شریعت پر صرف داڑھی، ٹوپی اور کرتا پاجامہ والے کا حق ہے۔۔۔!!!

0
751
All kind of website designing

محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408

دیگر مذاہب میں اس تصور کو مذہبی حکم تسلیم کیا گیا ہے کہ صرف مخصوص برادری کو ہی مذہب سیکھنے سکھانے اور اس پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ ہندو کی مذہبی تعلیم میں کہا گیا ہے کہ’’ وید سننے پر (شودر کے) دونوں کانوں میں سیسہ ڈال دو،پڑھے تو زبان کاٹ دو، یاد کرے تو دل چیر دو‘‘۔ (باب چہارم منو شاستری)
یہ تفریق تعلیم تک ہی محدود نہیں ہے؛ بلکہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی تفریق سے کام لیا گیا ہے، ہم یہاں پر چند مختصر حوالے پیش کر رہے ہیں:
برہمن پرماتما کے منہ سے کشتری بازوؤں سے ویش رانوں سے شودر پاؤں سے پیدا ہوا (رگ وید باب ۰۱ بھجن ۰۹ ص ۸۳‘ یجروید‘ اتھرو وید)
وید کے لیے برہمن حکومت کے لیے چھتری (کشتری) کاروبار کے لیے و بیش اور دکھ اٹھانے کے لیے شودر کو پیدا کیا ہے۔ (یجروید ۰۳:۵)
برہمنوں کے لیے وید کی تعلیم اور خود اپنے اور دوسروں کے لیے دیوتاؤں کو چڑھاوے دینا اور دان (چندہ) لینے دینے کا فرض قرار دیا (منو شاستر باب اول ۸۸)
چھتری کو اس نے حکم دیا کہ مخلوق کی حفاظت کرے دان دے چڑھاوے چڑھائے وید پڑھے اور شہوات نفسانی میں نہ پڑے (منو شاستر باب اول ۹۸)
ویش کواس نے حکم دیا کہ وہ مویشی کی سیوا کرے‘ وان دے‘ چڑھاوے چڑھائے‘ تجارت لین دین اور زراعت کرے (منو شاستر باب اول ۰۹)
شودر کے لیے قادر مطلق نے صرف ایک ہی فرض بنایا ہے وہ ہے ان تینوں (برہمن قوم‘ کشتری قوم اور ویش قوم کی خدمت کرنا) (منو شاستری باب اول ۱۹)
’’جس برہمن کو رگوید یاد ہو وہ بالکل گناہ سے پاک ہے اگرچہ وہ تینوں اقوام کو ناس کردے یا کسی کا بھی کھانا کھالے ( منوشاستری باب نہم ۲۶۲)
سزائے موت کے عوض برہمن کاصرف سر مونڈا جائے لیکن اور ذات کے لوگوں کو سزائے موت دی جائے گی (باب ہشتم ۹۷۳)
شودر جس عضو سے برہمن کی ہتک کرے اس کا وہ عضو کاٹ دیا جائے(منو باب دوم ۱۸۳)
لیکن ان کے برعکس اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خواہ تعلیم و تعلم کا میدان ہو یا احکامات کے اجرا و نفاذ کا؛ اس میں سب انسان برابر ہیں۔ نہ کسی مولوی کویہ کاپی رائٹ حاصل ہے کہ صرف وہیں جنت کے حق دار ہیں اور باقی سب لوگ جہنم کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ شریعت پر عمل کے مکلف صرف داڑھی، ٹوپی اور کرتا پاجامہ والے ہیں اور بقیہ دیگر حضرات عمل سے مستثنیٰ ہیں۔ اسلام میں ہر شخص اس کے احکام کا براہ راست مخاطب اور مکلف ہے اور خدا تک پہنچنے کے لیے کسی واسطے کی بھی ضرورت نہیں؛ ہر انسان براہ راست اللہ تک پہنچ سکتا ہے اور اسے راضی کرسکتا ہے۔
آج جب ہم اپنے معاشرہ کا جائزہ لیتے ہیں، تو اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسلم قوم بھی ہندو مذہب کے درج بالا نظریوں سے متاثر ہیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے حوالے سے خود کو شودر سمجھتے ہیں۔ ہمارا عمومی نظریہ یہ بن چکا ہے کہ نماز ، روزہ اور دیگر فرائض صرف وہیں ادا کریں گے، جو ٹوپی، داڑھی اور کرتا پاجامہ والے ہیں۔ جو لوگ یہ لباس اور ہیئت اختیار نہیں کرتے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان فرائض سے مرفوع القلم ہیں۔
تعجب کی انتہا تو اس وقت ہوتی ہے کہ جو بے ریش کبھی بھی نماز نہیں پڑھتے، وہ باریش افراد کو نماز کے لییایسے ٹوکتے ہیں، جیسے کہ اس پر نماز ہی فرض نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ داڑھی رکھ کر، ٹوپی پہن کر، اور کرتا پاجامہ پہن کر نماز نہیں پڑھتے!۔ اور جب پلٹ کر ان سے کہا جاتا ہے کہ بھائی! آپ بھی تو مسلمان ہیں، آپ داڑھی کیوں نہیں رکھتے اور نماز کیوں نہیں پڑھتے، تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ میں مولوی تھوڑی ہوں۔ گویا ہم اپنی فکر سے یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم شودر ہیں اور اسلامی احکامات ہمارے لیے نہیں؛ بلکہ صرف مولویوں کے لیے ہے۔
اگر معاملہ صرف اپنی ذات تک محدود رہتا تو بھی غنیمت تھا، معاملہ ایں جا رسید کہ اگر کوئی نوجوان دینی معلومات سے آگاہ ہوکر اپنے چہرے پر سنت سجانے کا آغاز کرتا ہے، تو اس کے شودر ساتھی یہ کہہ کر گناہ کی دعوت دینے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کہ ارے یار! تم تو دن بدن مولوی ہوتے جارہے ہو! داڑھی رکھنے کے بعد بادۂ رنگیں سے کیسے محظوظ ہو پاؤگے۔ قصۂ مختصر یہ کہ ہم نے نظریاتی اور عملی طور پر یہ ثابت کردیا ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے حوالے سے ہم شودر ہیں۔ ان پر صرف وہی عمل کریں گے، جو داڑھی، ٹوپی اور کرتا پاجامہ پہنتے ہیں۔ اور نہ صرف ہم عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں؛ بلکہ عمل کرنے والے ساتھیوں کو بھی باز رکھنے کی دعوت گناہ دیتے ہیں؛ ہمارے اس رویہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے ، کم ہے۔
میرے اسلامی بھائیو! سب سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اسلام جیسے آفاقی اور فطرت سے ہم آہنگ دین سے نوازا، جس میں دیگر مذہبوں کی طرح انسان کے کسی بھی طبقے کے لیے تفریق و تذلیل نہیں ہے۔ اور ہمیں ہر احکام میں برابری کا حق دیا اور اس کے نتیجے میں ملنے والی خدا کی رضا اور جنت پر کسی ایک طبقہ کو قبضہ نہیں دیا، اتنی عظیم نعمت ملنے کے باوجود اگر ہم خود کو عملی طور پر شودر سمجھیں تو ہماری عقل و فکر پر ماتم اور توفیق الٰہی سے محرومی کے علاوہ اورکیا کہا جاسکتا ہے۔ آئیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم اور فکر رشید عطا فرمائے ۔ اور ہمیں شودر جیسی ذلت آمیز طرز عمل اور فکر سے نجات دے کر اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق بخش دے، آمین۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here