پروفیسر ڈاکٹر عبد الحلیم ، پرنسپل ارم یونانی میڈیکل کالج ، لکھنؤ
روزے کے اتنے فوائد اہیں کہ کئی کتابیں لکھ دی پھر بھی اس کے روحانی اور جسمانی فوائد احاطہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔تاہم میں ایک ترکی مفکر کی بات سے اپنے کلام آغاز کرتا ہوں۔ موصوف فرماتے ہیں۔
اگر لوگ روزہ کے طبی فوائد سے آگاہ ہو جائیں تو بقول ڈاکٹرحلوک نور باقی کے:
“The day will come, when everyone will fast.”
روزہ افادیت کے حوالے سے ماہ اگست2012میں بی بی سی لندن نے کئی مغربی سائندانوں کی آرءپر مربوط ایک اسٹوری شائع کی تھی جس میں سائنسدانوں کا دعویٰ تھا کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ اگر قاعدے سے روزہ رکھا جائے تو انسان کو صحت سے متعلق کئی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں ،جن میں حد سے زیادہ وزن سے نجات شامل ہے۔سائنسدان مائیکل موسلی کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنا انہیں کبھی پسند نہیں تھا اور وہ روزے کے دیرپا فوائد کے بھی منکر تھے۔بعد ازاں انہوں نے اپنی ہی آپ بیتی سناتے ہوئے روزہ کے تعلق سے بڑی دل چسپ باتیں بیان کی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جب ان سے اس پر ایک دستاویزی فلم بنانے کے لیے کہا گیا تو انہیں بہت زیادہ خوشی نہیں ہوئی۔انھوں نے کہا کہلیکن جب ’ہورائزن‘ میگزین کے مدیر نے انہیں یہ یقین دلایا کہ اس کے ذریعے وہ عظیم جدید سائنس سے متعارف ہونگے اور اس سے ان کے جسم میں ڈرامائی بہتری آئے گی۔ اس لیے میں نے حامی بھر لی۔سائنسدان مائی
کل موسلی کہتے ہیں کہ ’میں مضبوط ارادے والا شخص تو نہیں ہوں، لیکن مجھے اس بات میں کافی دلچسپی رہی ہے کہ آخر کم کھانے ،خصوصاً روزے سے لمبی عمر کا کیا تعلق ہے اور سائنسدانوں کے مطابق اسے بغیر کسی درد کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ہم یہاں سائنسدں موسلی کے علاوہ ایک ایک سائنسی سبق کو دوہرانا مناسب سمجھتے ہیں جسے ہمارے میڈیکل سائنس کے طلبا ضرور پڑھتے ہوں گے۔
میڈیکل سائنس کے طلبا اور اساتذہ کے علاوہ محققین بھی اس بات کے معترف ہیں کہ انسان کی قدوقامت اور زیادتی عمر کیلئے جین کافی اہمیت کے حامل ہیں،خصوصا ہماری نشوونما میںIGF-1نامی ہامون بنیادی محرک ہوتے ہیں۔سبھی مغربی سائنسدان اس بات پر لگ بھگ متفق ہیںکہ روزہ سے جین میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور آئی جی ایف – ون نامی ہار
مون کی نشونما میں کمی ہوتی ہے، جس سے بڑھاپے میں کمی آتی ہے اور بڑھاپے سے متعلق بیماریوں کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔بڑھتی عمر میں تو یہ ضروری ہوتا ہے، لیکن جب انسان ضعیف العمر ہونے لگتا ہے تو اس کے قویٰ نحیف ہونے کی وجہ سےجسم ریپیئر موڈ یعنی مرمت موڈ میں آ جاتا ہے۔جنوبی کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر والٹر لانگو کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے آئی جی ایف – ون کی سطح میں کمی آتی ہے اور جسم مرمت موڈ میں آ جاتا ہے اور مرمت کرنے والے کئی جین جسم میں متحرک ہو جاتے ہیں۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنا زیادہ مفید ہے لیکن مائیکل موزلی کا کہنا ہے کہ یہ عملی نہیں بلکہ ایک ہفتے میں دو دن روزہ رکھنا زیادہ قابل عمل ہے۔کہا جاتا ہے کہ جسم میں آئی جی ایف-1 کی بہت کم سطح ہونے سے آدمی قد میں چھوٹا رہ جاتا ہے، لیکن وہ عمر سے جڑی دو اہم بیماریوں کینسر اور ذیابیطس سے محفوظ رہتے ہیں، لیکن بہ حیثیت ایک میڈیکل ایکسپرٹ میرا تجربہ اس کی نفی کرتا ہے کہ کوتاہ قامتی کینسر اور ذیابیطس سے بچائے رکھتے ہیں، البتہ اس سے انکار نہیں ہے کہ چند فیصد کیسز میں یہ صحیح پایا گیا ہو۔
شکاگو میں الونوا یونیورسٹی کی ڈاکٹر کرسٹا ویراڈی نے دو قسم کے موٹے مریضوں پر ایک دن کے بعد ایک دن روزہ کا فارمولا اپنایا اور اس کے اثرات کو انھوں نے اس طرح بیان کیا کہ”اگر آپ اپنے روزے کے دنوں کی پابندی کریں تو آپ کو دل کی بیماریوں کا خطرہ نہیں رہتا، خواہ آپ روزے نہ رکھنے کی حالت میں زیادہ کھاتے ہیں یا کم“۔
بہر حال انھوں نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ حاملہ عورتیں اور ذیابیطس کے مریض اس میں احتیاط رکھیں اور اعتدال سب سے اچھا راستہ ہے، خواہ کھانے میں ہو یا روزہ رکھنے میں ہو۔
اسی طرح موٹاپا میں روزہ کی فادیت کے حوالے سے گزشتہ برس 12مئی2018کو ایک رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں روزہ کی افادیت کے تعلق سے متعددحیران کن انکشافات کئے گئے تھے۔
عمومی طورپر یہ کہاجاتاہے کہ رمضان میں روزے رکھنے کی وجہ سے جسم سے فالتو چربی ختم ہوتی ہے اور نظام انہضام ٹھیک ہوتاہے، ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے سائنسدان چوہوں پر تجربات کر کے اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس دوران اتفاق سے روزے کی افادیت کے متعلق کچھ ایسے انکشافات سامنے آگئے جو سائنسدانوں کے لئے تو بے پناہ حیرت کا باعث بنے ،لیکن دنیا بھر کے مسلمان کسی سانئسی تحقیق کے بغیر ہی صدیوں سے ان فوائد سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
ان سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ صرف ایک دن کے لئے روزہ رکھنے سے ہی آنتوں کی بنیادی خلیات کی افزائش ِنو کا سلسلہ پھر سے بحال ہونا شرو ع ہوجاتا ہے، روزے کے نتیجے میں خلیات گلوکوز کی بجائے فیٹی ایسڈز کی تحلیل شروع کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں بنیادی خلیات کی پیدائش نو کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جسم میں آنے والی اس بڑی تبدیلی کو ایسے لوگوں کے لئے خصوصاً فائدے مند قرار دیا گیا ہے جو نظام انہضام کی بیماریوں اور انفیکشن میں مبتلا ہوتے ہیں، جبکہ کیموتھراپی کرانے والے کینسر کے مریضوں کے لئے بھی اسے فائدہ مندقرار دیا گیا ہے۔ بوڑھوں اور مریضوں کے علاوہ نوجوانوں کو بھی عمومی طور پر اس جسمانی تبدیلی سے فائدہ پہنچتا ہے۔اسسٹنٹ پروفیسر عمر یلماس کا کہنا ہے کہ ”روزے کے آنتوں اور نظام انہضام پر بہت سے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ناصرف خلیات کی پیدائش نو ہوتی ہے، بلکہ کئی اقسام کی بیماریوں سے تحفظ ملتا ہے اور یہ انفیکشن اورکینسر کے مریضوں کے لئے بھی بہت مفید ہے“۔
کہا جاتاہے کہ 19ویں صدی سے قبل تک لوگ اس کے فوائد سے ناآشنا تھے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ یورپ اس سے قبل دور جاہلیت سے گزر رہا تھا۔ جب علوم و فنون اسلامی دنیا سے مغرب کی طرف منتقل ہوئے تو دیگر علوم کی طرح تحقیق کے دروازے کھل گئے اور بھوک یا ایک موقوت وقفہ کیلئے کے وہ ثمرات کھل کر سامنے آئے کہ دنیا ششدر رہ گئی۔ سرکار دو عالم کا ارشاد مبارک ہے کہ:”ان فی الجوع طعاما وافرا“۔بے شک اس Fasting میں بڑی نعمتیں پوشیدہ ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک روزہ کو صرف نظام انہضام کے لیے صرف وقفہ شمار کیا جاتا تھا، لیکن جیسے جیسے طبی سائنس نے ترقی کی تو یہ واضح ہوا کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے۔چونکہ طبی سائنس ثبوت مانگتی ہے کہ اگر کہاجائے کہ روزہ کینسر جیسے موذی مرض سے بچاتا ہے تواس کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے ثبوت پیش کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ اس سارے عمل کے دوران کچھ طبی اصطلاحات کا استعمال مجبوری ہے۔ شاید عام قاری کو سمجھنے میں مشکل پیش آئے۔ مجھے اس کا بخوبی اندازہ ہے اس لیے روزہ کے چند اہم طبی فوائد کو عام فہم انداز میں ہدیہ¿ قارئین کیاجائے۔ یہ وہ فوائد ہیں جس سے کسی کو انکار نہیں اور ہر انسان خواہش مند ہے کہ اسے یہ حاصل ہو جائیں اور اس کے لیے ہر ممکن طور پر کوشاں ہے۔
دور حاضرمیں ہماری خوارک میں بہت سے کیمیائی مادے شامل ہو چکے ہیں یہ مادے خوراک کو محفوظ کرنے کے لیے، خوراک کو اچھا رنگ اور ذائقہ دینے کے لیے اور ملاوٹ کے طور پر بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ کچھ مادے جسم سے خارج ہوتے ہیں اور بہت سے جسم کی چربی میں ذخیرہ ہو جاتے ہیں۔ زیادہ دیر جسم میں رہنے کی وجہ سے شدید قسم کی طبی پیچیدگیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ اس لیے ان کا اخراج ضروری ہوتا ہے۔ روزہ کی وجہ سے چونکہ جسم کی فالتو چربی استعمال ہوتی ہے، جس سے یہ ذخیرہ شدہ زہریلے مادے بھی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ طبی ماہرین اس پر متفق ہو چکے ہیں کہ صرف روزہ ہی واحد ذریعہ ہے جو انسان کو ان زہریلے مادوں سے نجات دلاتا ہے۔انسانی نظام انہضام ایک بہت ہی نازک اور پیچیدہ اعضاءپر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر اس کو فیکٹری سے تشبیہ دی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ایک ایسی فیکٹری جس میں ہزاروں افراد کام کر رہے ہیں اور چوبیس گھنٹے چل رہی ہے۔ صنعتی دستور کے مطابق ہر فیکٹری کو سال میں کچھ عرصہ کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔ یہ عرصہ ایک ماہ تک بھی ہو سکتا ہے۔ میکانیکل اینڈ کیمیکل انجینئرنگ کے ماہرین بخوبی جانتے ہوں گے کہ فیکٹری بند کر دینے کے اس عمل کوشٹ ڈاﺅن پیریڈ کہتے ہیں۔ اس عرصہ میں مشینری کو آرام دیا جاتا ہے۔ مرمت اور صفائی کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسا کرنا ضروری ہے اگر نہ کیا جائے تو مشینری جلد خراب ہوکر تباہ ہو جاتی ہے۔ فیکٹری بندکرنے سے نہ صرف مشینوں کو لمبے عرصہ تک فعال رکھا جا سکتا ہے بلکہ اس کی کارکرگی بھی بہتر ہو سکتی ہے۔
روزمرہ کی اس واضح مثال کے بعد آپ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ نظام انہضام پر روزہ کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔ نظام انہضام کی تمام مشینوں معدہ، جگر، منہ، بڑی آنت، چھوٹی آنت اور تلی وغیرہ کو نہ صرف وقفہ مل جاتا ہے، بلکہ جسم کے اندرونی نظام کے ذریعے ان کی صفائی اور مرمت بھی ہو جاتی ہے، اور نہ صرف مشینری کی مرمت ہوتی ہے بلکہ اس کی کارکردگی بھی بہت بہتر ہو جاتی ہے۔
دور حاضر میں کینسر ایک موذی اور جان لیوا مرض ہے جس سے بچاﺅ اور علاج طبی سائنس کے لئے بڑا مسئلہ ہے۔مغربی دنیا کی بڑی جامعات یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور امریکی ریاست شکاگو کی ماﺅنٹ سنائی یونیورسٹی میں وسیع البنیاد تحقیقات میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ روزہ کینسر سے بچنے اور اس کے علاج میں معاون ہے۔
یہ کیسے ہوتا ہے؟ جدید سائنس کی تحقیق نے اس نظام کو روز روشن کی طرح عیاں کر دیا ہے۔طبی سائنس بتاتی ہے کہ روزہ کے دوران انسانی جسم کے خلیات دفاعی پوزیشن میں چلے جاتے ہیں جبکہ کینسر زدہ خلیات اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔روزہ کی حالت ان کینسر زدہ خلیات کو گلوکوز کی ترسیل بند کرکے ان کو کمزور کرکے ختم کر دیتی ہیں۔کینسر زدہ ہونے سے پہلے یہ خلیات بھی اسی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں۔کیلی فورنیا یونیورسٹی کے ڈائریکٹر اور نامور محقق والٹر لانگو کہتا ہے ایک ایسے شخص کا تصور کریں جس میں کینسر کے خلیات جنم لے رہے ہیں ان کو کینسر زدہ ہونے میں کئی سال لگ جائیں گے، لیکن اگر روزہ رکھنا شروع کر دے تو ان خلیات کا کینسر زدرہ ہونے سے پہلی ہی خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ حافظے کی کمزوری اور دماغی صلاحیت میں کمی فطری ہے۔ سائنسی تحقیقات نے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ روزے عمر بڑھنے کی وجہ سے حافظے کی کمزوری کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں قوت حافظہ کو بھی ناتواں نہیں ہونے دیتے۔ مسلسل یا وقفے کے ساتھ روزے رکھنے سے دماغ کی صلاحیت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دماغ جسم کی تمام حرکات کوکنٹرول کرتا ہے، دماغ کے اندر بہت سی بیماریاں ہوتی ہیں جو انسان کو معذور کر دیتی ہیں، بعض اوقات حافظے کو کمزور کر دیتی ہیں، روزہ رکھنے سے نہ صرف دماغی صلاحیت بہتر ہوتی ہے، دماغ کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے بلکہ دماغ کی مخصوص بیماریوں بالخصوص مرگی، فالج، نسیان اور دیگر بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ پر پڑنے والے اثرات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔روزہ کے جسمانی فوائد کے تعلق سے یہ چند معروضات تھیں جسے خالص سائنسی تحقیق کی بنیاد اور مغربی سائنسدانوں کے مشاہدات کی روشنی میں آپ کے سامنے پیش کر نے کی جسارت کی گئی ہے۔ رہی اس کے روحانی اور اخروی فوائد کی بات تو اس تعریف وتوصیف اور فضائل سے متعلق قرا ٓن سنت میں بے شمار مبشرات اور انعامات کی ڈھیروں احادیث صحیحہ اور حدیث قدسی موجود ہے ،جس ہمیں بھر پور استفادہ کرنا چاہئے۔ اللہ کریم ہمیں عمل کی توفیق کے ساتھ اپنے مذہب کی حقانیت دل سے قبول کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں