مسلمان حاشیہ پر ہیں یا انہیں ڈھکیل دیا گیا ہے؟

0
1242
All kind of website designing

رام چندر گوہا: ترجمہ ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین 

یقیناًمسلمانوں میں تمام برائیاں ہیں جو ہندوؤں کی ہیں۔ بلکہ اس سے کہیں زیادہ بھی ہیں۔ زیادہ کامطلب یہ ہے کہ لازمی طور پر ان کا عورتوں کے لئے پردہ کا رواج، برقعہ پہن کر جو گلیوں میں عورتیں گھومتی ہیں جو بہت ہی ناگوار منظر ہندوستان میں دیکھنے والوں کے لئے ہوتا ہے۔
بی آر امبیڈکر نے 1940ء میں اپنی تحریر کے ذریعہ کہا تھا کہ یہ پردہ کی برائی کے اثرات صرف مسلمانوں کی حد تک نہیں ہیں بلکہ اس کے ذمہ دار یہاں کے ہندوؤں کی مجتمع طاقتیں بھی ہیں جو یہاں کی عوامی زندگی میں نحوست سمجھی جاتی ہے۔ امبیڈکر نے مزید کہا۔ 
انڈین ایکسپریس میں 57 سال پہلے ہی یہ دستور کے ماہر اور سماجی مصلح نے کہا کہ مجھے اس بات کا کوئی اختیار نہیں ہے یا پھر میں کوئی روحانیت والا آدمی بھی نہیں ہوں کہ اس برقعہ کے تنازعہ کو رد عمل اور لاشعوری پر مشتمل کہوں۔ اور پھر ان دونوں کا اگر مقابلہ یا مساوات کیا جائے تو کیا یہتری شول

ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین

کے مماثل ہے۔ اس موضوع پر پچھلے دنوں 14 قلمکاروں نے اس اخبار میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جو سماجی میڈیا میں تنقیدی اور تائیدی تھے۔ اور اس طرح دوسرے نیوز پیپرس اور ویب سائٹ کے ذریعے بھی ا س موضوع پر گفتگو ہوئی۔ 
میرا جو برقعہ کے لئے مقابلہ ترشول سے تھا وہ اچھا انتخاب نہ تھا۔ اور اس طرح مجھے اس کے سلسلے میں لوگوں کی جانب سے میری تادیب بھی کی گئی۔ میں اس بات کے لئے بھی رضامند ہوں کہ سر پر بنا ہوا اسکارف اور ٹوپی جو کسی پیٹھے یا پگڑی سے مماثل ہے یا پھر پیشانی پر لگانے والی ویبھوتی کے مساوی ہے۔ مذہب بنانے والوں نے اپنے مذہب کی شناخت جو بنائی ہے اس کی وجہہ سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے۔ جب وہ اپنے شناخت کے ساتھ پبلک میں رہتا ہے۔ امبیڈکر نے جو کہا ہے اس سے میں پوری طور پر اتفاق رکھتا ہوں کہ برقعہ مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کو چھپانے و دباؤ میں رکھنے کی چیز ہے۔ اور اس طرح مسلمانوں کو غیر مسلموں سے علیحدہ کرنے والی ایک علامت بھی ہے۔ اگر آپ اپنا چہرہ مجھ سے چھپائیں گے ہم کس طرح سیاسی پروجیکٹ میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوسکیں گے؟ برقعہ دراصل بھائی چارگی اور یکسانیت کے خلاف پیدا کی جانے والی دراڑ و دشمنی ہے۔ جبکہ امبیڈکر کا یہ اصرار تھا کہ جمہوری سماج کے لئے حتمی طور پر تمام کے ذریعے سماج کی تشکیل ہوتی ہے۔ 
برقعہ کے علاوہ اور کونسے امور ہیں جس کی وجہ سے ہندوستانی مسلمان پوری طریقے سے اور مساویانہ طور پر ہندوستانی جمہوریت میں برابر کے شریک ہوں۔ یہاں میں اپنی مباحثہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بات کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ میرا یہاں جو تقابل کیا جارہا ہے وہ اس وقت جمہوریت سے جوڑنے والا تعلق ہے۔ جو یہاں کے مسلمان اور دلت کے درمیان مشترک ہے۔ سماجی نقطہ نظر سے بھی اگر دیکھا جائے تو ان دونوں ذاتوں میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں یعنی مسلم اور دلتوں میں اس بات کی مماثلت ہے کہ یہ سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دونوں ہی بہت زیادہ غریب اور دونوں ہی کے ساتھ سورن ہندوؤں کا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ بہت ساری علمی تحقیقات اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو بہتر تعلیم کی سہولتیں ، بہتر صحت کے انتظامات، نوکریاں اور فارما سیکٹرس میں ملازمتیں اور اس طرح دونوں یعنی مسلم، دلت کو بھی حاصل ہے۔ ( درحقیقت سماجی تحقیقات و مطالعہ نگار سونالڈے دیسائی کہتے ہیں کہ جب اسکول سے ڈراپ آؤٹ کا مسئلہ آتا ہے تو مسلمان کی حیثیت دلت اور آدی واسی سے بھی بہت خراب ہے) لیکن وہ اپنے روز مرہ کی مسابقتی کوششوں میں وہ یہاں کے برابر کے شہری ہیں لیکن دلتوں کا معاملہ ان سے کئی معاملات میں مختلف ہے۔ انہیں اس بات کا فائدہ ہے ان کے ساتھ مثبت رویہ رکھا جاتا ہے، جس کے ذریعے واضح و صاف طور پر سیاسی لحاظ سے وہ زیادہ متحرک اور درمیانی جماعت والے بن گئے ہیں۔ دوسرے جو ترقی یافتہ دلت ہیں یقیناًوہ ترقی یافتہ ہیں۔ جنہوں نے اپنے مستقبل کو سنوارا۔ جبکہ ماضی میں وہ صدیو ں سے پست تھے۔ مسلمان دوسری جانب جو کبھی بھی یہاں کے حکمراں تھے ۔ ایران، ایراق، انڈونیشیاء، ترکی سے آئے تھے اور ہندوستان میں یہاں کامیاب بھی رہے۔ سیاسی طور پر یہاں کی رنگا رنگی اب ختم ہوچکی ہے۔ او راس طرح یہاں پر پائی جانے والی میوزک، ادب، لٹریچر وغیرہ جو یہاں عمومی طور پر پائی جاتی ہے ان کے ساتھ بھی بھید بھاؤ کیا جاتا ہے۔ بہت سے مسلمانوں کو اس بات سے خوشی ہوتی ہے جب وہ اپنے ماضی کے بارے میں سوچتے ہیں کہ کس طرح ان کا زمانہ سنہری دور کہلایا کرتا تھا۔ اور کبھی ان کی قوم ان تمام سہولتوں سے مستفید بھی تھی۔ 
ذات پات کی تفریق سے دوری کے لئے دلتوں میں جو جوش و جذبہ پایا جاتا ہے ان کے عظیم لیڈر امبیڈکر کی وجہ سے۔ جس نے انہیں سیکھنے، متحد ہونے اور کوشش کرنے کا درس دیا تھا اور اس طرح وہ اپنے مدرسوں کے ذریعے کام کاج کی جگہوں پر اور نئے پروفیشن میں داخل ہوکر اپنا مقام بنایا ہے۔ اس طرح سے ان میں پائی جانے والی چھوت چھات اور بھید بھاؤ پر انہوں نے قابو پالیا اور اس طرح انہیں یہاں مکمل شہریت حاصل ہوچکی ہے۔ امبیڈکر بھی اس بات کے سختی سے حامی تھے کہ جنسی مساوات قائم ہوئے۔ ان کے مطابق نہ صرف جنسی مساوات میں مساوی حقوق بھی ہوں بلکہ انہیں مساوی مواقع بھی عوامی زندگی میں مہیا کئے جائیں۔ اس طرح یہاں کی سماجی اور سائنسی زندگی میں وہ مہم جو اور سائنٹسٹ اور وکلاء بھی ہیں۔ یقیناًیہ بات کوئی حادثاتی طور پر نہیں ہوئی ہے جو آج ہندوستان میں دلتوں کی سیاست عورتیں اور مردوں کے درمیان پائی جاتی ہے وہ ان تمام کوششوں کا نتیجہ ہے۔ 
اس مباحثہ کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے مورخ ہربنس مکھیا نے اس بات پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے کہ ذہنی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کو کس طریقے سے متاثر کیا گیا ہے۔ یقیناًاس کا بڑا حصہ یہاں ان کے ساتھ پائی جانے والی تفریق و امتیاز ہے جو ان کے ہی مادر ہند میں 1980ء کے بعد پائی جانے والی سیاسی آواز جسے ہندتوا کے ذریعے سے پھیل گئی ہے اور جس نے مسلمانوں کے خلاف حملے بھی کئے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک ایک الگ باب بھی ہے کہ بیرون ہند ان احساسات کو کس طرح دیکھا گیا ہے۔ 1979ء میں افغانستان پر سویت کا حملہ،عراق پر 2003ء میں امریکہ کا حملہ، کیا شہنشایت کا پھر سے جمہوریت کا خاتمہ کرنے والے معاملات نہیں ہیں؟ کیا وہ یہاں کے ممالک متاثر نہیں ہے۔ لیکن وہ لوگ پہلے سے ہی وہاں کے اتار چڑھاؤ سے ذمہ دار تھے۔ لیکن یہاں کا جو معاملہ ہندوستانی مسلمانوں سے ہے جو ان کے گھر میں ہورہا ہے وہ Isalmic Fundamentalistپاکستان، بنگلہ دیش سے متعلق ہے۔ اسی طرح ان کے ساتھ Hindu Fundamentalist بھی ان کے ساتھ ہے۔ اس طرح یہاں کے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا زیادہ احساس پایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ہندوتوا کا عمل میں آنا ایک رد عمل کا نتیجہ ہے۔ اس طرح عالمی طور پر سپرپاور کی جو سیاست ہے دو مرکزی وجوہات کی بناء پر یہاں کے مسلمانوں کے ذہن پر چھائی ہوئی ہے لیکن یقیناًہم تیسری وجہہ کو نظر اندا زنہیں کرسکتے وہ یہ کہ یہاں کے مسلمانوں میں کوئی موثر قیادت نہیں ہے۔ ہندو جن کی قیادت پنڈت نہرو، جواہر لال نہرو کرتے تھے اب ان کی نمائندگی نریندر مودی اور میت شا کررہے ہیں۔ میں اپنے متعدد مضامین میں اس بات کا اوپر بیان کی ہوئی جدید ترقیاتی امور کا اظہار کرچکا ہوں۔ اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں میں بھی ترقی یافتہ لیڈرشپ کی ضرورت تھی، جو انہیں اس طرح کے حالات سے دوچار نہ ہونے دیتے تھے جس طرح آر ایس ایس کے سامنے ان کی حالت بنی ہوئی ہے۔ ( یہ آر ایس ایس کے لئے ایک خبر ہوگی) 
میں نے اپنے پہلے کالم میں لکھا تھا کہ فنڈامینٹل ازم کے خلاف یہاں کی تمام قومیں مل کر اٹھ کھڑے ہونا چاہئے۔ مولانا آزاد ( ان دونوں یعنی سیدہ حمید اور شمش الرحمن فاروقی) جس طرح متوجہ ہوئے۔ مولانا آزاد جو ایک محبت وطن تھے جس طرح گاندھی اور نہرو۔ ایک عظیم اسکالر بھی تھے۔ لیکن اکیسویں صدی میں مسلمانوں کو جن امور کا مقابلہ کرنا چاہئے تھا جس کے لئے جس نے اپنے آپ کو شامل کیا میں اس کا نام بھول گیا یعنی حمید دلوائی۔ جو اس معاملہ میں زیادہ متعلق ہے جس طرح سے امبیڈکر کا تھا۔ وہ ایک متحرک جدید ذہن والا حرکیاتی شخص تھا جس نے عورتوں کے دستوری حقوق کے لئے جو انہیں مقابلۃً قرآن زیادہ تھے جس کے لئے وہ کوشش کررہا تھا۔ دلوائی کے مطابق اسلامی پرسنل لاء جدید ہندوستانی حقوق کے خلاف ہے۔ جس میں یہ کہنا ہے کہ مسلم مردوں کی ہی اس میں بالاتری ہے۔ 
اگر ہندو فرقہ پرست اس بات کے ذمہ دار ہے کہ وہ مسلم فرقہ پرستی ان کی وجہہ سے پیدا ہوئی ہے۔ اسی منطق کے مطابق مسلم فرقہ پرستی بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جو ہندو فرقہ پرستی۔ ’’میں عہد وسطیٰ کے تمام مذہبی جہالت کی مذمت کرتا ہوں۔ خواہ وہ مسلم ہو کہ ہندو۔ ‘‘ 
ہندوستان میں جدید ذہنیت رکھنے والے مسلم کا بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت مسلمان چند ہیں اور پریشان ہیں۔ اس لئے کہ ان میں دوہرے جذبات ، احساسات، عدم تحفظ کے ہیں اور یہاں پھیلی ہوئی ہندوستانی فرقہ پرستی کے مسائل بھی ہیں۔ 
تاریخ جس نے تحفظات، دشمنی، رکاوٹیں ہی ہم تمام اس نے ہی پیدا کی ہے۔ 
حمید دلوائی ایک ورکنگ کلاس کا آدمی مسلمانوں میں سے تھا جو مراٹھی بولتا اور کوکن سے تعلق رکھتا تھا ، اسی طرح اردو بولنے والے دانشور نے یہاں جو حالات پیدا کئے ہیں اس کے لئے وہ خود ذمہ دار ہیں۔ اس طرح سے اس فرقہ کا حال اس وقت آج کے حالات تک پہنچ چکا ہے۔ حمید دلوائی کا مشورہ تھا کہ مسلمانوں کا مسئلہ اسی طرح ہے جس طرح امبیڈکر نے دلتوں کے لئے کیا تھا۔ اور اس طرح اس کا کہنا تھا کہ تاریخ کو جو یہ برقعہ والا بوجھ ہے اسے ختم کیا جائے اور پُرعزم طور پر اپنے مستقبل کے لئے کھڑے ہوجائیں۔ اعلیٰ ذات کے ہندو خود بھی اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار تھے کہ کس طریقے سے ماضی کے شان و شوکت کا خاتمہ ہو۔ لیکن حمید دلوائی کا بھی فائدہ نہیں ہوا۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ کس طرح سوشلسٹوں اور کامریڈوں کی مدد جیسے مرنال گورے کی وجہہ سے دلوائی نے اپنی کوششوں کا آغاز طلاق ثلاثہ کے خلاف 1967 میں شروع کیا تھا لیکن اس کی جلد ہی موت واقع ہوگئی۔ لیکن اس کے سوشل ایجنڈے کے عمل آوری کے لئے اس کی بیوی مہرالنساء کی کوششیں بھی قابل قدر ہیں۔ دونوں حمید دلوائی اور مہرالنساء نے مراٹھی میں لکھائی کی۔ جس کا یہ مختصر سا کام انگلش اورہندی میں بھی کیا گیا۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ ان کی تحریروں کو ہندوستان کی مختلف زبانوں میں کیا گیا ہے۔ شائد اس مباحثہ کو انڈین ایکسپریس اپنی ہمت افزائی کے ذریعے مختلف پبلشوں کے ذریعے آگے بڑھائے گا۔ 
(مضمون نگار بنگلور کے مورخ ہیں)

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here