مسلمان اتنے جلسے جلوس کیوں کرتے ہیں؟

0
1140
All kind of website designing

مسلمان اتنے جلسے جلوس کیوں کرتے ہیں؟

محمد یاسین جہازی
رابطہ: 9871552408
دنیامیں جتنی بھی قومیں ہیں، انھیں عقیدے اور مذہب کی اساس کی بنیاد پر تحدیدکریں، تو مرکزی طو رپر چار مذاہب سامنے آتے ہیں: (۱) اسلام۔ (۲) یہودیت۔ (۳) نصرانیت۔ (۴) مشرکین۔
اسلام کی اساس توحید پر قائم ہے اور یہی چیز اسے تمام مذاہب سے امتیاز بخشتی ہے۔ اور اس اساس کا سلسلہ اتنا ہی قدیم ہے، جتنا کہ خود انسان۔ چنانچہ قرآن گواہ ہے کہ سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی محمد عربی ﷺ تک سب کی دعوت کا بنیادی مرکز اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار پر مبنی تھا ۔ اور آج بھی اس مذہب کے پیروکار کہے جانے والے مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ اسی پر قائم ہے۔ کیوں کہ وہ شخص تمام دیگر اسلامی خصوصیات کا حامل ہونے کے باوجود مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، جو اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہ کرے۔
یہودی اپنا سلسلہ آغاز ابراہیم علیہ السلام سے مانتے ہیں اور ملت ابراہیمی کے دعویدار ہیں۔سردست حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی جانے والی توریت کی پیروی کرتے ہیں۔لیکن یہودی اپنے بعض عقائد کے مطابق اسلام کے برعکس عقیدے کے ماننے والوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ المختصر عصر حاضر میں یہودیوں کی مذہبی کتاب تورات ہے اوراس مناسبت سے یہ حضرات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مخصوص قوم سمجھے جاتے ہیں۔
نصرانیت کی ابتدا و انتہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی قدر ہے۔لیکن اس کی مذہبی روایات میں حد سے زیادہ تحریفات ہونے کی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا تصور کرتے ہیں۔ تثلیث کا عقیدہ ان کے یہاں بہت مشہور عقیدہ ہے۔
یہ تینوں مذاہب ایسے ہیں، جن کے شارع اور بانیان کا تاریخی تسلسل موجود ہے ، لیکن ان کے علاوہ اکثر مذاہب ایسے ہیں، جن کے وجود کا کوئی علم نہیں ہے۔ اگر کچھ مذاہب کو اپنے بانیان کی سوانح و تاریخ معلوم بھی ہے ، تو وہ اپنے عقیدے اوررسوم کی وجہ سے مشرکین میں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر بودھ کی کچھ دھندھلکی تاریخ موجود ہے، لیکن خود بودھ کے مجسمے کی پوجا کرنے کی وجہ سے مشرکین کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں، اس لیے ایسے تمام چھوٹے مذاہب مشرک میں شمار کیے جائیں گے۔
مذاہب کے مطالعۂ فطرت سے اشارہ ملتا ہے کہ ہر قوم اپنے اپنے نبیوں کی خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں۔ اور یہ چیز کسب کی محتاج نہیں ہوتی، بلکہ فطرت الٰہی خود اس کے اندر ودیعت کردیتی ہے۔ ہندستان کے مشرکین (ہندووں) کی مذہبی روایات اور اس کے بانیان کی سوانح کا مطالعہ کیجیے، تویہ حقیقت آشکارا ہوگی کہ ان کے دیوی دیوتاجنسیات اور فحاشیات کے بڑے علم بردار رہے ہیں۔ ان کے پرانوں اور کتھاوں میں دیوتاوں کے عشق کی کہانیاں ثواب سمجھ کر سنی اور سنائی جاتی ہیں۔بڑے بڑے مندروں میں بھگوانوں کے حیاسوز مجسموں کے سامنے جبین نیاز کو جھکاکر اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ کرشن جی کی کرشن لیلا کی داستان سے سبھی واقف ہیں۔ اسی طرح بھگوانوں میں لڑائیاں بھی ان کے یہاں ایک تاریخی وراثت ہے۔ بھگوانوں اور بانیان مذاہب کی یہ خصوصیات کم و بیش تمام مشرکین میں پائی جاتی ہیں۔فیشن کے نام پر بے حیائی اور عریانیت کا جومظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے، اس میں یقیناًمذہب کی اجازت شامل ہے۔ اگر صاف لفظوں میں اجازت نہیں بھی ہے تو کم از کم یہ تو دعویٰ کیا ہی جاسکتا ہے کہ کوئی نکیر نہیں ہے۔ اور کہیں کہیں پر جو نکیر دیکھنے سننے کو ملتی ہے، وہ محض سماجی دباو اور دیگر مذاہب کی اچھائیوں کے اثرات ہیں۔ مہابھارت کی کتھا میں بھگوان رام کی لڑائی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اسی طرح راوڑ کے ماننے والے اس کہانی کے دوسرے پہلو کو اپنے لیے سرمایہ افتخار سمجھتے ہیں ۔ کہانی کے ان دو الگ الگ رخ سے اس فطرت کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ظلم و زیادتی کے لیے یا کبھی کبھار اس کے برخلاف آواز اٹھانا اور اس کے لیے کسی بھی حد کو پار کرجانا ایک مذہبی و فطری وراثت ہے۔ آج کل جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات اور ماب لنچنگ کے واقعات اس فطرت کے عملی مظاہر ہیں۔
نصرانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پانچ خصوصیات عطا فرمائی تھیں، جن کا ذکر خود قرآن پاک میں موجود ہے ۔
وَرَسُولًا اِلٰی بَنِی اِسْرآءِیلَ اَنِّی قَدْ جِءْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ اَنِّی اَخْلُقُ لَکُم مِّنَ الطِّینِ کَہَیءَۃِ الطَّیرِ فَاَنفُخُ فِیہِ فَیَکُونُ طَیرًا بِاِذْنِ اللہِ وَاُبْرِیُ الاَکْمَہَ وَالاَبْرَصَ وَاُحیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللہِ وَاُنَبِّءُکُم بِمَا تَاکُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیُوتِکُمْ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ۔
(پارہ 3، سورہ آل عمران، آیت 49)
ترجمہ:کنزُالعِرفان: اور (وہ عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا کہ میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں،وہ یہ کہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتا ہوں اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، بیشک ان باتوں میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔
اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پانچ معجزات کا تذکرہ کیا گیا ہے: (۱) مٹی کا پرندہ بناکر زندہ کردینا۔ (۲) پیدائشی اندھوں کی آنکھوں میں روشنی پیدا کرنا۔ (۳)کوڑھ کے مرض کو شفا دینا۔ (۴) مردوں کو زندہ کرنا۔ (۵)غیب کی خبریں بتانا۔ ان پانچوں معجزات پر غور کریں تو یہی حقیقت ابھرے گی کہ ان سب کا بالعموم تعلق علاج و معالجہ اور طب سے ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہ خصوصیت عیسائیت کی فطرت میں شامل نظر آتی ہے۔ چنانچہ یہ قوم جہاں بھی اپنا وجود قائم کرتی ہے، وہاں سب سے پہلا کام یہی کرتی ہے کہ اپنی مشنریوں کے ذریعے ڈسپنری اور علاج معالجہ کا سینٹر قائم کرتی ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک جلیل القدر جلالی پیغمبر تھے۔ انھیں تسخیر کی خصوصی قوت عطا کی گئی تھی، چنانچہ اپنی لاٹھی کے معجزے سے رات میں روشنی، دن میں رزق، سانپ بناکر جادوگروں کی تسخیر اور لوگوں کے دلوں پر فتح پالیتے تھے۔ان کی یہ خصوصیت یہودیوں میں آج بھی موجود ہے، چنانچہ عصر حاضر میں تسخیر کائنات کی عالمی سازش میں قوم یہود منظم طور پر مصروف کار ہے اور گلوبلائزیشن کا نعرہ دے کر پوری دنیا پر اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہے۔
امت مسلمہ کو امت دعوت قرار دیا گیا ہے ارشاد خداوندی ہے کہ
کنتُمْ خَیرَ أُمّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنھوْنَ عَنِ الْمُنکرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہ (آل عمران، آیۃ ۱۱۰)
یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ میں دعوت و تبلیغ فطرت کی ایک آواز بن کر جاری و ساری ہے۔جمعہ، عیدین اور حج کے خطبے اس کی واضح مثالیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ زمانے کے اعتبار سے اس کی شکلیں بدلتی رہی ہیں۔ ایک وقت تھا، جب اسلام کی ترویج و اشاعت کا سب سے بڑا ذریعہ خانقاہیں ہوا کرتی تھیں۔ پھر مدارس وجود میں آئے۔ بعد ازاں تبلیغی جماعت کی تشکیل ہوئی اور ان سب کے ساتھ ساتھ اس مقصد کی تکمیل کے لیے جلسے جلوس اور کانفرنسوں کا بھی اہتمام کیا جانے لگا۔ اور ان سب کا راز یہی ہے کہ یہ امت دعوت ہے اور دعوت امت مسلمہ کی فطرت میں شامل ہے۔
ہندستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ منظر نامہ سامنے آتا ہے کہ ہر روز کہی نہ کہی اور کسی نہ کسی ادارے کی طرف سے کوئی جلسہ یا کانفرنس ہورہی ہے ۔ ایک طرف جمعیۃ علماء ہند کے تحت حالات کے مطابق مختلف عناوین پر کانفرنسوں اور جلسہ ہائے عام کا تسلسل جاری ہے ، تووہی دوسری طرف مسلم پر سنل لاء بورڈ کے بینر تلے تین طلاق کے خلاف خواتین کا ہجوم سڑکوں پر آچکا ہے۔ اور شریعت میں مداخلت کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں۔ ایک طرف مدارس کے جلسوں کا سلسلہ ہے ، تو وہی دوسری طرف تبلیغی جماعت کے بڑے بڑے عالمی اور علاقائی اجتماعات ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں چھوٹی موٹی رفاہی و اصلاحی تنظیموں اور اداروں کے پروگرام بھی مسلسل ہورہے ہیں۔ اگر آپ سوشل میڈیا یوز کر رہے ہیں،تو ہر روز بڑی تعداد میں کہیں چلنے، احتجاج کرنے اور پروگرام ہونے کے پوسٹر اور پیغامات آتے رہتے ہیں۔ کثرت کا یہ عالم ہوچکا ہے کہ سبھی پوسٹر کو پڑھنے کے بعد اپنے پروگرام کی تاریخ اور اپنے پروگرام میں کہاں اور کب چلنا ہے ؛ تک بھول جاتے ہیں۔ ان واقعات کو دیکھتے ہوئییہ دعویٰ کرنا نہ خلاف واقعہ حکایت ہوگی اور نہ ہی مبالغہ آرائی کہ جب سے دنیا قائم ہے، اس وقت سے لے کر تا حال جتنے جلسے جلوس اور کانفرنسیں امت مسلمہ کرچکی ہیں ، پوری دنیا کی قوموں کے سبھی پروگراموں کو اگر شامل کردیا جائے، تو بھی صرف ایک قوم مسلم کے پروگراموں کی تعدادکا عشر عشیر بھی نہیں پہنچ سکتی۔ اور اس کی صرف ایک ہی تاویل ہوسکتی ہے کہ یہ قوم کی فطری خصلت کے مظاہر ہیں اور فطرت اپنے وجود سے کبھی جدا نہیں ہوسکتی، لہذا مسلمانوں نے دعوت و ارشاد کا جو یہ سلسلہ شروع کیا ہے ، ان شاء اللہ یہ جاری و ساری رہے گا۔
اس بات کا تذکرہ کیے بغیر تحریر میں تشنگی محسوس کی جائے گی کہ بالآخر ان اجتماعات اور کانفرنسوں کے نتائج کیا ہیں، تو میرے عندیے کے مطابق کچھ چیزیں قارئین کے لیے بھی چھوڑنا چاہیے تاکہ انھیں بھی اپنے ذہن و دماغ کو متحرک کرنے کا موقع مل سکے۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here