے تھے ۔
اس وقت میت کو بری فوج کے ایک ہزار نوجوانوں ، ہوائی جہاز کے تین سو جانبازوں اور بحری فوج کے پانچ سو بہادروں نے اپنے عسکری بانکپن کے ساتھ آخری سلام کیا، مولانا احمد سیعد دہلوی صدر جمعیت علماء ہند نے 2:50 پر نماز جنازہ پڑھائی، پھر لحد میں اتارا، کوئی تابوت نہ تھا اور اس طرح روئے کہ ساری فضاء اشکبار ہو گئی، تمام لوگ رو رہے تھے اور آنسو تھمتے ہی نہ تھے ، مولانا کے مزار کا حدود اربعہ “بوند ماند” کے تحت درج ہے ۔
مختصر … یہ کہ جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان میں دفن کئے گئے ، مزار کھلا ہے ، اس کے اوپر سنگی گنبد کا طرہ ہے اور چاروں طرف پانی کی جدولیں اور سبزے کی روشیں ہیں ۔ راقم جنازہ میں شرکت کیلئے اسی روز دہلی پہنچا، مولانا کو دفنا کر ہم ان کی کوٹھی میں گئے کچھ دیر بعد پنڈت جواہر لال نہرو آ گئے اور سیدھا مولانا کے کمرے میں چلے گئے پھر پھولوں کی اس روش پر گئے ، جہاں مولانا ٹہلا کرتے تھے ، ایک گچھے سے سوال کیا:
“کیا مولانا کے بعد بھی مسکراؤ گے ؟”۔
راقم آگے بڑھ کر آداب بجا لایا کہنے لگے : “شورش تم آ گئے ؟ مولانا سے ملے ؟”
راقم کی چیخیں نکل گئیں ۔
مولانا ہمیشہ کیلئے رخصت ہو چکے تھے اور ملاقات صبح محشر تک موقوف ہو چکی تھی
امام_الہند
کوئی نالاں، کوئی گریاں ، کوئی بسمل ہوگیا
اس کے اٹھتے ہی دگر گوں، رنگ محفل ہوگیا
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں