ایران سے مذاکرات کی خاطر تجارتی پابندیوں کو ختم نہیں کیا جائے گا: جو بائیڈن

0
990
All kind of website designing

امریکا- سعودی تعلق کا انحصارغیر جمہوری رویہ چھوڑنے پر ممکن

واشنگٹن : امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ایران پر عائد تجارتی پابندیوں کو اس وقت تک نہیں ہٹایا جائے گا جب تک وہ سنہ 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کی شرائط کو پورا نہیں کرتے۔انہوں نے یہ بات اتوار کو سی بی ایس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی ہے۔ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ تہران صرف اس شرط پر سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کی تعمیل کرے گا اگر امریکہ اس پر عائد تجارتی پابندیوں کو ختم کرے۔
سنہ 2015 میں صدر اوباما کے دور میں امریکہ اور ایران کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد ایران پر عائد تجارتی پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔مگر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2018 میں اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر کے ایران پر دوبارہ جوہری پابندیاں عائد کر گئی تھیں۔ اس طرح ایران نے بھی معاہدے کی تعمیل کو روک کر یورینیم کی افزودگی شروع کر دی تھی۔ایران کے مطابق اس کا جوہری منصوبہ پُرامن ہے۔ تاہم اطلاعات کے مطابق اس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اجازت سے کہیں زیادہ یورینیئم کی افزودگی شروع کر دی تھی۔ یورینیئم کی افزودگی کو جہاں ایک ری ایکٹر کے ایندھن کے طور پر استعمال کر کے اس سے توانائی پیدا کی جا سکتی ہے وہیں اس سے نیوکلیئر بم بھی بنایا جا سکتا ہے۔
سنہ 2015 کے جوہری معاہدے میں ایران، امریکہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ شریک تھے۔ تہران نے یورینیئم کی افزودگی کو محدود کرنے کی حامی بھری تھی اور بین الاقوامی نگراں اداروں کو اجازت دی تھی کہ وہ ایرانی تنصیبات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔اس کی بدولت ایران پر عائد تجارتی پابندیاں ختم کر دی گئی تھیں۔لیکن ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ نے یہ معاہدہ ختم کر دیا تھا۔ ایران پر نئی معاشی پابندیاں عائد کی گئی تھیں تاکہ ایران کے ساتھ ایک نیا معاہدہ طے کیا جا سکے۔ اسے جوائنٹ پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کہا گیا تھا۔ٹرمپ تہران کے جوہری منصوبے کو مزید محدود کرنا چاہتے تھے اور اس کی جانب سے بیلسٹک میزائل کے منصوبے کو بھی روکنا چاہتے تھے۔
ایران نے اس سے انکار کر دیا تھا۔ جولائی 2019 میں ایران نے یورینیئم کی افزودگی کی 3.67 فیصد کی حد سے تجاوز کیا تھا اور رواں سال جنوری میں یورینیئم کی 20 فیصد تک افزودگی جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ ہتھیاروں کے لیے یورینیئم کا 90 فیصد خالص ہونا ضروری ہوتا ہے۔اتوار کو اس انٹرویو کے ایک چھوٹے کلپ میں بائیڈن سے پوچھا جاتا ہے کہ آیا امریکہ ایران سے مذاکرات کے لیے پہلے معاشی پابندیاں ختم کریں گے۔ انھوں نے ’نہیں‘ کا جواب دیا تھا۔ اتوار کو ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والے اپنے بیان کے مطابق علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران صرف اس صورت میں معاہدے پر واپس آئے گا کہ اگر امریکہ تمام پابندیوں کو ختم کرتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ آیا نیک نیتی کے ساتھ اس پر عمل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہم اپنے عہد پر واپس آ جائیں گے۔‘ یہ ناقابل واپسی اور آخری فیصلہ ہے اور تمام ایرانی اہلکاروں نے اس پر اتفاق کیا ہے۔صدر بائیڈن نے امریکہ اور چین کے تعلقات پر بھی بات کی۔ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ واشنگٹن بیجنگ کے ساتھ براہ راست کسی جھگڑے میں دھکیلا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین عالمی معاشی سطح پر ’سخت مقابلہ‘ کریں گے۔بائیڈن نے کہا کہ انھوں نے گذشتہ ماہ صدر بننے کے بعد سے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے تاحال بات نہیں کی۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے بیجنگ کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔بائیڈن نے شی جن پنگ سے متعلق کہا کہ ’وہ بہت عقل مند ہیں۔مگر ان کے جسم میں کوئی جمہوری ہڈی نہیں۔
دوسری جانب خارجہ پالیسی سے متعلق اپنی پہلی اہم تقریر میں صدر بائیڈن نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ‘یمن میں جنگ ختم ہونی چاہیے۔سنہ 2014 میں یمن کی کمزور حکومت اور حوثی باغیوں کے مابین تنازع شروع ہوا۔ ایک سال بعد تنازعے نے اس وقت شدید شکل اختیار کرلی جب سعودی عرب سمیت آٹھ عرب ممالک نے امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی حمایت سے حوثی باغیوں پر فضائی حملے شروع کر دیے۔ اور یہ حملے ہنوز جاری ہیں۔جو بائیڈن نے جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بہت سے اہم فیصلے کیے ہیں اور اپنے پیش رو صدر کے کچھ فیصلوں کو الٹ دیا ہے۔انھوں نے امریکہ میں آنے والے تارکین وطن کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور جرمنی سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے فیصلے کو واپس لیا ہے۔ یہ فوجی دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے ہی جرمنی میں ہیں۔
صرف یہی نہیں، بائیڈن کے زیرقیادت امریکی حکومت سابق صدر ٹرمپ کے دور میں عرب ممالک کے ساتھ اربوں ڈالر کے فوجی معاہدوں کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔امریکہ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسلحہ کی فروخت کے سودوں کو بھی عارضی طور پر معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اثر ایف 35 جنگی طیاروں کے معاہدے پر بھی پڑے گا۔امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو گائیڈڈ میزائلوں کی فروخت بھی روک رہا ہے۔ اس سے یمن کی جنگ تو متاثر ہوگی لیکن جزیرۃ العرب میں القاعدہ کے خلاف جنگ پر اثر نہیں پڑے گا۔دریں اثنا صدر بائیڈن کی جانب سے سعودی عرب کی فوجی مہم میں امریکی حمایت روکنے کے بعد سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ یمن میں ‘سیاسی حل کے لیے پر عزم ہے۔سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق سعودی حکومت نے کہا: ‘سعودی عرب، یمن بحران کے جامع سیاسی حل کی حمایت کے اپنے عزم کا اعادہ کرتا ہے اور امریکہ کی جانب سے یمن بحران کے حل کی سفارتی کوششوں کا پرزور خیرمقدم کرتا ہے۔سعودی عرب نے بائیڈن کی جانب سے سعودی عرب کی خودمختاری کے تحفظ اور اس کے خلاف خطرات سے نمٹنے میں تعاون کے عزم کا بھی خیرمقدم کیا ہے۔سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے ٹویٹر پر لکھا: ‘ہم بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے، خطے میں ایران اور اس کے اتحادیوں کے حملوں سے نمٹنے کے لیے صدر بائیڈن کے عزم کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم گذشتہ سات دہائیوں کی طرح امریکہ میں اپنے تمام دوستوں کے ساتھ کام کرنے کے متمنی ہیں۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here