اداکے واجب ہونے کی شرطوں کا بیان 

0
1648
All kind of website designing

قسط نمبر (5)

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

 
نفس وجو ب کی شرطوں کا بیان ہوچکا۔ جب وہ ساتوں شرطیں پائی جائیں گی ،تو اس پر حج فرض ہوجائے گا۔ اب یہاں سے اس کا بیان ہے کہ ادا کرنا کب فرض ہوگا۔ ادا کے وجو ب ہونے کی بھی کچھ شرطیں ہیں۔ جب وہ شرطیں پائی جائیں گی، تو اس پر خود چل کر حج کرنا فرض ہوگا ۔اور اگر اس کے اندر صرف پہلی قسم کی شرطیں پائی جاتی ہیں اور وجوب ادا کی شرطیں نہیں پائی جاتی ہیں ،تو اس پر حج بدل کرنا یا مرتے دم وصیت کرنا واجب ہوگا ۔
وجوب ادا کی پانچ شرطیں ہیں 
اول: تندرست ہونا ۔دوسری: بادشاہ کی طرف سے رکاوٹ کانہ ہونا۔
عن ابی امامۃؓ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ :من لم یمنعہ من الحج حاجۃ ظاہرۃ، أو سلطان جائر، أو مرض حابس، فمات ولم یحج، فلیمت ان شاء یھودیا أو نصرانیا۔ (راوہ الدارمی)
حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو کسی ضروری حاجت، یا ظالم بادشاہ، یا مرض شدید نے حج سے نہیں روکا اور اس نے حج نہیں کیا اور مرگیا، تو وہ چاہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے ۔
تیسری شرط :راستہ کاپر امن ہونا ہے ۔ یہ شرطیں مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہیں۔ چوتھی شرط: عورت کے لیے محرم کا ہونا ہے۔
عن ابن عباسؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ:لا یخلون رجل بامرۃ ولا تسافرن امرأۃ الا ومعھامحرم۔ فقال رجل: یا رسول اللہ ﷺ ! اکتتبت فی غزوۃ کذا وکذا، وخرجت امرأتی حجۃ، قال: اذھب فاحجج مع امرأتک۔ (متفق علیہ)
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی اجنبی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ ہرگز تنہائی نہ کرے اور عورت بغیر محرم کے ہرگز سفر نہ کرے۔ تو ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ !میں فلاں فلاں غزوہ میں نامز دہوچکا ہوں اور میری عورت حج کرنے کو جارہی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جا اور اپنی عورت کے ساتھ حج کر۔ 
پانچویں شرط: عورت کا عدت میں نہ ہوناہے، یہ دو شرطیں صرف عورت کے لیے ہیں ۔
علما کا اختلا ف ہے کہ بدن کا تندرست ہونا؛ یہ نفس وجوب کی شرط ہے، یاوجوب ادا کی۔ بعضوں نے کہا کہ نفس وجوب کی شرط ہے۔ اسی طرح نہایہ میں اور بحر الرائق میں ہے کہ یہی صحیح ہے۔ ان لوگوں کے قول کی بنا پر مریض، اندھا ،دونوں پاؤں کٹے ہوئے اپاہج، سواری پر نہ ٹھہرنے و الے بڈھے اور لنگڑے پر حج فرض نہ ہوگا ۔نہ اس پر حج بدل کرانا اور نہ وصیت کرنا ضروری ہوگا ۔اور بعض علما نے کہا ہے کہ یہ وجوب ادا کی شرط ہے۔ جامع کی شرح میں قاضی خاں نے اسی کی تصحیح کی ہے اور بہت سے مشائخ نے اسی کو اختیارکیاہے ،انھیں میں سے ابن ہمام بھی ہیں۔ (شرح لباب)
ان علما کے قول کی بنا پر ایسے لوگوں پر حج بدل کرانا واجب ہوگا، یا مرتے دم وصیت کرنی حج بدل کی واجب ہوگی ۔ یہ اختلاف اس صورت میں ہے کہ معذوری کی حالت میں استطاعت حاصل ہوئی ہو۔ اگر صحت کی حالت میں اس پر حج فرض ہوچکا تھا اور حج ادا نہ کیا، پھر معذور ہوا تو اس پر بالاتفاق حج فرض ہے۔ اس کو حج بدل کرانا ضروری ہے یا مرتے دم وصیت ۔
مسئلہ: اگر کوئی شخص قید میں ہے، یا بادشاہ حج کے لیے نہیں جانے دیتاہے، تو اس پر خود حج کرناواجب نہیں، لیکن اگر حج کرنے کا موقع نہ ملا تو مرتے وقت حج بدل کی وصیت کرنا واجب ہوگا ۔
مسئلہ: کسی کی حق کی وجہ سے قید میں ہے اور اس کو حق ادا کرنے کی قدرت ہے اور اس کے اندر شرئط حج پائے جاتے ہیں،تو اس پر حج ادا کرنا فرض ہے، اس کے لیے قید عذر نہیں؛ اس لیے کہ حق ادا کر کے وہ قید سے نکل سکتا ہے ۔
مسئلہ: حج کے شرئط موجود ہیں؛ لیکن راستہ مامون نہیں ہے۔ کسی ظلم کا خوف ہے، یا کوئی درندہ ہے، یا سمندرمیں ڈوب جانے کاڈرہے، تو ایسی صورت میں حج ادا کر نا فرض نہیں؛ لیکن اگر راستہ مرتے وقت تک مامون نہ ہو، توحج بدل کی وصیت کرنا واجب ہوگی ۔
مسئلہ: راستہ کے پر امن ہونے میں غالب اور اکثر کااعتبار ہے۔ اگر اکثر قافلے صحیح سلامت پہنچ جاتے ہیں اور بعض اتفاقیہ لٹ جاتے ہیں ،تو راستہ مامون سمجھا جائے گا ۔
مسئلہ :اگر سمندر میں اکثر جہاز ڈوب جاتے ہیں، توراستہ مامون نہیں سمجھا جائے گا؛ لیکن اگر اکثر صحیح سلا مت پہنچ جاتے ہیں، تو راستہ مامون سمجھا جائے گا ۔
مسئلہ: اگر کچھ رشوت دے کر راستہ میں امن مل جاتا ہے، تو راستہ مامون سمجھا جائے گا۔ اور دفع ظلم کے لیے رشوت دینی جائز ہے۔ دینے والا گناہ گا ر نہ ہوگا، لینے والا گناہ گار ہے ۔
مسئلہ: کسی پر حج فرض ہے؛ لیکن اس کے ماں باپ بیمار ہیں اور ان کو بیٹے کی خدمت کی ضرورت ہے، تو بلا اجازت جانا مکروہ ہے۔ اور اگر اس کو اس کی خدمت کی ضرورت نہیں اور ان کی ہلاکت کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، تو بلا اجازت جانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ راستہ پر امن ہو۔ اور اگر راستہ پر امن نہیں ہے، تو بلااجازت جانا جائز نہیں۔
مسئلہ: دادادادی، نانا نانی ،ماں باپ کی عدم موجودگی میں مثل ماں باپ کے ہیں، ہاں ماں باپ کے ہوتے ہوئے ان کی اجازت کااعتبار نہیں ۔
مسئلہ : نفلی حج کے لیے والدین کی اجازت کے بغیر جانا مکروہ ہے، خواہ راستہ مامون ہی کیوں نہ ہو، خواہ خدمت کی حاجت ہو یا نہ ہو ۔
مسئلہ: جن لوگوں کا نان ونفقہ ان کے ذمہ ہے اور ان کے نان و نفقہ کا انتظام بھی نہیں کرکے جارہا ہے،تو ان کی اجازت کے بغیر جانا مکروہ ہے؛ البتہ اگر ان کی ہلاکت کاخوف نہیں ہے ،تو جانے میں کچھ مضائقہ نہیں ہے ۔
مسئلہ : جن کا نان و نفقہ واجب نہیں، ان کی اجازت کی حاجت نہیں، خواہ خوش ہوں، یا ہلاک ہوں ۔
مسئلہ : چھوٹا بچہ ہے او اس کو کوئی رکھنے والا دوسرانہیں ہے، تو تاخیر کے لیے عذر ہے، بچہ خواہ اچھا ہو، یا مریض ہو ۔
مسئلہ : حج فرض ہے، لیکن تھوڑ اسا چلنے کے بعد سانس چڑھ جاتی ہے اور آرام لینے کی حاجت ہوتی ہے، پھر تھوڑا سا چلنے کے بعد سانس چڑھ جاتی ہے اور یہی کیفیت راستہ بھر رہتی ہے، تو اس کے لیے حج کو مؤخر کرنا جائز نہیں؛ ہاں اگر سواری پر بھی سفر نہ کرسکے، تو یہ اس کے لیے عذر ہے ۔
مسئلہ :سفر میں ٹھنڈی ہوا نقصان دیتی ہے اوربلغم جم جاتا ہے اور ضیق النفس بھی ہوجاتا ہے، تو عذر نہیں ۔
مسئلہ: ایسا مرض عذر ہے جس سے سفر نہ ہوسکے، یا شدید تکلیف کا اندیشہ ہو ۔
مسئلہ: عورت پر حج فرض ہے لیکن نہ شوہر سفر میں ساتھ دیتا ہے اور نہ کوئی محرم، تو اس عورت پر حج ادا کرنا واجب نہیں ہے۔ اگر تا حیات ایسا موقع میسر نہ ہو،تو مرتے وقت حج بدل کی وصیت کرجائے۔
مسئلہ: محرم وہ ہے جس سے نکاح کرنا کبھی جائز نہ ہو، خواہ یہ حرمت رشتہ کی وجہ سے ہو، یا دودھ کی وجہ سے یا رشتہ دامادی کی وجہ سے ۔
مسئلہ: محرم کا عاقل با لغ اور دین دار ہونا شرط ہے۔ اگر محرم، یا شوہر فاسق ہو تو اس کے ساتھ جانا جائز نہیں۔ اسی طرح لاابالی اور بے پرواہ بھی نہ ہو ۔
مسئلہ: جو لڑکا ہوشیار اور قریب البلوغ ہے، وہ مثل بالغ کے ہے، اس کے ساتھ جانا جائز ہے ۔
مسئلہ: اگر عورت بیوہ ہے اور کوئی محرم موجو د نہیں ہے، تو حج کرنے کے لیے اس پر نکاح واجب نہیں ۔
مسئلہ: شوہر یا محرم کے بغیر عورت حج کرلے، تو حج ادا ہوجائے گا، لیکن گناہ گار ہوگی۔
مسئلہ: محرم کا مسلمان ہو نا، یا آزاد ہونا شرط نہیں ہے؛ بلکہ غلام اور کافر بھی محرم ہوسکتا ہے؛ لیکن اگرمجوسی ہو تو اس کا اعتبار نہیں؛کیوں کہ ان کے یہاں محرمات سے بھی نکاح جائز ہے۔ اس زمانہ میں کافر کا بھی اعتبار نہیں۔ ممکن ہے کہ اسلام سے برگشتہ کردے ۔
مسئلہ: اگر محرم یا شوہر اپنے خرچ سے جانے کے لیے تیار نہ ہو، تو اس کا خرچہ بھی عورت کے ذمہ ہوگا۔ ایسی صورت میں دوہرے خرچ پر قدرت وجوب حج کے لیے شرط ہوگی؛ ہاں اگر محرم یا شوہر اپنا خرچہ کر کے ساتھ دینے کے لیے تیار ہو تو پھر عورت پر دوہرا خرچ واجب نہ ہو گا۔
مسئلہ: حج کرنے کے لیے محر م یا شوہر کو ساتھ لے جانے پر عورت مجبور نہیں کرسکتی ہے ۔
مسئلہ: بوڑھی عورت اور قریب البلوغ لڑکی کے لیے بھی محرم کا ساتھ ہونا شرط ہے۔(ہدایہ)
مسئلہ: خنثیٰ مشکل کے لیے بھی محرم کا ساتھ ہونا شرط ہے ۔
مسئلہ: محرم کو بھی اسی وقت سفر میں ساتھ جانا جائز ہے جب کہ فتنہ اور شہوت کا اندیشہ نہ ہو۔ اور اگر غلبۂ گمان ہو کہ خلوت میں یا ضرورت کے وقت چھونے سے شہوت ہوجاے گی، تو اس کو ساتھ جانا جا ئز نہیں ۔
مسئلہ: اگر عور ت کو سوار کرنے یا اتار نے کی ضرورت ہے اور شوہر ساتھ نہیں اور شہوت کاخوف ہے خواہ اپنے نفس پر یا عورت پر، تو جہاں تک ممکن ہو، اس سے بچے۔ اور اگر کوئی اتارنے والا نہ ہو، تو پھر موٹا کپڑا ہاتھ اور بدن کے بیچ میں ہونا ضروری ہے ۔ کپڑا اتنا موٹا ہونا چاہیے کہ جس سے حرارت بدن کی ایک دوسرے کو نہ پہنچ سکے ۔
مسئلہ: عورت پر حج فرض ہوگیا اور محرم ساتھ جارہا ہے، تو شوہر فرض حج سے نہیں روک سکتا ہے؛ البتہ اگر محرم ساتھ نہ دے، یا نفلی حج ہو، تو شوہر کو روکنے کا حق ہے ۔
مسئلہ: اگرعورت نے حج کی نذر مانی، تو نذر صحیح ہوگی؛ لیکن شوہر کی اجازت کے بغیر حج کو نہیں جاسکتی ہے۔ اگر حج نہ کرسکی، تو حج بدل کی وصیت کرجائے ۔
مسئلہ: اگر عورت پیدل حج کو جانا چاہے، تو ولی اور شوہر کو روکنے کا حق ہے ۔
مسئلہ: عام طور سے جس موسم میں لوگ حج کے لیے وہاں سے جاتے ہیں، اگر عورت اس سے پہلے جانا چاہے ،تو شوہر کو روکنے کا حق ہے؛ لیکن اگردوایک روز اس سے قبل جانا چاہے تو نہیں روک سکتا ہے ۔ 
مسئلہ: عورت کو دوسری عورت کے ساتھ محر م یا شوہر کے بغیر جانا جائز نہیں ۔
مسئلہ: عدت کے اندر عورت کو حج کے لیے جانا واجب نہیں، خواہ وہ عدت موت کی ہو، یا فسخ نکاح کی، یا طلاق کی رجعی ہو، یا بائن ،یا مغلظہ؛ سب کا ایک حکم ہے ۔
مسئلہ: عدت کے اندر اگر عورت حج کو نکل جائے تو حج ہو جائے گا؛ لیکن گناہ گار ہوگی۔
مسئلہ: اگر راستہ میں شوہر طلاق رجعی دیدے، توعورت کو خاوند کے ساتھ رہنا چاہیے، چاہے آگے جائے یا پیچھے لوٹے۔اور شوہر کو بھی عورت سے علاحدہ نہیں ہونا چا ہیے۔ اور بہتر یہ ہے کہ رجعی میں طلاق سے رجوع کرلے ۔
مسئلہ: شوہر نے سفر میں طلاق بائن دی اور اس کے وطن اور مکہ کے درمیان تین روز کی مسافت سے کم فاصلہ ہے، تو عورت کو اختیار ہے ،خواہ وطن واپس ہوجائے، یا مکہ چلی جائے، چاہے محرم ساتھ ہو، یا نہ ہو۔ اور شہر میں ہو،یا جنگل میں ہو؛ مگر وطن کی طرف واپس ہونا افضل ہے۔ اور اگرایک طرف کی مسافت زیادہ ہے اور ایک طرف کی کم، تو جدھر کم ہو ،ادھر ہی کو جائے۔ اور اگر دونوں طرف مسافت مدت سفر کی ہے اور شہر میں ہے، تو اس کو اسی شہر میں عدت گزارنی چاہیے،اگرچہ محرم ساتھ ہو،یہ اما م ابو حنیفہؒ کا قول ہے۔ اور صاحبینؒ کاقول ہے کہ اگر محرم ساتھ ہے، توعدت گزارے بغیر اس شہر سے نکل سکتی ہے ۔
مسئلہ: اگرکسی گاؤں میں عدت لازم ہوئی، یا کسی جنگل میں ،اور وہاں جان ومال کاخطرہ ہے، تو وہاں سے امن کی جگہ میں جاناجائز ہے، خواہ گاؤں ہو، یا شہر؛ مگر وہاں سے بغیر عدت گزارے کہیں نہ نکلے اگر چہ محرم ہو، یہ امام صاحبؒ کے نزدیک ہے۔ اور صاحبینؒ کے نزدیک اگر محرم ہوتو نکلنا جائز ہے ۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here