میم ضاد فضلی
اللہ تعالیٰ ایک بار پھر اپنے فضل و کرم سے ہمیں رمضان المبارک کا برکتوں، سعادتوں اور بے پناہ رحمتوں والا مہینہ نصیب فرما رہے ہیں۔ ماہ رمضان المبارک میں جہاں اور بہت سی سعادتوں کا نزول ہوتا ہے ، وہیں پر اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی و محبت کا جذبہ بھی بڑھا دیتے ہیں۔ حدیث میں اسے سیدنا محمد رسول اللہﷺ نے ‘‘ شھرالمواساۃ’’ ہمدردی کا مہینہ کہا ہے۔ ہمدردی کا مطلب اپنے نفس کو مارنا اور غربا، فقراء اور نادار لوگوں کا خیال رکھنا ہے۔ تاکہ ان کی سحری و افطاری بھی قدرے اچھی ہو سکے اور وہ نعمتیں جو مالدار طبقہ کو قدرت نے نصیب فرمائیں ہیں ان سے غرباء کا دستر خوان بھی مزین ہو سکے۔ روح البیان میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا حضور نبی کریم ﷺ کے حوالے سے ارشاد ہے کہ میری امت میں ہر وقت پانچوں برگزیدہ اورچالیس ابدال رہتے ہیں ان میں سے اگر ایک کا انتقال ہو جاتا ہے تو فوراً اس کی جگہ دوسرا لے لیتا ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ان کے خصوصی اعمال کیا ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو ان کے ساتھ ظلم کرے اسے درگزر کرتے ہیں جو برائی سے پیش آئے اس سے اچھائی سے پیش آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے لوگوں کے ساتھ ہمدردی وغم خواری کا برتائو کرتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں محبط وحیﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے یا ننگے کو کپڑا پہنائے یا مسافر کو رات گزارنے کی جگہ دے تو اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ اس کو قیامت کی سختیوں سے محفوظ فرما دیں گے’ ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ رحمت عالمﷺکا ارشاد ہے کہ روز محشر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے آدم کے بیٹے میں بیمار تھا تو نے میری بیمار پرسی نہیں کی۔ کھانے کی ضرورت تھی تو نے کھانا نہیں کھلایا، مجھے پانی کی ضرورت تھی تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ بندہ عرض کرے گا یا اللہ آپ تو کھانے سے ‘ پینے سے ’ بیماری سے پاک ہیں پھر میں کیسے یہ کرتا تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میرے بندے اگر تو فلاں مریض کی بیمار پرستی کرتا تو گویا میری بیمار پرستی کرتا (کیونکہ مخلوق تو میری ہے) اگر فلاں بھوکے شخص کو کھانا کھلاتا تو گویا مجھے کھلاتا۔ اگر فلاں پیاسے شخص کو پانی پلاتا تو مجھے پانی پلاتا۔ معجم طبرانی میں ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا اور جس شخص نے کسی مومن کو کھانا کھلایا حتیٰ کہ اس کو بھوک میں سیر کرا دیا تو اللہ تعالیٰ اس کوجنت کے مخصوص دروازے سے داخل فرمائیں گے اور اس دروازے سے اس جیسا عمل کرنے والا شخص ہی داخل ہو سکتا ہے۔ صحیح ابن حبان میں آں حضرتؐ کا ارشاد ہے کہ جنت میں چند بالا خانے ایسے ہیں جن کا باہر کا حصہ اندر سے اور اندر کا حصہ باہر سے نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ ایسے لوگوں کو عطا فرمائے گا جومحتاجوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور لوگوں کو سلام کرتے ہیں۔
اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوتے ہیں تو وہ خدا کے حضور قیام کرتے ہیں (تہجد ادا کرتے ہیں )۔ ایک اور روایت میں حضورؐ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو سیر کرکے کھانا کھلایا اور خوب پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے سات خندقیں دور فرما دیں گے اور ان پر دو خندقوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہو گا۔ (طبرانی)
ترمذی میں ہے کہ محسن انسانیتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین عمل ایسے ہیں جس شخص میں پائے جائیں تو اللہ تعالیٰ اس پر خاص رحمت فرماتے ہیں اور اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ کمزور کے ساتھ نرمی کرنا ، والدین کا احترام ، غلام اور نوکر کے ساتھ احسان کرنا اور تین کام ایسے ہیں جس شخص میں پائے جائیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو عرش عظیم کا سایہ نصیب فرما دیں گے۔ جیسے تکلیف دہ حالات اور مقامات میں وضو کرنا، تاریک راتوں میں مسجد جانا، بھوکے کو کھانا کھلانا ان سے تراویح کے ثواب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حضرت ابوجہمؓ کہتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں میں اپنے چچا زاد بھائی کی تلاش میں نکلا کہ وہ لڑائی میں شریک تھے کہ میں ان کی حالت دیکھوں اور ایک مشکیزہ پانی کا میں نے اپنے ساتھ لے لیا کہ ممکن ہے کہ وہ پیاسے ہوں تو انہیں پانی پلائوں ۔اتفاق سے وہ مجھے ایک جگہ اس حال میں ملے کہ ان کا جسم زخموں سے چور تھا اور آخری سانسوں میں تھے ۔ چنانچہ میں نے انہیں کہا کہ پانی پیش کروں تو انہوں نے کہا کہ پلائو میں نے پانی پیش کیا۔ انہوں نے پیالہ ہونٹوں کے قریب ہی کیا تھا کہ اتنے میں قریب پڑے دوسرے زخمی مجاہد نے کہا کہ پانی ‘ مجھے میرے چچا زاد بھائی نے اشارے سے کہا کہ مجھے چھوڑومیرے پاس پڑے مجاہد صحابیؓ کوپانی دو’۔ حضرت ابوجہمؓ فرماتے ہیں میں اس صحابیؓ کے پاس پہنچا تو ان کے پاس پڑے ایک اور مجاہد صحابیؓ نے کہا کہ پانی۔ اس دوسرے صحابی نے مجھے اشارہ کیا مجھے چھوڑو میرے پاس پڑے اس مجاہد صحابیؓ کو پانی پلائو۔ ابو جہمؓ فرماتے کہ ہیں میں جب ان صاحب کے پاس پہنچا تو ان کی روح پرواز کر چکی تھی۔ واپس پلٹا تو دوسرے دونوں حضرات بھی آخری وقت میں ایثار کرتے ہوئے حوض کوثر پر پہنچ چکے تھے۔ اللہ اکبر ۔۔۔۔۔۔ کہنے کو تویہ ایک واقعہ ہے ،لیکن اگر اس واقعہ کی تہہ میں جایاجائے تو جہاں سیدنا محمدؐ کی تربیت کا اثر نظر آتا ہے ، وہیں پر صحابہ کرامؓ آخری وقت میں ایثار و ہمدردی کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ رمضان المبارک میں تو ایک نیکی کا اجر سات سو گنا تک ہے ۔ اگر ایک شخص اس مہینے میں ایک روپیہ خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سات سو روپیہ خرچ کرنے کا ثواب دیتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی ذات رحمت و کرم سے کیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بندے کی یہ ادا پسند آئے کہ افطارو سحر کے وقت غریب کے منہ میں لقمہ جائے یا شربت کا گھونٹ اترے تو اللہ تعالیٰ مغفرت کے فیصلے فرما دیں ۔ ہو سکے تو نقدی کی صورت میں بھی یہ مدد کی جا سکتی ہے ۔ ورنہ بہترین صورت ہے کہ حسب توفیق راشن دے دیا جائے اور زیادہ سے زیادہ غرباء اور فقراء اورمحتاجوں کا خیال رکھا جائے تو اللہ تعالیٰ جہاں آخرت میں اجر و ثواب نصیب فرمائیں گے۔ وہیں دنیا بھی رزق میں وسعت عطا فرمائیںگے پھر یہ اجر وثواب الگ ہے جو حضورؐ نے فرمایا کہ جو شخص روزے دار کو افطار کرائے خواہ کھجوریادودھ میں پانی ملا کر کچی لسی سے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو روزے دار کے برابر اجر نصیب فرماتے ہیں اور روزے دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ ایک حدیث میں سیدنا محمدؐ کا ارشاد ہے کہ ‘‘ روزانہ صبح کے وقت ایک فرشتہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ ! جو آج تیری راہ میں خرچ کرے تو اس کو اور زیادہ عطا فرما’’۔ غرباء میں بھی رشتہ دراوں اپنے ماتحتوں مزدوروں ، ملازمین اور پڑوسیوں کا حق مقدم رکھا گیا ہے۔ رشتہ داروں کو تو دینے پر دوہرے اجر کا وعدہ ہے اور پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں حضورؐ نے فرمایا جبرائیلؑ نے مجھے اتنی تاکید کی کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں وہ وراثت میں شامل نہ کر لیا جائے۔ ایک حدیث میں حضورؐ نے فرمایا وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا جس کا پڑوسی بھوکا سوئے مطلب یہ ہے کہ مومن پڑوسی کا خیال رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں غرباء کا خیال رکھنے کی توفیق عطاء فرماتے ہیں۔ آمین
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں