روی شنکر پرشاد نے ڈرافٹ کی تو ضیح کے دوران دعویٰ کیا ہے کہ طلا ق کیخلاف آئین سازی کیلئے
خود مسلم پرسنل لاء بورڈ نے عدالت سے کی تھی اپیل
مسلم خواتین ( تحفظِ حقوق نکاح) ڈرافٹ بل۔۲۰۱۷ء
(۱) بل کا مقصد
شادی شدہ مسلم خواتین کے حقوق کا تحفظ اور ان کے شوہر کے ذریعہ دی جانے والی طلاق کی روک تھام اورمطلقہ خواتین کو ان کے حقوق فراہمی جو ری پبلک آف انڈیا کی 68 سالہ مدت میں پارلیامنٹ کے ذریعہ طے کیے گئے ہیں۔
باب (۱)
پارلیامنٹری
۱۔اس قانون کو ’’ مسلم خواتین (تحفظِ حقوق نکاح ) ایکٹ 2017 ء کہا جائے گا ۔
۲۔ یہ جمو ں وکشمیر کے علاوہ تمام ریاستوں میں نافذ ہو گا ۔
۳۔یہ مرکزی حکومت کے ذریعہ سرکاری گزٹ میں جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے تحت طے کردہ تاریخ سے نافذ ہو گا ۔
توضیح:
۲۔اس قانون میں ذکرکردہ الفاظ کے درج ذیل معنی ہوں گے چاہے دوسری جگہ جو بھی معنی
ہو ۔
(الف) ’’الیکٹرانک فارم ‘‘Electronic formکا معنی یہاں بھی وہی ہے جو آئی ٹی ایکٹ 2002 کے سیکشن (۱) اور سیکشن (۲) میں موجود ہے ۔
(الف ) طلاق Talaqکامطلب ’’طلاق بدعت ’’ ہے یا اس جیسی طلاق جوفوری طور سے اثر انداز ہوتی ہے اور ایسی ناقابل ترمیم طلاق جو کسی مسلم شوہر نے دی ہو ۔
(ج ) ’’ مجسٹریٹ‘‘ Magistrate کا مطلب فرسٹ کلاس کا مجسٹریٹ جو کہ کریمنل پروسیزر۱۹۷۳ء کے تحت اس علاقہ میں مقرر ہو جہاں متعلقہ شادی شدہ خاتو ن رہتی ہے۔
باب (۲)
طلاق کا اعلان غیر قانونی اور غیر موثر ہو گا
سیکشن ۳۔کسی بھی شخص کے ذریعہ اپنی بیوی کو دی گئی کوئی بھی طلاق ، چاہے وہ لفظ کے ذریعہ ہو ، یا بولی گئی ہو یا لکھی گئی ہو یا الیکٹرونک شکل Electronic form میں ہو یا کسی اور شکل میں ہو ، غیر موثر اور غیر قانونی ہو گی –
۴۔ سیکشن ۔۳ کی تشریح کے مطابق ’’طلاق‘‘ جو شخص بھی اپنی بیوی کو دے گا ، اسے تین سال کی قیداور جرمانہ کی سزا دی جائے گی ۔
باب (۳)
شادی شدہ مسلم خواتین کے حق کا تحفظ
سیکشن ۵:کسی بھی نافذ العمل قانون میں شامل ہدایات کی عمومیت کو نظر انداز کیے بغیر،ایسی مسلم شادی شدہ خاتون جسے طلاق دی گئی ہے ، وہ اپنے اور اپنے زیر کفالت بچے کے لیے گزارہ خرچ لینے کی حق دار ہو گی جس کی مقدار مجسٹریٹ کے ذریعہ طے کی جائے گی ۔
سیکشن۶:نافذ العمل کسی بھی قانون میں شامل کسی امر کے باوجود ،طلاق دیے جانے کی صورت میں، عورت اپنی نابالغ اولاد کی کسٹڈی کی حق دار ہو گی ،اسی طرح سے جیسا کہ مجسٹریٹ طے کردے۔
سیکشن ۷۔ کریمنل پروسیز ر ایکٹ 1973ء میں شامل کسی بھی بات کے باوجوداس ایکٹ کے تحت کیا گیا کوئی بھی جرم مذکورہ کوڈ کے مفہوم کے مطابق قابل گرفت ( یعنی بغیر پروانہ یعنی وارنٹ کی گرفتاری ) اور ناقابل ضمانت ہو گا ۔
درج ذیل سطور میں وزیر قانون روی شنکر پرشاد کی باتوں سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ طلاق کیخلاف قانون سازی کیلئے انہیں خود مخالف فریق یعنی بورڈ نے ہی تحریک دلائی تھی
قانون سازی کے اسباب و عوامل
سائرہ بنام حکومت ہند اور دیگر کے مسئلے میں 22؍اگست 2017ء کو 3-2کے اپنے اکثریتی فیصلہ میں طلاق بدعت ( تین طلاق جو ایک بار میں اور ایک وقت میں دی جائے ) کو سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا تھا ۔اس فیصلے نے مسلم خواتین کو طلاق کے اس وحشیانہ طریقہ عمل سے نجات دلایاجس میں مصالحت کی کوئی راہ نہیں بچتی تھی ۔
۲۔ مذکورہ عرضی گزار( خاتون) نے چیلنج کیا تھا کہ بہت ساری دشواریو ں کے علاوہ’ طلاق بدعت‘ کا عمل عورت کی عزت کے خلاف اور تفریق پر مبنی ہے ۔اس فیصلے نے حکومت کے اس موقف کو بھی ثابت کردیا کہ ’طلاق بدعت‘ ’جنسی مساوات کے اصول،عورت کی عزت اور دستوری اخلاقیات کے خلاف ہے ۔اس کے علاوہ دستور کے تحت دیے گئے جنسی مساوات سے متعلق حقوق کے بھی خلاف ہے ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جو کہ مذکورہ مقدمہ میں فریق نمبرسات تھا ،اپنے حلفیہ بیان میں دیگر باتوں کے علاوہ،اس نے اس بات کو پیش کی تھی کہ طلاق بدعت جیسے مذہبی مسائل میں عدالت کو فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے لیکن یہ کام مقننہ کا ہے کہ وہ اس مسئلہ پر قانو ن بنائے ۔اس نے سپریم کورٹ میں یہ عرضی بھی داخل کی تھی کہ وہ اس عمل کے خلاف مسلم طبقہ کے ممبران کو ایڈوائزری جاری کرے گا ۔
۳۔سپریم کورٹ کے ذریعہ طلاق بدعت کو منسوخ کیے جانے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے یقین دلانے کے باوجود، طلاق بدعت دیے جانے سے متعلق ملک کے مختلف حصوں سے شکایتیں مل رہی ہیں۔ یہ دیکھا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کا طلاق بدعت سے متعلق کیا گیا فیصلہ بعض مسلمانوں کے درمیا ن طلاق دہی کے اعداد و شمار کو روکنے میں کارگر ثابت نہیں ہو رہا ہے۔اسی وجہ سے یہ محسوس کیا گیا کہ سرکار ، سپریم کورٹ کے فیصلہ کو موثر بنانے کے لیے اقدام کرے تاکہ غیر قانونی طلاق کے ذریعہ متاثرہ خواتین کو درپیش مشکلات کا حل نکلے ۔
۴۔ بے یارو مددگار شادی شدہ خواتین کے ساتھ مسلسل ہورہی اذیتوں کو روکنے اور انھیں راحت دینے کے لیے فوری طور سے قانون سازی کی ضرور ت ہے ۔ یہ بل سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق طلاق بدعت کو غیر قانونی و غیر موثر قرار دینے کی تجویز پیش کرتا ہے ۔مزید تین طلاق دینا ایک قابل سزا جرم ہو ۔ یہ ایسی طلاق کے عمل کو روکنے میں معاون ہو گا جس میں علیحدگی کے دوران عورت کچھ نہیں کہہ سکتی ۔اس بات کی بھی تجویز پیش کی جاتی ہے کہ تین طلاق دیے جانے کی صورت میں ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے عورت کو شوہر سے گزارہ بھتہ مہیا کرایا جائے ، خود اس کے لیے اور اس کے زیر کفالت بچوں کے لیے اور بیوی کو نابالغ اولا د کی کسٹڈی کا بھی حق ہو ۔
۵۔ یہ قانون ، شادی شدہ خواتین کے جنسی مساوات او رجنسی انصا ف کے دستوری حق کو وسیع حد تک یقینی بنانے میں معاون ہو گا ۔ یہ قانون ناانصافی کے خاتمہ اور عورت کو مضبوط کرنے کے بنیادی حق میں بھی کچھ تک معاو ن ہو گا ۔
روی شنکر پرشاد
نئی دہلی ۱۵؍دسمبر ۲۰۱۷ء
(انگریزی سے ترجمانی :ایڈوکیٹ نیاز )
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں