ایران نے دکھایا بڑا دل، سعودی عرب سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں: ایرانی اسپیکر

0
891
علی لاریجانی
علی لاریجانی
All kind of website designing

تنگ نظر اور انتہاپسند سعودی حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ، مذاکرات سے انکار

تہران ،02 اکتوبر (نیا سویرا لائیو/ ہ س ) سعودی عرب میں تیل تنصیبات پر حملے کے بعد تہران اور ریاض کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے ۔کشیدگی کے سبب خلیج عرب میں ماحول غیر محسوس طور پر بہتر نہیں ہے ۔خطے کی دو بڑی طاقتوں کی کشیدگی خطے میں امن و امان کے لئے پریشانی کا باعث تصور کی جا رہی ہیں۔سعودی عرب نے خطے میں کشیدگی کو پر امن حل کو ترجیح دینے کی بات کہہ کر امن کی جانب ایک قدم بڑھایا ہے ۔ دریں اثنا تہران نے بھی مذاکرات کے لئے مسئلے کے حل کی وکالت کی ہے ۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ تہران خطے میں اپنے حریف سعودی عرب سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔’الجزیرہ’ کو دیے گئے انٹرویو میں علی ریجانی کا کہنا تھا کہ ‘ایران خطے میں سعودی عرب کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک سے بھی مذاکرات کے لیے تیار ہے، ایران اور سعودی عرب کے مذاکرات سے خطے میں سلامتی اور کئی سیاسی مسائل حل ہوسکتے ہیں’۔ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کو ملک میں فتح کے طور پر دیکھا جائے گا اور سعودی عرب کو صرف اپنے بڑے اتحادی امریکہ پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔علی لاریجانی نے کہا کہ ‘وہ دیکھیں گے کہ ایران کی حکمت عملی کام کر رہی ہے، ایران ایک مضبوط فوجی طاقت ہے اور جو ممالک ایران کے دوست نہیں ہیں ان کے لیے عسکری تنازع کے بجائے مذاکرات سود مند ہیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘ہماری طرف سے پیشگی شرائط کے بغیر ریاض مذاکرات کی میز پر اپنی تجاویز کو بحث کے لیے پیش کر سکتا ہے’۔سعودی عرب کے موقف کو خوش کن قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی مذاکرات کی خواہش کا ہم بھی خیر مقدم کرتے ہیں اور یہ جان کر اچھا لگا کہ سعودی عرب سب سے پہلے خطے کا مفاد چاہتا ہے۔خیال رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دو روز قبل اپنے ایک بیان میں تیل کی قیمتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی قسم کے تصادم کی صورت میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ ‘خطہ دنیا کی توانائی میں تقریباً 30 فیصد، عالمی تجارت میں تقریباً 20 فیصد اور دنیا کی جی ڈی پی کا تقریباً 4 فیصد کا شراکت دار ہے۔علی لاریجانی نے یمن کے حوالے سے کہا کہ ایران نے یمن کے حوثی باغیوں سے مطالبہ کیا تھا کہ سعودی عرب سے جنگ بندی کے کسی معاہدے کو قبول کرلیا جائے اور یہ سعودی عرب کے مفاد میں بھی ہے۔یاد رہے کہ یمن میں 2015 سے سعودی عرب کی سربراہی میں اتحادی حوثی باغیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں جہاں اب تک ہزاروں افراد جاں بحق اور لاکھوں متاثر ہوچکے ہیں۔حوثی باغیوں نے گزشتہ ہفتے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ایک جھڑپ کے دوران سعودی فوجیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔اس سے قبل سعودی عرب، امریکا اور یورپی ممالک ایران پر حوثی باغیوں کی مدد کا الزام عائد کرتے رہے ہیں تاہم تہران ان الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔
دریں اثناایران کی جانب سے خطے میں اپنے حریف سعودی عرب سے مذاکرات کے لئے رضامندی کے اظہار پر سعودی عرب نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی جانب سے مذاکرات کے لئے ابھی ایران کو کوئی پیغام نہیں بھیجا گیا ہے ۔
العربیہ کے مطابق سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر نے ایرانی حکام کی طرف سے مصالحت کا پیغام بھیجے جانے کا دعویٰ مسترد کردیا ہے۔ سعودی وزیر کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کی طرف سے ایران کو مذاکرات کے لیے کوئی پیغام نہیں بھیجا گیا۔ الجبیر نے ٹویٹر پر شائع شدہ ٹویٹس میں کہا ہے کہ برادر ممالک کے ساتھ معاملات میں تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا ہے۔ سعودی عرب نے بھی بردار ممالک کو آگاہ کیا کہ ریاض خطے میں سلامتی اور استحکام کی خواہاں ہے۔انہوں نے کہا کہ م±ملکت نے برادر ممالک پر یہ واضح کر دیا کہ صلح کی پیش کش پارٹی کی طرف سے آنی چاہیئے جو جارحیت کی راہ پر اور افراتفری پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی عرب نے ایرانی حکومت کے ساتھ یمن کے بارے میں بات کی اور نہ کرے گا۔ یمن کا معاملہ یمنی عوام کا ہے۔الجبیر نے تعجب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ اگر ایرانی حکومت یمن میں امن چاہتی ہے توآج تک وہاں پر تعمیروترقی کے لیے فنڈز کیوں نہیں دیئے۔ الجبیر نے دہشت گردی کی حمایت کرنے اور عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے خلاف سعودی عرب کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی یمن میں امن نہیں چاہتی۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here