میم ضاد فضلی
ایک محاورہ ہے کہ’’ ست یگ ‘‘میں جھوٹ بولنے والے لوگ مرجایا کرتے تھے ،مگر یہ کل یگ ہے، یعنی مودی یگ ہے اور اس ’’یُگ‘‘ میں جھوٹ بولنے والے کو نزلہ بھی نہیں ہوتا۔غالباً آزاد ہندوستان کی تاریخ میں نریندر مودی پہلے وزیر اعظم ہیں جو جھوٹ بھی اتنی کلاکاری سے بولتے ہیں کہ سننے والوں یعنی مودی بھکتوں کو شرمندگی چھپانے کیلئے مجبوراً تالیاں پیٹنی پڑتی ہیں۔عین ممکن ہے کہ مودی جی کے بے بنیاد اور ملک کی تاریخ سے ان کی ناواقفیت کو سمجھنے والے دانشمند لوگ ان کی کھلی اڑانے کیلئے تالیاں پیٹتے ہوں اور سیٹیاں بجاتے ہوں ۔مگراس کا احساس اسی کو ہوسکتاہے جس کے اندر قوت حس موجود ہو۔المیہ یہ ہے کہ یہاں تو پوری بی جے پی میں ہی احساس ندامت اور حقیقت بیانی کا وجود نہیں ہے تو انہیں شرمندگی کا احساس کہاں سے ہوگا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس ملک کو دکھانے کیلئے ایسا کچھ ہے ہی نہیں جسے پیش کرکے ملک کاسر فخر سے اونچاکیا جاسکے۔دراصل سنگھ کی کوکھ سے نکلی ہوئی یہ پارٹی جن لوگوں کو اپناآئیڈیل یا آدرش مانتی ہے انہوں نے کبھی ملک سے وفاداری کی ہی نہیں تھی ،جب تک انگریز اس ملک میں راج کررہے تھے تب تک ان کے سبھی آئیڈیل ساور کر ،شیاما پرشاد مکھ
رجی اورگولوالکر جیسے لوگ گوروں کی مخبری کے فرائض انجام دیتے رہے اور جب ملک کے سچے وفادار سپوتوں کی قربانیوں اور جانفشانیوں کے نتیجے انگریز ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے تویہی مخبر لوگ ملک کے اندر انارکی پھیلانے اور ہندومسلم اتحاد کی بنیادوں کو کھوکھلی کرنے میں جٹ گئے ۔ بدقسمتی سے اس وقت ملک پر یہی فتنہ پرور طاقتیں حکومت کررہی ہیں جن کے پرکھوں کی تاریخ فتنہ انگیزی سے بھری پڑی ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ جب ان کے پاس ملک سے وفاداری کی کوئی تاریخ ہے ہی نہیں تو یہ لوگ ملک کے سچے سپاہیوں اور وفاداروں پر جھوٹے الزام لگانے سے زیادہ کربھی کیا سکتے ہیں۔لہذا ہمارے جملے باز’’پردھان سیوک ‘‘ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں جھوٹ کے سہارے ہی بھیڑ کو بے وقوف بنانے کا ہنر آزماتے ہیں۔
تازہ معاملہ کرناٹک کا ہے جہاں وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران خطاب کرتے ہوئے پھرایک تگڑا جھوٹ بولا ہے۔ پھر ایک غلط بیانی کی ہے جس سے ان کا’’ گیان‘‘ سوالوں کے گھیرے میں آ گیا ہے۔پتہ نہیں مودی جی کبھی اپنے دیش کی تاریخ کو سچائی سے پڑھتے بھی ہیں یا نہیں اور جو کچھ بولتے ہیں تو سوچ سمجھ کر بولتے ہیںیا باولے کی طرح جو بھی منہ میں آتا ہے جھونک دیتے ہیں۔حالاں کہ ملک کے ذمہ دار عہدہ پر فائض ’’پردھان سیوک‘‘ سے ایسی امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اسی طرح بے سوچے سمجھے اورتحقیق کئے بغیر تقریروں میں ملک کی تاریخ کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لیتے ہوں گے۔مگر سچائی یہ ہے کہ ان کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے اوردکھانے کیلئے کوئی ایسی قابل کشش چیز ہے ہی نہیں تو وہ جھوٹ کے علاوہ دے بھی کیا سکتے ہیں۔
تازہ ترین جھوٹ کا نیاریکارڈ قائم کرتے ہوئے انہوں نے ہندوستان کے اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو پرسنگین الزام لگایا ہے جس کی نہ کوئی دلیل ہے اوراس الزام کا سچائی سے دور دور تک کوئی واسطہ بھی نہیں ہے۔انہوں نے کرناٹک میں انتخابی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1948 کی جنگ جیتنے کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع کرشنا مینننے جنرل تھیمیا کی توہین کی تھی ،واہ واہ شاباشی دیجئے اپنے پردھان منتری جی کو جو سینہ ٹھوک کر جھوٹ بول رہے ہیں۔مودی جی کواس کا بھی احساس نہیں رہتا کہ ملک کی تاریخ کے کئی جانکارآج بھی موجود ہیں جنہوں نے اگر چہ 1948 کے حالات اپنی آ نکھوں سے نہ دیکھے ہوں پھربھی انہوں نے سابق وزیر دفاع کرشنا مینن اورآرمی جنرل تھیمیاکو اپنی آ نکھوں سے دیکھا ہے اور پنڈت جواہر لعل نہرو کے ذریعہ ان سپوتوں کود یے گئے اعزاز کے بھی عینی گواہ ہیں۔اگر یہ بے بنیادبات بولنے سے پہلے انہوں نے خود اپنی ہی پارٹی کے بزرگ رہنما لال کرشن اڈوانی سے اس بارے میں کلاس لے لیا ہوتا تو اڈواجی انہیں بتاسکتے تھے کہ 1948میںیہ دونوں ہی مذکورہ عہدوں پر تھے ہی نہیں۔جب یہ لوگ یعنی کرشنا مینن جی اور جنرل تھیمیاجی اس وقت وزیر دفاع اور جنرل تھے ہی نہیں تو کس طرح پنڈت جواہر لال نہرونے ان کی توہین کی ہوگی؟
نریندر مودی کے الزامات کو تاریخ نہاخانوں جاکر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جس طرح سنگھ کے بانی یعنی موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے آباء و اجداد نے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات گڑھ کر ملک کی پرامن فضا اوربقائے باہم کے خوش گوار ماحول کو بگاڑ کر نفرت پھیلانے کی مہم شروع کی تھی آج بھی آر ایس ایس اور بی جے پی اسی راستے پر گامزن ہے اور صرف جھوٹ اور بے بنیاد تہمتوں کے ذریعہ کرناٹک کے عوام کو گمراہ کرنے میں سرگرم ہیں۔مگر مودی اوران کی فریبی ٹیم یہ بات فراموش کررہی ہے کہ وہ ریاست کرناٹک ہے ،جہاں کے عوام ملک کی مشرقی ریاستوں کے عوام کی طرح ان پڑھ اورجاہل نہیں ہیں ،وہ لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اپنے ملک کی تاریخ کو بی جے پی سے زیادہ بہتر طریقے سے جانتے ہیں ۔ ایسے میں اس نوعیت کا سفید جھوٹ بول کر مودی اپنی جگ ہنسائی کرائیں گے یا کامیابی حاصل کرسکیں گے ، اس سوال پر آر ایس ایس والوں کو خودغور کر نا چاہئے۔سابق وزیر اعظم اور جنگ آزادی کے مسلمہ قائد جواہر لعل نہرو پر مودی کے ذریعہ لگائے گئے بے بنیاد الزام کی تاریخی سچائی اوپر درج کی جاچکی ہے۔ابھی بھی ملک کے اندر وہ باشعور لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنی آ نکھوں سے1957 میں جنرل تھیمیا کوآرمی کا سربراہ بنتے ہوئے اوراسی عہدہ پر اپنی خدمات پیش کرتے 1961 تک دیکھا تھا۔ویسے نریندرمودی کی جانکاری کیلئے عرض کردوں کہ 1948 میں کمانڈر ان چیف لیفٹنینٹ جنرل سر ارئے بوچر آرمی سربراہ تھے ، جو برطانوی فوج سے تھے۔جبکہ جنرل کریپاکو 15 جنوری 1949 کو آرمی سٹاف کا پہلا چیف مقرر کیا گیا تھا۔
جہاں تک کرشنا مینن کا سوال ہے تووہ 1948 کی پاک بھارت جنگ کے وقت کسی ایسی ذمہ داری کے عہدے پر تھے ہی نہیں۔ کرشنا مینن کو 1957 میں وزیردفاع بنایا گیا اور 1962 تک مسٹر مینن وزیردفاع رہے۔ سوال یہ ہیکہ پھر نہرو اورکرشنا مینن نے 1948 میں مسٹر تھیمیّاکو کس طرح رسوا اور ذلیلکیا ہوگا؟
ریٹائرڈ سینئر پولیس افسر وجے شنکر سنگھ اپنی فیس بک تختی پر لکھتے ہیں کہ پی ایم او میں جو سیل وزیر اعظم کے لیے تقریر لکھتا ہے یا تقاریر کے لیے مواد جمع کرتاہے وہ سیل یا تو اپنا کام ڈھنگ سے نہیں کر رہا ہے یا جاہلوں کی ٹیم کو اس اہم ڈیوٹی پر لگادیا گیا ہے،یہ بھی ممکن ہے کہ اقتدار کے غرور میں چوروزیر اعظم نریندر مودی سیل کے ذریعہ فراہم کردہ مواد پر توجہ نہیں دیتے ہوں ۔مودی جی کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ آج اطلاعات اور مواصلات کا نظام اس قدر تیز تر ہوگیا ہے کہ محض ایک کلک پر ساری سچائی سا منے آجاتی ہے۔ گوگل کی شکل میں تاریخ کی ساری اطلاعات ایک کلک پر دستیاب ہیں ،لہذا وزیر اعظم یا بی جے پی کی مغرور ٹیم کو کچھ بولنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچ لینا چاہئے تاکہ عوام کے سامنے انہیں رسو ا ئی اور شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
رائے سینا سیریز کے رائٹر رویندر پرتاپ سنگھ نے مودی کو آئینہ دکھاتے ہوئے لکھا ہے کہ جواہر لعل نہرو آکر تک مسٹر تھیمیّا کو اعزاز سے نواز تے رہے ۔ نہرو نے پہلے تو تھمیا کو کوریا میں اقوام متحدہ کی امن فوج کی قیادت کرنے کیلئے بھیجا، بعد میں آرمی چیف بنایا، ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں جواہر لعل نہرو نے ہائی کمشنر بنا دیا کیا اسی کو بی جے پی کی زبان میں توہین کہتے ہیں …؟ اس کا جواب عوام اقتدار کے نشہ میں چور فریبی وزیر اعظم سے ضرور مانگیں گے۔ویسے بھی پی ایم کے عہدہ پر رہتے ہوئے جھوٹ بولنے کا جو ریکارڈنریندر مودی نے قائم کیا ہے آنے والے وقت میں ملک کا کوئی بھی وزیراعظم شاید ہی جھوٹ بولنے کے اس ریکارڈ کو توڑپائے گا۔عالمی میڈیا کے مطابق 2014سے اب تک وزیر اعظم جیسے باوقار اور پُراعتماد عہدہ پر رہتے ہوئے نریندر مودی12مرتبہ صریح جھوٹ بول چکے ہیں جو ہمارے مہذب ملک کیلئے انتہائی شرمناک ہے۔
08076397613
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں