اور۔۔۔۔ قلندرروپڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

0
974

سمیع اللہ خان

 مجھے چاہیے کہ اب قلم توڑ دوں، روشنائی بکھیر دوں، گریباں چاک کر ان لوگوں سے دور ہوجاؤں جو مجھ سے صرف من کی بات چاہتےہیں ۔ میں نے بہت ہی صاف الفاظ میں، کئی بار مولانا سید سلمان صاحب سے اختلاف کیا ہے، قریب تین سال ہوئے ایک موضوع پر قسط وار ان کے موقف کے رد پر لکھ چکا ہوں، اور حالیہ مسئلے میں بھی، تمام تر عقیدتوں اور تعلقات کے باوجود میں نے واشگاف طور پر مولانا سلمان صاحب کے نیشنل میڈیا والے انٹرویو سے عدم اتفاق کا اظہار کیا، جائز نقد بھی کیے، لیکن، اس کے باوجود یہ جانے کیسے لوگ ہیں جو اہل علم کہلاتے ہیں خود کو، مسلسل ٹارگٹ کررہےہیں، بھکتی کے لیبل پھینک رہے ہیں، دراصل ایسے لوگ چاہتےہیں کہ میں اختلاف ان کے پھوہڑ اور گستاخانہ اسلوب کے ساتھ کروں، اپنی زبان اور قلم کو من و عن انہی کے مطالب کا ترجمان بناؤں، اور طوفان بدتمیزی برپا کروں، سنیں، جہاں مداہنت  میری سرشت میں نہیں، وہیں ذاتیات مجھے آتی ہی نہیں، خدا جانے  لوگوں کی کیسی وابستگی تھی حضرت مولانا سجاد نعمانی صاحب کے ساتھ کہ، مولانا سلمان صاحب کے ایک ہی انٹرویو سے یہ حضرات بہہ پڑے، ہمارا تو  ان سے ابھی بھی تعلق برقرار ہے،اور استفادہ بھی کرتے رہیں گے ۔

 ایک عالم دین جس کی للہیت، خشیت و خضوع،جرات و عزیمت اور علم و کمالات کا زمانہ معترف ہے، اس کی ایک رائے پر اسے ایجنٹ، منافق، شیطان لعین گردانہ جارہاہے، اور اب تو گھرانے تک پر زبان طعن دراز کی جارہی ہے، ہمارے لوگ مسلسل ایک فتنہ پرور ٹولے کا شکار ہورہےہیں جو ماضی میں اس بندۂ خدا کی حق گوئی پر چراغ پا رہا ہے اور اس میڈیائی یلغار کے شکار ہیں، جسے بارہا بے نقاب کیا گیا ہے، اسوقت آگ میں گھی ڈالنے کا، کام زوروں پر ہے، بورڈ کے قضیے کو لیکر ایک طوفان مچا ہوا ہے، ایکطرف اس عالم ربانی کے سوشل بائیکاٹ کی صدائیں ہیں تو دوسری طرف اس کے اپنے چمن سے بے دخل کرنے کی صدائیں ہیں، آج ایک سیاسی رہنما اس عالم دین کی عظمت پر بھاری پڑ گیا، اس کی تقریر درست ہوگئی کیونکہ سلمان حسینی اس قوم میں جیتے ہیں جہاں اختلاف رائے جرم ہوچکاہے، آپ کتنے ہی دلائل دیجیے، کتنے ہی نکات پیش کریں، لیکن آپ اس قوم میں مجرم ہی رہیں گے، کیونکہ یہاں اختلاف اور، رائے پیش کرنے کا حق آپ کو نہیں ہے، آپ کو بات کرنا ہے تو، شرعی نہیں قومی مزاج کی بات کیجیے، ایسی بات کیجیے جو ان کی برسوں سے قائم روایات کے عین مطابق ہو، تجدید کا کوئی حق کسی کو نہیں، کیا سلمان حسینی نے عنفوان شباب میں، ملت کے لیے کام نہیں کیا؟ بورڈ کے لیے سرگرم نہیں رہے؟ علی میاں ؒ اور قاضی مجاہد الاسلام ؒ کے ساتھ کام نہیں کیا؟ کیا تب ایسی صورتحال پیش نہیں آئی ہوگی؟ جب ان کے جوش و جنون کا ستارہ عروج پر تھا؟ تب جذبۂ باہمی استوار تھا اور اب معاصرین میں جذبۂ باہمی استوار نہیں ہے، میرے نزدیک بحران کی اصل وجہ یہی ہے، اس کے لیے ملک کی مقتدر شخصیات اور اکابر علما کو آگے آنا چاہیے، اور ملی سرمائے اور اس کے نگہبانوں کے لیے ضابطہٴ اخلاق وضع کرنا چاہیے، اس کا خاص خیال مولانا منت الله ؒ مولانا علی میاں ؒ اور قاضی مجاھد الاسلام ؒ صاحب نے رکھا تھا، اسلیے چاہیے کہ لڑائی، بھڑائی اور الزام تراشیوں سے اوپر اٹھ کر سوچا جائے، ورنہ ایسی صورتحال پیش آتی رہے گی۔ 

اس ویڈیو کو سنیں، مولانا نے اپنے موقف کو دلائل کی روشنی میں قائم کیا ہے، انہیں ان کی تحقیق میں آزادی ہونی چاہیے، قبول و رد کا پورا، اختیار ہے،ہمیں یقین تھا کہ اتمام حجت کے لیے مولانا یہ کوششیں کررہےہیں، اور اس کا انہوں نے اعلان بھی کیا تھا، ان کو اگر بات رکھنے کا موقع دیا جاتا اور اس کے بعد ان کی بات رد کی جاتی تو وہ ہمیشہ کی طرح اجتماعی موقف کا ساتھ دیتے، لیکن انہیں ظالموں نے بات تک کرنے نہیں دیا،  ایک سیاسی رہنما مولانا کی ذات کو مجروح کرے، لاکھ کے مجمع میں ان کا تمسخر کرے اور وہ بھی بورڈ کے پلیٹ فارم سے، پھر ملک بھر سے اس کی پارٹی کے کارکنان طوفان بدتمیزی مچائیں ایک عالم دین پر، یہ کسی صورت میں منظور نہیں، بدتمیز اور سازشی مجرموں کا انجام بد ہوگا، جنہوں نے منظم سازش کے تحت بورڈ میں مولانا کے ساتھ بدتمیزی کی، انہیں جان بوجھ کر طیش دلایا اور پھر وہ صورتحال پیش آئی جو یقینًا ناقابل قبول ہے، لیکن اس کے بعد بھی پیش آمدہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے جدوجہد ہونی چاہیے تھی، لیکن بورڈ سے نکالا دیا گیا، پورے ملک میں ہرزہ سرائیاں ہورہی ہیں، قائد محترم نے شیطان کا ایجنٹ قرار دیا ہے، اب کیوں یہ سلسلہ تھمے، ایک سادات النسب عالم دین کے لیے یہی سننا باقی رہ گیا تھا، مارو دھکے، نکالو باہر، بلکہ ملک سے ہی باہر نکال دو، بلکہ بعض عالم کہلانے والوں کے کمینٹس کے مطابق تو جوتے مارے جانے چاہییں، یہ کھیل کھیلتے رہو مسلمانوں اور خاص کر عالموں، زک پے زک پہنچاؤ، کھلیاں اڑاؤ، ایسی ٹھیس پہنچاؤ کے ایک محدث کو رونا پڑے، والله میں برسوں سے مولانا کو جانتاہوں، برے سے برے حالات آئے یہ قلندر کبھی ٹوٹا نہیں، آج سلمان حسینی کو روتا دیکھ، اور وہ بھی پھوٹ پھوٹ کر، الله کی قسم دل چھلنی ہے،یقینًا کسی نے بدترین چوٹ پہنچائی ہے، اللّٰہ تو دیکھ ہی رہاہے، انجام سامنے آئے گا، اللّٰہ اسی دنیا میں انجام ظاہر کرے گا ۔اللّٰہ کی قسم میرا اعتماد ہے سلمان حسینی لایخافون لومۃ لائم کی تصویر ہے، کائنات بکھر سکتی ہے لیکن ان کا اخلاص ان کی تڑپ واقعی ہے، وہ کبھی ایجنٹ اور منافق نہیں ہوسکتے، ایسے جبال علم و عزیمت اور نشان جراتمندی پر الزام تراشیاں کرنے والوں کو الله کبھی معاف نہیں کرے گا،ماضی میں ایسی ٹرولنگ اللّٰہ کے ولیوں کے ساتھ کی گئی ہے، قاری طیب صاحبؒ اور مولانا علی میاں کے درپے جو ہوئے ان کا انجام بھی سامنے ہے، ہم پھر سے وہ منظر دیکھیں گے، لازم ہیکہ دیکھیں گے،نہیں چاہیے مجھے ایسی سیکولرزم کا تمغہ اور نہیں چاہیے مجھے آپ سے کوئی سرٹیفکیٹ، آپ زور سے کہو کہ میں بھکت ہوں، لیکن دعا کرتاہوں ائے الله تیرا وعدہ سچا ہے، تو میری بھکتی کا بھی اور ایذا رسانیوں کا بھی اسی دنیا میں انجام ظاہر کرنا۔ 

*و افوّض امری الی الله*

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here