شکیل احمد ندوی چیئرمین ابن الہیثم اسلامک اسکول منامہ بحرین
ملک عزیز ہندوستان میں انتخابات ، انتخابی سرگرمیاں اور انتخابات کے نتائج کے علاوہ بھی اور کہیں زیادہ اہم اور بہتر کام ہیں جن کے ذریعہ ملت نہ صرف اپنی معاشی کمزوری کو دور کر سکتی ہے بلکہ سیاسی سماجی اور معاشی لحاظ سے مضبوط بھی ہو سکتی ہے ۔ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے چند اشارات پر اکتفا کرتا ہوں ۔ سب سے پہلے مرد و زن سب کے لئے بقدر ضرورت صحیح علم دین کے حصول اور اس کے مطابق عمل کو یقینی بنایا جائے ۔ آئے دن بریلوی طبقہ کی طرف سے مختلف قسم کی سطحی موضوعات پر منعقد ” کانفرنسوں ” اور ندوی و دیوبندی مکتب فکر کی طرف سے بخاری شریف کی افتتاحی و اختتامی تقریبات ، حفاظ کرام اور درس نظامی کے فارغین کی دستار بندی و گلپوشی اور بڑے بڑے ملیونی اجتماعات سے اجتناب برتتے ہوئے ذہین طلبہ کے چھوٹے چھوٹے گروپس کو قائدانہ صفات و خصوصیات، اسٹریٹجک پلاننگ اور ایکشن پلان تیار کرنے کی تربیت دی جائے جو ایک بستی کی چھوٹی یونٹ کی سطح سے لے کر ملکی اور ملی سطح پر قائدانہ رول ادا کر سکیں ۔ دوسری اہم چیز جس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ہے یو پی ایس سی اور دوسری سرکاری ملازمتوں میں اپنا تناسب بڑھایا جائے ۔ابھی چند روز قبل UPSC کے رزلٹ آئے ہیں جو بہت مایوس کن ہیں لیکن مولوی حضرات ایک مدرسہ کے فیض یافتہ شخص کی کامیابی پر ایسا جھوم رہے ہیں جیسے عظیم الشان فتح کے جھنڈے گاڑ دئے ہیں اور بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بریلوی مکتب فکر کی جامعہ اشرفیہ کے فارغ کو ندوی بنا ڈالا ۔ہم شاہد رضا خان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں لیکن اس ایک شخص کی کامیابی انفرادی سطح پر باعث مسرت ہو سکتی ہے پوری ملت کے لئے جشن منانے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ انتخابی سیاست پر ملت کا ہر طبقہ بشمول مولوی حضرات جتنا چیخنے چلانے اور بولنے لکھنے پر اپنی طاقت صلاحیت اور وسائل و ذرائع صرف کرتا رہا اس کا دسواں حصہ بھی اس نے UPSC کو نہیں دیا ۔ تیسری چیز جو اس وقت بہت اہمیت کی حامل ہے اور جس پر مختلف ممالک بہت زور دے رہے ہیں اور اب ہندوستان میں بھی اس سال سے ثانوی سطح پر اسے جزو نصاب بنایا گیا ہے وہ ہے انٹرپرینیرشپ Entrepreneurship یعنی فن تجارت میں مہارت و قیادت کی تعلیم ۔ اس کے ذریعہ مسلمانوں کو بہت سارے سیکٹرس میں گروپ بنا کر داخل ہونا ہے مثال کے طور پر تعلیمی میدان کئی پہلوؤں سے ترقی کے بہت زیادہ مواقع فراہم کرتا ہے ۔مسلمان گروپ بنا بنا کر بہترین قسم کے اسکول کھولیں جس میں معیاری تعلیم و تربیت پر توجہ دی جائے ۔اپنے اسکولوں کے ذریعہ آپ بہت سارے بیروزگار تعلیم یافتہ خواتین و حضرات کو روزگار فراہم کر سکیں گے ۔صرف مسلم علاقوں میں اور مسلم طلبہ ہی کے لئے اسکول نہ کھولے جائیں بلکہ غیر مسلم آبادیوں میں بھی کھولیں ۔وہاں بہتر کمائی کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی لحاظ سے قوت بھی اور بہتر مقام و مرتبہ بھی حاصل کر سکیں گے ۔ ایجوکیشنل سیکٹر میں دو اور بڑے پروگرام بطور اسٹریٹجک پلان بنائے جا سکتے ہیں ایک ہے ٹیچرس ٹریننگ کے لئے اکیڈیمی کا قیام اور دوسرا ہے ٹیکسٹ بکس یعنی نصابی اور درسی کتابوں کی تیاری اور نشر و اشاعت ۔معاشی اور تعلیمی استحکام کے لئے اور بھی بہت سارے میدان ہیں جہاں ہمارے لئے قدم رکھنے اور جمانے کی بہت گنجائش ہے مگر ابھی میرے لئے تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے ۔
آخری بات جو میری نگاہ میں بحیثیت مسلم فرد اور امت سب سے زیادہ اہم اور ضروری ہے وہ ہے غیر مسلم آبادی میں دعوت دین کا کام ۔ یہ شرعی فریضہ بھی ہے اور زمانی و مکانی ضرورت بھی اس سے غفلت دنیاوی و اخروی دونوں لحاظ سے ہمارے لئے موجب خسران ہوگی ۔دعوت دین کے اسالیب و دیگر تفصیلات کے لئے میدان دعوت میں تجربہ رکھنے والے ہر مکتب فکر کے علماء و دعات کا ورکشاپ تسلسل کے ساتھ ہونا چاہئے جہاں پر دعوت سے متعلق ہر ایک بات اور پہلو پر گفتگو ہو اور پھر لائحہ عمل طے کیا جائے ۔
انتخابات کے نتائج سے ہمیں مایوس اور بد دل ہونے کی قطعا ضرورت نہیں اور نہ ہمیں خوف و ہراس کی نفسیات میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہے ۔ہر مشکل اور کٹھن وقت اور صورتحال دعوت دین کے لئے نئے مواقع پیدا کرتی ہے بس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ہمیں یہ شعور و ادراک ہو کہ ہم امت دعوت ہیں اور پورا ہندوستان میدان دعوت ہے اور پوری غیر مسلم آبادی ہماری مدعو برادری ہے ۔وما علينا إلا البلاغ وفقني الله و إياكم لما يحب و يرضى.
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں