از: حکیم فخر عالم ،ریجنل انسٹی ٹیوٹ، علیگڑھ
جمعرات14اکتوبر2021کاش کلینڈر میں یہ تاریخ نہ ہوتی۔یہ دن ایسی خلش دے گیاجو شاید مشکلوں سے بھولے۔قطرکے وقت کے مطابق تین ساڑھے تین بجے کے درمیان چچا محترم ہزاروں کو رنجور کر ابدی نیند سوگیے،انا للہ واناالیہ راجعون۔تیسرے روز سنیچر 16اکتوبرکوجسدِ خاکی قطر سے علی گڑھ لایا گیا ،ایک آخری دیدار کے بعدسرسیدنگر کی بڑی مسجد میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی ،پھر مسجد سے ملحق شوکت منزل کی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔یہ رسمِ دنیا بھی کتنی عجیب ہے کہ اپنے ہاتھوں ہی عزیزوں کو سپردِ خاک کرنا پڑتا ہے۔ابّا محترم نے نماز جنازہ پڑھائی، جنہوں نے اپنے گود میں چچا کو کھِلایا تھااوردادا مرحوم کی ناگہانی وفات کے بعد بیٹے کی طرح پرورش کی تھی۔جس کے کندھوں پر خود جانے کو سوچا ہو،اسی کو کندھا دینا پڑجائے،یہ لمحہ کتنا جانگسل ہوتا ہے،ابّا کے بلکتے چہرے کو دیکھ کر ندازہ ہورہاتھا۔
قیام الدین چچاکی شخصیت میرے لیے ایک مربی اور محسن کی تھی ،میں جو کچھ بھی ہوں ،یہ انہیں کا فیضان ہے۔الاصلاح سے لے کر علی گڑھ تک کے میرے تعلیمی سفر کے ہرموڑ پر اُن کی شخصیت معاون رہی ہے اورمیری تعلیم و تربیت میں اُن کا پدرانہ کردار رہاہے۔ ایسے تو بہت ہیں جن کے تعلیمی اخراجات کے چچا کفیل رہے ہیں ،مگرمجھ سے وہ خاص تعلق رکھتے تھے،جس میں بزرگانہ شفقت،برادرانہ اُنسیت اور دوستانہ مودّت اِن سارے جذبوں کی کیفیت شامل رہتی تھی۔
سارے جہاں کی دھوپ میرے گھر میں آگئی
سایہ تھا جس درخت کا مجھ پر وہ کٹ گیا
اب قیام الدین چچا کے سانحۂ ارتحال سے کچھ ایسا ہی محسوس ہورہا ہے،اس کیفیت کا احساس مجھ جیسے بہتوں کو ہے،جن کے لیے اُن کا وجود شجرِسایہ دار جیسا تھا۔مجھے زندگی میں جب بھی تندیٔ حالات کاسامناہوا،اس کے مقابل ہمیشہ وہ محافظ دیوار بن کر کھڑے نظر آئے،مگر اُن کی رحلت نے بے سہارا بنا دیا ہے،اب جب ایسے موقعوں پر نگاہیں انہیں ڈھونڈیں گی تو بڑی مایوسی ہوگی۔اللہ چچا محترم کو غریقِ رحمت فرمائے اور اُن کے حسنِ سلوک کا نیک بدلہ دے،اب اُن کے حق میں صرف یہ دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
چچا کی شخصیت حسنِ ظاہر کے ساتھ حسنِ باطن کا پیکر بھی تھی،اُن کے مزاج کی تشکیل میں حسنِ اخلاق،مروت،سخاوت ،وضع داری اور اعزہ پروری جیسے مکارم بڑی فراوانی سے شامل تھے۔اسلامی اخلاقیات کا وہ بہترین نمونہ تھے،اسلام میں اخلاقی تعلیمات پربہت زور دیاگیا ہے، ارشاد نبوی ہے کہ’اِنّ خِیارکم أحسنکم أخلاقاً‘یعنی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو زیادہ محاسنِ اخلاق رکھتا ہو،اسلام کے اس اخلاقی میزان پرانہیں اعلیٰ کردار کا حامل کہا جاسکتا ہے۔
چچا نے شکل و صورت کی خوب صورتی اور چہرہ بشرہ دادی صاحبہ یعنی اپنی والدہ محترمہ خطیب النساء سے پایا تھا،جو الحمدللہ ابھی حیات ہیںاور مزاجی خوبیاںدادامرحوم جناب محمدیونس صاحب (وفات:1974)سے کسب کی تھیں ۔چچاؒ کے اندر ذہانت و فطانت کے اوصاف کمال درجہ کے تھے،انہوں حافظہ بھی بڑا عمدہ پایا تھا،استحضار کاعالم یہ تھاکہ برسوں پرانی باتیں بھی جزئیات کے ساتھ یاد رہتیں،طبیعت میں ظرافت اور مزاج میں شگفتگی تھی،اُن کی باتیں بڑی پُر لطف ہوتی تھیں،گفتگو میں اشعار اور ادبی مزاحیہ فقروں کابڑا برمحل استعمال کرتے تھے،اس سے باتوں کا لطف دوبالا ہوجاتا تھا،اکبرالہٰ آبادی اور اردو کے مشہور قدیم شعراء کے سیکڑوں اشعار انہیں زبان زد تھے ،وہ مشتاق یوسفی جیسے مزاح نگاروں کے جملوں سے باتوں میں ادب کی چاشنی گھول دیتے تھے۔
قیام الدین چچا کی زندگی کا بیشتر عرصہ جو تقریباً 34 برسوں پر محیط ہے، قطرمیں گزرا، سال میں ایک دو بار گھر آناہوتا، عموماً ڈیڑھ سے دو مہینے قیام رہتا ،گویا پچھلے 34 برس سے ہندوستان میں اُن کی آمد بس مہمانوں کی طرح ہوتی تھی، ظاہر ہے اُن سے معاملات کے اصل مشاہدین وہی لوگ ہوں گے جن کے ساتھ اُن کا زیادہ وقت گزرا ہے۔قطر میں اُن کے سانحۂ ارتحال پر منعقد تعزیتی جلسہ میں اُن کے دوست احباب اور اُن کی معیت میں رہنے والے لوگوں نے جن احساسات و جذبات اور اُن سے معاملات کے اپنے تجربات شیئر کیے ہیں،اس کے آئینے میں چچا کی شخصیت کی صحیح تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔اُن کے ایک شناسا ابو معاذفلاحی صاحب بلریاگنج اعظم گڑھ کے رہنے والے ہیں،انہوں نے قطر میں منعقد تعزیتی اجلاس کی روداد اور اپنے تأثرات کو قلم بند کرتے ہوئے کئی ایسے واقعے لکھے ہیںجن سے قیام الدین چچا کے اخلاقی رویوں پرروشنی پڑتی ہے،معاذ صاحب کی تحریر کا ایک اقتباس نذرِ قارئین ہے،وہ لکھتے ہیں’’دوحہ کے ریستوران میں چند دوستوں کے ساتھ ناشتہ کر رہے تھے،ایک بہت سینئر کُلیگ ریستوران میں داخل ہوئے،علیک سلیک ہوا،جس ٹیبل پر ہم لوگ ناشتہ کررہے تھے وہ فُل تھا،رسماً سب نے ان سے کہا آئیے! ساتھ میں ناشتہ کرتے ہیں،بڑی خوب صورتی سے معذرت کرتے ہوئے وہ دوسرے ٹیبل پر بیٹھ گیے۔ناشتہ کرتے ہم لوگ گپ شپ میں مشغول تھے،وہ ناشتہ کرکے کب چلے گیے ہم لوگوں کو احساس نہیں ہوا۔ناشتہ کے بعد کاؤنٹر پر بِل ادا کرنے گیے تو کیشیئر نے بتایا کہ فلاں صاحب جو وہاں بیٹھ کر ناشتہ کررہے تھے،انہوں نے آپ لوگوں کا بل ادا کردیا ہے۔قیام الدین صاحب مرحوم کی سخاوت کی یہ بہت چھوٹی سی مثال ہے کہ چند سال پہلے کمپنی سے اُن کو کار ملی،جس روز وہ کمپنی کی کار گھر لے کر پہنچے ،اسی روز اپنی ذاتی کار چھوٹے منصب پر کام کرنے والے اپنے ایک فلیٹ میٹ کو ہدیہ کردیا۔جس صبح اچانک اُن کا انتقال ہوا،آفس میں پہنچا تو اُن کے ایک کُلیگ زار و قطار روتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے،کچھ دیر بعد سنبھلے تو اُن کی خوبیاں بیان کرنے لگے،اُن کی سخاوت کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم لوگ سیکڑوں مرتبہ اُن کے ساتھ کھائے پیے ہوں گے ،کبھی کسی کو بِل ادا کرنے نہیں دیتے،یہاں تک کہ اُن کے ساتھ بارہا شاپنگ کے لیے گیا،چیزیں پسند آئیں اُٹھا لیا،ہر بار کوشش کرتا کہ اس بار قیام بھائی کو پیسہ نہیں دینے دوں گا،لیکن اپنی کوشش میں کبھی کامیاب نہیں ہوا۔آفس میں اپنے ڈرار میں پابندی سے ڈرائی فروٹس وغیرہ رکھتے تھے،آفس پہنچتے ہی اپنے ڈسک پر نکال کر رکھ دیتے ،خود کھاتے اور سب کو کھِلاتے۔‘‘
قیام الدین چچا کے ایک رفیقِ کار ڈاکٹر ضیاء اللہ ندوی ،جے این یو دہلی سے ڈاکٹریٹ ہیں،بہار کے رہنے والے ہیں ،اس وقت ملازمت کے سلسلے میں قطر میں رہائش پذیر ہیں ،وہ چچا مرحوم کے اوصافِ حمیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’مرحوم قیام الدین صاحب کی کن کن خوبیوں کا ذکرکیا جائے ! وہ خوش گفتار تھے،خوش لباس تھے،بذلہ سنج تھے،حاضرجواب تھے،شریعت کے نکتہ رس تھے،ادب شناس تھے،راسخ العقیدہ مسلمان تھے،جن عقائد اور اصولوں پر اُن کا ایمان تھا،اُس پر پوری ایمان داری کے ساتھ تا حیات گامزن رہے،نہ اُن میں کبر تھانہ غرور تھا،نہ کبھی کسی پر اپنی دین داری کا رُعب جھاڑتے تھے،نہ کسی تارک الصلوٰۃ کو کمتر سمجھتے تھے،نہ کبھی کسی پر لعن طعن کرتے تھے،لیکن دینی غیرت و حمیت سے بھر پور تھے،دنیا کے کسی بھی گوشے میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر تڑپ اُٹھتے تھے۔دوستوں کے دوست تھے،ان کے ساتھ کھل کر ہنسی مذاق کرتے تھے۔چھوٹوں سے بے تکلفی اور شفقت سے پیش آتے،کبھی کسی بات پر چُٹکی لیتے تواس میں زندگی پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی۔اُن کے احوال و کردار میں کہیں کوئی تصنع نہیں تھا،جو اندر تھا وہی باہر تھا۔وہ اپنی رائے پوری قوت کے ساتھ پیش کرتے تھے،لیکن اسے تھوپنے کے قائل نہیں تھے۔چونتیس سالہ طویل عرصہ ساتھ گزارنے والے اپنے رفقا کو بھی کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا،نہ کبھی کسی بات پر ملول ہوئے اور نہ آپسی تعلقات کا گراف نیچے گرا،یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔وہ اپنی زندگی میں کسی پر بوجھ نہیں بنے،انہیں غم زدہ ہوتے کبھی بام و در نے نہیں دیکھا،ظرافت کا پٹارہ ہمیشہ وہ ساتھ رکھتے تھے،خود بھی ہنستے تھے اور دوسروں کو بھی ہنساتے تھے اور ہنستے ہنساتے زندگی کے آخری پڑاؤ سے بھی گزر گیے۔انہوں نے اپنی زندگی سادگی کے ساتھ بسر کی،نوکری نے اُن کا ساتھ نبھایا اور انہوں نے نوکری کا،اس کے علاوہ کی دنیاداری انہیںنہیں آتی تھی،اپنی تنخواہ سے ذاتی اخراجات کی رقم روک کرباقی اپنی اہلیہ کو بھیج دیا کرتے تھے،وہی اُن کے گھر کی’ مدبّر الامور‘ تھیں اور انہوں نے اپنی اہلیت اور قابلیت سے اسے ثابت بھی کیا،بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی،مکان بنوایا اورآمدنی کے کچھ دیگر ذرائع بھی آراستہ کیے۔‘‘
قیام الدین چچامولاناسلطان احمد اصلاحی صاحبؒ سے ہر لحاظ سے بہت قریب رہے ہیں،چچا رشتے میں مولاناؒ کے سگے بھانجہ تھے،دونوں میں رنگ و روپ کی شباہت خوب تھی،مزاجی لحاظ سے بھی دونوں کافی ہم آہنگ تھے،دونوں کے فکری رنگ میں بھی مماثلت محسوس ہوتی ہے۔چچا ؒ کی علمی نشو و نمامیں مولاناؒکا کلیدی رول رہا ہے،مدرسۃ الاصلاح میں چچاؒ کے داخلہ کے محرک مولاناؒ ہی تھے۔ مولاناؒنے علی گڑھ کو وطنِ ثانی بنا لیا تھا،چچا بھی اُن کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے، اس لیے اپنی فیملی کو مولاناؒ کی نگرانی اور تربیت میں رکھنے کا فیصلہ کیا،یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ دونوں کی آخری آرام گاہیں بھی باہم متصل ہیں،انتقال کے وقت دونوں کی عمریں بھی ایک جیسی تھیں، دونوں کی ایک دوسرے سے قربت اور طبعی یکسانیت کایہ بھی عجب پہلو ہے کہ دورۂ قلب(ہیرٹ اٹیک) کے سبب ہی دونوںکی ناگہانی موت واقع ہوئی ہے،اس سے زیادہ دونوںمیںقلبی تعلق کے مظاہر اور کیا ہوسکتے ہیں!۔حق تعالیٰ دونوں کے اخروی درجات بلند فرمائے،آمین!
قیام الدین چچا حرف شناسی کے بعد 1969میںباقاعدہ تعلیم کے لیے مدرسۃ الاصلاح گیے،وہاں مکتب سوم میں داخلہ لیا،لیکن چند ماہ بعد ہی اُن کی لیاقت اور استعداد کو دیکھتے ہوئے اساتذہ نے عربی اول میں پروموشن کی سفارش کردی۔میرے علم میں الاصلاح سے متعلق ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے کہ مکتب سوم کے کسی طالب علم کوچہارم اور پنجم کی تعلیم سے مستثنیٰ کرکے چھٹے درجہ(عربی اول) میںپروموٹ کیا گیا ہو،وہ یہاں اپنی کلاس کے سب کم عمرمگر سب سے ذہین طالب علم تھے۔الاصلاح کے دفتری ریکارڈ میں اُن کی تاریخ پیدائش8فروری1958درج ہے،جب کہ پاسپورٹ میں8فروری1956 شامل ہو گئی ہے،1977مین انہوں نے19برس کی عمر میں فراغت حاصل کی،کلاس میں ان کی پہلی پوزیشن تھی،اس زمانہ میں مدرسۃ الاصلاح میں تُولے اور ماشے میں تول کر نمبر دیے جاتے تھے،حالانکہ درسِ نظامی کے مدارس جیسے دار العلوم دیوبندوغیرہ جو ہندوستان کے مدرسی نظام میں قدرے قدامت پسند خیال کیے جاتے ہیں ،لیکن نمبر کے معاملہ میںان کے یہاں اُس زمانہ میں وہجدت پسندی اور روشن خیالی تھی جواِس وقتCBSE (سنٹرل بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن)میں دیکھی جاتی ہے،چچا اپنی کلاس کے واحد خوش نصیب تھے جنہیں ساٹھ فیصد نمبر ملے تھے،اُن کی کلاس کے باقی سارے طلبہ ساٹھ فیصد سے کم نمبر لانے کی وجہ سے سکنڈ ڈویزن پاس ہوئے تھے،اُس وقت ایسے طلبہ جو ساٹھ فیصد کوتو نہیں پہنچ پاتے، مگراس کے آس پاس ہوتے توفخریہ اپنے پاسنگ مارکس کو گُڈ سکنڈ(good second)کہہ کر بتاتے تھے۔
الاصلاح سے فراغت کے بعدچچامرحوم نے 1399ھ مطابق 1979میںالکلیۃ العربیہ جامعہ دار السلام عمرآباد کانصاب پڑھا ،پھر 1404-5ھ مطابق1984-85 میںجامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے دراسۂ عالیہ کی تکمیل کی،انہوں نے جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب اور1976میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی مضمون کے ساتھ ہائی اسکول بھی کیا تھا۔الاصلاح کے بعد اِن اداروں کی تعلیم سے یقیناً اُن کاعلمی اور فکری کینوس وسیع ہوا ہے،لیکن الاصلاح کو اُن کی ذہنی پرداخت میںاساسی حیثیت حاصل ہے۔جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے زمانۂ طالب علمی میں انہیںشیخ عبد اللہ بن بازکے دروس میں شامل ہونے اور اُن سے علمی استفادہ کا موقع ملا،شیخ بن باز کو گزشتہ صدی کامجدد کہاجاتاہے،وہ تفقّہ کے عظیم مرتبہ پرفائز تھے،اُن کے جرأت مندانہ فقہی اجتہادات کے واقعات چچاؒ اکثر بیان کیاکرتے تھے۔
مدرسۃ الاصلاح میں تقلیدِ بے جا کو کبھی مستحسن نہیں سمجھا گیا ہے،خواہ فکری تقلید ہو یا مسلکی یاپھرشخصی،یہاں ذہنی تربیت کچھ اس انداز میں ہوتی ہے کہ طلبہ میں آزادانہ غور و فکراور آزادیٔ خیال سے اپنا نقطۂ نظر قائم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ یہاں کے فارغین کسی روش کے اختیار یا اس کے انکار سے پہلے نقد و جرح کے عادی ہوتے ہیں۔الاصلاح کی اس خاص فکری تربیت کی وجہ سے قیام الدین چچا تقلیدِ محض سے ہمیشہ محترزرہے،مسلک کے معاملہ بھی میں وہ ایک کھونٹے میں نہیں بندھے،بلکہ اس باب میںوہ حریت پسند تھے،یہی وجہ ہے کہ اُ ن کے یہاں مسلکی تشدد سے گریز کی کیفیت ملتی ہے،اُن کی مسلکی روش میں حنفیت کے ساتھ سلفیت کا عکس بھی تھا۔اُن کے یہاں نظریاتی اور فکری امور میںآزاد خیالی کارنگ ملتا ہے۔عام طور پر ابنائے اصلاح نظمِ قرآن کے حامی اور فکرِفراہی کے مؤید دیکھے جاتے ہیں۔قیام الدین چچا بھی نظمِ قرآن کے سلسلے میں فراہی فکر کے مدّاح تھے،لیکن تقلید اور عقیدت کے جذبہ سے اُٹھ کرقرآنی مطالب اور مفاہیم کی تفہیم میںنظمِ قرآن کی ضرورت و اہمیت کی حدودمتعین کرنے کے قائل تھے۔اس سلسلے میں اُن کی درج ذیل تحریر سے فکرِفراہی اور نظمِ قرآن کے باب میں اُن کے موقف کااظہار ہوتاہے۔یہ سوشل میڈیا پر مباحثہ میں لکھی جانے والی ایک برجستہ تحریر ہے،اس کے باوجود اس سے اُن کے اندازِ تحریر اور اسلوب نگارش کو سمجھا جا سکتاہے،نیز فکرِ فراہی اور نظمِ قرآن کے باب میں اُن کا موقف کیا ہے؟اس پربھی روشنی پڑتی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’فکر فراہی جس کا اکثر الاپ ہوتا رہتا ہے،اس کا معروضی اورحقیقت پسندانہ انداز میں جذباتیت ،تقلیدیت اور عقیدت کا حجاب ہٹاکر جائزہ لینے کی ضرورت ہے ،اگر ہم قرآن کو احکام و فرامین کا مجموعہ مانیں اور ایک منظم و منسق کتاب نہ مانیں جیسا کہ ایک بڑی اکثریت اس کی قائل ہے تو قرآن فہمی اور قرآن جو ایک مکمل کتابِ ہدایت ہے،اس کے مفہوم و معانی یا دوسرے لفظوں میں روحِ شریعت کو سمجھنے میں کیا کمی آسکتی ہے؟۔نظمِ قرآن کا نشہ ہمیں دورانِ تعلیم اس قدر پلا دیا جاتاہے کہ اسی عینک سے ہم دوسری کتب کو بھی دیکھنے لگتے ہیں،حتیٰ کہ بعض بزرگ اور محترم اصلاحی شخصیات نے دورانِ امتحان شفوی اور تحریری شکل میںجاہلی عہد کے شاعر امرء القیس کے قصیدے میں اور امام بخاری ’کے الجامع الصحیح‘کے ابواب تک میںنظم پر سوال جڑدیے کہ فلاں باب کے بعد فلاں باب امام بخاری نے کیوں باندھا ہے؟،شاید اس نظم و ترتیب کا ادراک امام بخاری کو بھی نہ رہا ہو۔میں سمجھتا ہوں کہ نظمِ قرآن کے سلسلے میں مولانا فراہیؒکی سوچ ہم عصروں سے ہٹ کر ایک نئی فکری جہت تھی،اس باب میں یقینی طور پر انہیںامامت حاصل تھی۔اس سلسلے میں اُن کے ذہن میں ایک وسیع تصور تھاجسے وہ صفحۂ قرطاس پر لانا چاہتے تھے اور فکری لحاظ سے اتنے روش خیال تھے کہ مجموعۂ احادیث کو سندوں اور فنی لحاظ سے صحیح ہونے کے باوجود عقلی کسوٹی پر کھری نہ اترنے کی وجہ سے عام علما کی ڈگر سے ہٹ کر بحیثیت مضمون اس پر گفتگو بھی کی ہے اور شاید کچھ لوگوں نے اُن پر منکرِ حدیث ہونے کا الزام بھی لگایا ہو،اس وسیع تصور پر مولانا فراہی کام کرنا چاہ رہے ہوں گے،لیکن عمر نے شاید وفا نہیں کی اور وہ کام مکمل طور پر تحریری شکل میں نہیں لاسکے،یہی وجہ ہے کہ اُن کی بعض تحریروں میں بیاض چھوٹی ہوئی تھی جسے ابتدائی نشر و اشاعت میں علیٰ حالہ شائع کردیاگیا،بعد میں بعض بیاضوں کی خانہ پُری مرحوم و مغفور مولانا بدرالدین اصلاحی صاحب نے کی تھی۔دورانِ تعلیم جن اساتذہ سے قرآن فہمی کا موقع ملااور دورانِ درس نظمِ قرآن کی واضح اور عملی شکل پرگفتگو ہوئی توانہوں نے بھی اپنے آبائی نوٹس لانے کا وعدہ کیالیکن وہ اسے لانہیںسکے اور نظمِ قرآن پر عملی طور پر کوئی تصورنہیں پیش کرسکے۔اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ یاد آرہاہے،مولانا ابو سفیان اصلاحی صاحب مرحوم جو فکرِفراہی کے بہت دل دادہ تھے،1970کے عشرے میںان کا مدرسہ کی مسجد میں عشاء بعد فکرِفراہی پر خطاب کا ایک پروگرام رکھا گیاتو پورے خطاب میں ساری گفتگوکامحوریہ رہاکہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب مرحوم و مغفورکس طرح تقریر کرتے تھے اور دورانِ تقریر مضمون کے حساب سے لہجے میں کیسا نشیب و فراز ہوتاتھااور تقریرمیں ہلکی سی چہل قدمی بھی ہوتی تھی،جس کی نقل کرکے انہوں نے دکھائی اور دعویٰ کیاکہ شب کے آخری پہر میں تدبّر فی القرآن کرتا ہوں پھر کھیتی باڑی کے کام دیکھتاہوں،مولانا کا تعلق غالباً ہمئی پورسے تھااور مولانابدرالدین صاحب کے غالباً عزیز بھی تھے،گھر پر اُن کے پاس قرآنیات کے کتنے مصادر و مراجع تھے اس سے مسلّم لاعلم ہوں،بہر حال یہ ضمنی بات آگئی،ہمارے بعض دوستوں کو تشنگی رہی توخطاب کے بعد مزید اُن سے وقت لیاتاکہ فکرِفراہی اور اُن کے منہجِ قرآن پرتفصیلی اور سیر حاصل گفتگو ہوسکے،تو بعد میں اور تو کچھ نہ بتاسکے،صرف اتنا کہاکہ کیاچاہتے ہو سارا فکر ایک ہی رات میں سمیٹ لوں!۔اسی طرح قدیم اصلاحیوں میںمولانا نجم الدین اصلاحی مرحوم سے اُن کے گھر راجہ پور سکرورجاکرمختصراستفادہ کا موقع ملااور اُن سے فکرِفراہی پرگفتگو ہوئی توانہوں نے سب سے زیادہ زور اس پر دیا کہ پرانی تفسیروں پرمختلف آیات کے تعلق سے مولانافراہی کے جو نوٹس اور استدراکات تھے اُن کومیں نے کاٹ کر محفوظ کرلیا ہے تاکہ کسی دوسرے شخص کے ہاتھ نہ لگے اور اس سلسلے میں میری انفرادیت اور الگ تشخص باقی رہے۔الاصلاح سے فارغ ہوگیے ،لیکن تشفی بخش جواب کے بغیر،اصل گفتگو یہ تھی کہ فی نفسہ ایک شخص نظمِ قرآن کے تصور کو نہیں مانتا ہے توفہمِ قرآن واحکام میں کیاکلیدی فرق پڑے گا؟۔اس نظم کی بلاشبہ ضرورت ہے لیکن کھانے میں نمک کے برابرجو ضروری بھی ہے اور زیادتی کی شکل میں کھانے میں بدمزگی کا اندیشہ بھی ہے۔ہمیں جو شروع سے یہ بتایاجاتا ہے کہ اس کے بغیر ْقرآن فہمی ممکن نہیں،اس سلسلے میں اس کی اہمیت اور یہ اہمیت کتنی ہونی چاہیے؟،جوبرادران اس فیلڈ میں لگے ہوئے ہیںاگر وہ اس کی وضاحت کریں اور اس کا جامع اور عملی تصور پیش کریں تو ہم جیسے طالب علموں کا بھلا ہوگا،جودرس وتدریس اور علمی مشاغل سے واقف نہیں ہیں۔‘‘
قیام الدین چچاکی تحریر کے مذکورہ نمونہ سے اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ وہ عامیانہ روش پر چلنے والوں میں سے بالکل نہیں تھے،اگر کسی بات میں انہیں اشکال ہوتاتواس کے اظہار میں کوئی مصلحت مانع نہیں ہوتی اور لومتِ لائم کے اندیشوں سے بے خوف ہوکروہ اسے کہنے کی جرأت رکھتے تھے،میرے خیال میں مدرسۃ الاصلاح کی ذہنی تربیت کی یہی سب سے بڑی خوبی ہے۔اُن کے اسلوب میں نقد و جرح بھی ہے اور بزرگوں کے تذکرہ میں حفظ مراتب کا لحاظ بھی،تاہم صاف گوئی کے لہجہ میں حزم و احتیاط کے باوجود کسی قدر نشتریت آہی جاتی ہے اسے غلط جذبہ پرمحمو ل کرنے کے بجائے صالح نقدکا ایک اسلوب خیال کرناچاہیے۔
چچا کے تحریری نقوش میں چند متفرق مضامین کے علاوہ ایک کتاب ’’ معذورین کے روزے‘‘ شامل ہے یہ دراصل مدینہ کے زمانۂ طالب علمی میں اُن کے عربی زبان میں لکھے مقالے کا اردو ترجمہ ہے جسے محمد رفیق سلفی صاحب نے انجام دیا ہے۔معذوری کی مختلف حالتوں میں روزہ کے مسائل پرمشتمل یہ کتاب 1429 ھ مطابق2008میںاسلامک بُک فاؤنڈیشن دہلی سے شائع ہوئی ہے۔معروف اسلامی مفکرمولاناسلطان احمد اصلاحیؒ نے پیش لفظ میںکتاب کی موضوعاتی اہمیت اور اس کی عصری حسّیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اِ س کے تحقیقی اسلوب کوسراہا ہے اور اِسے وقت کی بڑی ضرورت قرار دیاہے۔ چچاؒ کی وفات پرقطر سے اُن کے دوستوں کی طرف سے جو تعزیتی تحریریں آئیں اُن کے کچھ اقتباسات مضمون کی ابتدا میں نقل کیے گیے ہیں،کم و بیش سبھی نے اپنے تأثرات میں اُن کے اخلاقی محاسن کا تذکرہ کیا ہے،اُن کے احباب جو اُن کے معاملات کے شاہد رہے ہیں،نیک اور رفاہی کاموںمیں اُن کے جذبۂ سخاوت کی بہت کھل کر تعریف کی ہے۔قدرت نے انہیں مالی فراخی عطاکرنے کے ساتھ ،فراخ دل بھی بنایاتھا،اعزہ واقربا اور اہلِ خانہ کے ساتھ اُن کے معاملوں سے ہم سب واقف تھے ،لیکن وفات کے بعدجوواقعے سامنے آئے ،وہ اُن کی بیوی اوربچوں تک کے علم میںنہیںتھے۔چچا کی علالت کی خبر سن کراُن کے بڑے صاحبزادے محمد طارق جو انجینیرہیں اور سعودی کی ایک بڑی کمپنی میں ملازم ہیں، تیمارداری کے لیے قطر آگیے تھے،انہوں نے بتایا کہ پاپاکو دیکھنے کے بعدایسا بالکل نہیں لگ رہاتھاکہ انہیں کوئی بیماری ہے،ہمیشہ کی طرح وہ بالکل ہشاش بشاش تھے اورکسی بھی اندیشے سے ہم بے پروا تھے اور یقین تھاکہ آپریشن کے بعد صحت یاب ہوکروہ زندگی کے معمولات کوپہلے کی طرح پھر انجام دینے لگیں گے۔طارق بتاتے ہیں کہ صحت یابی کے بارے میں پُرامید ہونے کے باوجودانہوں نے وہ ساری باتیں مجھ سے کیں جو پہلے کبھی نہیں کی تھی جیسے اثاثوں اور اکاؤنٹ کی تفصیلات،ان کے نمبر اور کوڈ وغیرہ،اس موقع پر انہوں نے بتایاکہ کچھ لوگوں کے تعاون کے لیے انہوں نے ایک رقم مختص کررکھی ہے جو ماہانہ انہیں بھیجتے رہتے ہیں،یہ معتد بہ رقم تھی ،اتنی کہ اس سے کئی غریبوں کی پرورش ہوجائے۔قطر میں چچاؒ کی رہائش بہاء الدین ندوی صاحب کے ساتھ تھی،گویا گھر سے دفتر تک دونوں ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے،چچا کی وفات پر وہ کہنے لگے کہ اب میں بے سہارا ہوگیاہوں،وہ چچاؒ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتانے لگے کہ چونتیس سالہ رفاقت میںکبھی ایسا نہیں پایاکہ کسی نے دستِ سوال درازکیا ہواور اسے محرومی ہوئی ہو، اکثر ایسا بھی ہواکہ راہ چلتے کوئی سائل مل جاتا اور میں ٹوکتاکہ یہ فی الواقع ضرورت مند نہیں معلوم ہورہاہے توکہتے کہ جب اس نے خودداری مجروح کر کے ہاتھ پھیلاہی دیاہے تو اتناضرور دے دیناچاہیے کہ ایک وقت کا کھانا تو کھاہی لے۔میرے علم میں ایسے کئی واقعات ہیںجن سے اُ ن کے رفاہی جذبوں کاپتہ چلتا ہے ،اکثر دیکھاکہ لوگ اپنی حاجت کے لیے بچوں کی شادی بیاہ کے موقعوں پر انہیں بڑی امید سے یادکیا کرتے تھے،حتیٰ المقدور وہ بھی اعانت کے ایسے کاموں کے لیے ہمیشہ حاضر رہتے تھے۔
چچاؒ11جولائی1980کوچچی نوشابہ خاتون کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے،دونوں 41برس سے کچھ زائد عرصہ شریکِ حیات رہے ہیں۔چچی نے ہر لحاظ سے ’نصف بہتر‘ ہونے کا ثبوت دیا،اُن کی معاملہ فہمی اور حسنِ تدبیر نے چچاؒ کی خانگی زندگی کوخوش گوار بنانے میں بڑااہم رول ادا کیا ہے۔انہوں نے گھریلو ذمہ داریوں سے چچاؒ کو بے نیاز کرکے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا فریضہ ایک طرح سے تن تنہا انجام دیاہے،یہ اُن کی سلیقہ شعاری کا نتیجہ ہے کہ دونوں بیٹے محمد طارق اور محمد شارق اور بیٹی عفرہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ اچھے اخلاق اور عمدہ کردار کے حامل ہیں۔
چچاؒ نے جامعہ دارالسلام عمرآباد سے فراغت کے بعد مولاناآزادتعلیمی مرکز اُسرہٹہ شاہ گنج میں چند ماہ تدریسی خدمت انجام دی،پھر مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد شیخ عبداللہ بن باز کے مندوب کے طور پرمبعوث ہوکر ہندوستان آئے اور29 جولائی 1985کوادارہ علوم القرآن علی گڑھ سے بحیثیت سکریٹری وابستگی اختیار کی،یہ سلسلہ اپریل1987تک رہا،اسی اثناقطر کی وزارتِ داخلہ(ministry of interior)کے ایک اہم شعبہ میں بطور آفیسر تقرر کے بعدوہاں چلے گیے اوردمِ آخرتک وہیں رہے،وہاں اُن کا قیام تقریباً34برس رہاہے۔حسنِ خدمت کے صلہ میں قطری حکومت کی طرف سے کچھ ملازمین کو permanent resident cardدینے کا فیصلہ لیاگیاتھا،اس فہرست میں چچا محترم کانام بھی شامل تھا،اس کارڈ کے ذریعہ قطر میں وہ تمام شہری سہولیات کے مجاز ہوجاتے،ابھی اس کے کاغذات ملنے والے ہی تھے کہ وقت ِموعود آگیا۔
چچاؒ نے 63سے64برس کے درمیان عمر پائی، یہ عرصۂ حیات بھلے بہت طویل نہ ہو،لیکن زندگی نے جتنا وقت دیا،اس کا ایک ایک لمحہ بھر پور انداز میںاور پُروقار صورت میں گزارا۔انہوں نے زندگی ایک مقصد کے ساتھ گزاری اور یہ مقصدصرف اُن کی ذات سے وابستہ نہیں تھا،بلکہ گھرخاندان،خویش و اقارب اوراُن کے سماج اور معاشرے کے لوگ بھی اس مقصدِ حیات کے دائرہ میں شامل تھے۔زندگی کی صحیح تعبیر یہی ہے کہ جو اپنے ساتھ ساتھ، اپنوں کے لیے بھی جی جائے۔اب قیام الدین چچا کے سانحۂ ارتحال سے کچھ ایسا ہی محسوس ہورہا ہے،اس کیفیت کا احساس مجھ جیسے بہتوں کو ہے،جن کے لیے اُن کا وجود شجرِسایہ دار جیسا تھا۔مجھے زندگی میں جب بھی تندیٔ حالات کاسامناہوا،اس کے مقابل ہمیشہ وہ محافظ دیوار بن کر کھڑے نظر آئے،مگر اُن کی رحلت نے بے سہارا بنا دیا ہے،اب جب ایسے موقعوں پر نگاہیں انہیں ڈھونڈیں گی تو بڑی مایوسی ہوگی۔اللہ چچا محترم کو غریقِ رحمت فرمائے اور اُن کے حسنِ سلوک کا نیک بدلہ دے،اب اُن کے حق میں صرف یہ دعا کی جاسکتی ہے۔
چچا کی شخصیت حسنِ ظاہر کے ساتھ حسنِ باطن کا پیکر بھی تھی،اُن کے مزاج کی تشکیل میں حسنِ اخلاق،مروت،سخاوت ،وضع داری اور اعزہ پروری جیسے مکارم بڑی فراوانی سے شامل تھے۔اسلامی اخلاقیات کا وہ بہترین نمونہ تھے،اسلام میں اخلاقی تعلیمات پربہت زور دیاگیا ہے، ارشاد نبوی ہے کہ’اِنّ خِیارکم أحسنکم أخلاقاً‘یعنی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو زیادہ محاسنِ اخلاق رکھتا ہو،اسلام کے اس اخلاقی میزان پرانہیں اعلیٰ کردار کا حامل کہا جاسکتا ہے۔
چچا نے شکل و صورت کی خوب صورتی اور چہرہ بشرہ دادی صاحبہ یعنی اپنی والدہ محترمہ خطیب النساء سے پایا تھاجو الحمدللہ ابھی حیات ہیںاور مزاجی خوبیاںدادامرحوم جناب محمدیونس صاحب (وفات:1974)سے کسب کی تھی۔چچاؒ کے اندر ذہانت و فطانت کے اوصاف کمال درجہ کے تھے،انہوں حافظہ بھی بڑا عمدہ پایا تھا،استحضار کاعالم یہ تھاکہ برسوں پرانی باتیں بھی جزئیات کے ساتھ یاد رہتیں،طبیعت میں ظرافت اور مزاج میں شگفتگی تھی،اُن کی باتیں بڑی پُر لطف ہوتی تھیں،گفتگو میں اشعار اور ادبی مزاحیہ فقروں کابڑا برمحل استعمال کرتے تھے،اس سے باتوں کا لطف دوبالا ہوجاتا تھا،اکبرالہٰ آبادی اور اردو کے مشہور قدیم شعراء کے سیکڑوں اشعار انہیں زبان زد تھے ،وہ مشتاق یوسفی جیسے مزاح نگاروں کے جملوں سے باتوں میں ادب کی چاشنی گھول دیتے تھے۔
قیام الدین چچا کی زندگی کا بیشتر عرصہ جو تقریباً 34 برسوں پر محیط ہے،قطرمیں گزرا،سال میں ایک دو بار گھر آناہوتا،عموماً ڈیڑھ سے دو مہینے قیام رہتا ،گویا پچھلے 34 برس سے ہندوستان میں اُن کی آمد بس مہمانوں کی طرح ہوتی تھی،ظاہر ہے اُن سے معاملات کے اصل مشاہدین وہی لوگ ہوں گے جن کے ساتھ اُن کا زیادہ وقت گزرا ہے۔قطر میں اُن کے سانحۂ ارتحال پر منعقد تعزیتی جلسہ میں اُن کے دوست احباب اور اُن کی معیت میں رہنے والے لوگوں نے جن احساسات و جذبات اور اُن سے معاملات کے اپنے تجربات شیئر کیے ہیں،اس کے آئینے میں چچا کی شخصیت کی صحیح تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔اُن کے ایک شناسا ابو معاذفلاحی صاحب بلریاگنج اعظم گڑھ کے رہنے والے ہیں،انہوں نے قطر میں منعقد تعزیتی اجلاس کی روداد اور اپنے تأثرات کو قلم بند کرتے ہوئے کئی ایسے واقعے لکھے ہیںجن سے قیام الدین چچا کے اخلاقی رویوں پرروشنی پڑتی ہے،معاذ صاحب کی تحریر کا ایک اقتباس نذرِ قارئین ہے،وہ لکھتے ہیں’’دوحہ کے ریستوران میں چند دوستوں کے ساتھ ناشتہ کر رہے تھے،ایک بہت سینئر کُلیگ ریستوران میں داخل ہوئے،علیک سلیک ہوا،جس ٹیبل پر ہم لوگ ناشتہ کررہے تھے وہ فُل تھا،رسماً سب نے ان سے کہا آئیے! ساتھ میں ناشتہ کرتے ہیں،بڑی خوب صورتی سے معذرت کرتے ہوئے وہ دوسرے ٹیبل پر بیٹھ گیے۔ناشتہ کرتے ہم لوگ گپ شپ میں مشغول تھے،وہ ناشتہ کرکے کب چلے گیے ہم لوگوں کو احساس نہیں ہوا۔ناشتہ کے بعد کاؤنٹر پر بِل ادا کرنے گیے تو کیشیئر نے بتایا کہ فلاں صاحب جو وہاں بیٹھ کر ناشتہ کررہے تھے،انہوں نے آپ لوگوں کا بل ادا کردیا ہے۔قیام الدین صاحب مرحوم کی سخاوت کی یہ بہت چھوٹی سی مثال ہے کہ چند سال پہلے کمپنی سے اُن کو کار ملی،جس روز وہ کمپنی کی کار گھر لے کر پہنچے ،اسی روز اپنی ذاتی کار چھوٹے منصب پر کام کرنے والے اپنے ایک فلیٹ میٹ کو ہدیہ کردیا۔جس صبح اچانک اُن کا انتقال ہوا،آفس میں پہنچا تو اُن کے ایک کُلیگ زار و قطار روتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے،کچھ دیر بعد سنبھلے تو اُن کی خوبیاں بیان کرنے لگے،اُن کی سخاوت کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم لوگ سیکڑوں مرتبہ اُن کے ساتھ کھائے پیے ہوں گے ،کبھی کسی کو بِل ادا کرنے نہیں دیتے،یہاں تک کہ اُن کے ساتھ بارہا شاپنگ کے لیے گیا،چیزیں پسند آئیں اُٹھا لیا،ہر بار کوشش کرتا کہ اس بار قیام بھائی کو پیسہ نہیں دینے دوں گا،لیکن اپنی کوشش میں کبھی کامیاب نہیں ہوا۔آفس میں اپنے ڈرار میں پابندی سے ڈرائی فروٹس وغیرہ رکھتے تھے،آفس پہنچتے ہی اپنے ڈسک پر نکال کر رکھ دیتے ،خود کھاتے اور سب کو کھِلاتے۔‘‘
قیام الدین چچا کے ایک رفیقِ کار ڈاکٹر ضیاء اللہ ندوی ،جے این یو دہلی سے ڈاکٹریٹ ہیں،بہار کے رہنے والے ہیں ،اس وقت ملازمت کے سلسلے میں قطر میں رہائش پذیر ہیں ،وہ چچا مرحوم کے اوصافِ حمیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’مرحوم قیام الدین صاحب کی کن کن خوبیوں کا ذکرکیا جائے ! وہ خوش گفتار تھے،خوش لباس تھے،بذلہ سنج تھے،حاضرجواب تھے،شریعت کے نکتہ رس تھے،ادب شناس تھے،راسخ العقیدہ مسلمان تھے،جن عقائد اور اصولوں پر اُن کا ایمان تھا،اُس پر پوری ایمان داری کے ساتھ تا حیات گامزن رہے،نہ اُن میں کبر تھانہ غرور تھا،نہ کبھی کسی پر اپنی دین داری کا رُعب جھاڑتے تھے،نہ کسی تارک الصلوٰۃ کو کمتر سمجھتے تھے،نہ کبھی کسی پر لعن طعن کرتے تھے،لیکن دینی غیرت و حمیت سے بھر پور تھے،دنیا کے کسی بھی گوشے میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر تڑپ اُٹھتے تھے۔دوستوں کے دوست تھے،ان کے ساتھ کھل کر ہنسی مذاق کرتے تھے۔چھوٹوں سے بے تکلفی اور شفقت سے پیش آتے،کبھی کسی بات پر چُٹکی لیتے تواس میں زندگی پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی۔اُن کے احوال و کردار میں کہیں کوئی تصنع نہیں تھا،جو اندر تھا وہی باہر تھا۔وہ اپنی رائے پوری قوت کے ساتھ پیش کرتے تھے،لیکن اسے تھوپنے کے قائل نہیں تھے۔چونتیس سالہ طویل عرصہ ساتھ گزارنے والے اپنے رفقا کو بھی کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا،نہ کبھی کسی بات پر ملول ہوئے اور نہ آپسی تعلقات کا گراف نیچے گرا،یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔وہ اپنی زندگی میں کسی پر بوجھ نہیں بنے،انہیں غم زدہ ہوتے کبھی بام و در نے نہیں دیکھا،ظرافت کا پٹارہ ہمیشہ وہ ساتھ رکھتے تھے،خود بھی ہنستے تھے اور دوسروں کو بھی ہنساتے تھے اور ہنستے ہنساتے زندگی کے آخری پڑاؤ سے بھی گزر گیے۔انہوں نے اپنی زندگی سادگی کے ساتھ بسر کی،نوکری نے اُن کا ساتھ نبھایا اور انہوں نے نوکری کا،اس کے علاوہ کی دنیاداری انہیںنہیں آتی تھی،اپنی تنخواہ سے ذاتی اخراجات کی رقم روک کرباقی اپنی اہلیہ کو بھیج دیا کرتے تھے،وہی اُن کے گھر کی’ مدبّر الامور‘ تھیں اور انہوں نے اپنی اہلیت اور قابلیت سے اسے ثابت بھی کیا،بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی،مکان بنوایا اورآمدنی کے کچھ دیگر ذرائع بھی آراستہ کیے۔‘‘
قیام الدین چچامولاناسلطان احمد اصلاحی صاحبؒ سے ہر لحاظ سے بہت قریب رہے ہیں،چچا رشتے میں مولاناؒ کے سگے بھانجہ تھے،دونوں میں رنگ و روپ کی شباہت خوب تھی،مزاجی لحاظ سے بھی دونوں کافی ہم آہنگ تھے،دونوں کے فکری رنگ میں بھی مماثلت محسوس ہوتی ہے۔چچا ؒ کی علمی نشو و نمامیں مولاناؒکا کلیدی رول رہا ہے،مدرسۃ الاصلاح میں چچاؒ کے داخلہ کے محرک مولاناؒ ہی تھے۔ مولاناؒنے علی گڑھ کو وطنِ ثانی بنا لیا تھا،چچا بھی اُن کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے، اس لیے اپنی فیملی کو مولاناؒ کی نگرانی اور تربیت میں رکھنے کا فیصلہ کیا،یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ دونوں کی آخری آرام گاہیں بھی باہم متصل ہیں،انتقال کے وقت دونوں کی عمریں بھی ایک جیسی تھیں، دونوں کی ایک دوسرے سے قربت اور طبعی یکسانیت کایہ بھی عجب پہلو ہے کہ دورۂ قلب(ہیرٹ اٹیک) کے سبب ہی دونوںکی ناگہانی موت واقع ہوئی ہے،اس سے زیادہ دونوںمیںقلبی تعلق کے مظاہر اور کیا ہوسکتے ہیں!۔حق تعالیٰ دونوں کے اخروی درجات بلند فرمائے،آمین!
قیام الدین چچا حرف شناسی کے بعد 1969میںباقاعدہ تعلیم کے لیے مدرسۃ الاصلاح گیے،وہاں مکتب سوم میں داخلہ لیا،لیکن چند ماہ بعد ہی اُن کی لیاقت اور استعداد کو دیکھتے ہوئے اساتذہ نے عربی اول میں پروموشن کی سفارش کردی۔میرے علم میں الاصلاح سے متعلق ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے کہ مکتب سوم کے کسی طالب علم کوچہارم اور پنجم کی تعلیم سے مستثنیٰ کرکے چھٹے درجہ(عربی اول) میںپروموٹ کیا گیا ہو،وہ یہاں اپنی کلاس کے سب کم عمرمگر سب سے ذہین طالب علم تھے۔الاصلاح کے دفتری ریکارڈ میں اُن کی تاریخ پیدائش8فروری1958درج ہے،جب کہ پاسپورٹ میں8فروری1956 شامل ہو گئی ہے،1977مین انہوں نے19برس کی عمر میں فراغت حاصل کی،کلاس میں ان کی پہلی پوزیشن تھی،اس زمانہ میں مدرسۃ الاصلاح میں تُولے اور ماشے میں تول کر نمبر دیے جاتے تھے،حالانکہ درسِ نظامی کے مدارس جیسے دار العلوم دیوبندوغیرہ جو ہندوستان کے مدرسی نظام میں قدرے قدامت پسند خیال کیے جاتے ہیں ،لیکن نمبر کے معاملہ میںان کے یہاں اُس زمانہ میں وہجدت پسندی اور روشن خیالی تھی جواِس وقتCBSE (سنٹرل بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن)میں دیکھی جاتی ہے،چچا اپنی کلاس کے واحد خوش نصیب تھے جنہیں ساٹھ فیصد نمبر ملے تھے،اُن کی کلاس کے باقی سارے طلبہ ساٹھ فیصد سے کم نمبر لانے کی وجہ سے سکنڈ ڈویزن پاس ہوئے تھے،اُس وقت ایسے طلبہ جو ساٹھ فیصد کوتو نہیں پہنچ پاتے، مگراس کے آس پاس ہوتے توفخریہ اپنے پاسنگ مارکس کو گُڈ سکنڈ(good second)کہہ کر بتاتے تھے۔
الاصلاح سے فراغت کے بعدچچامرحوم نے 1399ھ مطابق 1979میںالکلیۃ العربیہ جامعہ دار السلام عمرآباد کانصاب پڑھا ،پھر 1404-5ھ مطابق1984-85 میںجامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے دراسۂ عالیہ کی تکمیل کی،انہوں نے جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب اور1976میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی مضمون کے ساتھ ہائی اسکول بھی کیا تھا۔الاصلاح کے بعد اِن اداروں کی تعلیم سے یقیناً اُن کاعلمی اور فکری کینوس وسیع ہوا ہے،لیکن الاصلاح کو اُن کی ذہنی پرداخت میںاساسی حیثیت حاصل ہے۔جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے زمانۂ طالب علمی میں انہیںشیخ عبد اللہ بن بازکے دروس میں شامل ہونے اور اُن سے علمی استفادہ کا موقع ملا،شیخ بن باز کو گزشتہ صدی کامجدد کہاجاتاہے،وہ تفقّہ کے عظیم مرتبہ پرفائز تھے،اُن کے جرأت مندانہ فقہی اجتہادات کے واقعات چچاؒ اکثر بیان کیاکرتے تھے۔
مدرسۃ الاصلاح میں تقلیدِ بے جا کو کبھی مستحسن نہیں سمجھا گیا ہے،خواہ فکری تقلید ہو یا مسلکی یاپھرشخصی،یہاں ذہنی تربیت کچھ اس انداز میں ہوتی ہے کہ طلبہ میں آزادانہ غور و فکراور آزادیٔ خیال سے اپنا نقطۂ نظر قائم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ یہاں کے فارغین کسی روش کے اختیار یا اس کے انکار سے پہلے نقد و جرح کے عادی ہوتے ہیں۔الاصلاح کی اس خاص فکری تربیت کی وجہ سے قیام الدین چچا تقلیدِ محض سے ہمیشہ محترزرہے،مسلک کے معاملہ بھی میں وہ ایک کھونٹے میں نہیں بندھے،بلکہ اس باب میںوہ حریت پسند تھے،یہی وجہ ہے کہ اُ ن کے یہاں مسلکی تشدد سے گریز کی کیفیت ملتی ہے،اُن کی مسلکی روش میں حنفیت کے ساتھ سلفیت کا عکس بھی تھا۔اُن کے یہاں نظریاتی اور فکری امور میںآزاد خیالی کارنگ ملتا ہے۔عام طور پر ابنائے اصلاح نظمِ قرآن کے حامی اور فکرِفراہی کے مؤید دیکھے جاتے ہیں۔قیام الدین چچا بھی نظمِ قرآن کے سلسلے میں فراہی فکر کے مدّاح تھے،لیکن تقلید اور عقیدت کے جذبہ سے اُٹھ کرقرآنی مطالب اور مفاہیم کی تفہیم میںنظمِ قرآن کی ضرورت و اہمیت کی حدودمتعین کرنے کے قائل تھے۔اس سلسلے میں اُن کی درج ذیل تحریر سے فکرِفراہی اور نظمِ قرآن کے باب میں اُن کے موقف کااظہار ہوتاہے۔یہ سوشل میڈیا پر مباحثہ میں لکھی جانے والی ایک برجستہ تحریر ہے،اس کے باوجود اس سے اُن کے اندازِ تحریر اور اسلوب نگارش کو سمجھا جا سکتاہے،نیز فکرِ فراہی اور نظمِ قرآن کے باب میں اُن کا موقف کیا ہے؟اس پربھی روشنی پڑتی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’فکر فراہی جس کا اکثر الاپ ہوتا رہتا ہے،اس کا معروضی اورحقیقت پسندانہ انداز میں جذباتیت ،تقلیدیت اور عقیدت کا حجاب ہٹاکر جائزہ لینے کی ضرورت ہے ،اگر ہم قرآن کو احکام و فرامین کا مجموعہ مانیں اور ایک منظم و منسق کتاب نہ مانیں جیسا کہ ایک بڑی اکثریت اس کی قائل ہے تو قرآن فہمی اور قرآن جو ایک مکمل کتابِ ہدایت ہے،اس کے مفہوم و معانی یا دوسرے لفظوں میں روحِ شریعت کو سمجھنے میں کیا کمی آسکتی ہے؟۔نظمِ قرآن کا نشہ ہمیں دورانِ تعلیم اس قدر پلا دیا جاتاہے کہ اسی عینک سے ہم دوسری کتب کو بھی دیکھنے لگتے ہیں،حتیٰ کہ بعض بزرگ اور محترم اصلاحی شخصیات نے دورانِ امتحان شفوی اور تحریری شکل میںجاہلی عہد کے شاعر امرء القیس کے قصیدے میں اور امام بخاری ’کے الجامع الصحیح‘کے ابواب تک میںنظم پر سوال جڑدیے کہ فلاں باب کے بعد فلاں باب امام بخاری نے کیوں باندھا ہے؟،شاید اس نظم و ترتیب کا ادراک امام بخاری کو بھی نہ رہا ہو۔میں سمجھتا ہوں کہ نظمِ قرآن کے سلسلے میں مولانا فراہیؒکی سوچ ہم عصروں سے ہٹ کر ایک نئی فکری جہت تھی،اس باب میں یقینی طور پر انہیںامامت حاصل تھی۔اس سلسلے میں اُن کے ذہن میں ایک وسیع تصور تھاجسے وہ صفحۂ قرطاس پر لانا چاہتے تھے اور فکری لحاظ سے اتنے روش خیال تھے کہ مجموعۂ احادیث کو سندوں اور فنی لحاظ سے صحیح ہونے کے باوجود عقلی کسوٹی پر کھری نہ اترنے کی وجہ سے عام علما کی ڈگر سے ہٹ کر بحیثیت مضمون اس پر گفتگو بھی کی ہے اور شاید کچھ لوگوں نے اُن پر منکرِ حدیث ہونے کا الزام بھی لگایا ہو،اس وسیع تصور پر مولانا فراہی کام کرنا چاہ رہے ہوں گے،لیکن عمر نے شاید وفا نہیں کی اور وہ کام مکمل طور پر تحریری شکل میں نہیں لاسکے،یہی وجہ ہے کہ اُن کی بعض تحریروں میں بیاض چھوٹی ہوئی تھی جسے ابتدائی نشر و اشاعت میں علیٰ حالہ شائع کردیاگیا،بعد میں بعض بیاضوں کی خانہ پُری مرحوم و مغفور مولانا بدرالدین اصلاحی صاحب نے کی تھی۔دورانِ تعلیم جن اساتذہ سے قرآن فہمی کا موقع ملااور دورانِ درس نظمِ قرآن کی واضح اور عملی شکل پرگفتگو ہوئی توانہوں نے بھی اپنے آبائی نوٹس لانے کا وعدہ کیالیکن وہ اسے لانہیںسکے اور نظمِ قرآن پر عملی طور پر کوئی تصورنہیں پیش کرسکے۔اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ یاد آرہاہے،مولانا ابو سفیان اصلاحی صاحب مرحوم جو فکرِفراہی کے بہت دل دادہ تھے،1970کے عشرے میںان کا مدرسہ کی مسجد میں عشاء بعد فکرِفراہی پر خطاب کا ایک پروگرام رکھا گیاتو پورے خطاب میں ساری گفتگوکامحوریہ رہاکہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب مرحوم و مغفورکس طرح تقریر کرتے تھے اور دورانِ تقریر مضمون کے حساب سے لہجے میں کیسا نشیب و فراز ہوتاتھااور تقریرمیں ہلکی سی چہل قدمی بھی ہوتی تھی،جس کی نقل کرکے انہوں نے دکھائی اور دعویٰ کیاکہ شب کے آخری پہر میں تدبّر فی القرآن کرتا ہوں پھر کھیتی باڑی کے کام دیکھتاہوں،مولانا کا تعلق غالباً ہمئی پورسے تھااور مولانابدرالدین صاحب کے غالباً عزیز بھی تھے،گھر پر اُن کے پاس قرآنیات کے کتنے مصادر و مراجع تھے اس سے مسلّم لاعلم ہوں،بہر حال یہ ضمنی بات آگئی،ہمارے بعض دوستوں کو تشنگی رہی توخطاب کے بعد مزید اُن سے وقت لیاتاکہ فکرِفراہی اور اُن کے منہجِ قرآن پرتفصیلی اور سیر حاصل گفتگو ہوسکے،تو بعد میں اور تو کچھ نہ بتاسکے،صرف اتنا کہاکہ کیاچاہتے ہو سارا فکر ایک ہی رات میں سمیٹ لوں!۔اسی طرح قدیم اصلاحیوں میںمولانا نجم الدین اصلاحی مرحوم سے اُن کے گھر راجہ پور سکرورجاکرمختصراستفادہ کا موقع ملااور اُن سے فکرِفراہی پرگفتگو ہوئی توانہوں نے سب سے زیادہ زور اس پر دیا کہ پرانی تفسیروں پرمختلف آیات کے تعلق سے مولانافراہی کے جو نوٹس اور استدراکات تھے اُن کومیں نے کاٹ کر محفوظ کرلیا ہے تاکہ کسی دوسرے شخص کے ہاتھ نہ لگے اور اس سلسلے میں میری انفرادیت اور الگ تشخص باقی رہے۔الاصلاح سے فارغ ہوگیے ،لیکن تشفی بخش جواب کے بغیر،اصل گفتگو یہ تھی کہ فی نفسہ ایک شخص نظمِ قرآن کے تصور کو نہیں مانتا ہے توفہمِ قرآن واحکام میں کیاکلیدی فرق پڑے گا؟۔اس نظم کی بلاشبہ ضرورت ہے لیکن کھانے میں نمک کے برابرجو ضروری بھی ہے اور زیادتی کی شکل میں کھانے میں بدمزگی کا اندیشہ بھی ہے۔ہمیں جو شروع سے یہ بتایاجاتا ہے کہ اس کے بغیر ْقرآن فہمی ممکن نہیں،اس سلسلے میں اس کی اہمیت اور یہ اہمیت کتنی ہونی چاہیے؟،جوبرادران اس فیلڈ میں لگے ہوئے ہیںاگر وہ اس کی وضاحت کریں اور اس کا جامع اور عملی تصور پیش کریں تو ہم جیسے طالب علموں کا بھلا ہوگا،جودرس وتدریس اور علمی مشاغل سے واقف نہیں ہیں۔‘‘
قیام الدین چچاکی تحریر کے مذکورہ نمونہ سے اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ وہ عامیانہ روش پر چلنے والوں میں سے بالکل نہیں تھے،اگر کسی بات میں انہیں اشکال ہوتاتواس کے اظہار میں کوئی مصلحت مانع نہیں ہوتی اور لومتِ لائم کے اندیشوں سے بے خوف ہوکروہ اسے کہنے کی جرأت رکھتے تھے،میرے خیال میں مدرسۃ الاصلاح کی ذہنی تربیت کی یہی سب سے بڑی خوبی ہے۔اُن کے اسلوب میں نقد و جرح بھی ہے اور بزرگوں کے تذکرہ میں حفظ مراتب کا لحاظ بھی،تاہم صاف گوئی کے لہجہ میں حزم و احتیاط کے باوجود کسی قدر نشتریت آہی جاتی ہے اسے غلط جذبہ پرمحمو ل کرنے کے بجائے صالح نقدکا ایک اسلوب خیال کرناچاہیے۔
چچا کے تحریری نقوش میں چند متفرق مضامین کے علاوہ ایک کتاب ’’ معذورین کے روزے‘‘ شامل ہے یہ دراصل مدینہ کے زمانۂ طالب علمی میں اُن کے عربی زبان میں لکھے مقالے کا اردو ترجمہ ہے جسے محمد رفیق سلفی صاحب نے انجام دیا ہے۔معذوری کی مختلف حالتوں میں روزہ کے مسائل پرمشتمل یہ کتاب 1429 ھ مطابق2008میںاسلامک بُک فاؤنڈیشن دہلی سے شائع ہوئی ہے۔معروف اسلامی مفکرمولاناسلطان احمد اصلاحیؒ نے پیش لفظ میںکتاب کی موضوعاتی اہمیت اور اس کی عصری حسّیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اِ س کے تحقیقی اسلوب کوسراہا ہے اور اِسے وقت کی بڑی ضرورت قرار دیاہے۔ چچاؒ کی وفات پرقطر سے اُن کے دوستوں کی طرف سے جو تعزیتی تحریریں آئیں اُن کے کچھ اقتباسات مضمون کی ابتدا میں نقل کیے گیے ہیں،کم و بیش سبھی نے اپنے تأثرات میں اُن کے اخلاقی محاسن کا تذکرہ کیا ہے،اُن کے احباب جو اُن کے معاملات کے شاہد رہے ہیں،نیک اور رفاہی کاموںمیں اُن کے جذبۂ سخاوت کی بہت کھل کر تعریف کی ہے۔قدرت نے انہیں مالی فراخی عطاکرنے کے ساتھ ،فراخ دل بھی بنایاتھا،اعزہ واقربا اور اہلِ خانہ کے ساتھ اُن کے معاملوں سے ہم سب واقف تھے ،لیکن وفات کے بعدجوواقعے سامنے آئے ،وہ اُن کی بیوی اوربچوں تک کے علم میںنہیںتھے۔چچا کی علالت کی خبر سن کراُن کے بڑے صاحبزادے محمد طارق جو انجینیرہیں اور سعودی کی ایک بڑی کمپنی میں ملازم ہیں، تیمارداری کے لیے قطر آگیے تھے،انہوں نے بتایا کہ پاپاکو دیکھنے کے بعدایسا بالکل نہیں لگ رہاتھاکہ انہیں کوئی بیماری ہے،ہمیشہ کی طرح وہ بالکل ہشاش بشاش تھے اورکسی بھی اندیشے سے ہم بے پروا تھے اور یقین تھاکہ آپریشن کے بعد صحت یاب ہوکروہ زندگی کے معمولات کوپہلے کی طرح پھر انجام دینے لگیں گے۔طارق بتاتے ہیں کہ صحت یابی کے بارے میں پُرامید ہونے کے باوجودانہوں نے وہ ساری باتیں مجھ سے کیں جو پہلے کبھی نہیں کی تھی جیسے اثاثوں اور اکاؤنٹ کی تفصیلات،ان کے نمبر اور کوڈ وغیرہ،اس موقع پر انہوں نے بتایاکہ کچھ لوگوں کے تعاون کے لیے انہوں نے ایک رقم مختص کررکھی ہے جو ماہانہ انہیں بھیجتے رہتے ہیں،یہ معتد بہ رقم تھی ،اتنی کہ اس سے کئی غریبوں کی پرورش ہوجائے۔قطر میں چچاؒ کی رہائش بہاء الدین ندوی صاحب کے ساتھ تھی،گویا گھر سے دفتر تک دونوں ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے،چچا کی وفات پر وہ کہنے لگے کہ اب میں بے سہارا ہوگیاہوں،وہ چچاؒ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتانے لگے کہ چونتیس سالہ رفاقت میںکبھی ایسا نہیں پایاکہ کسی نے دستِ سوال درازکیا ہواور اسے محرومی ہوئی ہو، اکثر ایسا بھی ہواکہ راہ چلتے کوئی سائل مل جاتا اور میں ٹوکتاکہ یہ فی الواقع ضرورت مند نہیں معلوم ہورہاہے توکہتے کہ جب اس نے خودداری مجروح کر کے ہاتھ پھیلاہی دیاہے تو اتناضرور دے دیناچاہیے کہ ایک وقت کا کھانا تو کھاہی لے۔میرے علم میں ایسے کئی واقعات ہیںجن سے اُ ن کے رفاہی جذبوں کاپتہ چلتا ہے ،اکثر دیکھاکہ لوگ اپنی حاجت کے لیے بچوں کی شادی بیاہ کے موقعوں پر انہیں بڑی امید سے یادکیا کرتے تھے،حتیٰ المقدور وہ بھی اعانت کے ایسے کاموں کے لیے ہمیشہ حاضر رہتے تھے۔
چچاؒ11جولائی1980کوچچی نوشابہ خاتون کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے،دونوں 41برس سے کچھ زائد عرصہ شریکِ حیات رہے ہیں۔چچی نے ہر لحاظ سے ’نصف بہتر‘ ہونے کا ثبوت دیا،اُن کی معاملہ فہمی اور حسنِ تدبیر نے چچاؒ کی خانگی زندگی کوخوش گوار بنانے میں بڑااہم رول ادا کیا ہے۔انہوں نے گھریلو ذمہ داریوں سے چچاؒ کو بے نیاز کرکے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا فریضہ ایک طرح سے تن تنہا انجام دیاہے،یہ اُن کی سلیقہ شعاری کا نتیجہ ہے کہ دونوں بیٹے محمد طارق اور محمد شارق اور بیٹی عفرہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ اچھے اخلاق اور عمدہ کردار کے حامل ہیں۔
چچاؒ نے جامعہ دارالسلام عمرآباد سے فراغت کے بعد مولاناآزادتعلیمی مرکز اُسرہٹہ شاہ گنج میں چند ماہ تدریسی خدمت انجام دی،پھر مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد شیخ عبداللہ بن باز کے مندوب کے طور پرمبعوث ہوکر ہندوستان آئے اور29 جولائی 1985کوادارہ علوم القرآن علی گڑھ سے بحیثیت سکریٹری وابستگی اختیار کی،یہ سلسلہ اپریل1987تک رہا،اسی اثناقطر کی وزارتِ داخلہ(ministry of interior)کے ایک اہم شعبہ میں بطور آفیسر تقرر کے بعدوہاں چلے گیے اوردمِ آخرتک وہیں رہے،وہاں اُن کا قیام تقریباً34برس رہاہے۔حسنِ خدمت کے صلہ میں قطری حکومت کی طرف سے کچھ ملازمین کو permanent resident cardدینے کا فیصلہ لیاگیاتھا،اس فہرست میں چچا محترم کانام بھی شامل تھا،اس کارڈ کے ذریعہ قطر میں وہ تمام شہری سہولیات کے مجاز ہوجاتے،ابھی اس کے کاغذات ملنے والے ہی تھے کہ وقت ِموعود آگیا۔
چچاؒ نے 63سے64برس کے درمیان عمر پائی، یہ عرصۂ حیات بھلے بہت طویل نہ ہو،لیکن زندگی نے جتنا وقت دیا،اس کا ایک ایک لمحہ بھر پور انداز میںاور پُروقار صورت میں گزارا۔انہوں نے زندگی ایک مقصد کے ساتھ گزاری اور یہ مقصدصرف اُن کی ذات سے وابستہ نہیں تھا،بلکہ گھرخاندان،خویش و اقارب اوراُن کے سماج اور معاشرے کے لوگ بھی اس مقصدِ حیات کے دائرہ میں شامل تھے۔زندگی کی صحیح تعبیر یہی ہے کہ جو اپنے ساتھ ساتھ، اپنوں کے لیے بھی جی جائے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں