عبدالعزیز
ان دنوں ریاست مہاراشٹرا اور ہریانہ میں انتخابی مہم زوروں پر ہے ،کانگریس سمیت تمام علاقائی اور قومی جماعتیں اور ان کے لیڈران ریاست کے مسائل دور کرنے مقامی نوجوانوں میں مودی کے کارپوریٹ نواز پالیسیوں کی وجہ سے بڑھ چکی بے روزگاری ، کسانوں کے مسائل ،روز بروز بڑھ رہے ان کی خود کشی کے واقعات پر مایوسی اور المیہ ظاہر کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے دکھ دور کرنے کے ہر ممکن وعدے اور عہد بھی تمام جماعتیں کررہی ہیں۔ مگر ریاست میں اگر کوئی جماعت اور اس کے لیڈران کی زبان پر مقامی لوگوں اور رائے دہندگان کے دکھ درد کا کوئی ذکر تک نہیں ہے۔
بی جے پی یا آر ایس ایس کے پاس راشٹرواد کے نعرے کے سوا کوئی اور ایشو یا نعرہ نہیں ہے۔ اسی کے بل بوتے پر پہلے سے انتخاب میں کامیاب ہوتے رہے اور اب بھی ان کو امید ہے کہ اسی کے سہارے ان کی نیّا پار لگے گی۔ مہاراشٹر میں انتخابی جلسے کو خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپوزیشن کو چیلنج کیا کہ دفعہ 370 اور 35A کو اپوزیشن بدل کر دکھائے۔ تین طلاق کے قانون کے بارے میں بھی چیلنج کرتے ہوئے کہاکہ اگر اپوزیشن میں دم ہے تو اسے بھی بدل کر دکھائے۔
دفعہ 370 اور 35 A : کشمیر کے اور ہندستان کے درمیان دفعہ 370 اور 35 A الحاق کے لئے ایک معاہدہ کے طور پر تھا اور دونوں کے درمیان ایک پل تھا ، جسے بغیر سوچے سمجھے توڑ دیا گیا اور آج 9 لاکھ فوج کے بل بوتے پر پورے کشمیر کو قید خانے میں بدل دیا گیا گیاہے۔ جس طرح بدلاگیا قانون اور دستور کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا۔ آناً فاناً بدل دیا گیا۔ جبکہ دستور کے مطابق اسے بدلنے کا حق کشمیر کی دستور ساز کمیٹی یا اسمبلی کو حق حاصل تھا۔ اس کا کوئی خیال نہیں کیا گیا۔ قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر ہے۔ اب سپریم کورٹ ہی کو یہ حق ہے کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو جو بدلا گیا ہے اس کی تعبیرو تشریح کرے اور فیصلہ کرے کہ کیا کشمیر کی خصوصی حیثیت کو جس طرح بدلا گیا حکومت کو بدلنے کا حق تھا یا نہیں؟ مودی جی کو کم سے کم اتنا تو معلوم ہونا چاہئے کہ جو مقدمہ کی شنوائی سپریم کورٹ میں ہونے والی ہے اس کے پیش نظر کیا وہ اپوزیشن پارٹیوں یا کسی اور کو چیلنج کرسکتے ہیں یا نہیں؟ جس کے اندر تھوڑی سی سوجھ بوجھ ہندستان کے دستور اور آئین کے بارے میں ہوگی وہ اس طرح کا چیلنج نہیں کرسکتا، چہ جائیکہ ملک کا ایک وزیر اعظم جو دستور کی حلف وفاداری لے کر ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے وہی دستور کی اَن دیکھی کررہا ہے اور پامال کر رہا ہے۔ خصوصی حیثیت بدلنے سے ابھی یہ نتیجہ آنا باقی ہے کہ آگے کشمیر کی کیا حالت ہوگی، لیکن آثار و قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ کشمیر جسے ہمارا ملک ہندستان کا اندرونی مسئلہ کہتا تھا اور یہ بھی تسلیم کرتا تھا کہ ہندستان و پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر باہمی گفتگو ہوسکتی ہے۔ اب حال یہ ہے کہ کشمیر کی صورت حال اور کشمیر کا مسئلہ پوری دنیا میں موضوع بحث بن گیا ہے۔ ایک طرح سے جو قومی مسئلہ تھا وہ بین الاقوامی مسئلہ بن گیا ہے۔
مودی جی کو سوچنا چاہئے کہ اور ان کی پارٹی کو بھی غور کرنا چاہئے کہ خصوصی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے کس کا بھلا ہوا؟ آج کشمیریوں کو قید و بند کی سزا دے کر یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ سب ان کی ترقی اور بھلائی کیلئے ہوا ہے۔ اگر یہ ترقی اور بھلائی کیلئے ہوا ہے تو پوری آبادی کو خوش ہونا چاہئے، لیکن حکومت خود جانتی ہے کہ وہ خوش نہیں ہے بلکہ سخت ناراض اور غم و غصے سے بھری ہوئی ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ جو کشمیری بھی دفعہ 370 اور 35A کے خلاف بولتا ہے اسے پس دیوارِ زنداں کردیا جاتا ہے۔ مودی جی اپوزیشن کو چیلنج کر رہے ہیں یا کشمیریوں کو چیلنج کر رہے ہیں، یہ شاید ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے، کیونکہ مسئلہ ہندستان یا کشمیر کی زمین کا نہیں ہے کشمیریوں کا ہے۔ کیا کشمیریوں کو گلے لگائے بغیر اور ان کی مرضی اور خواہش کے بغیر کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟ اور صرف کشمیر ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے کا مسئلہ اسی وقت حل ہوسکتا ہے کہ جب کوئی کام کیا جائے تو اس حصے کی آبادی کی رائے اور مشورے سے کیا جائے۔
تین طلاق: تین طلاق (طلاقِ ثلاثہ) مسلمانوں کے نزدیک اور قرآن و شریعت کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ تین طلاق تو دور کی بات ہے، ایک طلاق دینا بھی بغیر کسی وجہ اور سبب کے غیر شرعی اور غیر انسانی عمل ہے۔ ہندستان کے مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ علماءکے تدبر کی کمی کی وجہ سے تین طلاق کے سلسلے میں جو اصلاح کرنے کی ضرورت تھی وہ نہیں ہوسکی۔ حالانکہ ہر کتاب میں خواہ کسی بھی مسلک کی طرف سے لکھی گئی ہو تین طلاق کو غیر شرعی، غیر اخلاقی عمل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ بعض علماءنے اس کی اصلاح کی طرف توجہ ایک صدی پہلے دلائی تھی لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ مقدمہ جب زیر سماعت تھا تو یہ اصلاح کرنے کی کوشش کی گئی کہ جو بھی ایک نشست میں تین طلاق دے گا اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔ یہ کام پہلے ہونا چاہئے تھا اور جو ایسا کرے اس کی سزا بھی اگر مقرر ہوتی تو آج فرقہ پرستوں کو شادیانے بجانے کا موقع نہیں ملتا۔
بی جے پی یا مودی جو تین طلاق پر اپنی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ تین طلاق کو غیر قانونی قرار دینے یا ختم کرنے کا فیصلہ بی جے پی یا مودی جی نے نہیں کیا بلکہ سپریم کورٹ نے کیا۔ جہاں تک فیصلے کے بعد قانون بنانے کا معاملہ ہے تو وہ انتہائی غلط قانون بنا ہے، کیونکہ جب تین طلاق غیر قانونی ہے تو پھر اس پر قانون بنانے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اور اگر قانون بھی بنتا ہے تو تین طلاق ہوئی نہیں یا ایک طلاق ہوئی تو اس میں سزا دینے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے؟ لیکن جو قانون بنا ہے سیول میٹر ہونے کے باوجود اسے فوجداری قانون بنا دیا گیا ہے اور تین طلاق دینے والے کو تین سال کی سزا اور جرمانہ بھی مقرر کردیا گیا ہے۔ یہ قانون ، قانون اور انصاف کے خلاف ہے؛ کیونکہ ایسا قانون کسی اور فرقے کیلئے نہیں بنا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس قانون سے رشتہ باقی نہیں رہ سکتا ہے بلکہ منقطع ہوجائے گا۔ کیونکہ جو بیوی اپنے شوہر کو سزا دلائے گی اور قید خانے میں بھیجے گی کیا اس کا شوہر اس سے اپنا ناطہ اور رشتہ باقی رکھے گا؟ دوسری بات یہ ہے کہ تین سال تک بیوی اور بچوں کے نان و نفقہ کا بندوبست کون کرے گا۔ قانون میں اس طرح کی کوئی بات نہیں ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اتنا بھونڈا قانون بناکر مودی جی فخر کر رہے ہیں اور اپوزیشن پارٹیوں کو چیلنج کر رہے ہیں۔ جبکہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں اس قانون سے ناراضگی ہے، غم اور غصہ ہے۔ مرد اور عورت دونوں کے اندر پایا جاتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ مودی جی کی سربراہی میں 2002ءمیں گجرات کے فسادات میں مسلم عورتوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ اور جابرانہ سلوک کیا گیا۔ انھیں جلایا گیا، ان کی عصمتیں لوٹی گئیں اور ان کے بچوں تک کو نہیں چھوڑا گیا۔ آج جو کچھ کشمیر میں ہورہا ہے کیا وہاں لاکھوں عورتیں اور ان کے بچے پریشان حال نہیں ہیں اور ان کے اندر غم و غصے کی لہر نہیں ہے؟ یہ کہنا کہ بی جے پی یا مودی کے اندر مسلم خواتین کیلئے ہمدردی ہے انتہائی غلط ہے۔ جو لوگ عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں کیا وہ رحم کرسکتے ہیں؟ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کا بیان ہے کہ مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر ان کی عصمت دری ہونی چاہئے۔ کیا ایسی پارٹی یا اس کا سربراہ مسلم عورتوں کے ساتھ انصاف کرسکتا ہے؟ ہمدردی کا مظاہرہ کرسکتا ہے؟
حرف آخر: کسی انتخاب میں ایشو یہ ہونا چاہئے کہ حکومت نے کیا کیا ہے، کیا کرنا چاہئے تھا ، بجائے یہ کرنے کے پلوامہ، بالاکوٹ، 370، تین طلاق جو غیر ایشو ہے اسی کو ایشو بناکر انتخاب میں فتحیابی کی کوشش کی جارہی ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ کسان خودکشی کر رہے ہیں سب سے زیادہ مہاراشٹر میں۔ 45 سال میں اس وقت جو بے روزگاری ہے اس سے زیادہ کبھی نہیں تھی۔ ہندستان کی معاشی حالت نیپال اور بنگلہ دیش سے بھی بدتر ہے۔ یہ سلگتا ہوا موضوع ہے جس کے دفاع یا مخالفت میں بولا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے بی جے پی کی مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومت ہو معیشت کے میدان میں ناکام ہے۔ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے گی۔ ضرورت ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اس کو زبردست ایشو بناکر پیش کریں تو حکومت کی پالکی رکھا سکتی ہے۔ مگر اس طرح پیش کریں کہ ووٹروں کی سمجھ میں آسکے۔ اور جو لوگ ووٹروں کو گمراہ کر رہے ہیں ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔
E-mail: [email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں