عمر فراہی ۔۔۔
آپ ڈاکٹر، انجینیئر، عالم، فاضل، مفتی یا سائنسداں اور ریسرچ اسکالر ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ اگر آپ میں قومی بیداری نہیں ہے یا بحیثیت قوم اپنے دشمنوں کے پھیلاۓ ہوۓ جال اور فتنوں سے بے خبر ہیں تو آپ کیلئے ہلاکت لازم ہے۔ ممکن ہے باطل کی جو منصوبہ بندی آج آپ کی نظروں سے مخفی ہے اور جو آپ کو آگاہ کر رہے ہیں آپ اپنی لاعلمی کی وجہ سے ان کا مذاق اڑانے کیلئے بھی حق بجانب ہیں، لیکن کل اگر باطل کی یہ منصوبہ بندی طوفان کی شکل میں موت بن کر مسلط ہوئی تو اس وقت فرار کی تدبیر اختیار کرنے کا بھی وقت نہیں ہوگا !
باطل کے فتنوں کی ہر دور میں الگ شکل و صورت رہی ہے ۔ مسلمانوں کے آج کے حالات سے ماضی کے حالات کا موازنہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کسی زمانے میں مسلمانوں کو جو نام نہاد ریاست اور قیادت میسر تھی ابلیسی نظام نے مسلمانوں کو آزادی کے نام پر تفرقوں میں بانٹ کر اس قیادت سے بھی محروم کر دیا ہے ۔۔بے حسی کا عالم یہ ہے کہ آئے دن ہجومی تشدد سے گزرنے کے باوجود بھی مسلمانوں کو اس کا احساس نہیں ہے ۔آج ممبئی جوگیشوری سے ایک سنی رشتہ دار کا فون آیا کہ عمر بھائی وہ جو میں نے فلیٹ بک کیا تھا اس کی کنجی مل گئی ہے اور بلڈر نے اسی کمپاؤنڈ میں ایک مسجد بھی بنا کر دے دی ہے لیکن ایک مسئلہ ہو گیا ۔میں نے کہا کیا ہوا ۔انہوں نے کہا وہی سنی اور دیوبندی کا ۔میں نے کہا پھر ۔انہوں نے کہا پھر کیا بلڈر نے دونوں کی دو نماز کا وقت مقرر کر دیا ۔ہمارے یہ سنی رشتہ دار ہمارے بارے میں بھی جانتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ میں نے تو اپنی اور آپ کی نماز اور سوچ میں بہت بڑا فرق نہیں پایا پھر آخر جھگڑا کس بات کا ؟ آخر بھارت میں ہمارے جو حالات ہیں اسے دیکھتے ہوۓ دونوں مسلک کے علماء بیٹھ کر کچھ فیصلہ کیوں نہیں کر سکتے ۔آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا ؟میں نے کہا بھائی سنیوں اور دیوبندیوں میں تو پھر بھی عقیدے کا ایک فرق ہے چاہے وہ غلط فہمی کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو کہ دیوبندی اور وہابی گستاخ رسول ہیں لیکن دیو بندیوں اور اہل حدیثوں میں تو ایسا کوئی بہت بڑا عقیدے کا فرق بھی نہیں ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک کسی کی امامت کردے تو نماز فاسد ہو جانے کا اندیشہ ہو پھر بھی دونوں مسلک کے علماء نے کبھی اس بات کی پہل نہیں کی کہ کیوں نہ ہماری مسجدیں ایک مشترکہ کمیٹی کےحوالے ہو جو صرف اسلام کی بات کرے ۔کم سے کم ممبئی جیسے شہر میں بلڈنگوں میں جہاں جگہ کی تنگی ہوتی ہے اہل حدیث اور دیوبندی ایک چھت کے نیچے تو نماز پڑھ ہی سکتے ہیں اور ایک زمانے میں جب اہل حدیث حضرات کی اپنی مسجدیں نہیں تھیں وہ دیوبندیوں کی مسجدوں میں تو نماز پڑھتے ہی تھے اور آج بھی اہل حدیث جن کی عصر کی نماز اہل حدیث مسجد میں چھوٹ جاتی ہے وہ دیوبندیوں کی مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتے ہی ہیں ۔مجھے تعجب ہوا جب میں ساکی ناکہ ڈیسوزا کمپلیکس میں کسی کے جنازے میں شرکت کیلئے پہچا تو عشاء کی اذان ہو رہی تھی ۔میں نماز کیلئے پہنچا اور نماز بعد سنتوں سے فارغ ہی ہورہا تھا کہ بازو سے قرآن کی تلاوت کی آواز شروع ہو گئی ۔میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ یہ آواز کیسی ہے ۔انہون نے کہا اب اہل حدیث حضرات کی نماز شروع ہونے جارہی ہے ۔میں نے کہا پھر سنی حضرات کہاں پڑھتے ہیں ۔انہوں نے کہا وہ جو گارڈن ہے اس کے اس پار انہوں نے بھی اپنا انتظام کر رکھا ہے ۔میں نے دل میں کہا کہ سنی حضرات کا تفرقہ تو جائز ہے کیوں کہ سنی علماء اپنے لوگوں کو دیوبندیوں اور اہل حدیثوں کا ذبیحہ بھی کھانے سے منع کرتے ہیں اور نکاح تو خیر حرام ہے لیکن دوچار بلڈنگوں میں رہ رہے اہل حدیث حضرات اور دیوبندیوں کا تفرقہ سرا سر ظلم ہے ۔جب آپ ایک دسترخوان پر ایک دوسرے کے ذبیحے کا گوشت کھا سکتے ہیں اور آپس میں نکاح بھی ہو سکتا ہے تو ایک ساتھ اللہ کے سامنے کھڑے ہونے میں کراہیت کیوں ؟ کیوں ہر جگہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لیتے ہیں یہ لوگ ۔افسوس دونوں ہی مسلکوں کے علماء کو متاع کارواں کے لٹ جانے کا احساس نہیں ہے ۔اقبال نے اسی لئے انہیں دو رکعت کا امام کہتے ہوۓ کہا کہ۔۔۔
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الااللہ
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں