احتشام الحق قاسمی رامپوری
یوں تو کہنے کیلئے ہمارے ملک میں جمہوریت ہے اور جمہوریت کے چاروں ستون ’مقننه ، عدلیه ، انتظامیه اور میڈیا ‘اپنی جگه موجود ہیں، لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو مجموعی اعتبار سے موجوده وقت میں مقننه اور انتظامیه کی گاڑی ہندوتوا کے رتھ پر بھگوا جھنڈا گاڑتے ہوئے منواسمرتی کی طرف رواں دواں ہے۔ جہاں تک عدلیه کی بات ہے تو عدلیه میں کیا کچھ چل رہاہے؟ اور کس طرح سنگھی ٹوله عدلیه کی آزادی پر شبخون مار رہاہے ، پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے چار فاضل ججوں نے پریس کانفرنس کرکے عدلیه کی حقیقت حال بیان کردی اور من مانے فیصلے اور بینچ فکسنگ کا معامله اجاگر کرتے ہوئے جمہوریت پر خطره کا اندیشه ظاہر کیا۔ بیتے ہفتوں اس پر لگا تار بحثیں ہوئیں۔ ممکن ہے که ان چاروں ججوں کی کانفرنس عدلیه کی آزادی و خود مختاری کیلئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو۔لیکن جمہوریت کا چوتھا ستون میڈیا ہے خواه وه الکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا اس کی حقیقت ملاحظہ کریں۔
کسی بھی جمہوری ملک میں اگر میڈیا آزاد ہے تو ملک آزاد سمجھاجاتا ہے اور اگر میڈیا غلام ہے تو ملک بھی غلام شمار ہوتا ہے۔میڈیا ایک آئینہ ہے جو عوام کی پریشانیوں ، الجھنوں اور ان کی ضروریات کو اقتدار اعلیٰ تک پہنچانے اور اقتدار کی پالیسی اور اس کے کام کاج کو جاننے سجھنے اور پرکھنے کا بھی ذریعه ہے ۔ایک ممبر پارلیمنٹ اپنے حلقے کے عوام کا نمائنده ہوتا ہے لیکن ایک نیوز اینکر، ایک رائٹر اور ایک ایڈیٹر پورے ملک کا نمائنده ہوتا ہے۔وه حکومت و اقتدار کی آنکھ، کان اور زبان نہیں ہوتا بلکه وه اپنے ملک کے تمام عوام کی آنکھ، کان اور ان کی زبان ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب ملک کا میڈیا آزاد تھا۔ ریڈیو ، اخبارات ، اور ٹی وی میں کام کرنے والے ملک کی دھڑکن کو سنتے تھے، ان کی زبانیں کروڑوں عوام کی زبانیں ہوتی تھیں، ان کی تحریریں کڑوروں عوام کی امنگیں ہوتی تھیں۔ لیکن وقت گزررتے گزرتے سب کچھ بدل گیا۔ پچھلے چند سالوں میں تو نیشنل چینلوں اور کچھ اخبارات نے اقتدار کی چاپلوسی اور عوامی مسائل سے بے اعتنائی برتنے میں تمام حدیں پار کردیں ہیں۔ ایسا لگ رہاہے که بعض چینلوں نے حکومت کا گن گان کرنے، سنگھیوں کا ایجنڈا نافذ کرنے، بھگوائیوں کا بھجن گانے ، اور مودی بھگتی کرنے کی سپاری لے رکھیہے۔
اب میڈیا ہائوسیز بھجن سینٹر بن گئے، اسلامی فوبیا کا روگ انہیں بھی لگ گیا، زعفرانی پٹی انکی آنکھوں پر بندھ گئی ۔ اب ٹی وی کے اینکر اینکر نہیں رہے۔ بعض تو ایکٹر بن گئے اور بعض سنگھی ٹینکر بن گئے ہیں۔ ہاں البته کچھ باضمیر ، با اصول اینکر ایسے ہیں جو صحافت کی آبرو بچائے ہوئے ہیں ورنه تو صحافت پچھلے چند سالوں میں بیسوا بن گئی ہے۔
اب آئیے کچھ مشہور اینکروں اور چینلوں کو دیکھیں اور ان کے کارناموں کو جانیں۔
زی نیوز : جے ان یو جیسے اہم تعلیمی اداره کو بدنام کرنے کا تاریخی کارنامه ۔ طارق فتح ملعون کو بلاکر ایک مخصوص طبقے کو اس سے گالی سنوانا۔
ٹائمس نائو: لگاتار اسلامی فوبیا کا شکار ہوکر مسلم دشمنی میں حد سے آگے رہنا۔
ری پبلک ٹی وی : سنگھی ایجنڈے کو انگریزی زبان میں دھونس کے سہارے بڑھانا ۔
آج تک: جھوٹ کو بھگوا رنگ دیکر فرقه پرستی کا کھاد تیار کرنا اور آرایس ایس کیلئے بیج فراہم کرنا۔
تال ٹھوک کے ، ڈی این اے ، آرپار ، دنگل اور ان جیسے درجنوں پروگرامس ایسے ہیں جن کے ذریعے زعفرانی ٹینکر فرقه پرستی کی آگ ہردن پھیلاتے اوربھڑ کاتے ہیں۔
روہت سردهانا ۔ امیش دیوگن ۔ انجنا اوم کشپ ۔ روبینه لیاقت۔ سدهیر چودهری ۔ ارنپ گوسوامی ۔ یه وه بڑے نام ہیں جو جھوٹ پھیلاتے ہیں اور مودی بھگتی میں ہسٹریائی کیفیت اور جنون کے شکار ہیں۔اب آئیے ذرا روہت سردھانا کو دیکھیں۔ زی نیوز سے نکل کر آج تک میں آنے والا یه گستاخ اینکر توگڑیا اور بھاگوت سے زیاده سنگھی ہے۔ اپنے اندر فرقه پرستی کی جو سنک رکھتا ہے۔ اسکا کوئی جوڑا نہیں ۔ ملک میں کہیں بھی کوئی واقعه ہو اس کو ہندو بنام مسلم بنانا اسکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جے این یو کے کنہیا کمار کے پروگرام کو لیکر اسکو بدنام کرنا، فلمی ناموں کو لیکرگستاخی کرنا، کاس گنج فساد کے شعلے میں سنگھی گھی ڈالنا، مسلم محلوں کو پاکستان کہہ کر بدنام کرنا، مدارس اور علماء کو آتنک واد سے جوڑنا، بھگوا یاترا کو ترنگا یاترا قرار دینا، مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بنانا،ناکار بابائوںکو بھگوان کا وردان بتانا، محرم کے ہرے جھنڈے کو پاکستان کا جھنڈا قرار دینا۔ یه اسکے وه زعفرانی کارنامے ہیں جن کے ذریعے وه سنگھیوں کے ناک کا بال بنا رہتا ہے۔جب بابا رام رحیم نے ایک فلم msg میسج آف گاڈ بنایا تھا تو اس اینکر نے اس بابا کو اپنے پروگرام میں بلاکر زبردست طریقے سے اسکی پذیرائی کی تھی اور ایک خاص شو بابا کے ساتھ ٹی وی پر پیش کیا تھا۔ اس شو کو دیکھنے والا ہر عقلمند شخص سردھانا کو ایک اینکر نہیں بلکه ڈیرا سچا سوداکا ترجمان اور بابا کا چیلا سمجھ رہا تھا۔ وه بابا کے قدموں کا دھول بن کر بابا کو اپنی بات رکھنے کا موقع دے رہا تھا۔ لیکن جب اسی بابا کے کالے کرتوت سامنے آئے اور ان کی حیوانی بھوک کی بھوگ چڑھی ہوئی ایک خاتون آہن نے بابا کے شیش محل کو چکنا چوڑ کروا دیا تو اس وقت یه زعفرانی ٹینکر کہیں ٹائی کھول کر سوگیا۔ کاس گنج فساد کے دن اسکے ذریعے پیش کرده شو ’تال ٹھوک کے‘ میں اس نے بے شرمی، ضمیر فروشی ، دروغ گوئی، سنگھی بھگتی اور اپنے مزاج میں بھرے زعفرانی سنکی کو کھلے عام بیان کرتے ہوئے بزبان حال اس نے اعلان کردیا که
بڑے شوق سے مرا گھر جلا کوئی آنچ تجھ پہ نہ آئے گی
یہ زباں کسی نے خرید لی یہ قلم کسی کا غلام ہے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں