عمر فراہی
“آج سے پچپن برس پہلے ایک حادثہ بر صغیر میں ہوا وہ انگریزوں کی دین تھا ۔میرے دادا اپنی گٹھری اٹھاۓ ہوۓ ہندوستان چھوڑ کر جا رہے تھے ۔دلی پہنچے مولانا آزاد کی تقریر سنی, وہ کہہ رہے تھے کہ یہ جمنا کا پانی تمہارے بزرگوں نے کبھی اسی کے پانی سے وضو کیا تھا ۔یہ جامع مسجد کے مینار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ تم کہاں جارہے ہو !
کیا تم نے فرار کو ہجرت سمجھ لیا ہے ۔میرے دادا نے سوچا کہ یہ ستر سال کا بوڑھا شخص باتیں تو بہت اچھی کرتا ہے مگر اپنی باتوں پر عمل نہیں کر پاۓ گا !
آگے بڑھے مہاتما گاندھی اپنی لاٹھی لئے کھڑے تھے ۔گاندھی جی نے کہا ایشور اللہ تیرے نام سب کو سنمت دے بھگوان ۔
کہاں جارہے ہو رکو یہیں رہو۔
میرے دادا نے کہا کہ یہ شخص اپنی لاٹھی کے سہارے خود اکیلے نہیں کھڑا ہو سکتا تو میری حفاظت کیسے کرے گا !
آگے بڑھے تو دیکھا جواہر لال نہرو بھارت کا سنویدھان لئے ہوئےکھڑے ہیں ۔انہوں نے کہا کہاں جارہے ہو ۔میرے دادا نے کہا اب یہاں نہیں رہ سکتا ۔حالات بہت خراب ہیں ۔نہرو جی نے کہا یہ سنویدھان تمہاری حفاظت کرے گا ۔میرے دادا نے کہا اس میں کیا لکھا ہے ۔نہرو جی نے کہا ,
سیکولرزم ,سوشلزم اور ڈیموکریسی
میرے دادا نے گٹھری وہیں رکھ دی اور واپس چلے آۓ۔
دوستو جب تک یہ سنویدھان باقی ہے سیکولرزم سوشلزم اور ڈیموکریسی باقی رہے گی تب تک ہندوستان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔مخالف ہوائیں آتی رہیں گی اور چلی جائیں گی “
جشن جمہوریہ کے موقع پر منعقد کسی مشاعرے کی استقبالیہ تقریر میں یہ مرحوم انور جلال پوری کے الفاظ ہیں جس میں انہوں نے ہندوستان کے سیکولر کردار کے تین ایسے محافظین کو پیش کیا ہے جن میں سے ایک ابوالکلام آزاد جو دلی کے فساد میں پولیس کے ذریعے بے قصور مسلمانوں کی گرفتاری پر اپنے ہی ملک کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے سامنے اسی طرح بے بس تھے جیسے آج حکومت کے سامنے کسان سراپا احتجاج ہیں اور حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ۔
سچ تو یہ ہے کہ جس وقت ابوالکلام آزاد رحمت اللہ علیہ جامع مسجد کی سیڑھیوں سے تقریر کر رہے تھے یا جس وقت انور صاحب کے دادا گٹھری اٹھا کے پاکستان جانے کیلئے دلی گئے اس وقت ہندوستان کا اپنا کوئی سنویدھان تخلیق میں نہیں آیاتھا ۔26نومبر 1949کو آئین کو پارلیمنٹ میں منظوری ملی اور 26جنوری 1950 کو اس کا نفاذ شروع ہوا ۔یہ بھی سچ ہے کہ آزاد نے جامع مسجد سے اس وقت کوئی تقریر ہی نہیں کہ جب لوگ دلی سے ہجرت کر کے پاکستان جا رہے تھے ۔یہ تقریر تین مہینے بعد کی ہے جب طوفان تھم گیا تھا ۔کہتے ہیں کہ آزاد صاحب بٹوارے کے غم میں ڈپریشن کا شکار ہو گئے تھے ۔یہ صدمہ اور مایوسی کا حملہ جناح کے فیصلے سے تھا یا ان کے ساتھی کانگریسی لیڈران کی بے وفائی سے جنھوں نے آزادی ملتے ہی آزادکو کسی بھی ملکی سیاسی فیصلوں کی ذمداری سے آزاد کر دیا ۔یہ بات بھی شاید شورش کشمیری کو ہی پتہ ہو لیکن آزاد صاحب نے اپنی کتاب میں بٹوارے کا ذمدارنہرو اور پٹیل کو قرار دیا ہے اس لئے اندازہ ہوتا ہے کہ آزاد بھی اس وقت کی دو قد آور شخصیات کے فیصلے اور بدلے ہوۓ رخ سے بدظن تھے جیسے کہ آج ملک کی دو قد آور شخصیات کے سامنے حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتیں سر بسجود ہیں ۔
خیر مرحوم انور جلال پوری نے اپنے افسانے میں اس دادا والےکردار سے ابوالکلام آزاد صاحب کی شخصیت پر ایک طنزیہ جملے کا استعمال کیا ہے کہ یہ ستر سال کا بوڑھا کیا اپنی باتوں پر عمل بھی کر پاۓ گا ؟ ایک لیٹریچر کے طالب علم ,شاعر اور افسانہ نگار کی گفتگو بھی اتنی ہی الجھی ہوتی ہے جتنا کہ ہمارے سنویدھان پر لکھے سیکولرزم سوشلزم اور ڈیموکریسی کے نظریہ سیاست کی تشریح بھی ادھوری ہے۔مثال کے طور پر مسلمان کہتا ہے کہ بند ماترم کا کلمہ اس کے عقیدے سے متصادم ہے پھر بھی نرسمہا راؤ کی حکومت میں ہندوستانی پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ ہاؤس میں راشٹریہ گان کے طور پر پڑھنالازمی قرار دے دیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسے پارلیمنٹ کی اکثریت نے پاس کیا مگر سوال اٹھتا ہے کہ ملک کے ایک سب سے بڑے طبقے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا کر بھی کیا سیکولرزم سوشلزم اور ڈیموکریسی کا وقار بلند رہ سکتا ہے ؟
یہ وہی سنویدھان ہے جس کی رچنا بھیم راؤامبیڈکر کے ہاتھوں ہوئی تھی اور اسی امبیڈکر نے سنویدھان لکھنے کے بعد اپنا مذہب تبدیل کرلیا۔اگر اس سنویدھان سے دلتوں کا وقار بحال ہو سکتا تھا تو امبیڈکر کو بودھ مذہب قبول کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
خیرآزادی سے پہلے تک نہ تو کسی سنویدھان کا وجود تھا اور نہ ہی سنویدھان پر لکھے جانے والے الفاظ کا تصور !
پھر بھی ابوالکلام کو پہلے سے زیادہ اہمیت حاصل تھی اور گاندھی کو کسی سنویدھان نے مہاتما نہیں بنایا اور پھر بھی ہم نے آزادی بھی حاصل کی ۔اس افسانے کی شروعات میں مصنف نے کہا ہے کہ آزادی کے بعد بر صغیر میں بٹوارے کی شکل میں جو حادثہ پیش آیا وہ انگریزوں کی دین تھی ۔حالانکہ میں اس نظریے کا قائل نہیں ۔پھر بھی اگر بٹوارہ برا تھا اور یہ انگریزوں کی دین تھی تو پھر آج جس سنویدھان پر ہمارا ایمان ہے یہ کس کی دین ہے ؟
اس سنویدھان پر لکھے الفاظ۔۔۔۔
Secularism… socialism… democracy
کا تصور ہمارے ذہنوں میں کہاں سے آیا ؟
جس کے مفہوم کو ٹھیک طریقے سے شاید آزاد صاحب بھی سمجھنے سے قاصر تھے انور جلال پوری صاحب کے دادا کو کیسے سمجھ آگیا ۔
سوال یہ بھی ہے کہ سنویدھان ہے کیا ؟
کسی بھی ملک میں امن و انصاف قائم کرنے کے لئے حکمراں جماعت اور شہریوں کے درمیان جو اصول بنائے جاتے ہیں اسے سنویدھان اور دستور کہتے ہیں ۔سنویدھان خود سے نافذ نہیں ہوتا بلکہ سرکاری اہلکار اور حکمرانوں کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے ۔سوال پھر اٹھتا ہے کہ جب اس کتاب کو نافذ کرنے والوں کی نیت ہی صاف نہ ہو اور وہ بدعنوان ہوں تو صرف ایک کتاب پر لکھے الفاظ سے لوگوں کی حفاظت کیسے ہو سکتی ہے ؟
جیسا کہ یہی حال اہل کتاب کا بھی ہے ۔جمنا کے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھنے والے ابھی بھی اس ملک میں پچیس کروڑ کی تعداد میں ہیں لیکن نہ تو لوگوں پر اس کتاب کو نافذ کرنے والی کوئی جماعت ہے اور نہ اب وہ تصور ہی باقی رہا کہ اب اس کتاب کے احکامات کو نافذ کرنے کی کوئی سبیل بھی نکل سکتی ہے ۔اگر اس کتاب پر مسلمانوں کا یقین مضبوط ہوتا تو افسانہ نگار ابوالکلام کے ہاتھ میں قرآن مقدس تھماتا اور وہ دادا جی سے کہتے کہ رک جاؤ۔کیا تمہیں اس کتاب پر یقین نہیں ہے!
دادا جی پھر یہ بھی نہ پوچھتے کہ اس میں کیا لکھا ہے اور کس نے لکھا ہے !
شاید افسانہ نگار قرآن مقدس کی توہین نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
بعد میں وہی ہوا جس شخص کے ہاتھ میں یہ مقدس کتاب تھی اسی نے کشمیریوں کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر سب سے پہلے ضرب لگائی۔
نہ تو آئین کشمیریوں کی حفاظت کر سکا اور نہ ہی یہ دستورگاندھی کی حفاظت کرسکا؟
پتہ ہے کیوں ؟
کیوں کہ کسی بھی دستور اور معاہدے کی پاسداری صالح افراد سے ہی ممکن ہے ۔
اگر ملک میں ایسی نسل کو پروان چڑھانے کا کوئی نظم ہوتا تو بابری مسجد کبھی شہید نہ ہوتی ؟
مسلم عورتیں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر اتر کر حکومت سے اپیل کرتی رہیں کہ وہ طلاق ثلاثہ قانون کے بہانے ان کی شریعت میں مداخلت کا راستہ نہ کھولیں مگر پھر بھی پارلیمنٹ میں یہ ظلم کیا گیا ۔
امت شاہ کی ایک بات بالکل صحیح ہے اور اسی طرح صحیح ہے جیسے کہ ہر صحیح آدمی کی ہر بات صحیح نہیں ہوتی اور ہر غلط آدمی کی ہر بات غلط نہیں ہوتی ۔آپ اس کی مثال جناح اور آزاد صاحب سے بھی دے سکتے ہیں۔امیت شاہ کہتے ہیں کہ جب نہرو جی سے سوال کیا گیا کہ جب کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے تو پھر دفعہ 370 کی کیا ضرورت ہے ؟
نہرو جی نے کہا یہ ایک عارضی دفعہ ہے جوگھستے گھستے گھس جاۓ گی ۔
ہم نے اس کو پورا گھس دیا تو کیا غلط کیا !؟
ہمارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آئین اگر ناقابل تسخیر ہوتا تو پھر لوگوں میں ہندو راشٹر کی بحث ہی نہ ہوتی مگر ہم ایک زمانے سے بحث کر رہے ہیں کہ کیا بھارت ہندو اسرائیل یا ہندو راشٹر میں تبدیل ہو جائے گا ؟
ظاہر سی بات ہے کہ جس طرح عوام کی اکثریت سے وجود میں آئی پارلیمنٹ کسی قانون کو ترمیم کرنے کاحق رکھتی ہے وہ دستور میں بھی ترمیم کرنے کا فیصلہ کر لے تو چند فیصد انصاف پسندوں کے احتجاج کا کیا مطلب ۔ایک ایسے وقت میں جبکہ ہم فلسطین کے تعلق سے اقوام عالم اور عالمی عدالتوں کی سرد مہری کا نظارہ دیکھ ہی رہے ہیں حالیہ دنوں میں موجودہ سرکار نے پارلیمنٹ میں جو کئی فیصلے لئے اور عدالت عالیہ بھی جس طرح بے بس ہے یوم جمہوریہ کا جشن اپنی جگہ یوم احتساب بھی ضروری ہے !
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں