اتر پردیش میں جمہوری احتجاجات کو دبانے اور حقوق انسانی کی پامالیوں کے خلاف سماجی ومذہبی رہنماؤں کا مشترکہ بیان

0
1009
فائل فوٹو
All kind of website designing

نئی دہلی : پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے شہریت ترمیمی بل پاس ہونے کے بعد سے ملک کے تقریباً سبھی شہروں اور گائوں میں بڑے پیمانے پر عوامی احتجاجات اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ملک جن اقدار پر قائم ہے، ان کے خلاف لائے گئے اس قانون کی مخالفت میں لوگوں کا غصہ اچانک پھوٹ پڑا ہے۔مظاہروں میں ہندوستانی سماج کے تمام طبقات کے لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ پُرامن و جمہوری مظاہروں میں طلبہ، سیاسی پارٹیاں، حقوق انسانی کے کارکنان وجماعتیں اور تنظیمیں سبھی نے حصہ لیا ہے۔ یہاں تک کہ ملک بھر میں ایک ہی وقت میں ہوئے ہزاروں لوگوں پر مشتمل مختلف پروگراموں میں کہیں بھی لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ سامنے نہیں آیا۔ بیشتر ریاستوں میں قانون نافذ کرنے والے حکام ہر طرح سے تعاون کرتے نظر آئے ہیں۔لیکن، بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں پولیس نے خواتین، بچوں اور بزرگوں سمیت لوگوں کے ساتھ بربریت اور تشدد کا رویہ اپنایا۔ حتیٰ کہ ایسے لوگوں کی بھی بے رحمی سے پٹائی کی گئی جو کسی بھی مظاہرے میں شامل نہیں تھے۔ اتر پردیش میں پولیس نے سب سے زیادہ مسلم طبقے کے خلاف ایسی بربریّت دکھائی، جس کی مثال نہیں ملتی۔ پولیس افسران کو دیکھا گیا کہ وہ قانون کا کوئی خیال کئے بنا، گھروں میں گھس رہے ہیں، املاک کو برباد کر رہے ہیں، گھر والوں یہاں تک کہ خواتین اور بچوں کو پیٹ رہے ہیں، انہیں گالیاں دے رہے ہیں اور انہیں علاقہ چھوڑ کر جانے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے مظاہرین کو دوڑا دوڑا کر پیٹا اور ان پر گولیاں چلائیں۔ ریاست کے اندر مظاہروں کے دوران مرنے والے ۲۱ میں سے ۱۸؍افراد کی موت گولی لگنے سے ہوئی۔ ہزاروں بے قصور لوگوں کے ساتھ متعدد معروف سماجی کارکنان اور تنظیموں کے لیڈران ابھی بھی جیلوں میں قید ہیں۔ میڈیا سے ایسی خبریں بھی ملی ہیں کہ پولیس کی حراست میں مدرسے کے بچوں پر جنسی حملہ بھی کیا گیا، اس کی باریکی سے عدالتی تفتیش ضرور ہونی چاہئے۔ پولیس کی اب تک کی کاروائی اترپردیش کے لوگوں کے لئے ایک بھیانک یاد بن گئی ہے۔
بے گناہ لوگوں کے خلاف اپنے جرائم اور مظاہرین کے جمہوری حقوق کی پامالی کی وجہ سے یوپی پولیس کا چہرہ سب کے سامنے کھل گیا ہے۔ اب یہ لوگ مظاہروں میں حصہ لینے والے لوگوں اور جماعتوں کو بدنام کرکے ان کا حوصلہ توڑنا اور لوگوں کے درمیان تذبذب اور انتشار کی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یوپی پولیس کے اعلیٰ افسران اب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ تمام مظاہروں کے پیچھے پاپولر فرنٹ کا ہاتھ ہے اور مبینہ طور پر وہ ریاست میں تنظیم پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ پوری طرح سے حقائق کے خلاف بات ہے۔ جو بھی مظاہرے ہوئے یا ہو رہے ہیں وہ تمام لوگوں کی اجتماعی تحریک ہیں۔ ان میں کسی ایک تنظیم، پارٹی یا شخص کی قیادت یا سربراہی نہیں رہی ہے۔ یوپی حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ سیاسی انتقام اور بدنام یا برباد کرنے کی چال ہے۔ہم اس کو نہیں مانتے اور ہم پاپولر فرنٹ آف انڈیا سمیت کسی بھی تنظیم یا شخص کو مظاہروں میں حصہ لینے کی وجہ سے دبانے اور بدنام کرنے کی افسران کی ہر کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔ مظاہروں کے دوران مظاہرین پر سیدھے فائرنگ کرکے ان کے قتل سے یوپی پولیس انکار کر رہی ہے اور وہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا جیسی تنظیم اور کارکنان کا نام لے کر میڈیا اور عوام کی توجہ بھٹکانا چاہتی ہے۔ ہم یوپی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سبھی گرفتار شدہ بے قصور لوگوں کو فوری طور پر رہا کرے اور پولیس کے مظالم پر غیرجانبدارانہ تفتیش شروع کرے۔ ساتھ ہی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے افسران کے خلاف بھی ہم تادیبی کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہیں ہم ملک کے عوام سے بیدار رہنے اور انجمن کی آزادی کے ہمارے آئینی حق کے انکار کے خلاف آواز بلند کرنے کی بھی اپیل کرتے ہیں۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here