قسط نمبر (۲)
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
اسلا م کی پانچ بنیادی باتوں میں سے ایک حج بھی ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بنی الاسلام علی خمس شہاد ۃ ان لا الہ الا اللہ وان محمد ا عبدہ و رسولہ و اقام الصلاۃ وایتاء الزکوٰۃ و الحج و صوم رمضان(متفق علیہ )
یعنی اسلا م کی بنیا د پانچ باتوں پر ہے
(۱) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں او رمحمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
(۲) نماز کو پابندی سے ادا کرنا۔
(۳) زکوٰۃ دینا ۔
(۴) حج کرنا ۔
(۵) رمضان کے روزے رکھنا ۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور ﷺ سے جب اسلام کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺنے فرمایا:
الاسلام ان تشہد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ و تقیم الصلاۃ و تؤتی الزکوٰۃ و تصوم رمضان و تحج البیت ان استطعت الیہ سبیل (راوہ مسلم)
یعنی اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گوہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور تو نماز پڑھے اور زکوۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور تو بیت اللہ کا حج کرے اگر تو وہاں تک جانے کے سفر خرچ کی طاقت رکھے ۔
ا س حدیث کے اندر حج کے فرض ہونے کی اہم شر ط کو بھی بیان فرمایا، یعنی سفر خرچ کی قدرت ۔ قرآن کے اندر بھی اللہ تعالی نے اس اہم شرط کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَلِلّٰہِ عَلَیٰ النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلَاً وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ الْلّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ۔ ( لن تنا لوا البر رکوع ۱)
اور اس کے واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا (فرض ) ہے، یعنی اس شخص کے ذمہ جو اس کی طاقت رکھے، وہاں تک سبیل کی اور جوشخص منکر ہو تو اللہ تعالی تمام جہان والوں سے غنی ہے۔ ( ترجمہ تھانوی )
سبیل سے مراد سفر خرچ ہے، چنانچہ دارے قطنی کی روایت ہے کہ کسی شخص نے رسو ل اللہ ﷺ سے پوچھاکہ ( من استطاع الیہ سبیلا میں) سبیل سے کیا مراد ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : الزاد والراحلۃ، یعنی سبیل سے مراد توشہ اور سواری ہے ۔
اس حدیث کو حاکم نے بخاری مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور بھی متعدد طریقوں سے یہ حدیث آئی ہے ایک روایت عبد اللہ ابن عمر کی ہے
قال جاء رجل الی النبی ﷺ فقال یا رسول اللہ ﷺ مایوجب الی الحج قال الزاد والراحلۃ (رواہ الترمذی وابن ماجہ )
فرمایا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اورعرض کیا: یا رسول اللہ! حج کیا چیز واجب کرتی ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: توشہ او رسواری یعنی جس کو سفر خرچ میسر ہو، اس پر حج کرنا فرض ہے۔
حج کے فرض ہو نے کے لیے یہی ایک امتیازی شرط ہے باقی اور شروط وہ دوسرے احکاموں کے اند رمشترک ہیں ،جیسے مسلم کا ہونا ،عاقل بالغ کا ہونا، حربی مسلمان کے لیے اس کی فرضیت کا علم ہونا۔ یہ ایسے شرائط ہیں، جو دوسرے احکام کے فرض ہونے کے لیے بھی ضروری ہیں۔ رہی ایک شرط آزادہونا، تو یہ پہلی شرط کے اندر داخل ہے، اس لیے کہ غلام تو اپنی ذات کا بھی مالک نہیں ہوتا ہے تو دوسری چیز کا کیامالک ہوگااور جب مالک ہی نہیں ہوگا تو قدرت سفر خرچ کی کیسے سمجھی جائے گی۔ بہر حال جب حج کے فرض ہونے کی تمام شرطیں پائی جائیں، تو اس کو جلد حج کرلینا چاہیے، کیوں کہ زندگی کا یہ ایک وظیفہ ہے اور ساری زندگی میں صرف ایک ہی دفعہ کر نا فرض ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
عن ابن عباس قال قال رسول اللہ ﷺ یا ایھا الناس ان اللہ کتب علیکم الحج فقام الاقرع ابن حابس فقال أفی کل عام یا رسول اللہ ﷺ قال لو قلتھا نعم لووجبت ولوجبت لم تعملوا بھا ولم تستطیعوا والحج مرۃ فمن زا د فتطوع ( رواہ احمد والنسائی ولادارمی ، قال ابن الھمام ورواہ الدار قطنیفی سننہ و الحاکم فی المستدرک وقال صحیح علی شرط الشیخین و قال الشمنی ورواہ ابوداؤد و ابن ماجہ)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو !بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے، تو اقرع ابن حابس کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ کیا ہر سال ؟ آ پﷺ نے فرمایا :اگر میں اس کے جواب میں کہتا: ہاں توہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا، تو تم اس پر عمل نہیں کرسکتے اور اس کی طاقت بھی نہیں رکھتے ہو۔ حج زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے، جو ا س سے زیادہ ہو وہ نفل ہے (مشکوۃ )اس لیے اس فرض کو ادا کر کے جلد سبکدوش ہوجانا چاہیے۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
من اراد الحج فلیعجل (رواہ ابوداؤد والدمی )
جس نے حج کا ارادہ کیا اس کو جلدی کرنا چاہیے۔
دوسری حدیث میں یہ ارشاد ہے کہ فرض حج میں جلدی کرو، نہ معلوم کیا بات پیش آجائے ۔(ترغیب )
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ حج میں جلدی کیا کرو، کسی کو بعد کی کیاخبر ہے کہ کوئی مرض پیش آجائے یا کوئی اور ضرورت درمیان میں لاحق ہوجائے ۔(کنز العمال)
ایک اور حدیث میں ہے کہ حج نکاح سے مقدم ہے۔ (کنز)
ایک حدیث میں ہے کہ جس کو حج کرنا ہے، اس کو جلدی کرنا چاہیے۔ کبھی آدمی بیمار ہوجاتاہے اور کبھی سواری کاانتظام نہیں رہتا ہے، کبھی اور ضرورت لاحق ہو جاتی ہے۔ (کنز )
ایک حدیث میں ہے: حج کرنے میں جلدی کرو،نہ معلوم کیا عذر پیش آجائے (کنز )۔
ان احادیث کی بنا پر ائمہ میں سے ایک بڑی جماعت کا مذہب یہ ہے کہ جس شخص پر حج فرض ہوجائے ، تو اس کو فور ا ادا کرناواجب ہے ،تاخیر کرنے سے گناہ گار ہوگا ۔
حنفیہ کا مفتیٰ بہ مسلک یہی ہے کہ جب حج فرض ہوگیا، تو اس کو جلد اداکرنا واجب ہے۔ یہی مسلک امام ابو یوسفؒ اور امام مالکؒ کا ہے اور امام ابو حنیفہؒ کی دو صحیح روایتوں میں سے زیادہ صحیح روایت یہی ہے کہ واجب علی الفور ہے۔( محیط)
ممکن ہے ،آگے زندگی یا مال وفا نہ کرے اور حج سے محروم دربارے خداندی میں حاضری دینی پڑے اور عتاب اور عذاب الیم میں مبتلا ہوناپڑے۔ جو قدرت رکھتے ہوئے حج نہ کرے، اس پر سخت وعید ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:
عن علی قال: قال رسول اللہ ﷺ: من ملک زادا وراحلۃ تبلغہ الی بیت اللّٰہ ولم یحج فلا علیہ ان یموت یھودیا أو نصرانیا، وذالک ان اللّٰہ تبارک وتعالی یقول: و للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا (رواہ الترمذی )
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص اپنے توشے اور سواری کامالک ہو، جو اس کو بیت اللہ تک پہنچا دے اور اس نے حج نہیں کیا تو اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے ،اوریہ ا س لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: وللّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔
علماء نے لکھاہے کہ حج کی فرضیت کی ابتدا، اسی آیت شریفہ کے نزول سے ہوئی ہے۔ (عینی ) اس آیت شریفہ میں بہت سی تاکیدیں جمع ہوگئیں ہیں: اول: للہ کا لام، ایجاب کے لیے ہے، جیسا کہ علامہ عینی نے لکھا ہے۔ دوسرے: علیٰ الناس کا لفظ، جو نہایت لزوم پر دلالت کرتاہے، یعنی لوگوں کی گردنوں پر یہ حق لازم ہے۔ تیسرے: علیٰ الناس کے بعد، من استطاع کا ذکر فرمایا، جس میں دو طرح کی تاکید ہے، ایک بدل کی، دوسرے اجمال کے بعد تفصیل کی۔ چوتھے: حج نہ کرنے والے کو من کفر سے تعبیر فرمایا۔ پانچویں اس پر اپنے استغناء اور بے پرواہی کا ذکرفرمایا، جو بڑے غصے کی علامت ہے اور اس کی رسوائی پر دلالت کرتاہے۔ چھٹے: اس کے ساتھ سارے جہان سے استغناء کا ذکر فرمایا، جس سے اور بھی زیاہ غصہ کا اظہار ہوتا ہے۔(اتحاف)
اس میں کئی نمبر ایسے ہیں، جو عربی سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرا مقصد ان کے ذکر کرنے سے یہ ہے کہ اسی ایک آیت میں کئی وجہ سے تاکید اور حج نہ کرنے والوں پر عتاب ہے۔ حضرت ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ جو شخص تندرست ہو اور اتنا پیسہ والا ہو کہ حج کوجاسکے اور پھر بغیر حج کے مرجائے، توقیامت میں اس کی پیشانی پر لفظ ’کافر‘ لکھا ہوگا۔ اس کے بعد انھوں نے یہ آیت شریف:
من کفر فان اللہ غنی عن العٰلمین
پڑھی(درمنثور)
عن ابی امامۃ قال: قال رسولُ اللّٰہ ﷺ من لم یمنعہ من الحج حاجۃ ظاھرۃ أو سلطان جابر أو مرض حابس فمات ولم یحج فلیمت ان شآء یھودیاأو نصرانیا ( رواہ درقطنی)
حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس شخص کو کسی ضروری حاجت یا ظالم بادشاہ، یا مرض شدید نے حج کرنے سے نہیں روکا اور (پھر بھی) اس نے حج نہیں کیا اور مرگیا، تو وہ چاہے یہودی ہو کر مرے یانصرانی ہوکر مرے۔ (مشکوٰۃ )
حضرت عمرؓ سے یہ منقول ہے کہ جو شخص حج کی طاقت رکھتا ہو اور حج نہ کرے، قسم کھاکر کہدو کہ نصرانی مرا ہے یا یہودی مرا ہے۔ ( کنز العمال )
علمائے کرام کے نزدیک حج نہ کرنے سے کافر تو نہیں ہوتا، لیکن قرآنی آیات اور ان احادیث سے سوئے خاتمہ کا ڈر ضرور ہے، اس لیے جہاں تک ممکن ہو حج جلد کرلینا چاہیے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں