ڈاکٹر اسلم جاوید
وطنِ عزیز میں آئندہ عام انتخابات کے لیے سیکولرجماعتوں اور دیگر مختلف علاقائی پارٹیوں کی جانب سے تیسرے محاذ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔گزشتہ ہفتہ اس محاذ کی ایک ریلی جنوبی ریاست کرناٹک کے بنگلور شہر میں منعقد کی گئی تھی۔ریلی میں محاذ تشکیل دیے جانے کا اعلان کرتے ہوئے مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری پرکاش کرات نے کہا کہ سبھی جمہوری، سیکولر اور بائیں بازوکی جماعتوں کا تیسرے محاذ کے لیے ایک ساتھ ہونا ایک تاریخی موقع ہے۔ تیسرا محاذ عوام کے لیے فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف سیکولرزم کی لڑائی کے لیے کھڑا رہے گا اور غریب طبقے کے لیے لڑے گا۔اس ریلی میں پر زور طریقے سے یہ بات کہی گئی کہ مستقبل میں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ کسی بھی قسم کا س
مجھوتا نہیں کیا جائے گا۔تیسرا محاذ کے قیام اور انتخابی معرکہ میں اترنے کیلئے یہ ایک نیا متبادل رہے گا جس میں نہ تو کانگریس رہے گی اور نہ ہی بی جے پی۔ لوگوں اور پارٹیوں کو ماضی کا تجربہ ہو چکا ہے ۔ اس لیے اقتصادی پالسیوں، عوام کے سوالات اور بیرونی پالسیوں پر ہم سبھی جماعتیں ایک ساتھ رہیں گے۔گزشتہ دنوں سابق وزیر اعظم اور جنتا دل سیکولر یعنی جے ڈی ایس کے سربراہ ایچ ڈی دیوی گوڑا نے تیسرا محاذ تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔ دیوی گوڑا کا کہنا تھا کہ تیسرے محاذ میں بائیں بازو کی جماعتوں سمیت آٹھ پارٹیاں شامل ہوں گی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ تیسرے محاذ کے قیام میں لیفٹ کی دیرینہ حریف ممتا بنرجی کا رخ کیا رہتا ہے۔اگر ممتا بنر جی نے بی جے پی کیخلاف اتحاد کیلئے زہر کا گھونٹ پیتے ہوئے بایا ں محاذ کو قبول کرلیا تو یقین مانا جائے کہ یہ اتحاد بی جے پی کے لئے انتہائی سنگین حالات پیدا کرسکتا ہے۔حتی کہ اس کی جیت کی راہیں بھی مشکل ہوسکتی ہیں۔یہ تجزیہ کسی ایک فرد کا نہیں ہے بلکہ ملک و بیرون ملک موجود پالیٹیکل انالسس ایجنسیاں بھی یہی بتارہی ہیں۔ایسے میں بی جے پی پر ہار کا خوف سوار ہونا فطری بات ہے۔اگر آج پارٹی کے قومی صدر امت شاہ،مرکزی وزیر روی شنکر پرشاداور لکشمی کانت واجپئی جیسے لوگ بے تکی بیان بازی پر اتر چکے ہیں تو یہ اسی خوف کا نتیجہ ہے جس کے تصور کے درمیان پارٹی اعلی کمان حواس باختہ دکھائی پڑتی ہے۔واضح رہے کہ بی جے پی کیخلاف سیکولر فورس کو متحد اور منظم کرنے کیلئے ہندوستانی جمہوریت اور ملک سیکولر آئین کو اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز رکھنے والے معزز لیڈران اور زمینی طور پرکچھ مضبوط پارٹیوں نے جیسے ہی تیسرے محاذ کے قیام کی سرگر میاں کیا شروع کی ہیں ۔تب سے ہی بھگوا خیمہ میں بھونچال سا آ گیا ہے ۔صورت حال یہ ہے کہ اب پارٹی کے بڑے لیڈران او راعلیٰمنصب پر فائزعہدیدا ران کی بھی زبانیں قابو سے باہر ہونے لگی ہیں۔وہ بے چینی اور اضطراب میں کیا کیا بکے جارہے ہیں اس کا بھی انہیں خیال نہیں رہتا۔اس سے اندازہ ہونے لگا ہے کہ شاید پارٹی کے تجزیہ نگاروں کو یہ یقین ہوتاجارہا ہے کہ اب چاہے جو کرلیں وہ ملک کو ہندو مسلم ۔مسجد۔مندر اور ہندوتوا ایجنڈے پر بے وقو ف بنا کر اپنا الو سیدھا نہیں کرسکیں گے۔انہیں یہ خیال بار بار ستانے لگا ہے کہ اس بار تو ملک کو دکھانے کیلئے گجرات ماڈل کی بھی ہوا نکل چکی ہے۔ترقی کے سارے وعدے صرف فریب اور سراب ہی ثابت ہوئے ہیں۔روزگار دینے کے بجائے حکومت کی کارپوریٹ نواز پالیسیوں نے غریب ،مزدور اور کسان طبقہ کو شدید مایوسی میں مبتلاکردیا ہے۔پارٹی کی سینئر قیادت کے منہ پرہوائیاں اس لئے اڑ رہی ہیں کہ انہوں نے گزشتہ چار برس کی مدتِ حکومت میں عوام سے کئے وعدے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ ،سالانہ ایک کروڑ روزگار اور سوئس بینک میں موجود ٹیکس چوروں کے لاکھوں کروڑ روپے واپس لاکر ملک کے ایک ایک خاندان کے اکاؤنٹ میں ۱۵۔۱۵لاکھ روپے جمع کرائیں گے۔مگر اس وعدوں کی سچائی یہ ہے کہ ان کی حقیقت ’’جملے بازی‘‘ سے آگے اپنے اندر کوئی چمک باقی نہیں رکھ سکی۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس سطح کی وعدہ خلافی اور اس کے بعد ملک میں دھرم کی سیاست،نفرت اور انارکی پھیلاکر اقتدارکے مزے لوٹنے کے حربے کو عوام اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور حالات بتا رہے ہیں کہ مار دھاڑ کی یہ پالیسی اختیار کرکے وہ کسی بھی ہندوستانی عوام کے دلوں میں بہت دنوں تک اپنے لئے جگہ بنائے رکھنے میں کامیاب نہیں رہ سکیں گے۔مذہب کی بنیاد پرجذباتی بلیک میلنگ کی شعبدہ بازی اسی وقت تک کامیاب رہ سکتی ہے جب تک عام آدمی کے پیٹ میں روٹی موجود ہو۔مگر پیٹ کی آگ ،بھکمری اور دوجون کی روٹی کی ضرورت جب انسان کو مجبور کرتی ہے تو وہ پھر اپنے مذہب کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔دنیا جانتی ہے کہ پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے جب ایک ابھاگن اپنی حیااور عصمت تک داؤپر لگا سکتی ہے تو مذہب کیا چیز ہے۔یہ بات ملک وبیرون ملک کے میڈیا اہلکاروں اورسیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی زبان سے عام سننے کو مل رہی ہیں کہ کانگریس کی جس پالیسی کی بی جے پی کے مقبول رہنما اٹل بہاری واجپائی زندگی بھربخیہ ادھیڑتے رہے اور اس کے نتیجے میں عوام نے اٹل جی کو 6برس تک ملک کو چلانے کا موقع بھی دیا۔ مگر وہ بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی اپنی کہی ہوئی ساری باتیں بھول گئے اور کانگریس کی راہ پر ہی حکومت چلانے پر مجبور ہوئے۔بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈروں نے بارہا یہ بھی کہا تھا کہ ملک کو جن راستوں پر انگریز چلاتے تھے ’’گاندھی پریوار‘‘ نے بھی اسی پر چلایا اور غلامی کا ثبوت دیا۔ اگر ہمیں موقع ملا تو ہم ہر نقش کہن کو مٹا دیں گے اور انڈیا کو بھارت بنا دیں گے۔ اٹل جی تو چھ برس ان ہی راستوں پر چل کر اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ ان کے چاہنے والوں نے کہہ دیا کہ وہ کوئی بڑی تبدیلی اس لئے نہ کرسکے کہ بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل نہیں تھی۔ قدرت نے اس بار 282 سیٹیں بی جے پی کو دے کر یہ کہنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا کہ کوئی تبدیلی کیسے کریں کہ مکمل اکثریت ہمارے پاس نہیں ہے۔آج سے پانچ برس پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک بھر میں ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کا نعرہ دیاتھا ،پھر ان کی کیا مجبوری ہے کہ وہ بھی ملک کی داخلہ یا خارجہ اوردفاعی پالیسی میں کانگریس سے مختلف کچھ بھی نہیں کرسکے ،جس سے یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ پارٹی کے پراپیگنڈہ ’’ بھارت اور بھارتیتہ‘‘کی صحیح نمائندگی بی جے پی کی موجودہ مودی حکومت نے کی ہے۔
چونکہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا جا سکا جس کی طرف عوام کو راغب کیا جاسکے اور ان کے پاس عوام کے سوالوں کا جواب دینے کیلئے الفاظ بھی نہیں بچے ہیں ،لہذا سطحی سیاست شروع کردی گئی ہے اور اب بے ساختہ بی جے پی لیڈران کی زبانوں سے گالیاں بھی نکلنے لگی ہیں۔یہ اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ پارٹی پر پسپائی کا خوف سوار ہوچکا ہے اور یہ بے لگام بدزبانی ان کی کھسیاہٹ کا نتیجہ ہے۔ادھر کئی دنوں سے بی جے پی کے صدر امیت شاہ کا بیان سیاسی گلیوں میں شدید تنازع کا موضوع بن گیا ہے۔ ہفتہ کو بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن پارٹیوں موازنہ سانپ، بلی اور کتوں سے کرنا امت شاہ اور بی جے پی اوچھی ،نیچ اور ان کے اندر جنگلی ماحول کا پتہ دیتا ہے۔امت شاہ کے علاوہ بی جے پی کے سیاسی لیڈروں خاص طور پروہ لوگ جن کا تعلق تعلیم یافتہ اور مہذب خاندانوں سے تھا وہ لوگ بھی اپنی خاندانی روایت کو بالائے طاق رکھ کر اسی قسم کی بازاری زبان کا استعمال کیا تھا اور ان سبھی بی جے پی لیڈ ران کے مغرور اور تکبر سے بھری ہوئی بیان بازیوں نے پارٹی کو گورکھپور اور پھول پور لوک سبھا ضمنی انتخاب میں شدید نقصان سے دوچار کیا تھا ،جس کی تلملاہٹ ابھی بھی پارٹی کے اندر صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ضمنی انتخابات کے دوران وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ،لکشمی کانت واجپئی اور روی شنکر پرساد نے بھی ایسی ہی بھدی زبان کا استعمال کیا تھا، جس کا عوام نے سخت جواب بھی دیا تھا۔ اس کے باوجود، بی جے پی کی قیادت کا غرور کم نہیں ہوسکا ۔بی جے پی اوراس کے قومی صدر امت شاہ کو یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہئے کہ اس قسم کی بازاری زبان سے نقصان کے علاوہ کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔نہ آج کے سنجیدہ اور پڑھے لکھے ہندوستانی سماج کو مسلمان،پاکستان اور قبرستان شمشان جیسے ایشوز رجھانے میں کارگر ثابت ہوپائیں گے۔
09891759909
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں